قول و فعل میں تضاداسباب اور تدارک

’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں اﷲ کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ جو تم کرتے نہیں وہ کہتے ہو‘‘ (سورہ صف)ان آیات میں قول و فعل میں تضاد پر سخت تنبیہ کی گئی ہے ۔
اکثر و بیشتر ہم تقاریر سنتے اور کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ دنیا ایک عارضی پناہ گاہ ہے ،مستقل قیام گاہ نہیں ہے اور اس دنیا میں جو بھی آیا ہے خالی ہاتھ واپس جاتا ہے چاہے اُس کے پاس قارون کے خزانے کی کنجی ہی کیوں نہ ہو ،وہ اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جا سکے گا ۔پھر بھی آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے اکلوتے اور مسلمانوں کے ہمدرد کہے جانے والے شاہ تک اقتدار کی حرص میں پڑے ہوئے ہیں اور پڑوسی عرب ممالک کے انقلاب سے دہشت زدہ ہیں ۔یہاں تک کہ اﷲ کے بندوں کو تہہ تیغ کرنے اور کرانے کیلئے اپنے خزانے کے منہ تک کھول دئے ہیں تاکہ اﷲ کا کلمہ کہیں اور بلند نہ ہو سکے اور اس کی فرمانروائی نہ کی جائے تاکہ اس کی ذات کی فرمانروائی باقی رہے اور دنیا اسے سب سے بڑا محب دین اسلام تصور کریں ۔دراصل وہ اقتدار کی حرص میں پڑے ہوئے ہیں دنیا میں وہ اپنی آن بان شان کی بقا چاہتے ہیں ۔وہ اسلام یا اﷲ اور اس کے رسول کے خیر خواہ ہونے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ان کا فعل اس بات کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔وہ حرص کی وجہ سے اﷲ کے کلمہ کو اپنی پھونکوں سے بجھانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں جبکہ اﷲ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے (سورہ صف،۹۔۸)’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اﷲ کے نور ’یعنی دین اسلام‘کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں ،حالانکہ اﷲ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا گرچہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ لگے ۔وہی ہے جس نے اپنے رسول کو واضح ہدایات اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کرے گرچہ مشرکوں کو کتنا ہی ناخوشگوار کیوں نہ لگے ۔‘‘لیکن مسلمانوں خصوصاً مسلم بادشاہوں کا یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اسی دنیا میں رہنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اسے کسی بھی قیمت پر نہیں چھوڑ نا چاہتے ۔بلکہ ان کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کہتے کچھ اور ہیں کرتے کچھ اور ہیں۔

اس کے علاوہ لا تعداد مثالیں موجودہیں جو فرض اور حقیقی صورت حال کے درمیان قول و فعل میں پائی جانے والی تضاد ہیں ۔حالانکہ مسلم معاشرہ میں بہت سے ایسے نفوس موجود ہیں جو اپنے تمام کام کو اقوال کے مطابق کرتے ہیں ۔اور کوشش کرتے ہیں کہ اس میں کوئی کمی نہ ہو،لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پاتے،اور اگر تکلفاً وہ ایسا کرنے کی کوشش بھی کریں تو جلد ہی اپنی سابقہ صورتحال پر پلٹ آتے ہیں ۔یہ عمل انسان کی انفرادی زندگی سے لیکر اجتماعی اور حکومتی سطح پر محیط ہے ۔معاملہ معاشرتی ہو یا سیاسی ہر جگہ آج دنیا میں یہی صورتحال ہے ،ملکی ہو یا بین الاقوامی ،اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی ،جمہوریت نواز ہوں یا غیر جمہوری ،بادشاہت ہویا ڈکٹیٹر شپ ،یا پھر فوجی حکومت ،گویا کہ آج دنیا کا کوئی شعبہ یا فرد ایسا نہیں ہے جس کی زندگی قول و فعل کے تضاد سے دوچار نہیں ہے ۔

یہی حال معاشرتی زندگی کا بھی ہے کہ ہم بیٹی کو اﷲ کی رحمت تصور کرتے ہیں لیکن جب پہ در پہ تین چار بیٹیاں ہو جاتی ہیں تو ہم اپنے اندر گھٹن محسوس کرتے ہیں اور پھر گھٹن اور تنگی میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔تو پھر انسان عورت کو اس کی ذمہ دار سمجھنے لگتا ہے اور اس کا بنیادی سبب وہ عورت کو تصور کرنے لگتا ہے ۔پھر شروع ہوتا ہے عورت پر ظلم و زیادتی،اسے چھوڑنے اور دوسری شادی کرنے کی دھمکی دینے لگتے ہیں ۔اور پھر وہی قول وفعل میں تضاد ابھر کر سامنے آنے لگتا ہے ۔جب کہ ہم عورت کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور لوگوں کو اس کا درس تک دیتے ہیں ۔

