شیخ محمد ابراہیم آزادؔ:شخصیت و شاعری

نام محمد ابراہیم ، آزادؔ تخلص ، تاریخی نام غلام باری تھا،ہندوستان کے صوبہ راجستھان کی تاریخی ریاست بیکانیر آپ کے آباؤ اجداد کی مسکن تھی جس کی مناسبت سے آپ راجپوت اور بیکانیری ٹہرے، نقشبندیہ سلسلہ سے تعلق نے آپ کو نقشبندی بنا دیا۔آپ ہندوستان کے صوبے یو پی کے ضلع مظفر نگر کے قصبے ’حسین پور‘ میں بروز منگل ۲۵ فر وری ۱۸۶۸ء مطابق یکم ذیقعد ۱۲۸۴ھ کی شب پیدا ہو ئے۔آپ نے ۷۹ سال عمر پائی ، طویل علالت کے بعد قیام پاکستان سے ڈھائی ماہ قبل ۸ جون ۱۹۴۷ء کی شب کو اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی ، آپ
بیکانیر میں اپنے آبائی قبرستان میں مدفن ہیں۔

جنابِ آزاد،ؔ صاحب ِدیوان شاعرہیں اور آپ کا شمار ہندوستان کے بلند پایہ مداح سرا شعراء میں ہو تا ہے۔ آپ نے تمام زندگی نعت کہی اور عشقیہ شاعری سے نہ صرف بچے رہے بلکہ اہل اسلام کو اسے اختیار کر نے کو منع فر مایا۔ با وجود بلند پایہ وکیل اوربیکانیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہو نے کے آپ کی پوری زندگی سادگی کا نمونہ تھی۔آپ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے ، خاندان کے اکثر احباب علاوہ دیگر مشاغل کے شعر و سخن سے خاص شغف رکھتے تھے اور حمد و نعت گوئی کو اپنے لیے اعزاز تصور کیا کر تے۔آپ کے خاندان کے بزرگ دیوان، قاضی، وکیل، جج اور استاد تھے بعض تجارت کے پیشے سے بھی وابستہ تھے۔آپ کی طبیعت میں شعر وسخن کا مذاق ابتداہی سے تھا بقول ایک ہمصر بھائی محمد اسرائیل صاحب ’آپ کی طبیعت بھی رسا تھی استعداد و قابلیت سے اﷲ عز و جل نے کافی حصہ عطا فرمادیا تھا اس لیے آپ نے بجائے عشقیہ شاعری کے حمد و ثنائے باری تعالیٰ عزاسمہ‘ و نعت رسول مقبول خیر الا نام و اسوؤحسنہ کو اپنا مطمع نظر اور نصب العین قرار دیا‘۔بقول تابشؔ صمدانی آزادؔ صاحب کا گھرانا صدیوں سے گہوارۂ علم و ادب رہا ہے۔

جناب آزاد ؒؔکا تعلق خاندان باری بخشؒ سے ہے جو خاندانِ حسین پور کے نام سے بھی معروف ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ، فارسی کی تعلیم اپنے والد بزرگوار نبی بخشؒ سے حاصل کی جو مذہبی سوچ رکھتے تھے۔ اپنے والد کی زیر نگرانی آزاد صاحب نے چند ہی سالوں میں فارسی زبان پر اس قدر عبور حاصل کر لیاکہ فارسی زبان میں خط و کتابت فر مانے لگے۔آپ انتہائی ذہین اور مذہبی ذہن کے مالک تھے۔ قدرت نے آپ کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازہ تھا ، حافظہ اس قدر تیز کہ جو بات ایک مر تبہ سن لیتے ہمیشہ یاد رہتی۔ آپ ایک شفیق باپ، فرمانبر دار فرزند،خیال کرنے والے شوہر، بہترین استاد، بلند پایہ وکیل، بہترین منصف و جج، خوش اخلاق، خوش طبع، خوش مزاج، خوش گواور بلند کردار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمدرددان قوم بھی تھے۔

آزاد ؔصاحب کی شخصیت اور مقام کئی جہت سے ممتاز اور منفردہے آپ اسر ا رِ شریعت سے واقف، کتاب و سنت کے بحرِ ذخار کے سچے عاشق اور صاحبِ فضل و کمال تھے۔ عربی زبان کے الفاط کا استعمال ، قرآنی آیات کا ترجمہ آپ نے اپنے کلا م میں بہت ہی خوبی سے نظم فر ما یا ۔ سیرت طیبہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں آپ کی سوچ یہ تھی کہ’ خدا کی صِفَت تو پھول تو کیا پتے پتے سے ظاہر ہوتی ہے۔حسن و اخلاق کے بیان کرنے کے لیے ذات مقدس محبوب خدا کی ایسی ہے کہ اگر تمام عمر ایک صفت کے ہی بیان میں خرچ کی جائے تو ایک شمہ بھی بیان نہیں ہوسکتی۔ اگر نعت کے بیان کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لیا جائے تو عین موجب خوشنودی خدااور رسول ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ اس کے بیان کرنے کے لیے قرآن پاک و تفاسیر و کتب پر غور کر نا پڑتاہے اور جس قدر انہماک اس میں ہوگااسی قدر حضور کا عشق اس کے دل میں ہوگا جو عین ایمان ہے‘۔

آزادؔ صاحب ملتِ اسلامیہ کی بہبود کے لیے کچھ کر گزرنے کاجذبہ رکھتے تھے ۔ دنیا میں جہاں جہاں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی ہورہی تھی وہ اس کا درد محسوس کررہے تھے۔ اپنے اس دکھ کا اظہار انہوں نے اپنی نظموں میں بر ملا کیا۔ وہ اسلامی مساوات اور اخوت کے علمبردار بھی تھے ۔

آپ کی شخصیت متقیانہ صفات کی حامل تھی یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں صوفیانہ رنگ غالب ہے ۔تصوف کے موضوعات اور جذباتِ حقیقی کو آپ نے جس باریک بینی اور خوبی کے ساتھ نظم میں بیان کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی تصوف آپ کا پسندیدہ موضوع تھا آپ کے نثری مضامین یقینا تصوف کے مشکل مسائل کا حل پیش کرتے ہوں گے۔ کیو ں کہ جو شخص نظم میں تصوف جیسے دقیق اور مشکل موضوع کو اسقدر مہارت اور خوبی سے بیان کرنے میں کمال رکھتا ہو وہ نثر میں اس موضوع پر زیادہ بہتر انداز سے قلم اٹھا سکتا ہے۔

جناب آزادؔ کی شخصیت کا ایک قابل تقلید پہلو دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا اور اس میں عملی طور پر حصہ لینا تھا۔ خاندان میں منعقد ہونے والی مختلف تقاریب ، حتیٰ کے چھوٹی سے چھوٹی تقاریب میں شریک ہونا، بچوں اور بڑوں میں گھل مل جانا آپ کی شخصیت کا خاصہ تھا۔

آپ ایک حساس اور درد مند دل لیے ہوئے تھے۔ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور دل جوئی کیا کرتے، اکثر احباب کے انتقال پر آپ نے اپنے جذبات کا اظہار نظم میں کیا اپنے اعّزا و اَقرِبا کے بچوں کی شادی کے موقع پر سہرے کہے۔اپنے پیر حاجی فظ جماعت علی شاہ نقشبندی علی پوری، استاد بیخودؔ دہلوی کی شان میں نظمیں کہیں، اسی طرح دیگر بزرگوں کی شان میں منقبتں پیش کیں ۔ دنیاکے حالات و واقعات پر بھی جنابِ آزادؔ کی نظر تھی آپ نے ان حالات اور سیاست کو قریب سے دیکھا،ان کی نظر پوری دنیا خصو صاً اسلامی ممالک میں ہو نے والے مظالم اور ذیادتیوں پر رہتی تھی اور ان مظالم کو جو مراکش، ایران ، اٹلی، کابل اور ہندوستان کے مسلمانوں پر ہو رہے تھے انکی کسک وہ اپنے اندر محسو س کیا کرتے ان کا اظہار آپ نے بر ملا کیا ۔ایک موقع پر آپ نے کہا ؂
علم مولا میں ہے جو حال مرکش اب ہے
کیسا مظلوم ہے ایران رسولِ اکرم
شہ کو معلوم ہیں اٹلی کے مظالم جو ہیں
اب غضب ڈھاتا ہے بلقان رسولِ اکرم

