جہاز میں جہز کا سفر

جہز کا لفظ جہاز سے لیا گیا ہے لیکن جہز کے اس جہاز میں جو بھی سفر کریگا اس کو ایک عدد ایئر ہوسٹس فری!

جناب کچھ عرصہ قبل میری ملاقات ایک اسیے شخص سے ہوئی جو جہز کے جہاز میں تازہ تازہ اڑان کرچکا تھا !

میرا مطلب ہے جنابِ اعلٰی نے شادی کی تھی اور ملکی آبادی میں اضافہ جیسا نیک منصوبہ بنا چکا تھا ! سلکی شیروانی،فرینچ داڑی،اور گلے میں لاکٹ دیکھ کر میرے ہوش ٹھکانے آگئے۔

کچھ وقت تک میں سادہ صوفی مزاج انسانی سکتہ میں آگیا۔اور اچانک میرے ذہن میں واشنگ مشین جیسی ہلچل ہونے لگی،اور پھر کیا جناب! میں لمحے بھر کو تصوراتی دنیا میں مگن ہوگیا دولہے میاں کا پچھلاہلایا یاد کرنے لگا۔

یہ تھا مسٹر لالچی خان عُرف مُفت خور،لالچی خان کو ہمارے محلے میں آئے کچھ ہی دن ہوئے تھے ! اور جناب سے میری پہلی ملاقات میری چھوٹے اور ناسمجھ ذہن میں امر ہوچکی ہے ۔میں نے لالچی خان کو گلی میں نیا دیکھ کر کوئی عجیب سی مخلوق تصور کیا ۔بہر حال انسانوں جیسا لگتا تھا ۔وہ مجھے دور سے آتا ہوا دیکھ کر میرے بغل میں کچھ یوں ہوا جیسے کَرن اور اَرجُن کی ملاقات ہو ۔اور اس وقت میرے ذہن کی واشنگ مشین نے بہت ہی تیزی سے ہلچل کی اور مجھے با ساختہ ایک محاورہ یاد آیا جو کے امّی جان اکثر اپنی ساسو ماں یعنی میری دادی کو کہا کرتی تھی۔

جان نہ پہچان میں تیر امہمان!

میری امّی کو دادی اماں سے اس لئے چڑ تھی کیونکہ میری اماں کے جہز کا جہاز انھوں نے میری پھپوکہ گھر پر لینڈ کروایا تھا ! بحر حال قصہ مختصر۔

جناب لالچی خان میرے بغل گیر ہوتے ہی خوشبو اور بدبو کے درمیا ن والی فضا چھوڑ گیا اورمجھے
با حواس ہونے میں کچھ لمحے لگے ،سگریٹ کا کش لگا کر دھواں میرے چہرے پر چھوڑتے ہوئے کہنے لگا ۔خیر میاں ہم آپ کے نئے پڑوسی ہیں ہم نے محلے میں آپکی شرافت اور اخلاق کے بڑے چرچے سنے ہیں ۔

سچ کہوں تو لالچی خان عُرف مُفت خور کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میرا سینہ چھوڑا ہوگیا ۔اور یہ بندہ مجھے اچھا لگنے لگا اور میں اخلاقیا ت کا امپریشن چھوڑنے کے لئے اس سے کچھ سوبر طریقے سے گفتگو کرنے لگااور حال احوال پوچھنے کے بعد میں نے اس کو ایک ایسا جملہ کہا جو کہ مجھ پر ایٹم بم کی طرح گرا،اور اس پر مجھے سار ی زندگی پچھتاوا رہیگا ،جملہ کچھ یوں تھا ''جناب اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف ہم سے مانگ کیا کریں '' ، پھر کیا جناب لالچی خان کا یہ جملہ سنتے ہی بول پڑا،خیر بھائی اصل میں آج میں مارکیٹ نہیں گیا،اگر گھر میں ہیں تو کسی بچے کے ہا تھ بھجوادیں۔

میں مسرت سے حامی بھر کے گھر آیا اور آدھا کلو ٹماٹر لالچی خان کے گھر بھجوادیے۔پھرکیا تھا! لالچی خان میری شان میں کچھ معتبر الفاظ کہہ دیتا اور روز ٹماٹر دینے کی درخواست کرتا اور اب میں گھرپر ایک کلو ٹماٹر کے بجائے ڈیڑھ کلو ٹماٹر لے آتا ۔

