مفت کھانا گھر

ان دونوں میاں بیوی سے میری یونیورسٹی کے زمانے سے واقفیت ہے۔ دونوں یونیورسٹی میں پڑھے۔ دوستی رفاقت اور شادی کے بندھن میں بندھ جانے کے بعد بھی دونوں میں کچھ کرنے کی جستجو تھی۔ ایک بنگالی اخبار سے وابستگی کی وجہ سے کبھی کبھار، خالد سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ ایک عرصے بعد خالد سعید اور ان کی اہلیہ پروین سعید نے سرجانی میں مفت کھانا گھر پروجیکٹ شروع کیا۔ اب اس کی کئی شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔ بلکہ اب تو میڈیکل سینٹر اور تعلیم گھر بھی قائم ہوگیا ہے۔ پروین سعید کا کہنا ہے کہ اس بستی میں ہونے والے ایک واقعے نے ان کی زندگی میں انقلاب پیدا کیا۔ ایک عورت نے فاقہ کشی سے تنگ آکر اپنے دو بچوں کو ہلاک کرکے خودکشی کرلی۔ اس واقعے کے بعد پروین سعید نے ایک مفت کھانا قائم کیا۔ جہاں دو رپے میں ایک وقت کا کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ کھانا گھرعلاقے میں مقبول ہوگیا۔ اس کار خیر میں اب بہت سے لوگ مدد کر رہے ہیں۔ سول اسپتال کے پیچھے سے گزرتے ہوئےمین فٹ پاتھ پر سیلانی ٹرسٹ کے کارکنوں کو دیکھتا ہوں۔ جو صبح سویرے سے اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ سیلانی ٹرسٹ روزانہ سٹی کورٹ، اور دیگر جگہوں پر غریب اور نادار افراد کو مفت کھانا کھلاتا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں۔ جو بغیر کسی شہرت، اور خود نمائی کے لاکھوں روپے روزانہ خیراتی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ نیو چالی پر دوپہر کے وقت ایک جگہ پر میں نے لوگوں کی قطار لگی دیکھی۔ یہ علاقے میں محنت مزدوری کرنے والے، اور نچلے درجے کے سفید پوش ملازمین تھے، جو مفت کھانے کے لئے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ اس علاقے کے رحمدل تاجروں کی جانب سے دوپہر کے وقت کے کھانے کا یہ سلسلہ کئی برس سے جاری ہے۔ جس میں لوگ تعاون کرتے ہیں۔

رمضان المبارک یوں بھی نیکیوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ صدقات، خیرات، زکواة، اس مہینے میں ادا کرنے کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ الخدمت فاﺅنڈیشن، شوکت میموریل ٹرسٹ، خدمت خلق فاﺅ نڈیشن، ایدھی ٹرسٹ، ایس آئی یو ٹی، سمت ہزاروں ادارے ہیں جو انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔ ان اداروں کے پیچھے وہ مخیر حضرات ہیں۔ جو ان اداروں کی مدد کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کو ان ہی اداروں اور افراد نے سہارا دیا ہوا ہے۔ معاشی بحران ہمارے یہاں ہی نہیں ہے بلکہ اس نے امریکہ میں بھی دستک دی ہوئی ہے۔ وہاں بھی جاری معاشی بحران نے کئی امریکی خاندانوں کے لئے پیٹ بھر کھانے کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ واشنگٹن کے فیڈنگ امریکہ نامی ادارے کے ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال کے دوران ضرورت مند افراد کے لئے قائم امریکی فوڈ بینکس میں فراہم کئے جانے والے کھانے کی طلب میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خصوصاً ان متوسط گھرانوں میں جو معاشی بحران میں اپنی ملازمتوں سے محروم ہوئے۔ ان کے لئے بچوں کی پرورش ایک امتحان بنی ہوئی ہے۔ جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والی ایک کمپنی سے نوکری ختم ہونے کے بعد اب یہ بے روزگاری کے دن کاٹنے والی ایک ماں کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کے کھانے کی ضرورت کے لئے فلوریڈا کے نواح میں واقع ایک فلاحی تنظیم کے تحت کام کرنے والے مفت باورچی خانے کا رخ کرنا پڑا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں۔ یہ امریکہ کی اس تیزی سے بڑھتی پھیلتی مڈل کلاس کا حصہ ہیں جو امریکہ کی معاشی سست روی کے اثرات جھیل رہی ہے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے مالی حالات چند سال پہلے تک انتہائی خوشگوار تھے، صرف پچھلے سال تک یہ لوگ بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتے تھے، انہیں کبھی مدد مانگنی نہیں پڑی تھی۔ امریکہ میں معاشی مندی جہاں متوسط طبقے کی اکثریت کی ملازمتیں ہڑپ کر چکی ہے، وہاں عوام کے عطیات سے چلنے والے ادارے بھی مالی مسائل کا شکار ہیں۔۔ گزشتہ سال امریکہ کے دو تہائی خیراتی اداروں کو ملنے والی رقوم میں دو فیصد کمی ہوئی۔ لیکن ہمارے یہاں کار خیر کے کاموں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔۔۔۔ جو شخص میرے نام پر ایک درہم دیتا ہے۔ میں اسے دس عطا کرتا ہوں۔ جو ایک بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے۔ اسے دس کا کھانا ملتا ہے۔ اپنے رزق کو بڑھاﺅ گھٹاﺅ نہیں۔۔۔( کیمیائے سعادت)
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 391835 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More