آپ ہندوستان کی سیا ست سے بے بہرہ نہیں تھے ۔ فرماں روائے کابل سلطان محمد حبیب الرحمٰن خان بہادر کی ہندوستان آمد کے موقع پرآپ نے ایک نظم کہی آپ کے بقول یہ نظم برادران صاحبان قوم کی خواہش پر کہی ۔ گویا آپ اپنے گرد بسنے والے احباب کی خواہشات کا بھی احترام کیا کرتے تھے۔ اس موقع پر آپ نے کہا ؂
مرحبا ہند ترے آج جو مہماں آئے
بارک اﷲ عجب شان کے سلطاں آئے
میزباں تجھ کو مبارک ترے مہماں آئے
منتظر جن کا زمانہ تھا وہ سلطاں آئے

آپ نام و نمود اور شہرت کو نہ پسند فرماتے اور نہ ہی انہوں اس جانب توجہ کی۔ آپ کا کل علمی سر ما یہ ہندوستان ہی میں رہ گیا۔ آزاد ؔصاحب اپنی جگہ جلیل المرتبہ، زود حس، زود فہم، زود گو، ذی علم، کہنہ مشق شاعر تھے لیکن مفادِ اشاعت اور فیضان ابلاغ سے یکسر بے نیاز تھے۔

عاجزی و انکساری آزادؔصاحب کی طبیعت کا خاصہ تھی۔ ان کے کلام سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کے ان کے مزاج میں خاکساری، فروتنی اور عاجزی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ بڑوں کا احترام اور عزت، چھوٹوں سے وضع داری برتنا خاندانی روایت تھی ۔آپ صالح، با اصول، ایماندار، انصاف پسند ، بات کے سچے اور کھرے واقع ہوئے تھے۔ معاملات کے سچے،نڈر،بے باک اور کھری بات بلا خوف و خطر کہہ ڈالتے۔یہ شعر
آپ کی ان صفات کا عکاس ہے ؂
شاعرنہ میں ہوں اور نہ اہل زباں ہوں میں
جادونگار میں ہوں نہ سحر البیان ہوں میں
اعجاز شہ جو کرتا ہوں آزاد ؔ میں بیان
ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں معجز بیاں ہوں میں

آزاد ؔصاحب صوم و صلوٰۃ کے پابنداور متقیانہ صفات رکھتے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہور ہے جسے ہمارے خاندان کے احباب اکثر سنایا کرتے ہیں۔ آزادؔ صاحب بیکانیر اسمبلی کے بہ لحاظ عہدہ رکن تھے ۔ ایک دن اجلاس جاری تھا۔ بیکانیر کا مہاراجہ گنگا سنگھ از خود اس اجلاس میں موجود تھا۔ دوران اجلاس عصر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ آزادؔ صاحب نے اجلاس وقتی طور پر رکوانے کی درخواست نہیں کی بلکہ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور اسمبلی ہال میں ایک جانب جاکر اپنی شیروانی اتار کر جائے نماز کے طور پرنیچے فرش پر بچھا کر نماز ادا فرمائی۔ اسمبلی میں موجود ہندوں اور سکھوں کی غالب اکثریت کے باوجود آزادؔ صاحب کی یہ بے باکی ممکن ہے کہ ہندوں شدت پسند وں کو پسند نہ آئی ہو لیکن آزاد ؔ صاحب کی اس ادا نے راجپوت مہاراجہ گنگا سنگھ کو متاثر کیا اور اس کے حکم سے آئندہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران نماز کے اوقات میں وقفے کا خیال رکھا جانے لگا۔ عدالتوں کے لیے بھی حکم جاری ہوا کہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے وقفہ رکھا جائے اسی طرح جمعہ کے دن بیکانیر کے اسکولوں میں نماز جمعہ سے قبل چھٹی کی جانے لگی۔بیکانیر کی مدینہ مسجد کا سنگِ بنیاد جناب آزادؔ کے دست مبارک سے رکھا گیا۔ یہ مسجد راجستھان میں خوبصورتی کے اعتبار سے منفرد اور دیدہ ذیب مسجد شمار کی جاتی تھی۔بیکانیر اسٹیٹ کے تحت قائم ہونے والی سیرت کمیٹی کے سر پرستِ اعلیٰ بھی تھے۔

آزاد ؔصاحب تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔ اپنے خیالات اور نظریات کا پرچار انہوں نے اپنے نثری مضامین اور شاعری میں بھر پور انداز سے کیا۔ تصوف اور آزادی نسواں کے موضوع پر آزاد صاحب کے نثری مضامین رسالہ’’پیام اتحاد‘‘ اور دیگر رسائل میں شائع ہوئے بقول پروفیسر عبد المحصی ’آزادؔ صاحب تعلیم نسواں کے سلسلہ میں اپنے مخصوص نظریات کی تائید میں یکہ و تنہا لڑتے دھائی دیتے ہیں‘ ۔

افسوس آزاد صاحب کا نثری علمی سرمایا پاکستان منتقل نہ ہوسکا۔ جس قدر بھی شائع ہوا ہندوستان میں ہی رہ گیا۔

آزادؔ صاحب لوگوں میں رہنے والے، لوگوں کی بات سننے والے، خاموشی سے مستحقین کی مدد کرنے والوں میں سے تھے۔ خاندان اور برادری میں خوش مزاج و خوش گفتار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ علمی ، ادبی ،ثقافتی ، سماجی اور بھلائی کے کاموں میں عملی شریک ہوا کرتے۔

جب کبھی مالی مدد کرنے ضرورت ہوتی کبھی بُخل اور تنگ نظری سے کام نہ لیتے بلکہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کرتے ۔

۱۸۸۱ء میں ہندوستان کے شہر فرید کوٹ کے مہاراجہ نے آزادؔ صاحب کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہو ئے آپ کو اعلیٰ عہدے کی پیش کش کی جسے آپ نے قبول کر لیا۔ اس طرح آپ ۱۸۸۱ء سے ۱۸۹۷ء تک فرید کوٹ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ بعد ازاں آپ فرید کوٹ سے ہندوستان کی ریاست بیکانیر منتقل ہوگئے میرے والد صاحب قبلہ انیس احمد صمدانی مر حوم آزادؔ صاحب کے فرید کوٹ سے بیکا نیر منتقل ہو نے کا واقعہ اکثر سنا یا کر تے تھے کہ مہاراجہ فرید کوٹ آپ کی بہت عزت کیا کر تا تھا اور ہر طریقے سے آپ کا خیال بھی رکھتا۔ آزادؔ صاحب بھی نیک نیتی اور محنت سے تمام امور کی انجام دہی فر ماتے رہے۔ ایک روز کسی سر کاری تقریب میں مہاراجہ نے آپ کواپنے کسی کارندے کے ذریعہ شراب کی پیش کش کر دی۔ آپ کو اس کی یہ حرکت سخت نا گوار گزری، آپ اسی وقت اپنے گھر تشریف لے گئے اور بغیر کسی کو بتائے رات کے اندھیرے میں فرید کوٹ کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہتے ہوئے بیکانیر تشریف لے گئے اور زندگی میں دوبارہ کبھی فرید کوٹ کا رخ نہیں کیا۔ مہاراجہ کو جب آزادؔ صاحب کے چلے جانے کا علم ہو ا تو اپنی اس حرکت پر نادم ہوا اور سرکاری احکام جاری کیا کہ شیخ صاحب جب کبھی بھی فرید کوٹ دوبارہ واپس آئیں گے تو انہیں وہی اعزاز اور مقام دیا جائے گا۔ مگر آزاد صاحب نے دوبارہ فرید کوٹ جانے کے بارے میں سو چا بھی نہیں۔

