خلاصہ تراویح : پہلی تراویح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج کی تراویح کے اہم نکات
آج کی تراویح میں پہلا سوا پارہ پڑھا جائے گا جو دوسرے پارے کی چوتھائی پر ختم ہوگا یعنی بقرہ کی ١٧٢ آیت پر

پہلی سورت فاتحہ کہلاتی ہے جسے عوام الحمد شریف بھی کہتے ہیں اور یہ سورہ نماز کی ہر رکعت میں بھی پڑھی جاتی ہے۔ دراصل یہ ایک دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر اس انسان کو سکھائی ہے جو اس کتاب کا مطالعہ شروع کررہا ہے- اس میں سب سے پہلے اللہ کی اہم صفات خصوصاً تمام جہانوں کے رب ہونے، سب سے زیادہ رحمان و رحیم ہونے اور ساتھ ہی ساتھ انصاف کرنے والے کی حیثیت کی تعریف کی گئی ہے اور اس کے احسانوں اور نعمتوں کا شکر یہ بھی ادا کیا گیا ہے- پھر اپنی بندگی اور عاجزی کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے زندگی کے معاملات میں سیدھے راستہ کی ہدایت طلب کی گئی ہے جو ہمیشہ اس کے انعام یافتہ اور معقول بندوں کو حاصل رہی ہے اور جس سے صرف وہی لوگ محروم رہتے ہیں جنہوں نے اس راستے کو چھوڑ دیا ہے یا اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں کی ہے۔

دوسری سورہ بقرہ ہے الف لام میم سے شروع ہوتی ہے جو اس دعا کا جواب ہے کہ اللہ نے سیدھا راستہ بتانے کے لیے یہ کتاب اتاری دی ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، پھر بتایا کہ اللہ کے نزدیک انسانوں کی تین اقسام ہوتی ہیں ایک وہ جو اس کتاب پر ایمان لائیں اور اس کے احکام کی اطاعت کریں یعنی نماز قائم کریں، اللہ کے راستے میں اپنا مال خرچ کریں، قرآن اور اس سے پہلے کی کتابوں پر ایمان لائیں اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتائیں اس پر بھی ایمان لائیں خواہ ظاہری حواس سے جانا جاسکے یا نہ جانا جاسکے- یعنی دوزخ، ملائکہ،آخرت اور دوسرے اندیکھے حقائق جو اس کتاب میں بیان کئے گئے ہوں، یہ لوگ مومن ہیں اور یہی اس کتاب سے صحیح فائدہ اٹھا سکیں گے-

دوسرے وہ ہیں جو اس کتاب کا ہٹ دھرمی سے انکار کریں یہ کافر ہیں- تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو معاشرتی دباؤ، یا دنیاوی فوائد کی خاطر اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں مگر دل سے اسلام کی قدروں کو نہیں مانتے ہیں بلکہ اسلام کے باغیوں اور منکروں کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں- اس طرح اسلام کی راہ میں رکاوٹوں اور حرام و ناجائز باتوں کی پرہیز کی بناء پر پہنچنے والے ظاہری نقصانات سے ڈر کر شک و شبہ میں مبتلا ہیں- یہ دونوں گروہ اپنے کو دہرے فائدے میں سمجھتے ہیں حالانکہ سراسر نقصان میں ہیں پھر تمام انسانوں کو مخاطب کر کے انہیں قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی اور کہا گیا کہ اپنے پیدا کرنے والے اور پرورش کرنے والے مال و آقا کی بندگی اختیار کریں-

گمراہی کا سب سے بڑا سبب یہ بتایا گیا کہ جو لوگ اللہ سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیتے ہیں اور جن رشتوں کو باندھنے کا حکم اللہ نے دیا ہے انہیں کاٹتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں جن سے انسان نیکی کے بجائے برائی کی طرف چل پڑتے ہیں ایسے ہی لوگ حقیقت میں فسادی ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

پھر دنیا میں انسان کی اصل حیثیت کو واضح کیا گیا کہ اللہ تعالٰی نے اسے خلیفہ کی حیثیت سے پیدا کیا اور اس کو دنیا کی ہر چیز کےبارے میں ضروری علم، سمجھ اور صلاحیت عطا کر کے مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے اس فضیلت کو فرشتوں اور ان کے ذریعے دوسری مخلوقات نے تسلیم کیا مگر شیطان نے تکبر کیا اور گھمنڈ میں آکر اس فضیلت اور اطاعت سے انکار کیا اس لیے وہ اللہ کے یہاں دھتکارا گیا- پھر آدم و حوا کو جنت میں رکھنے کا ذکر ہے تاکہ معلوم ہو کہ اصل جگہ آدم کی اولاد کی وہی ہے مگر شیطان کے فریب سے آگاہ کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے آدم و حوا کو زمائش کےایک کام سے منع کیا مگر دونوں شیطان کے بہکانے پر اللہ کے حکم کو بھلا بیٹھے اور وہ کام کر ڈالا جس سے منع کیا گیا تھا- اللہ نے شیطان اور آدم و حوا کو دنیا میں بھیج دیا اور فرمایا کہ اللہ کی طرف سے بار بار اس کے رسول ہدایت لیکر آتے رہیں گے اور جو اس ہدایت پر چلے گا وہی کامیاب ہو کر پھر اسی جگہ واپس آئے گا اور جو انکار کرے گا وہ شیطان کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔

اس کے بعد اس وقت کے دو بڑے مذہبی گروہوں کی طرف توجہ دلائی گئی کہ یہودی اور عیسائی جنہیں قرآن سے پہلے تورات اور انجیل دی گئی تھیں، انہوں نے ( شیطان کی پیروی میں ) دنیا کے عارضی فائدوں اور اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے کے لیے اللہ کی ہدایت میں کمی بیشی کردی، کتابوں میں تبدیلی کردی اور اب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ محمد بنی اسمٰعیل میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے ہم انہیں نہیں مانتے- بنی اسحاق میں پیدا ہوتے تو ضرور مان لیتے -اس طرح ان لوگوں نے خدا کے دین کو بھی نسل کا پابند بنا دیا اس لیے یہ اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے- پھر ان دوسرے گمراہ کرنے والے عقیدوں کا ذکر کیا گیا اور مسلمانوں کو تنبیہہ کی کہ وہ ان کی جیسی حرکتیں نہ کریں ورنہ وہ بھی گمراہ ہوجائیں گے اور قرآن سے کوئی ہدایت نہ پاسکیں گے۔
حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کے کئی اہم واقعات بیان کیے گئے کہ کس طرح اللہ نے انہیں انعامات سے نوازا مگر وہ بار بار ناشکری، کج بحثی اور منافقت کا ثبوت دیتے رہے اور اللہ کے احکام کو حیلوں بہانوں سے ٹالتے رہے آخر اللہ نے انہیں عذاب میں گرفتار کردیا۔

تمام انسانوں کی ہدایت کےلیے اہل کتاب ( یہودیوں اور عیسائ دونوں ) کی ایک اہم بیماری کا ذکر کیا گیا کہ کس طرح یہ ایک دوسرے کی نجات کے منکر بن گئے ہیں یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں کی کوئی بنیاد نہیں اور عیسائی کہتے ہیں یہودیوں کی کوئی بنیاد نہیں -اس طرح مشرک بھی بے سوچے سمجھے، یہی کہتے ہیں کہ بس ہم ہی حق پر ہیں اور ہمارے سوا سب باطل ہیں حالانکہ نجات یافتہ اور جنت کا مستحق ہونے کے لیے اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل میں ہونا یا یہودی یا عیسائی ہونا شرط نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ آدمی ایک تو َ َ مسلم َ َ یعنی خدا کا اطاعت گزار بنے اور دوسرے َ َ محسن َ َ بنے یعنی نیت اور عمل دونوں میں خلوص اور احسان کی صفت اس میں پائی جائے

دین کو آبائی نسل سمجھنے سے وابستہ سمجھنے کی تردید کرتے ہوئے پورے زور سے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام دونوں ہی خدا کے پیغمبر تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو اعلیٰ مقام ملا وہ نسل یا وارثت کی بناء پر نہیں ملا تھا بلکہ اللہ نے مختلف امتحانوں میں انکو ڈالا تھا اور جب وہ کامیاب اترے تو تمام انسانوں کی امامت اور پیشوائی کا منصب انعام کے طور پر عطا فرمایا اور آئندہ کے لیلے بھی یہ قاعدہ مقرر کیا کہ یہ منصب وارثت میں بلکہ اس کے لائق ہونے کی شرط کے ساتھ ملے گا- اس موقع پر ان کے ہاتھوں کعبتہ اللہ کی تعمیر کا ذکر کیا اور بتایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر ان کی مانگی ہوئی دعا کا مظہر ہیں اور اب قیامت تک انسانوں کی ہدایت، تعلیم، تزکیہ کے لیے بھیجے گئے ہیں اور اسی لیے اب بیت المقدس کی قبلہ کی حیثیت ختم کی جاتی ہے اور کعبتہ اللہ کو قبلہ قرار دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد چوتھائی پارے کے ختم تک توحید کا مضمون بیان کیا گیا ہے جو دین کی اصل بنیاد ہے یعنی اللہ کے سوائے کوئی الوہیت اور خدائی صفات نہیں رکھتا وہ واحد ساری قوتوں کا مالک اور سارے خیر کا سرچشمہ ہے اور ہھر کائنات کو بنا کر کہیں، کسی کونے میں نہیں بیٹھ گیا بلکہ اس کا انتظام خود چلا رہا ہے اور جس طرح ساری کائنات ایک منظم و مربوط نظام کی تابع ہے وہ اسی طرح انسانوں کی ہدایت کے لیے اس نے اپنے احکام کا ایک نظام بنایا ہے اور اسے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے انسانوں تک بھیجا ہے اور وہ ایک ہی خدا ہر زمانے کے لیے ایک کتاب،ایک رسول اور آدم کی اولاد تمام انسانوں کے لیے ایک ہی نظامِ فکر وعمل بھیجتا رہا ہے۔

اس توحید کے مکمل نظام جس میں کھانے پینے سے لیکر صلح و جنگ، مقتولوں کے قصاص اور مرنے کے بعد لوگوں کے ورثہ کی تقسیم تک کے احکامات دئے گئے ہیں تسلیم کرو۔۔۔۔۔ اللہ نے یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے اور جن لوگوں نے اس کتاب کے معاملہ میں اختلاف کیا وہ مخالفت میں بہت دور نکل گئے ۔

قارئین آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کو پڑھنے، اسکو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ اس کی برکتوں سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات تبدیل فرمائے آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1453782 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More