مسئلہ کا حل :
اس مسئلے کے حل کی تلاش کرنے سے پہلے اس کے اسباب سے واقفیت ضروری ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں اب ایسے اشخاص ناپید ہو چکے ہیں جن کے فعل ،ان کے قول سے قریب تر ہوں یا پھر قول و فعل میں مطابقت پائی جاتی ہو ۔اس کی متعدد وجودہ ہیں۔زمانے کی تیزی سے ترقی اور نئے نئے ایجادات نے انسانی ضرورتوں کو لامحدود کر دیا ہے جبکہ پہلے انسانی ضرورتیں محدود ہوا کرتی تھی ۔یعنی وہ ایک نعرہ روٹی کپڑا اور مکان ۔لیکن فی زمانہ انسانی دماغ کے ارتقائی سفر نے مادی ضروریات کی اس دنیا میں بھر مار کر دی ہے جس کی وجہ کر آج انسان کیلئے ہر چیز لازمی شکل اختیار کر چکی ہے ۔اور اس کے نتیجہ میں انسان روحانی اور اخلاقی اعتبار سے گرتا جا رہا ہے ۔اس کے اندر مادی خواہشات تو ہیں لیکن روحانی اور اخلاقی قدریں اس قدر کمزور ہو گئی ہیں کہ مادی قدر روحانی قدرپر غالب آچکی ہیں ۔

دوسری سب سے بڑی وجہ اعتقادات جو اتنے پختہ ہو گئے ہیں کہ عمل کی پہلی بنیاد بنتے ہیں ۔تیسری چیز اسلامی تعلیمات کا فقدان ہے ۔کیونکہ ایمان ہی وہ طاقت اور قوت ہے جو انسان کو عمل صالح پر اُکساتا ہے اور دل میں ایمان کی بقدر ہی ان اعمال کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔چوتھی چیز نفس کی غلامی ہے کیونکہ اگر دل میں ایمان مضبوط ہوگا تو نفس پر ایمان غالب ہو گا لیکن اگر نفس پر مادہ پرستی غالب ہوگا تو پھر اس کے قول وفعل میں تضاد لازمی ہے ۔

انقلابی صلاحیت:
عمل کی درستگی کے لئے ضروری ہے کہ عقل ،دل اور نفس پر تبدیلی آئے ۔اگر انسان کے ان تینوں عوامل میں تبدیلی واقع ہو جائے تو انقلاب کو برپا کر دینے کی صلاحیت ہو جاتی ہے ۔اور انسان پھر قرآن مجید کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے لگتا ہے کیونکہ قرآن مجید ہدایات ہے روشنی دینے والا ہے اور تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کا کام کرتا ہے ۔کیونکہ قرآن محض روشن چراغ کا کام نہیں کرتی ہے بلکہ روشنی دیتا ہے اور تاریکیوں کو ختم کر دیتا ہے ۔اﷲ تعالی کی راہ پر چلنے والوں کیلئے راہ روشن کرتا ہے تاکہ انسان کا وجود بذات خود مطمئن ہو جائے اور اﷲ اس سے راضی ہو جائے اور وہ اﷲ کو راضی کر لے ۔

یہ اﷲ تعالی کی اپنے بندوں پر رحمت ہی ہے جو انسان کے اندر انقلاب برپا کر دیتا ہے اور اس کی شخصیت نکھر کر دنیا کے سامنے آجاتی ہے اور اﷲ کے نزدیک تو وہ سرخرو ہے ہی ۔ہم لوگوں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک سائنس اور حساب کا پروفیسر جب وہ اﷲ کے کلام کو سینے سے لگاتا ہے اور اس کے معنی اور مطلب کو پڑھ کر سمجھتا ہے تو اس کی زندگی میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے جس کا مشاہدہ ہم معاشرہ میں اکثر کرتے ہیں ۔وہ اس لائق ہو جاتے ہیں کہ بڑے سے بڑے مجمع میں قرآن و حدیث کی روشنی میں بندگانِ خدا کے اصلاح کا کام کرتے ہیں اور دین کی دعوت دینے میں منہمک نظر آتے ہیں ۔

قرآن میں اﷲ تعالی فرماتا ہے ’’آپ فرما دیجئے کہ میری نماز اور میری ساری عبادات اور میرا مرنا اور جینا یہ سب خالص اﷲ ہی کیلئے ہے ،جو سارے جہان کا مالک ہے ‘‘۔(سورا ،الانعام ،۱۶۲)
 
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 102204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.