بیکانیر میں اس وقت مہاراجہ گنگا سنگھ حکومت بر طانیہ کی طرف سے حاکم تھا۔یہ بیکانیر کا اکیسواں مہاراجہ تھاجس نے ۱۸۹۸ء میں تاج بر طانیہ کی جانب سے اقتدار سنبھالااور اپنی موت ۲ فر وری ۱۹۴۳ ء تک بیکانیر پر حکومت کرتا رہا، گنگا سنگھ ایک نیک انسان تھا ۔ اس نے اپنے دور حکمرانی میں ریاست کی بہتری اور تر قی کے بے شمار اقدامات کئے۔ آزاد صاحب کی نیک سیرت اور اخلاص کو دیکھتے ہو ئے مہاراجہ گنگا سنگھ بھی آپ کا قدر داں ہو گیا اور آپ کو ریاست کے وزیر اور قانونی مشیر کا درجہ دیا گیا۔ اکتوبر ۱۸۹۷ء سے آپ نے بیکانیر میں وکالت کی ، ۱۹۱۷ء سے ۱۹۲۱ء تک چیف کورٹ بیکانیر میں جج و چیف جسٹس کے فرا ئض انجام دیئے۔ تابشؔ صمدانی نے اپنے مضمون ’آزادؔ بیکانیری اور اُ ن کا فن‘ میں لکھا ہے کہ ’مہاراجہ بیکانیر نے آزادؔ صاحب کی سو روپے ماہانہ پنشن مقرر کی جو تاحیات جاری رہی اور بطور خاص یہ حکم صادر کیا گیا کہ خزانے کا کارندہ خود آزادؔ صاحب کے گھر پر جاکر پینشن کی رقم ادا کیا کرے گا۔ ایسے اعزاز کی بیکانیر کی تاریخ میں کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی ۔ آزادؔ صاحب نے جہاں ایک طرف بیکانیر میں دینی خدمات سرانجام دیں ،وہاں شعر و ادب سے بھی فضائے بیکانیر کو آشنا کیا۔ آپ کو’ بابائے بیکانیر ‘کہا جاتا تھا‘‘۔ بیکانیر ریاست کی جانب سے آپ کی عزت و توقیر کا یہ عالم تھا کہ گھر سے عدالت جانے اور عدالت سے واپس گھر لانے کے لیے آپ کے لیے دو گھوڑوں والی بگی آیا کرتی تھی۔

ریاست بیکانیر کے مہاراجہ گنگا سنگھ کی تخت نشینی کو کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ گنگا سنگھ سے قبل ڈونگر سنگھ ریاست بیکانیر کا حکمراں تھا ۔ اس کے کوئی اولاد نہیں تھی اس نے اپنی زندگی ہی میں اپنے چھوٹے بھائی گنگا سنگھ کو بیٹا بنالیا تھا ۔ چنانچہ اس کے انتقال کے بعد ریاست کی حاکمیت اعلیٰ گنگاسنگھ کو سونپ دی گئی۔ یہ ریاست کا اکیسواں سربراہ تھا ۔ اس کے خاندان کے کچھ لو گوں نے کورٹ میں مقدمہ کر دیا ۔ آزادؔ صاحب چیف جج کی حیثیت سے ریٹائر ہو چکے تھے اور ریاست کے ایک نامی گرامی وکیل شمار کیے جاتے تھے۔ گنگا سنگھ نے آزاد ؔصاحب کو اپنا وکیل مقرر کیا اور آپ کو ایک سرکاری وکیل کی حیثیت سے تمام مراعات دی گئیں۔ آپ نے اپنی مدد کے لیے ایک جونئیر وکیل بھی مقرر کیا ۔ جناب نثار احمد صمدانی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ۔ آزادؔ صاحب نے سر کار بیکانیر کی نمائندگی کر تے ہوئے مہاراجہ گنگا سنگھ کے کیس کی پیروی اس خوبی سے کی کہ کیس کا فیصلہ مہاراجہ گنگا سنگھ کے حق میں ہو گیا ۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ راجہ اس عظیم کارنامے پر بے انتہا خوش تھا۔ محبوب احمد سبزواری مرحوم جوآزادؔ صاحب کے ہم زلف اور میرے ماموں تھے نے بتا یا تھاکہ صرف آزادؔ صاحب کے جونیئر وکیل جناب نثار احمد صاحب کو اس وقت ۲۰ ہزار روپے کیس کا معاوضہ دیا گیا۔ راجہ نے آزادؔ صاحب کو ریاست بیکانیر کا ایک وسیع علاقہ دینے کی پیش کش کی اور کہا کہ آپ اس پورے گاؤ ں کے مالک ہوں گے۔ آزاد صاحب نے راجہ کی اس پیش کش کو قبول کر نے سے انکار کردیا۔ تاہم آپ کو کثیر رقم دی گئی اوراس کے ساتھ ہی آپ کو ریاست کے ایک وزیر کا درجہ دے دیا گیا جو آخر تک قائم رہا۔

آزادؔ صاحب راجستھان کے ایک نامی گرامی وکیل کی حیثیت رکھتے تھے ۔ ان کی مقبولیت اور شہرت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب انہوں نے برطانوی عدالت میں بیکانیر کے مہاراجہ گنگا سنگھ کی تخت نشینی کا کیس جیتا۔ اس کامیابی نے آزاد ؔ صاحب کو بیکانیر کی حکومت میں اعلیٰ مقام عطا کیا ۔ریاست بیکانیر میں آپ کو ایک ذہین، بے باک اور ایماندار وکیل کے طور جانا جانے لگا۔آپ کے اعزاز و مرتبے میں اضافے کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی آپ کی حیثیت مستحکم ہوئی۔ مالی طور پر بے حد مستحکم ہونے کے باوجود غرور اور تکبر آپ سے کوسو دور تھا۔

آزاد ؔ صاحب حق گو ، نڈر اور اصولوں کے سخت پابند تھے۔بقول پروفیسر عبد المحصی ’جناب محمد ابراہیم آزادؔ مرحوم نے ایک مردِ حق اور حق اندیش کی طرح حق و صداقت کے دیئے کو بیکانیر کے ویران صحرا میں روشن رکھا جس کی روشنی نے بہت سی نیک روحوں کومنور کیا‘۔آزادؔ صاحب کی صلاحیت خدا داد تھی۔ آپ نے اپنے والد ماجد کی آغوش تربیت میں تعلیم حاصل کی تھی ۔ اردو ، فارسی کے علاوہ عربی کی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ بزرگوں کی صحبت سے اپنے قلب کو منور کیا۔ اساتذہ کی خدمت میں آپ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔ ان کے اساتذہ کی تربیت اور صحبت نے انہیں اس طرح نکھار دیا کہ پورے راجستھا ن میں آپ کی شہرت ایک نیک اور دین دار کی حیثیت سے عام ہوگئی لوگوں نے آپ سے کسب فیض کیا ۔آپ کے ہمعصر آپ کی علمیت ، اعلیٰ مہارت ، سخن فہمی اور مداح سرائی سے بے انتہا متاثر تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کا نعتیہ دیوان طبع ہونے لگا تو بے شمار اہل علم ، شاعروں، دانشوروں نے اس پر اظہار خیال کرنا یا تقاریظ لکھنے اپنے لیے اعزاز جانا۔ آزادؔ صاحب نے ان میں سے چند کی آرا کو ہی دیوان میں شامل کیا ۔ باقی کو اس وجہ سے شامل اشاعت نہیں کیا کہ انہیں اپنی تعریف و توصیف پسند نہیں تھی۔ ان احباب سے آپ نے معزرت چاہی جوآپ کے دیوان میں شامل ہے۔

جنابِ آزادؔ بیکانیری کا زمانہ انیسویں صدی عیسویں کے نصف آخر سے بیسویں صدی عیسویں کے تقریباً نصف آخر تک ہے ۔ اس دور کی ممتاز شخصیات میں علامہ اقبال، حسرت ؔ موہانی، مولانا محمد علی جوہرؔ،الطاف حسین حالیؔ، احمد رضاؔ بریلوی، داغؔ دہلوی، سید وحید الدین احمدبیخودؔ ہلوی، امیرؔ مینائی، محسنؔ کاکوروی، شادؔ عظیم آباد، مولانا غلام شہید ؔ، آسی ؔغازی پوری،حسنؔ بریلوی،علامہ ضیاء القادری، محمد عبداﷲ بیدلؔ ، حافظ خلیل الدین حسن، حافظؔ پھیلی بھیتی، محمد یوسف راسخؔ ، منشی عبدالشکور خاں برقؔ اجمیری ، محمد عبداﷲصوفیؔشامل ہیں۔مذہبی عقائد کے اعتبار سے آپ سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت قبلہ حاجی سید جما عت علی شاہ نقشنبدی سجادہ نشیں علی پور سیدان ضلع سیالکوٹ (فیصل آباد)کے با قاعدہ مرید تھے۔

