نکاح ثانی اور تعدّدِ ازدواج

نکاحِ ثانی کے عمل کو معیوب اور ناجائز سمجھنا غلط ہے:
آج کل بعض عرب ممالک میں تو تعددِ ازدواج کا عام معمول ہے اور اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا: لیکن برصغیر ہندوپاک میں غیرقوموں کی معاشرت سے متأثر ہوکر اسے انتہائی ناپسندیدہ خیال کیا جاتا ہے۔

یہاں کے ماحول میں کسی مرد کے لئے نکاحِ ثانی کرنے اور بیک وقت متعدد بیویاں رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے، پہلی بیوی اور اس کے رشتہ دار ، حتیٰ کہ اپنی برادری والے اور پڑوسی اور محلے دار سب کی طرف سے بڑے طعنے سننے کو ملتے ہیں اور اس معاملہ کو بحث کا دلچسپ موضوع بنالیا جاتا ہے، حالانکہ جب اس بارے میں قرآنِ پاک میں صاف اجازت دے دی گئی ہے تو عدل وانصاف اور حق تلفیوں سے قطع نظر کرتے ہوئے محض اس نکاحِ ثانی پر اعتراض کرنے والا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی اجازت کا مذاق اڑا رہا ہے، اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی آدمی کے نکاحِ ثانی کرنے پر ملامت کرے اور نفس نکاح ثانی ہی کو برا جانے تو وہ کافر ہے۔
(شامی زکریا، ۴؍۱۴۱)

لہٰذا اپنے حالات اگر نکاحِ ثانی کے متقاضی نہ ہوں تو آدمی نکاح نہ کرے، یہ کوئی ضروری نہیں، لیکن جو شخص اپنی حالت اور تقاضوں کے پیش نظر نکاح کرلے تو اسے برا بھلا بھی نہ کہے، البتہ بیویوں میں عدل وانصاف اور برابری کرنے کی نصیحت کرسکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کیا نکاحِ ثانی کے لئے بیوی سے اجازت لینی ضروری ہے؟:

یہاں ایک سوال یہ ہے کہ جس شخص کا نکاحِ ثانی کا ارادہ ہو تو اسے کیا پہلی بیوی سے اجازت لینی چاہیے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نکاحِ ثانی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لازم تو نہیں ہے، لیکن اگر اسے اعتماد میں لے کر یہ اقدام کرے تو اس کے نتائج بہتر نکلنے کی امید ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر پہلی بیوی دوسرے نکاح پر بالکل راضی نہ ہو حتیٰ کہ دوسرا نکاح کرنے پر خودکشی کی دھمکی دینے لگے تو کیا کرنا چاہئے؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے فقہاء نے لکھا ہے کہ مرد پر اس کی دھمکی کی بناء پر نکاحِ ثانی سے رک جانا کوئی ضروری نہیں ہے، یعنی وہ ان دھمکیوں کے باوجود نکاحِ ثانی کرنے کا مجاز ہے، لیکن اگر وہ پہلی بیوی کی دل داری کے لئے اپنے ارادے سے باز آجائے تو ان شاء اﷲ اجر وثواب کا مستحق ہوگا، کیوں کہ سرور عالم حضرت محمد مصطفیصلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ رَقَّ لِاُمَّتِیْ رَقَّ اللّٰہُ لَہٗ۔ (رد مختار زکریا،۴؍۱۳۸،۱۴۱)

یعنی جو میری امت کے ساتھ نرم دلی اور شفقت کا معاملہ کرے گا تو اﷲ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمائیں گے۔

اس لئے بہتر یہی ہے کہ پہلی بیوی کو اعتماد میں لے کر ہی اگلا اقدام کیا جائے۔

عورت کے لئے تعددِ نکاح کی اجازت کیوں نہیں؟:

