دوسری تراویح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج دوسرے پارے کی چوتھائی سے تیسرے پارے کے آدھے تک تلاوت کی گئی،کل کی تراویح میں پڑھا جانے والا حصہ توحید کے مضمون پر ختم ہوا تھا۔ آج توحید کے ضروری تقاضوں اور انسانی زندگی میں ان کے تمام نتائج کو واضح کرنے کے لیے بتایا گیا ہے کہ خدا کے ساتھ وفاداری اور نیکی کا حق مشرق اور مغرب کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لینے سے ادا نہیں ہوگا جیسا کہ اہل کتاب نے سمجھ لیا ہے کہ بلکہ ایمانیات یعنی عقائد کی درستگی کے ساتھ اللہ کے راستے میں رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مقروضوں اور قیدیوں کی مدد کرنا، نماز قائم کرنا اور زکٰوۃ دینا، آپس کے معاہدوں کو پورا کرنا اور مصیت کے وقت تنگی، تنگی ترشی، دکھ بیماری میں اور جب خدا کے دشمن حملہ آور ہوں تو صبر و استقامت سے کام لینا یہ ہے اصل دین، سچائی اور تقویٰ- جو ایسا نمونہ قائم کریں وہ صحیح معنوں میں دیندار سچے اور متقی ہیں۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ ایک دوسرے کی جان و مال کا احترام بھی نیکی اور تقویٰ کا حصہ ہے- چنانچہ قاتل معاشرہ کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس کا قصاص سب کے ذمہ ہے اسی میں معاشرہ کی زندگی ہے اسی طرح کمزوروں کا حق دبانا، اور طاقتوروں کا خیال رکھنا ظلم ہے۔ بلکہ کمزوروں کو حق دینا چاہئے اور دلوانا چاہئے۔ ورثہ کے معاملات اور وصیت کو پورا کرنا چاہئے

اس کے بعد روزوں کی فضیلت کا بیان ہوا اور اس کے احکام بتائے گئے یہاں روزوں کا ذکر عبادات، نماز اور انفاق کے ساتھ نہیں بلکہ معاملات کے ساتھ کیا گیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ روزے اصل میں اہل ایمان کو اپنی زندگی میں معاملات انصاف، احسان، اور تقویٰ کے ساتھ انجام دینے کی تربیت دیتے ہیں اور آدمی کو لالچ، بخل، اور اسی طرح کی دوسری برائیوں سے بچنا سکھاتے ہیں- اسی موقع پر رشوت کی برائی بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ حکام کو رشوت کی چاٹ سب سے پہلے معاشرے کے لوگ ہی لگاتے ہیں اس لیے انہیں خود پر قابو پانا چاہیے۔ پھر حج اور جہاد کا ذکر کیا کیونکہ روزہ صبر سکھاتا ہے اور حج اور جہاد بھی صبر کی اعلیٰ اقسام ہیں

بعض لوگ حج کو صرف اپنی دنیا بنانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور آخرت کی طلب سے ان کے دل خالی ہوتے ہیں اس لیے پھر منافقت کا ذکر کیا کہ جو لوگ دنیا کے اتنے طالب ہوں کہ حج کی دعاؤں میں بھی اپنی دنیا ہی بنانے کی کوشش کریں وہ منافق ہی ہوسکتے ہیں- یہ منافق ایمان اور اسلام کے خوب دعوے کرتے ہیں خود کو اسلام اور ملت کا خیر خواہ بتاتے ہیں مگر بد ترین دشمن حق ہوتے ہیں نشانی یہ ہے کہ جب زندگی کے معاملات انجام دیتے ہیں یا کسی ذمہ داری پر مقرر کیے جاتے ہیں تو اپنے اعمال سے معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں، لوگوں کی حق تلفیاں کرتے ہیں اور جب انہیں ٹوکا جاتا ہے تو ہٹ دھرمی کےساتھ زیادتی پر جمے رہتے ہیں- ان کے مقابلے میں سچے اہل ایمان اپنے نفس کو اللہ کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اور اسی کی خوشنودی حاصل کرنے کا کام انجام دیتے ہیں-

اے ایمان والوں! تم بھی منافقوں کی طرح نہ ہوجاؤ بلکہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو ( اور کوئی حصہ بھی اپنی زندگی کا اس سے باہر نہ رکھو ) تمہارا ازلی دشمن شیطان تمہاری تاک میں ہے اس سے چوکنے ہو کر زندگی گزارو کہیں وہ تمہیں بہکانے میں کامیاب نہ ہوجائے۔ اس موقع پر شراب اور جوئے کی ممانعت کی گئی اور بتایا گیا کہ اگرچہ ان میں بعض فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصانات جو معاشرے کو پہنچتے ہیں وہ ان کے فائدوں سے زیادہ ہیں اس طرح شریعت کا مزاج بتایا گیا کہ اگر کسی کام میں نفع سے نقصان کا پہلو ( خصوصاً اخلاقی لحاظ سے ) زیادہ ہو تو وہ شریعت میں ممنوع ہے۔

لوگوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ کے راستے میں کتنا خرچ کریں جواب دیا گیا کہ اپنی اور بچوں کی ضرورت سے زیادہ جو بھی بچ جائے وہ سب اللہ کا ہے اور اسی کی راہ میں خرچ کردینا چاہیے، پھر شادی بیاہ کی طرف توجہ دلائی گئی کہ رشتہ داری قائم کرنے میں دین کو اصل مقام ملنا چاہئے خواہ دین دار عورت یا مرد( غیر داین دار سے ) مرتبہ یعنی اسٹیٹس میں کم ہو-پھر عورتوں کی پاکی، ناپاکی، اور ان سے سلوک کے مسائل بتائے، اسی طرح نکاح، طلاق کے احکام بتاتے ہوئے کہا کہ یہ سب اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان کی حفاظت ایمان کا تقاضہ ہے۔ اسی طرح بچوں کو دودھ پلانے اور پلوانے کے احکام، شوہر کے مرنے کی عدت، اور نکاح کرتے وقت مہر کے مسائل کا ذکر کیا گیا اور ان تمام معاشرتی احکام کا اختتام اس پر کیا گیا کہ نماز کی حفاظت کرو یہاں تک کہ سفر اور خطرہ کی حالت میں بھی قصر نماز کو نہ چھوڑو اصل نماز ہی آدمی میں اللہ کی کامل اطاعت اور خلوص و وفاداری کے جذبہ کی پرورش کرتی ہے۔

یہودیوں کی تاریخ کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ کی یاد سے غفلت نے انہیں بزدل بنا دیا تھا اور وہ ایک موقع پر بہت بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے دشمنوں سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح انہوں نے اپنی اخلاقی و سیاسی موت خرید لی- گویا مسلمانوں کو بتایا کہ مکہ سے مدینہ ہجرت دشمن کے خوف سے نہیں بلکہ اسلام کو بچانے اور پھر پھیلانے کے لیے ہے چنانچہ یہ کام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے انجام دیا اس طرح قیامت تک کے مسلمانوں کو راستہ دکھایا کہ انہیں بھی کبھی ہجرت کرنی پڑے تو اسلام کو قائم کرنے کا نصب العین آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے- ساتھ ہی تفصیل سے بنی اسرائیل کی ایک جنگ کا قصہ بیان کیا جو طالوت اور جالوت کے درمیان ہوئی تھی، اس طرح مسلمانوں کو بتایا کہ انہیں بھی انہی مرحلوں سے گزرنا پڑے گا

اللہ کے ہاں کام آنے والی اصل چیز اس کی راہ میں جان و مال کی قربانی ہے اللہ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذریعے خدا پرستی کی راہ بتا دی ہے اب جس کا جی چاہے وہ غیر اللہ سے کٹ کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے اور جس کا جی چاہے وہ اپنے گھڑے ہوئے غلط سہاروں کا پکڑے رہے اور اپنی عاقبت تباہ کرلے۔ پھر سود کو حرام کرنے کا اعلان کیا گیا کیونکہ سودی نظام لوگوں میں دنیا پرستی اور مال کی پوجا کا جذبہ پیدا کرتا ہے پس اگر معاشرہ میں نیکیاں پھیلانا، خدا ترسی اور بندوں کی امداد کا نظام لانا ہے تو سودی نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ اس سورت کو اس مشہور دعا پر ختم کیا گیا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کے موقع پر سکھائی گئی تھی اس میں مغفرت کے ساتھ کافروں کے مقابلے میں مدد فرمانے کی دعا بھی کی گئی ہے۔

اس کے بعد تیسری سورت آل عمران کے دو رکوع ہیں اور ان میں بتایا گیا ہے کہ یہود و نصاریٰ نے اللہ کی طرف آئی ہوئی کتابوں میں اختلافات پیدا کر کے اصل حقیقت کو گم کردیا اب اللہ نے اسی گمشدہ حقیقت کو واضح کرنے کے لیے قرآن اتارا ہے تاکہ لوگ اختلافات کی بھول بھلیوں سے نکل کر ہدایت کی شاہراہ پر آجائیں۔ اب جو لوگ اس کتاب کا انکار کردیں گے ان کے لیے اللہ کے ہاں بڑا سخت عذاب ہے۔

پھر اللہ نے ان رکاوٹوں کا ذکر کیا کہ جو لوگ قرآن اور اس کے ماننے والوں کے درمیان شیطان پیدا کرتا ہے یعنی دنیا کی مرغوبات، عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، ہتھیار، چوپائے اور کھیتی، مگر یہ سب عارضی چیزیں ہیں اور اللہ کے پاس ان کے لیے اس بھی کہیں بہتر سامان اور ٹھکانہ ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے جنتیں اور اللہ کی خوشنودی ہے۔ یہ وہ ہیں جو صبر کرنے والے سچے فرمانبردار۔ راہ خدا میں خرچ کرنے والے اور صبح کے تڑکے میں اپنے رب سے مغفرت کی دعائیں کرنے والے ہیں۔ رہ گئے کافر ! تو دنیا کا یہ مال و متاع اولاد، اور شان و شوکت یہ سب انہیں خد ا کی پکڑ سے نہیں بچا سکیں گے۔ ان کا وہی حال ہوگا جو ان سے پہلے فرعون اور اس کی قوم کا ہوا اس حقیقت کا ثبوت تمہیں بدر کے میدان میں مل چکا ہے کہ حق کا پرچم اٹھانےوالے ٣١٣ تھے اور ان کے مقابلے میں کافر ہزار سے زیادہ تھے مگر اللہ نے فرشتوں سے اہل ایمان کی مدد فرمائی تھی اس واقعہ میں سمجھداروں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں-

آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا۔اللہ تعالٰی ہم سب کو قرآن پڑھنے اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ اس کی برکتوں سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات تبدیل فرمائے۔ آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1453685 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More