سخن فہمی آزادؔ صاحب کے خاندان کا طرۂ امتیاز رہا ہے، صاحبِ دیوان اور بقول ابن انشا بے دیوان شاعر بھی ہوئے ہیں۔آزادؔ صاحب بنیادی طور پر راجپوت تھے راجپوتانہ نے بھی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا کی ہیں، میرابائی، مہدی حسن اور ریشماں کو مشتاق احمد یوسفی نے راجستھان کے تین طرفہ تحفے قرار دیا ہے جن کے وہ قائل اور گھائل ہیں حالانکہ وہ خود بھی راجپو ت ہی ہیں۔ بعد میں ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع مظفرنگر (یوپی )کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔

میَں نے آزادؔ صاحب کو نہیں دیکھا اس کی وجہ یہ رہی کہ میں اُن کے دنیا سے رخصت ہو جا نے کے پورے نو ماہ بعد دنیا میں آیا۔ گویا آزادؔ صاحب نے اس دنیا سے واپسی کا سفر باندھا اور میَں نے اس دنیا میں آنے کی تیاری شروع کی۔ یہی اﷲ کا نظام ہے وہ دنیا میں اپنے بندوں کو بھیجتا اور واپس بلاتارہتا ہے۔ میرے لیے آزادؔ صاحب کی شخصیت کی ظاہری وَضع قَطع یا حلیہ بہ بیعنہٖ بیان کرنا مشکل ہوگا لیکن میں نے آزادؔ صاحب کے کئی بیٹوں کو جو میرے دادا ہوئے کو بہت قریب سے دیکھا، ان کے بعض بیٹے ان کا پَرتَو ، ظلّ یا پرچھائیں تھے۔ ان کو سامنے رکھتے ہوئے اور ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو میَں نے اپنے والد صاحب اور دیگر احباب سے سنیں آزادؔ صاحب کی شخصیت کا ظاہری حلیہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے۔ دبلے پتلے ،مِیانَہ قد ،کتابی چہرہ، سانو لا نکھرا نکھرا رنگ ، چہرے پر معصومیت، جسم و جسہ معدوم و موہوم ، متانت اور سنجیدگی ، معمولی مونچھوں کے ساتھ کالی داڑھی، کھڑے نقش، ستواں ناک، کرنجی آنکھیں، کشادہ پیشانی، جھدرے بال ، ہنستا مسکراتا چہرہ ، ہنستے وقت دانت نمایاں ہوا کرتے،مخروطی انگلیاں،نرم گفتار،سبک رفتار، مرنجاں مرنج،خوش لباس گھر میں کرتا پاجامہ عدالت جاتے وقت سر پر راجستھانی امامہ (پگڑی) ، کالی جبہ نما شیروانی اور علی گڑھ کاٹ کا پاجامہ، پیروں میں کبھی سلیم شاہی اور کبھی قائد اعظم کے فیتے والے بوٹوں جیسے بوٹ یہ ہے آزادؔ صاحب کی ظاہری شخصیت جومیں بنا سکا۔

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی شاعری
شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی شاعری کی ابتدا عشقیہ شاعری سے ہوئی یہ دور۱۹۰۳ء مطابق ۱۳۲۱ھ کا تھا۔ابتدا میں منشی عبدالشکور خاں برقؔ اجمیری شاگرد رشید حضرت داغؔ دہلوی سے اصلاح لی۔لیکن ان کا مزاج اس سے مختلف تھا تعلیم و تربیت اسلامی طرز پر ہوئی تھی ۔ مذہب سے خاص لگاؤ اورصوم و صلاۃ کے پابند تھے ۔ مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ذہن نے عشقیہ شاعری کو قبول نہ کیا اور بہت جلد اس سے راہِ فرار اختیار کی اور عشقیہ شاعری سے توبہ کرلی اور عہد کیا کہ نعت کے سوا کچھ نہیں کہیں گے۔ آپ نے مولانا مولوی عبدالحئی بیخود بدایونی سے بھی اصلاح لی۔ آزادؔ صاحب کا عشقیہ کلام جس قدر بھی تھا منظر عام پر نہ آسکا اور نہ ہی محفوظ رہا۔ آزادؔ بذات خود اس کے حق میں بھی نہ تھے کہ عشقیہ کلام منظر عام پر آئے۔ آپ بہت جلد غزل گوئی سے تائب ہوکر صرف حضور اکرم ﷺ کی مداح سرائی کی جانب آگئے اور مُدّت العمر نعت کہتے رہے۔

۱۹۱۳ء (۱۳۳۱ھ)میں آپ باقاعدسلسلہ شاگردی استاذ الشعراء افتخارالملک سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی جانشیں فصیح الملک داغ ؔدہلوی داخل ہوئے۔بیخودؔ دہلوی نے آپ کے بارے میں میں لکھا کہ ’ خمخانۂ بیخودؔ کے جرعہ کشوں میں ایک حاجی شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کا نام بھی درج رجسٹر شاگرداں ہے خدااُن کو زندہ رکھے صوفی منش انسان ہیں حمد و نعت کہتے ہیں عاشقانہ شعر نہیں کہتے تعجب خیز امر یہ ہے کہ باوجود شغل وکالت شعر کہتے ہیں ان کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چندہ محتاج نہیں ، کئی سال ہوئے میں نے ان کو نعت گوئی میں اپنا خلیفہ بنالیا تھا‘۔ بیخودؔ دہلوی نے آزادؔ صاحب کی شخصیت کا خوبصورت نقشہ اس طرح کھینچا ؂
نام آزادؔ وضع کے پا بند میرے شاگر دمیرے عاشقِ زار
ہیں یہ مداح سرور ِ عالم نعت گوئی ہے خاص ان کاشعار
ان کے اشعار سب ہیں تاریخی
کرتے ہیں واقعات کا اظہار
یہ محدث نہ یہ مُورخ ہیں یہ تو عشق نبی کے ہیں بیمار
ہیں یہ مداح سیرت نبوی اور مداح اِن کا بیخودؔ زار

آزادؔ صاحب ۱۹۰۳ء (۱۳۲۱ھ) میں سلسلہ مریدی پیر و مرشد حافظ حاجی سید جماعت علی شاہ نقشبندی سجادہ نشیں علی پور سیداں ضلع سیالکوٹ شامل ہوئے ۔ پنی ایک نظم میں آپ نے اپنے استاد اور پیر ، دونوں کو ایک ہی شعر میں کس قدر خوبصورتی کے ساتھ نذرانہ عقیدت پیش کیا ؂
استاد نے زبان دی مضمون شیخ نے
دیوان میرا مفت میں تیار ہو گیا

آزادؔ صاحب نے اپنے شاعر ہونے کے بارے میں انتہائی انکساری کے ساتھ یہ کہا کہ وہ نہ تو شاعر ہیں اور نہ ہی اہل زباں ہیں۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں بلا خوف و تردد کے کہہ دیتے ہیں۔ یہ ان کی انکساری ہے ورنہ ان کے قادر الکلام شاعر ہونے میں کسی بھی قسم کا شک و شبہ نہیں پایا جاتا۔ ان کے کلام میں زبان و بیان کی خوبیوں کے علاوہ شاعری کے علم و عروض کے سخت پابند نظر آتے ہیں۔لفظیات میں بھی آزادؔ بے مثال ہیں۔انہوں نے عام فہم اور سادہ الفاظ استعمال کیے۔ پروفسر سحر انصاری کے الفاظ میں جو انہوں نے نظیر اکبر آبادی کے لیے کہے تھے آزادؔ صاحب پر بھی صادق آتے ہیں کہ انہوں نے عامیانہ۔ سوقیانہ اور غیر شاعرانہ الفاظ کو بھی شاعری بنا دیا ہے۔