اکثر نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ جس طرح اسلام میں مردوں کو بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے، تو عورتوں کو یہ حق کیوں نہیں دیا گیا؟ اور وہ بیک وقت کئی مردوں سے نکاح کیوں نہیں کرسکتیں؟ تو اس کے جواب میں کئی باتیں عرض خدمت ہیں، مثلا:
۱۔ اگر بیک وقت ایک عورت کا کئی مردوں سے جسمانی تعلق ہوگا تو استقرار ِ حمل کی صورت میں بچے کا نسب مشتبہ ہوجائے گا، جو اسلام کو کسی صورت منظور نہیں ہے۔
۲۔ مرد فاعل ہوتا ہے اور عورت مفعول ہوتی ہے، اب اگر عورت کا تعلق بیک وقت کئی مردوں سے ہوگا تو اس سے متعلق مردوں کا آپس میں نزاع لازم ہے، کیونکہ ہر مرد یہ چاہے گا کہ جب بھی وہ چاہے اس عورت سے انتفاع کرے، مگر دیگر افراد کے تعلق کی وجہ سے ہر وقت یہ ممکن نہ ہوسکے گا، جس کی بناء پر جھگڑے اور جنگ وجدال کی نوبت ضرور پیش آئے گی، اور یہ تو نکاح کی بات ہے، بلانکاح بھی اگر کسی عورت کا کئی مردوں سے ناجائز تعلق ہوتا ہے تو وہ بھی سخت خوں ریزی کا سبب بنتا ہے، جس کے واقعات آئے دن دنیا میں پیش آتے رہتے ہیں: لہٰذا اسلام جیسا مہذب مذہب اس جھگڑے کی جڑ کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ، ۷؍۱۷۳)
۳۔ مرد کو تعدد نکاح کی اجازت ضرورۃً دی گئی ہے، کیونکہ مردوں میں اسبابِ شہوت ظاہراً پائے جاتے ہیں، جب کہ عورتوں میں فطرۃً حیا کا غلبہ ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ ان کے جنسی اعضاء مستور رکھے گئے ہیں، تیسرے یہ کہ ہرمہینہ میں ماہواری کے ایام اور ایام حمل اور ایام رضاعت میں قدرتی طور پر جنسی ہیجان ان میں کم ہوتا ہے، لہٰذا مردوں میں تعددِ نکاح کی اجازت کے جو اسباب ہیں وہ عورتوں میں متحقق ہی نہیں، اس لئے ان کے واسطے اس کی اجازت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
۴۔ علاوہ ازیں ہر شریف معاشرہ میں ایک عورت کا متعدد مردوں سے بیک وقت تعلق بہت بڑا عیب جانا جاتا ہے، جس کے ثبوت کے لئے الگ سے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، تو جو عمل تمام انسان کی نظر میں متفقہ طورپر عیب ہو وہ اسلام میں جائز کیسے ہوسکتا ہے؟

اسی ضمن میں بعض لوگوں نے سوال کیا کہ جنت میں ہر جنتی مرد کو ۷۰،۷۰ حوریں ملیں گی تو جنتی عورت کو کیا ملے گا؟

اس سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ ایک عورت کا کئی مردوں سے تعلق عیب ہے، یہ عورت کے لئے عزت کی نہیں، بلکہ ذلت کی بات ہے، لہٰذا جنت میں کسی عورت کو ذلت میں مبتلا نہیں کیا جائے گا، پس اس کی عزت اس میں ہوگی کہ اسے اس کے شوہر کے ساتھ جنت میں ملکہ بنا کررکھا جائے گا، اور جنت کی حوریں دراصل مؤمن جنتی کی گویا خادمہ بن کر رہیں گی۔

مرد کے لئے صرف چار ہی عورتوں سے نکاح کی اجازت کیوں؟
ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب مرد کے لئے متعدد نکاحوں کی اجازت دی گئی تو اسے مطلق کیوں نہ رکھا گیا؟ اس کے بجائے اسے چار کے عدد تک محدود کیوں کیا؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ تعددِ نکاح کی اجازت صرف ضرورۃً دی گئی ہے، اور مشاہدہ اور تجربہ کی روشنی میں ضرورت زیادہ سے زیادہ ۴ کے عدد سے پوری ہوجاتی ہے، اس سے زیادہ تعداد میں بیویوں کے حقوق کو صحیح طرح ادا کرنا عام آدمی کے لئے تقریباً ناممکن ہے۔
(الفقہ الاسلامی وادلتہ، ۷؍۱۷۱،۱۷۲)

حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں: ’’اب رہی یہ بات کہ چار سے زیادہ کیوں ناجائز ہو؟ تو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضروری تھا کہ ایک خاص حدبیویاں کرنے کی ہوتی، ورنہ اگرحد مقرر نہ ہوتی تو لوگ حد اعتدال سے نکل کر صدیا تک بیویاں کرنے کی نوبت پہنچاتے، اور ایسا کرنے سے ان بیویوں پر اور خود اپنی جانوں پر ظلم اور بے اعتدالیاں کرتے اور ضرورت چار سے رفع ہوگئی تھی، اس لئے زائد کو ناجائز قرار دیا۔‘‘ (المصالح العقلیۃ، ۲۰۳)

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے تعددِ نکاح میں تحدید کیوں نہیں؟:

اسی بحث کے ضمن میں ایک بات یہ اٹھائی جاتی ہے کہ جب امت کے لئے چار سے زیادہ بیویاں بیک وقت رکھنا منع ہے تو نبی اکرمصلی اﷲ علیہ وسلمکے لئے یہ تحدید کیوں نہیں؟ اور آپ نے ۴ سے زیادہ ازواج اپنے نکاح میں کیوں رکھی ہیں؟ اس موضوع پر دشمنانِ اسلام نے بہت ہائے ہو، واویلا اور شور وغوغا مچایا ہے، اور اب بھی وقفہ وقفہ سے اس کے متعلق دریدہ دہنی کرکے اشتعال انگیزیاں کی جاتی ہیں، تو اس بارے میں واضح رہنا چاہئے کہ نبی اکرمصلی اﷲ علیہ وسلم پیغمبر ہونے کی بنیاد پر عام انسانوں کے مقابلہ میں خاص امتیازات کے حامل تھے۔