بحر حال ذہن کے واشنگ مشین کی ہلچل بند ہوئی جب میں نے اپنے چہرے پر سگریٹ کے دھویں کی تا زہ خوشبو محسوس کی اور مجھے آج خوشبو اور بدبو والی درمیانی خوشبو محسوس نہیں ہوئی۔کیوں کے جناب نے آج فوگس باڈی اِسپرے لگایا ہوا تھا ۔ہوش میں آتے ہی میں حا لِ حاضر میں آگیا اور میرے سامنے دولہے میاں فرینچ داڑی سلکی کرتا اور سونے کی چین پہنے ہوئے کھڑے تھے اور پھر میرے پیٹ میں عورتوں جیسی گڑبڑ ہونے لگی اور میرے اندر سے سوال ہوئے کہ یہ ایلیَن انسان کیسے ہوگیا؟ اور پھر میں نے پوچھ ہی لیا ! ارے میاں آج تو ہیرو لگ رہے ہو ،لالچی خان اپنے چہرے پر غرور کے آثار سجائے ہوئے کہنے لگا،شاد ی کا ہوائی جہاز کیا ہے ،سونے کی چڑیا گھر کے آیا ہوں ،امّی کہتی ہے میری بیوی وہ مرغی ہے جو سونے کے انڈے دے گی ،ایسے سمجھو الادین کا چراغ ہاتھ لگا ہے اور پھر کیا جنا ب ! میرے ذہن میں واشنگ مشین کے چکر لگنا شروع ہوئے اور میں سوچنے لگا،میں نے تو سنا ہے بیوی سفرِشریک ِحیا ت دُکھ سُکھ کی ساتھی ہے مگر کیا بیوی مرغی ،الا دین کا چراغ اور سونے کی چڑیا ہی ہو سکتی ہے ! بحر حال میں اپنے گھر چلا گیا کچھ لمحے بعد لالچی خان کے گھر ایک فلائٹ لینڈ ہوئی ،مطلب ہے ایک ٹرالر پہنچا جس میں وہ ہر چیز تھی جو میری امّی جان کے زخموں کو تازہ کئے جارہی تھی،جیسے جیسے سامان اُترتا امّی بڑبڑا تی ارے ارے وہ دیکھو فریج،میرے ابّو نے بھی مجھے ایساہی فریج دیا تھا،پھر صوفے اُتارے گئے ،امّی زور سے چلا اٹھی اﷲ کی قسم میرے ابا نے بھی مجھے ایسے ہی صوفے دیے تھے او رپھر جو ساما ن بھی اترتا ،میری امّی سسکیاں لیتے ہوئے کہتی ہائے میرا چولھا بھی ایسا تھا ! میرا بیلن بھی ایسا تھا ،میرا اے سی بھی ایسا تھا ،میراکوکر بھی ایسا تھا ،امّی کی آہیں اور سسکیا ں سُن کر مجھے امّی کی دماغی توازن پر شک ہونے لگا ۔اور میں مولوی جیسا معصوم چہرابنا کر امّی سے مخاطب ہوا ۔امّی یہ کیسے ممکن ہے کہ کوکر سے لے کر بیلن تک سب آپ ہی کے جہز سے مشابہت رکھتے ہوں میں نے یہ جملہ مکمل کیا ہی کیا تھا کہ سامنے سے میں نے اپنی پھپواور دادی اما ں کے میک اَپ زدہ چہرے کو نمایا ں پایا ،چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ سجائے جوالفاظ میری امّی نے کہے وہ میرے ذہن کی واشنگ مشین کو چلانے کے لئے کافی تھے! اور الفاط کچھ یوں تھے !

میں نے اپنی گڑیا کی شادی ہمارے پڑوس میں ہی کردی ہے ،اور سامان بھی وہ ہی دیا ہے جو تیرے پیٹو ابا نے میرے بھائی کو دیا تھا ۔

بیگم بیگم کہلاتی پھرتی ہے خودکو اور نہ ہی ہماری عزت کرتی ہے،اور یہ سامان روز دیکھے گی اور یہ لمحہ ہلکہ پر بھاری رہیگا ،وِلن جیسی اِنٹری کرکہ میری دادی اماں اور پھپو تو اپنے داماد لالچی خان کے ہاں چلی گئی ہیں ،مگر میرے ذہن کی واشنگ مشین میں لازوال سوالوں کا ذخیرہ چھوڑ گئی اور مجھے چکر آنے لگے اور میں سوچتا ہوں ،پہلے انسان سفر کرتے تھے مگر اب دنیا نے اتنی ترقی کی ہے کہ اب جہز بھی سفر کرتا ہے ۔اس کی مثال میری اماں کا جہز تھا ! جو کہ میری پھپواور اسکی بیٹی کو ملا اور اب اُسکا وارث لالچی خان ہے ۔

اور اب میری اماں میرے لئے شادی کا ہوائی سفر تیار کر رہی ہیں ،اور سنا ہے اِنہیں کوئی جدید اور عمدہ جہاز ہاتھ لگا ہے اماں کہتی ہیں پھپو اور دادی سے بدلہ لینے کا یہ ہی واحد طریقہ ہے ،اور جناب جلد ہی میرا نام خیر سے بدل کر لالچی خان عُرف مُفت خور ہوجائیگا ،اور یہ جہز کا جہاز میری نسلوں کے گھروں پر لینڈ کریگا۔
HAFIZ SHOAIB
About the Author: HAFIZ SHOAIB Read More Articles by HAFIZ SHOAIB: 2 Articles with 1292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.