آزادؔ صاحب کی شاعری نہ تو مبہم و پیچیدہ علامتوں کی شاعری ہے اور نہ ہی دورِ ارتقا استعارات و کنایاتی کی بلکہ آپ کی شاعری سیدے سادے سچے جذبوں کے ارتعاش کی شاعری ہے ، عشقِ نبوی میں ڈوبے ہوئے خیالات کی شاعری ہے ۔ آپ کی شاعری وجدانی اور رسمیات سے بالکل پاک اور اس میں جذب و انجذاب کی وہ شدت بھی موجود ہے جو نبی اکرم ﷺ کی ذات و صفات سے والہانہ لگاؤ سے پیدا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کے عام سننے والے کے ذہن و دل میں آآسانی سے اُتر جاتی ہے۔ مولانا حسرت موہانی کے اس شعر میں کہی ہوئی بات
آزادؔ صاحب کی شاعری پر پوری اترتی ہے ؂
شعر دراصل ہیں وہی حسرت
دل میں سُنتے ہی جو اُتر جَائیں

آزاد ؔکی حمد نگاری :
شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کا نعتیہ دیوان ’’ثنائے محبوب خالق دیوان آزادؔ‘ کا آ غاز حمد باری تعالیٰ سے ہوا ہے۔آزادؔ صاحب بھی اپنی عبدیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پروردگار کی حمداس طرح بیان کرتے ہیں ؂
اﷲ تونے خاک کو انسان بنادیا
انسان کیا بنا یا مسلماں بنا دیا

انسان کو کائینات کے ایک ایک زرے میں ا ﷲ کی کبریائی اور اس کا جلوہ دیکھائی دیتاہے۔ آزادؔ نے اسے کس خوبصورت انداز سے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے ؂
جلوے جلوے میں لگا رہتا ہے پردا تیرا
پردے پردے میں نظر آتا ہے جلوا تیرا
آزادؔ نے بعض موقع پر نعت سے حمد پیدا کی ۔ فرماتے ہیں ؂
جب عالم امکاں ہی میں تو سب سے سوا ہو
تو جس کا ہو بندہ وہ بھلا کیوں نہ خدا ہو
حمد کے ایک شعر میں آپ نے پروردگار کے حوالے سے کیا خوب خیال پیش کیا ہے ؂
کیا بات تیری قدرتِ والا کی اے قدیر
کن کہہ کے جس نے عالمِ امکاں بنا دیا
اپنی ایک حمد میں آزادؔ خالق کائنات کی حمد سرائی میں کہتے ہیں ؂
سب کچھ تیری قدرت میں ہے سب علم میں تیرے
حاضر رکھا ہر شے کو بنا کر نہ بنا کر
حق تعالیٰ کی رحمت کا ذکر آزاد ؔ نے اس طرح کیا ؂
ظاہر ہے کہ رحمت ہے تیری عدل سے بڑھ کر
نیکی کو لکھا جاتا ہے دس درجے بڑہا کر
باری تعالیٰ کے ذکر کی فضیلت کے حوالے سے آزادؔ نے کیا خوب کہا ہے ؂
کیا بتائے کوئی اے ذکر فضیلت تیری
جب کہ مذکور ہے مذکور سے محبت تیری
نقش ہے دل پہ ترا سِکہ زبان پر تیرا
جسم پر حکم ترا جاں پہ حکومت تیری
تری تعریف ہے قرآن میں کیا کیا مذکور
کیا کیا مذکور حدیثوں میں ہے مدحت تیری
رات دن شام و سحر جاگتے سوتے ہر دم
ہے یہ ارشاد کہ کثرت سے ہو کثرت تیری
پانچ نمازوں اوراسلام کے پانچ بنیادی ارکان کا نقشہ کیا خوب پیش کیا ہے ؂
پنج نوبت ہے تری پانچ یہ رُکنِ اسلام
اﷲ اﷲ یہ تری شان یہ شوکت تیری
تجھ سے آباد مساجد ہیں کعبہ معمور
عرش پر شان تری کُرسی پہ طلعت تیری

آزاد ؔکی نعت نگاری :
آزادؔ اسر ا رِ شریعت سے واقف، کتاب و سنت کے بحرِ ذخار کے سچے عاشق اور صاحبِ فضل و کمال ہیں۔ثنا خوانی میں جس باریک بینی، احتیاط اور ادب شناسی کی ضرورت ہو تی ہے آزادؔ اس سفر میں بہت ہی خوبی کے ساتھ گزرے ہیں۔ زبان و بیان پر غیر معمولی دسترس حاصل ہے ۔ ا متیاز الشعراء بیخودؔ دہلوی نے آپ کے کلام کے بارے میں فر ما یا کہ ’’ا ن کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چنداں محتاج نہیں ہے‘‘ ۔آپ کا کلام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آپ نے کلام اﷲ سے مدحت سر ائی سیکھی اور حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ جیسے مدحت سرا اور عاشق رسول کو اپنا راہ رو بنا یا ؂
لکھتا ہوں کیا ثنا رُخِ عالی جناب کی
تفسیر لکھ رہا ہوں خدا کی کتاب کی

نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’وصف ‘ یا ’مدح ‘کے ہیں یا ’’کسی شخص میں اچھی اور قابل ذکر صفات و خوبیوں کا پایا جا نااور ان خوبیوں کا بیان کیا جانا‘۔ لیکن اسلامی معاشرہ میں لفظ ’نعت‘ کا استعمال مجازاً صرف اور صرف سید المرسلین خاتم ِالا نبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے توصیف ثنا یعنی تعریف کے لیے ہوا ہے۔ اردو اور فارسی میں لفظ نعت سے مراد حضر ت محمد ﷺ کی مدح و ثنا مراد ہوتی ہے۔ عربی میں ’مدح النبی‘ یا ’المدائح النبویہ‘کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد رفیع الدین اشفاق جنہوں نے اردو میں نعتیہ شاعری پر پہلا تحقیقی مقالہ تحریر کیا جس پر انہیں ناگپور یونیورسٹی سے ۱۹۵۵ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی کے خیال میں ’اس صفت کا تعلق دینی احساس اور عقیدت مندی سے ہے اور اسے خالص دینی اور اسلامی ادب میں شمار کیا جاتا ہے ‘۔ اسی طرح ڈاکٹر شاکر اعوان کی تصنیف ’’عہد رسالت میں نعت‘‘
اردو ادب میں اپنے موضوع پرقابل تعریف کام ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تصنیف ’’اردو کی نعتیہ شاعری‘‘ اپنے موضوع پر معتبر حوالہ ہے۔

نعت کہنا یا نعت کا پڑھنا مسلمان کی حیثیت سے باعث بر کت اور باعث ثواب تصور کیا جاتا ہے ۔ بے شمار شعراء جو صرف عشقیہ شاعری کیا کرتے ہیں انہوں نے حصول ثواب کی غرض سے نعت بھی کہی بعض نے تو ثواب کی خاطر اور بعض نے صرف اس لیے نعت کہی تاکہ وہ اپنے آپ کو نعتیہ شعراء کی صف میں بھی کھڑا کرسکیں۔جنابِ آزادؔ کے پورے نعتیہ کلام میں نبی اکرم ﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار نمایاں ہے۔ آپ کے کلام سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کہنے والاعشقِ رسول ﷺ میں مجسم ڈو با ہوا ہے وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہے۔ان کے اشعار بسا اوقات پڑھنے والے پر اس قدر شدید اثر ڈالتے ہیں کہ وہ اندر سے تڑپکر رہ جات ہے اور محسوس کرتا ہے جیسے وہ
از خود اپنے نبی کی شان بیان کر رہا ہے ؂
پڑھتا ہوں میں نبی پہ درود و سلام آج
اﷲ سے ہم کلام ہے میرا کلام آج
بخت رسا نکال دے اتنا تو کام آج
دربار مصطفےٰ میں ہو میر ا سلام آج