اولاً: آپ کی ذاتِ عالی صرف مردوں ہی کے لئے سرچشمۂ ہدایت نہ تھی، بلکہ عورتوں کی ہدایت بھی آپ ہی کی ذاتِ عالی سے وابستہ تھی، اس لئے ضروری تھا کہ منتخب اور عفت ماٰب پاکیزہ خواتین آپ کے حرم میں آکر دین براہِ راست سیکھیں اور پھر دوسروں تک پہنچائیں۔

دوسرے یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بے مثال جسمانی قوتوں سے مالا فرمایا تھا، جس کا تصور دوسرے انسان سے نہیں ہوسکتا۔

تیسرے یہ کہ آپ نے جتنے بھی نکاح فرمائے ہیں وہ مسلکی، قومی، ملی یا کسی فرد کے مصالح پر مبنی تھے، محض نفسانی خواہش پر ان کا مدار نہ تھا، اس کا خلاصہ کرتے ہوئے حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں:
’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ۲۵ برس کی عمر میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا سے پہلا نکاح کیا، پھر ۲۵ سال تک جب تک حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا زندہ رہیں، آپ نے دوسرا نکاح نہیں کیا، حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی وفات کے بعد چونکہ گھر میں چھوٹی بچیاں تھیں اور رسالت کی ذمہ داری بھی، اس لئے آپ نے خاندان کی عورتوں کے اصرار سے حضرت سودہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح فرمایا، جو بیوہ تھیں۔ اس وقت آپ کی عمرمبارک ۵۰ سال تھی، اسی زمانہ میں آپصلی اﷲ علیہ وسلم کو خواب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا دکھلائی گئیں، اور کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں، چونکہ اس وقت حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی عمر پانچ چھ سال تھی، اس لئے اس خواب کی صورت واضح نہیں ہوئی، پھر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کے دل میں یہ بات ڈالی گئی اور انہوں نے اس نکاح کی تحریک کی، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا، مگر ابھی وہ گھر آباد نہیں کرسکتی تھیں، اس لئے عملاً آپ کے گھر میں ایک ہی بیوی رہی، یہی ایک نکاح آپصلی اﷲ علیہ وسلم نے کنواری عورت سے کیا ہے، باقی سب نکاح بیوہ عورتوں سے کئے ہیں، اور ہجرت کے بعد کئے ہیں، جب کہ آپ کی عمر مبارک ۵۶ یا ۶۰ سال تھی، اور یہ نکاح ملی، ملکی اور شخصی مصالح کے پیش نظر کئے ہیں۔ مثلاً ……
۱۔ حضرت زینبرضی اﷲ عنہا سے نکاح لے پالک کی رسم مٹانے کے لئے کیا ہے، اور اس نکاح کا حکم اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں نازل فرمایا ہے، یہ ملی مصلحت ہے۔
۲۔ اور حضرت حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اﷲ عنہا سے نکاح ملکی مصلحت سے کیا ہے، تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ بدر کے بعد اسلام کے خلاف تمام جنگوں کی کمان ابوسفیان رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ میں رہی ہے، مگر حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح کے بعد انہوں نے کوئی اہم فوج کشی نہیں کی، یہ اس نکاح کا فائدہ تھا۔
۳۔ اور چند خواتین کی اسلام کے لئے بڑی قربانیاں تھیں، جیسے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا ، جب وہ بیوہ ہوگئیں تو ان کی دلداری کے لئے آپ نے ان سے نکاح کیا ہے۔ اور حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح حضرت عمررضی اﷲ عنہ کی دل جوئی کے لئے کیا ہے، یہ شخصی مصلحت ہے۔

غرض سبھی نکاح انہی مقاصد ثلاثہ سے کئے ہیں، جن کی تفصیل طویل ہے، کوئی نکاح آپ نے اپنی ضرورت کے لئے نہیں کیا: کیوں کہ آپ کی چہیتی بیوی حضرت عائشہ صدیقہرضی اﷲ عنہا آپ کے گھر میں تھیں، اور یہ عمر طبعی ضرورت کی بھی نہیں تھی، وہ تو جوانی کا زمانہ ہے، جو آپ نے ایک بیوی کے ساتھ بسر کیا ہے اور چونکہ یہ تینوں مصالح ایسے تھے کہ ان کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی، اس لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے نکاح کی تحدید نہیں کی گئی۔‘‘(رحمۃ اﷲ الواسعۃ شرح حجۃ اﷲ البالغۃ، ۹۹۔۱۰۰)
اس تفصیل کو سامنے رکھ کر کوئی بھی منصف مزاج آپ کے تعددِ نکاح پر کوئی اشکال نہیں کرسکتا۔ 
Gul Samad Hasan zai
About the Author: Gul Samad Hasan zai Read More Articles by Gul Samad Hasan zai: 3 Articles with 8128 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.