ایک اور دیواربرلن۔۔۔لیکن کب تک؟؟

دوسری جنگ عظیم میں جب نازی افواج شکست کھاگئیں تو فاتح ممالک نے جرمنی کودو حصوں میں تقسیم کر دیا ، دارالحکومت برلن کو بھی دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا، مشرقی حصہ جو بعد میں مشرقی جرمنی کے نام سے مشہور ہوا روس کے قبضے میں آ گیا جب کہ مغربی حصہ جو بعدمیں مغربی جرمنی کہلایا امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے زیر تسلط آ گیا ۔ کچھ ہی عرصہ بعد مشرقی جرمنی میں روس نوازاشتراکی حکومت قائم ہو گئی اور مغربی جرمنی میں سرمایہ دارانہ نظام کی حامی مغربی طرز جمہوریت پر مبنی پارلیمانی حکومت نے انتظام سنبھال لیا ۔ کمیونسٹ حکومت نے عوام کو تمام بنیادی سہولتیں حکومت کی طرف سے دینے کا وعدہ کرتے ہوئے صنعتوں سمیت سب کچھ حکومتی سرپرستی میں لے لیا،ساتھ ہی انٹیلیجنس کا سخت اور مربوط نظام بنا دیا گیا تو لوگ کمیونزم کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں ۔ ایسا نظام تب ہی کامیاب ہو سکتا تھا جب مقتدر افراد کے اندر جواب دہی کا کوئی احساس ہوتا اور حکومت میں موجود لوگ پوری دیانتداری کیساتھ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ۔ اشتراکی چونکہ خدا کے وجود سے ہی انکاری تھے اس لئے آخرت میں جواب دہی کے احساس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، جمہوری طرز حکومت نہ ہونے ،حکمران کمیونسٹ جماعت کے مقابل کسی دوسری جماعت کی عدم موجودگی اور سخت انٹیلیجنس نظام کی وجہ سے انہیں عوام کی طرف سے بھی کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ ان حالات میں ایک مخصوص طبقہ تو خوب پھلنے پھولنے لگا لیکن عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی ۔ اس گھٹن زدہ ماحول سے تنگ آ کر لوگوں نے مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی کی طرف ہجرت شروع کر دی ۔ 1951 ؁سے 1953 ؁تک لاکھوں لوگ ہجرت کر کے مغربی جرمنی چلے گئے ،ہجرت کرنے والوں میں زیادہ تر پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد تھے ۔ یہ صورتحال مشرقی جرمنی کی حکومت کیلئے کافی پریشان کُن تھی، انہوں نے روسی صدر جوزف سٹالن کے مشورے سے ہجرت کے اس عمل کو روکنے کیلئے تقسیم شدہ جرمنی کی سرحدوں پر سختی شروع کر دی اور جرمنوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگا دی، یہ ایک طرح سے دیوارِ برلن کا آغاز تھا۔ ایک ہی ملک کو کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی لڑائی میں جبراََ دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور اب اس ملک کے باشندوں کی آزادانہ نقل و حمل پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی، اس پابندی کے باوجود ہجرت کایہ سلسلہ چلتا رہا ۔اس کو مکمل روکنے کیلئیے 1961 ؁ء میں اس وقت کے روسی صدر خرو شیف نے تقسیم شدہ جرمنی کے دونوں حصوں کے درمیان ایک دیوارکی تعمیر کا مشورہ دیا جس پرعمل کرتے ہوئے مشرقی جرمنی کی حکومت نے 13 اگست1961 ؁ء کو اس دیوار کی تعمیر کا کام شروع کر دیا،تاریخ میں یہ دیواردیوارِبرلن کے نام سے مشہورہوئی ۔ 147کلومیٹر لمبی یہ دیوار چار مراحل میں تقریباً19سال میں مکمل ہوئی اور اس کی تعمیر پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے ۔ ایک ہی ملک کے باسیوں کو تقسیم کرنے والی یہ دیوار زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی اور90 ء کی دہائی میں جب اشتراکیت کا سحر ٹوٹا تو جرمنی میں بھی لاکھوں لوگ اس دیوار اور کمیونزم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، عوام کے سامنے مشرقی جرمنی کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 1988 ؁ء میں دیوار میں موجود کراسنگ پوائنٹس پر آزادانہ آمدورفت کی اجازت دے دی گئی ۔ 13 جون 1990 ؁ء کو حکومتی سطح پر اس دیوار کو گرانے کا کام شروع ہوا جس میں عوام نے بھی بھرپور جوش و خروش سے حصہ لیا اور دیوار برلن کے گرنے کے بعد 13 اکتوبر 1990 ؁ء کو جرمنی پھر سے ایک ہو گیا اور جرمنی کو عارضی طور پر تقسیم کرنے والی یہ دیوار ہمیشہ کیلئے ختم ہو گئی ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 40 ء کی دہائی میں جب جرمنی کو تقسیم کیا گیا، اسی دہائی میں خطہ جنت نظیر ریاست جموں و کشمیر کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر کے درمیان میں ایک خونی لکیر کھینچ دی گئی ۔ ریاست کا کچھ حصہ جسے اس پار کے لوگ آزاد کشمیر کے نام سے جانتے ہیں اورگلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام آئے، جب کہ ریاست کے بڑے حصے کا کنٹرول بھارت نے سنبھال لیا جو مقبوضہ کشمیر کہلایا ۔ اس تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں سے وعدہ کیا کہ حالات معمول پر آتے ہی آپ کو حق خود ارادیت دیا جائے گا اور رائے شماری کے زریعے آپ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے، لیکن ان قرار دادوں میں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ الحاقِ ہندوستان یا الحاقِ پاکستان سے مشروط کر کے حق خود ارادیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ڈال دیا گیا ۔بھارت توکچھ عرصے بعد اس وعدے سے بھی مکر گیا ،اور اقوامِ عالم کے مفادات کے تحفظ کیلئے بننے والی اقوام متحدہ نے بھی اس سلسلے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی ۔ شاید اس لئے کہ اقوام متحدہ نامی یہ تنظیم کبھی بھی کمزور قوموں کے مفادات کے تحفظ یا ان کو حقوق دلانے کیلئے نہیں تھی، بلکہ کچھ طاقتور سامراجی قوتوں کے مفادات کے تحفظ اور عالمی دہشت گردوں کی دہشت گردی کو قانونی تحفظ دینے کیلئے بنی تھی ۔ چونکہ ان سامراجی طاقتوں میں سے کسی کے بھی مفادات کشمیریوں کے مستقبل سے وابستہ نہیں تھے اس لئے اقوام متحدہ نے بھی کبھی کشمیریوں کیلئے کچھ کرنا گوارہ نہیں کیا ۔ پاکستان اور بھارت کے حکمران شاہ رگ اور اٹوٹ انگ کے نام پر سیاست کرتے رہے اور یوں ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے مستقبل کا یہ مسئلہ زمین کے ایک ٹکڑے کے حصول کا مسئلہ بن کر رہ گیا ۔اکثر کشمیری سیاستدانوں بھی الحاق ہندوستان اور الحاق پاکستان کے نعرے لگا کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور ذاتی مفادات حاصل کرتے رہے اور کچھ کشمیر بنے گا خود مختار کا نعرہ لگا کر اپنی سیاست چمکاتے رہے ،کسی نے بھی سنجیدگی سے اس مسئلے کے حل کیلئے کبھی کوئی کوشش نہ کی ۔کشمیری عوام کی اکثریت بھی حد بندی کے لائن کے دونوں طرف اپنی روزمرہ زندگی میں مگن رہی،اور یوں کشمیریوں کو تقسیم کرنے والی یہ خونی لکیر نہ مٹ سکی ۔ 1988-89 ؁میں جب دیوارِ برلن گری تو کشمیری قوم نے بھی انگڑائی لی اور وہ اپنے حق کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ ہزاروں ماؤں کے جگر گوشے اس راہ میں قربان ہو گئے ، بے شمار سہاگنوں کے سہاگ اجڑگئے ، لاکھوں بچے یتیم ہو گئے ،بہت سارے تو ایسے تھے جنہیں بھارتی فوج اٹھا کر لے گئی اور آج تک ان کی کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں ۔ بھارت نے ریاستی دہشت گردی کے ذریعے اس تحریک کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا، ہر طرف سے ناکامی کے بعد بھارت نے اب اپنے دوست ملک روس کے فارمولے پر عمل کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو سرحد پار سے مدد مل رہی ہے اور اپنی دانست میں اس مدد کو روکنے کیلئے اس نے کنٹرول لائن پر ایک دیوار بنانے کا منصوبہ بنایا ہے تا کہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے جیسے جرمنی کو تقسیم کیا گیا تھا ۔ لیکن بھارت شائد بھول رہا ہے کہ کشمیر کی سڑکوں پر آزادی کے نعرے لگاتے ہزاروں لوگ سرحد کے اس پار سے نہیں آ تے،اور بھارت اگر یہ دیوار بنا بھی لیتا ہے تو اسے تاریخ کا یہ سبق نہیں بھولنا چائیے کہ یہ دیوار ہمیشہ کیلئے قائم نہیں رہ سکتی ، قوموں کو اگر دیواروں کی مدد سے تقسیم کرنا ممکن ہوتا تو دیوار برلن کبھی نہ گرتی اور جرمنی کبھی ایک نہ ہوتا ۔ اگر سارے کشمیری مل کر ایک قوم کی طرح اپنے حق کیلئے اٹھ کھڑے ہوں اور دونوں اطراف کے راہنما خواہ وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اور کوئی بھی نظریہ رکھتے ہوں اپنے ذاتی مفادات کو پست پشت ڈال کر کشمیری عوام کے مفادات کیلئے لڑنے مرنے پر تیار ہو جائیں تو یہ دیوار بننے سے پہلے ہی ٹوٹ جائیگی اور اگر بن بھی جائے توشائد دیوار برلن سے بھی کم عرصہ اپنا وجود بر قرار رکھ سکے ۔
Dr M. Nadeem
About the Author: Dr M. Nadeem Read More Articles by Dr M. Nadeem: 15 Articles with 11078 views A medical specialist working as Assistant Professor of Medicine in a Medical college and also a non professional columnist... View More