آزادؔ صاحب کے کلام سے واضح ہے کہ آپ کو اردو اور فارسی کے ساتھ ساتھ عربی پر بھی عبور حاصل تھا ، آپ کا فارسی کلا م جو خاص آپ کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے باوجوہ شائع نہیں ہو سکا ۔ عربی زبان کے الفاط کا استعمال ، قرآنی آیات کا ترجمہ آپ نے اپنے کلا م میں بہت ہی خوبی سے نظم فر ما یا ۔ جناب ِآزادؔ نے تحریر فر مایا کہ ’’حمد و نعت کیا ہے ۔واقعی خدا کا شکر یہ ادا کرنا ہے خدا کی صفت تو پھول تو کیا پتے پتے سے ظاہر ہوتی ہے۔حسن و اخلاق کے بیان کرنے کے لیے ذات مقدس محبوب خدا کی ایسی ہے کہ اگر تمام عمر ایک صفت کے ہی بیان میں خرچ کی جائے تو ایک شمہ بھی بیان نہیں ہوسکتی۔ اگر نعت کے بیان کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لیا جائے تو عین موجب خوشنودی خدااور رسول ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ اس کے بیان کرنے کے لیے قرآن پاک و تفاسیر و کتب سیر پر غور کر نا پڑتا ہے اور جس قدر انہماک اس میں
ہوگااسی قدر حضور کا عشق اس کے دل میں ہوگا جو عین ایمان ہے ‘‘ ؂
الستُ ربکُم ارشاد خالق جب ہوا سب سے
تو سب کا مقتدیٰ ہو کر بڑ ہا آگے بلےٰ تیرا
کھلے ہیں معنی ٔ یٰسین و طٰہٓ جو کوئی سمجھے
ہر اک ان میں لقب ہے اے حبیب کبریا تیرا
حدیثوں میں بیاں تو نے کیا ہے حمدِ خالق کو
خدا قرآن میں مداح ہے خیر الوریٰ تیرا
کیا بات تیری قدرتِ والا کی اے قدیر کن کہہ کے جس نے عالم امکاں بنا دیا
ربٌِ ہَب لِی اُ متی کَہتے ہیں آپ
مختصر سا ہے سوالِ مصطفےٰ

جس کی تعریف و توصیف مالکِ کائینات نے بیان کی ہو اس کی شانِ اقدس میں عقیدت کے پھول کسی بھی بندے کی جانب سے پیش کیے جائیں بڑی سعادت کی بات ہے۔ آنحضرت محمد ﷺ کی مدح و ثنا بیان کرنے کا شرف آپ کے چچا جناب ابو طالب کو حاصل ہے جنہوں نے بنو ھاشم کو اس بات پرآمادہ کیا کہ وہ محمد ﷺ کو کفار مکہ کی زیادتیوں سے بچائیں۔ دوسرا مدح جاہلیت کا نامور شاعر اعشی بن قیس کو کہا جاتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے لکھا ہے کہ عربی کے اولین نعت نگار وں میں جناب ابو طالب اور اُمِ مُعبد کے نام آتے ہیں۔ دونوں کی نعتیں ، عربی ادب کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتی ہیں اور ان کے حوالے، بعد کے اکثر نعت گو شعراء کے یہاں ملتے ہیں۔ اُم ِمعبد کا نام عاتکہ بنتِ خالد ہے اور اس کی نثری نعت کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے ہے کہ اسے متعدد عربی شعرا نے منظوم کیا ہے، اس کے مواد کو بطورِ تلمیح اپنے کلام میں صرف کیا ہے ، اور حضرت حسان بن ثابت ؓ نے اس کے حوالے سے ایک پورا نعتیہ قصیدہ کہہ کر اپنے دیوان کو مُزین کیا ہے‘‘۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروق ؓ ، حضرت علی ؓ عہد رسالت کے مادحین رسول ؑ میں سے تھے ۔ حضرت حسان بن ثابت کو عہد نبوی میں ہی منبر عطا کیا جاتا تھا تاکہ وہ اپنی شعری تخلیقات (نعت) پیش کر سکیں۔ حضرت حسان بن ثابت کے علاوہ عہد رسالت میں جن مادحینِ رسول ؓ کا ذکر ملتا ہے ان میں حضرت حمزہؓ بن عبد لمطلب، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عبداﷲابن رواحہ ،حضرت سید ابن ابی ناس ا کنانی، حضرت مالک بن المنظ، حضرت عباس ؑ، حضرت ابو سفیان بن الحارث ، حضرت کعب بن مالک ؓ حضرت مالک بن نمطہ شامل ہیں ۔ خواتین میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت فاطمہ الزہرہؓ سے بہت سے نعتیہ اشعار منسوب ہیں ۔حضرت صفیہؓ بنت ابی طالب،حضرت عاتکہ ؓ
بنت عبد لمطلب شامل ہیں۔ حضرت حسان کا یہ خوبصور ت شعر ملاحظہ کیجئے ؂
وَاَ حْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ وَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآء‘
ترجمہ (اے حسن و جمال کے آقا ﷺ آپ سے بڑھ کر حسین و جمیل میری آنکھوں نے کسی کو نہیں دیکھا اور آپ ﷺ سے بڑھ کر جمیل کسی عورت نے بچہ پیدا نہیں کیا)۔ حضرت حسان ؓ کو شاعر اسلام اور شاعر النبی ؑ‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔نعت رسول ﷺ کے بیان کرنے میں آزا د ؔ صاحب نے اپنے آپ کوحضرت حسان بن ثابت ارضی اﷲ عنہ کا مقلد کہا ۔ جناب آزادؔ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے ؂
نعت میں ہوں اُسی شاعر کا مقلد میں بھی
مل گئی تھی جسے خلعت میں ردائے آقا
شائقو دل سے ہمیں میلاد خوانی چاہیے
قلب ِ صدیقی بیان حّساں زبانی چاہیے

حضرت کعب بن زبیر عہد رسالت کے مداحین میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ حضرت کعب ؓ نے جب اپنا قصیدہ بردہ شریف حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپؑ سن کر اتنے خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک اتار کر انعام میں دے دی اسی لیے اس قصیدے کا نام قصیدۂ بردہ پڑ گیا۔عباسی عہد میں مداح سرا ابو لاعتاحیہ کا نام ملتا ہے۔ ان کے علاوہ ابن الفارض، عبد اﷲ الیافعی، صرصری اور امام البوصیری، ابن نباتہ مصری، شہاب الدین محمود الحلبی، ابن جابر الاندلسی ، ابن خلدون ، عبد اﷲ اشیرازی، حسین دجانی ، عبدالغنی النابلسی قابل ذکر ہیں۔

صحابہ اکرم کے بعد مداح سرائی کا سلسلہ بطور مقدس فن کے جاری رہا ۔ صوفیاء اکرام بھی محبت رسول ﷺ میں سر شار نظر آتے ہیں۔امام ابو حنیفہ کے نعتیہ قصائد مشہور ہیں۔ امام ذین العابدین، غوث اعظم، خواجہ بختیار کاکی، خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت شمس تبریزی، مولانا روم، سعدی شیرازی، بو علی شاہ قلندر، خواجہ نظام الدین اولیاء، حضرت امیر خسرو، مولانا جامی، مولانا احمد رضاء خان بریلوی، فردوسی، بابا طاہر، ابو سعید ابو الخیر، عبداﷲ انصاری، حکیم سنائی، فریدالدین عطار، نظامی، خاقانی، فردوسی،سوری، نظامی، عرفی، قدسی، رامی اور علامہ اقبال فارسی اور اردو زبان کے نعتیہ کلام کے سرمائے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔فارسی شعرا میں جامیؔ کی نعت کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے ؂
نسیما جانبِ بطحا گزر کن
زاحوالم محمد ﷺ را خبر کن

جامی ؔ کا ہی یہ فارسی شعر کس قدر مشہور ہے اس شعر کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہے ؂
لَا یُمْکِنُ الثَّنَآ ءُ کَمَا کَانَ حَقُّہ‘
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
سعدی شیرازی کی عربی کی یہ نعت زبانِ زد خاص و عام ہے ؂
بلغ العلیٰ بکمالہٖ کشف الدّجیٰ بجمالہٖ
حسنَت جمیع خصالہٖ صلو علیہ و آ لہٖ
امیر خسرو کی نعت کا یہ شعر دیکھئے ؂
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سورقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم
خدا خو د میر مجلس بو د اند ر لا مکاں خسرو
محمد ﷺ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
جان محمد قدسی کی نعت کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے ؂
مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جان بادفدایت چہ عجب خوش لقبی

اردو زبان کے قدیم و جدید شعراء میں یوں تو بے شمار نام ملتے ہیں لیکن گیسو دراز ، فخر الدین نظامی ،قدسی ، بیدل ، غالب ، ملا وجہی، عوارض، ابن نشاطی، نصرنی، ولی، سید محمد اکبر حسینی، سراج، سودا، شیراز، باقر آقاہ، نظیر اکبر آبادی، شہید،غالب، مومن ، لطف، راجہ مکھن لال، منشی شنکر لال، ساقی،ولی دکنی، سودا، جگر، میر، انیس، دبیر، امیر مینائی، محسن کارکوروی، شائق، حالی، شبلی، ظفر علی خان،حالی، حفیظ جالندھری، نظم طباطبائی، طوفان نیرت، جلیل،شاہ نیاز بریلوی، بیدم وارثی بہزاد لکھنوی ،مولانا احمد رضا خان، ،ماہر القادری، خلیل صمدانی کے علاوہ شیخ محمد ابرہیم آزاد شامل ہیں۔ دور حاضر کے نعت گو شعراء میں اثر صہبائی، احسان دانش، اختر لکھنوی، ادیب رائے پوری، ارمان اکبر آبادی، اعجاز رحمانی، اقبال صفی پوری، انور جمال، تابش دہلوی، حفیظ تائب، حافظ لدھیانوی، خالد بزمی، ذوق ،ظفر نگری، ذہین شاہ تاجی، راغب مرادآبادی، ستار وارثی، سر شار صدیقی، سعید وارثی، اقبال عظیم، سیماب اکبر آبادی، صبیح رحمانی، صہبا اختر، عاصی کرنالی، محشر بدایونی،جمیل نقوی، تابشؔ صمدانی خاص طو ر پر قابل ذکر ہیں۔
امیر مینائی کا نعتیہ کلامتاثر کن ہے ؂
جب مدینے کا مسافر کوئی پاجاتا ہوں
حسرت آتی ہے کہ یہ پہنچا میں رہا جاتا ہوں
دو قدم بھی نہیں چلنے کی ہے طاقت مجھ میں
شوق کھینچے لیے جاتا ہے میں چلا جاتا ہوں

حسرت موہانی بے شمار صلاحیتوں کے مالک۔ شاعر، ادیب، صحافی، محقق، تذکرہ نگار اور سیاسی رہنما۔ ان کی نعتیں دل میں اترنے والی ہیں۔اپنے بارے میں کیا خوب شعر کہا ؂
غالب و مصحفی و میر و نسیم و مومن
طبع حسرت نے اٹھا یا ہے ہر اُستاد سے فیض

علامہ اقبال ایک قومی شاعر ہیں یوں تو ان کا شمار نعت گو شعراء میں نہیں ہوتا لیکن ان کے فارسی اور اردو کلام میں خوبصورت نعتیں موجود ہیں۔اقبال کے یہ خوبصورت شعر ؂
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
کی محمدﷺ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

جمیل نقوی کو ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی نے ’سرکار کی چاہت والے‘ کہا ہے۔ ان کی کہی ہوئی حمد و نعت بہت مقبول ہیں ؂
کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بُھول گیا
یو ہوش و خِردمفلوج ہوئے دل ذوقِ تماشا بُھول گیا

سید فصیح ر حمانی جتنی اچھی نعت پڑھتے ہیں ان کی کہی ہوئی نعت بھی خوب ہوتی ہے ؂
کعبہ کی رونق کعبہ کا منظر ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر
دیکھوں تو دیکھے جاؤں برابر ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر
حیرت سے خود کو کبھی دیکھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کبھی میں حرم کو
لایا کہا ں مجھ کو میرا مقد ر ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر
تیرے کرم کی کیا بات ہے مولا، تیرے حرم کی کیا بات ہے مولا
تا عمر کر دے آنا مقدر ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

آزادؔ صاحب سے پہلے بھی اس خاندان کے احباب میں ادبی و شعری ذوق پایا جاتا تھا آزاد صاحب کی اولادوں اور خاندان کے بے شمار احباب سخن فہمی کا ذوق رکھتے ہیں ۔ صاحبِ دیوان اور بے دیوان شاعر و نثر نگار بھی ہیں۔آزاد ؔ صاحب کے بیٹے خلیل صمدانی خلیلؔ کی کہی ہوئے نعتیں بھی گہرا اثر رکھتی ہیں ۔ ان کا مجموعہ کلام ’گلزار خلیل‘ تابش ؔصمدانی مرحوم نے مرتب کیا۔ تابشؔ صمدانی کے بیٹوں رہبر اور سرور میں شعری ذوق پایا جاتا ہے اور شعر کہتے ہیں ۔تابش ؔصمدانی بھی نعت گو شاعر تھے۔ ان کی نعتوں کے کئی مجموعے شائع ہوچکے۔ ان کا ایک شعر
ملاحظہ کیجئے ؂
یہ بھی مرے اجداد کا احسان ہے تابش
ورثہ میں ملا ہے مجھے مدحت کا قرینہ

تابشؔ کے اس شعر کے حوالے سے مَیں نے کبھی تابشؔ صمدانی کے لیے یہ شعر کہا تھا ؂
وراثت میں ملی ہیں جسے آبا کی صفات
کتنا خوش نصیب مدح سرا ہے تابشؔ

آزادؔ صاحب ان خوش نصیبوں میں سے ہیں کہ جن کے بیٹے، پوتے اور اب پڑپوتے ان کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہیں۔ تابش ؔ صمدانی کے بیٹوں رہبرؔ صمدانی اور سرورؔ خلیل صمدانی خوب شعر کہتے ہیں ۔ سرورؔ صمدانی کا یہ شعر ملاحظہ ہو ؂
اجداد کو میرے صدیاں بیتیں مداح سرائی کرتے ہوئے
نعتِ نبیؑ کہنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

حافظ ضیاؔ احمد مشتاق مرحوم ، آزادؔ صاحب کے پوتی داماد ہیں یعنی جناب خلیل احمد صمدانی کے داماد۔ ان کا مجمو عہ کلام ’گرداب تمنا‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔ حافظ ضیا صاحب مرحوم کے بیٹے فرخ ضیا اور اطہر ضیا سخن فہم ہیں ، شعر کہتے ہیں، نثر بھی خوب لکھتے ہیں ۔ ضیاؔ صاحب کا ایک خوبصورت شعر ؂
ہماری بس یہی روداد ہے اے داورِ محشر
خطائیں ہوتی رہتی ہیں پشیماں ہوتے رہتے ہیں
ضیا ؔصاحب حافظ قرآن بھی تھے اس مناسبت سے انہوں نے کیا خوب شعر کہا ؂
پوچھے گا خدا مجھ سے کیا لائے تو کہہ دوں گا
الفت ہے محمدؑ کی سینے میں بھی قرآں ہے
میَں آزادؔ صاحب کا پڑ پوتا ہوں ۔خود کو شاعر تو نہیں کہتا البتہ ضرورت کے مطابق کچھ کہہ لیتا ہوں۔ نثر لکھنے سے فرصت نہیں ملی ۔ شعر و ادب کا ذوق وراثت میں ضرور ملا ہے ۔ جیساکہ خود میں نے عرض کیا تھا ؂
ہو کیوں نہ ناز مجھے سخنوری پہ رئیسؔ
میرے ہی اجداد کا ورثہ ہے جو مجھے ملا ہے

اﷲ تبارک و تعالیٰ نے مجھے تین بار بالترتیب (۲۰۱۱ء،۲۰۱۳ء،۲۰۱۴ء) عمرہ کی سعادت نصیب فرمائی ۔ خانہ کعبہ پر حاضری کے موقع پر میں نے کچھ اس طرح عرض کیا ؂
رَحمتَ کا تیری منظر دیکھ رہا ہوں
دعاؤں کا اپنی ثَمَر دیکھ رہا ہوں
رَونَق تیرے گھر کی دیکھ رہا ہوں
نا چیز پہ تیرا اَبر ِ کرم دیکھ رہا ہوں
روضہ ٔ رسول ﷺ پر حاضری نصیب ہوئی ۔ اپنی کیفت کو اس طرح بیان کیا ؂
بلاوے پہ نبیؐ کے میں مدینے آگیا ہوں
خوش ہوں زندگی میں یہ مرتبہ پا گیا ہوں
تھی یہ آرزُو مدت سے مدینہ دیکھوں
کرم پہ اپنے نبیؐ کے ، مراد پا گیا ہوں
تھی تمنا ریاض الجنہ میں ہو ایک سجدہ نصیب
جبیں کو جنت میں جھکا نے کا اعزاز پا گیا ہوں
نگاہیں کیسے ہٹتیں رو ضے کی جالیوں سے رئیسؔ
برسوں کی پیاس کا احساس پا گیا ہوں

کسی بھی مصنف یا شاعر کا کلام اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جناب آزادؔ کے کلام سے ان کی شخصیت کے خدوخال کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں۔آپ ان خوش نصیب شعراء میں سے ہیں کہ جنہیں مدحت سراحی تحفۂ خدا وندی کے طور پر ملی۔نعت گوئی ان کے خمیر کا لازمی حصہ ہے۔آزادؔ صاحب نے حمد، نعت، قصیدہ، رباعیات، قطعات ، سلام اور دیگر اصناف شاعری میں زندگی کے ہر ہر موضوع کو خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اچھے اخلاق اور حضور کے پاکیزہ عمل سے پھیلا، اس موضوع کو کس خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ؂
یا نبی تیر ا مبارک ہو ا آنا کیسا
تجھ سے پہلے تھا جہالت کا زمانہ کیسا
جُھوٹ کہتے ہیں کہ تلوار سے پھیلا اسلام
کام باتوں سے لیا تیغ چلانا کیسا

شب معراج کے واقعات کا ذکر جناب آزادؔ نے عشق مصطفےٰ میں ڈوب کر کیا ۔ اس کیفیت کو آپ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے کے دل میں بھی وہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے اس کلام کا کہنے والا گذرا ہے۔اﷲ نے آپ کو غیر معمولی دسترس، جذبہ صادق اور بصیرت سے نوازاتھا۔ آپ نے اپنی اسی خداداد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے کلام کو ان خصو صیات کے ساتھ پیش کیا اور
کامیاب و کامران ہوئے ؂
شبِ معراج تیرا بن کے مہماں عرش پر جانا
مقدر تیری اُمت کا تھا پستی سے ابھر جانا
آزاد ؔ صاحب نے حج وزیارت روضہ القدس کی خواہش و تمناّ ،زیارت طیبہ کی تڑپ کو اپنے دل کی گہرائیوں سے مختلف نعتوں میں بیان کیا ہے ؂
ارمان ہے مدینے کا کعبہ کی آرزو
لے چل خدا کے واسطے بخت رسا مجھے
روضہ رسول ﷺ کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا ؂
شکر خدا غلام ہے آقا کے سامنے
پہنچا دیا ہے پیاس نے دریا کے سامنے
جناب آزاد ؔ کی خوش نصیبی کہ آپ کو خواب میں رسولِ مقبولﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ نے اپنے کلام میں اس سعادت کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے ؂
گُم کیا خواب میں بھی جلوہ دکھا کر مجھ کو
رخ روشن بھی دکھا یا تو چُھپا کر مجھ کو
میں قسم کھا کے یہ کہہ دونگا کہ جنت دیکھی
شہ دکھا ئیں گے اگر روضہ بُلا کر مجھ کو
حضور اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت کا ذکر بہت ہی اچھے انداز سے کیا ؂
ہو مبارک باعث کون و مکاں پیدا ہوئے
فخر آدم شاہِ عالم جانِ جاں پیدا ہوئے
چاند کو دو ٹکرے کرنے کا ذکر جناب آزادؔ اس طرح کر تے ہیں ؂
دو ٹکڑے جس نے بدر کو ایمان سے کر دیا
یہ ہے کمال نا خن رشک ہلال کا
آزادؔ نے بعض اہم موضوعات کو بہت ہی خوبصورت اور واضح الفاظ میں بیان کیا ہے ؂
کیا رتبہ بیاں ہو سکے اس شاہ ہدیٰ کا
وہ نور ہے اَﷲ ُ غنی کس خدا کا
وہ اول مخلوق ہے وہ افضل مخلوق
وہ اشرفِ مخلوق ہے محبوب خدا کا
صورت کا وہ نقشہ ہے کہ وہ نور خدا ہے
سیرت کی وہ صورت کہ ہے محبوب خدا کا
سر کیا نا نا کی اُمت پر فدا
پھل یہ لایا ہے نہالِ مصطفےٰ
کیوں کام لے قدموں سے مدینے کے سفر میں
شیدائے نبی سر ہی کے بل جائے تو اچھا
اردوزبان اور اپنے استاد جناب بیخوؔد دہلوی تعریف و توصیف بیان کر تے ہوئے جناب آزادؔ فر ماتے ہیں ؂
شکر صد شکر اے خلاق زبانِ اردو
فضل سے تیرے نمایاں ہوئی شانَ اردو
نظم ، قصائد، رباعیات، منقبت، سلام اور تصوف

آزادؔ ؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔنے حمد و نعت کے علاوہ نظم ، قصائد، رباعیات، سلام اور منقبت بھی کہیں جو آپ کے بزرگان دین سے دلی عقیدت کا اظہار ہے۔آپ کا نعتیہ ومنقبتی کلام پُر اثر اور پڑھنے والے کے دل پر گہرا اثر کرتا ہے۔ آپ سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت قبلہ حاجی سید جما عت علی شاہ نقشنبدی سجادہ نشیں علی پور سیدان ضلع سیالکوٹ (فیصل آباد)کے با قاعدہ مرید تھے۔ آپ کے پیر و مرشدکے یہاں سالانہ جلسہ انورا لصوفیہ کا ہوتا تھا ۔آزادؔ صاحب نے ان جلسوں میں(۱۹۰۵ء تا ۱۹۱۷ء) باقاعدہ شرکت فرمائی اور اپنی نظمیں پیش کیں۔ آپ کے دیوان کا حصہ دوم انہیں نظموں پر مشتمل ہے۔ ان نظموں میں آپ نے اپنے پیر و مرشد کی عزت ، احترم و توقیر جس انداز سے بیان کی کے اس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آپ اپنے شیخ کا کس حد تک احترم کیا کرتے تھے۔ آپ کی نعتوں میں بھی اکثر آپ کے شیخ کا ذکر ملتا
ہے۔

آزادؔ صاحب نے تصوف کے موضوعات اور جذباتِ حقیقی کو باریک بینی اور خوبی کے ساتھ نظم میں بیان کیا ہے ۔ آپ کے نثری مضامین تصوف کے مشکل مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ اس موضوع کے حوالے سے آپ کے چند اشعارملاحظہ ہو ں ؂
جب فانی و مجبور یہ انسان بنا ہو
کیا قادر و قیوم کی پھر اس سے ثنا ہو
میں خاک ہوں تو نُور ہے کیا تیری ثنا ہو
ممکن نہیں ممکن ہے اگر تیری عطا ہو
رہ کر عرب میں تیرے اُمی رسول نے
اہل عجم کو صاحب عرفاں بنا دیا
ذی عقل آدمی کو بنا یا تو کیا ہو ا
دانا بنا کے پھر مجھے ناداں بنا دیا
تونے آزادؔ غزل نعت میں لکھی کیا خوب
دیکھنا ہوگا یہ مقبول تر ا نا کیسا

آپ تصوف کی معراج پر فائز ہیں چنانچہ اپنے اس مقام کا ذکر بھی انہوں نے اپنے کلام میں کیا ، اہل تصوف کے اجلاس میں آپ نے بڑی خوبی سے عام انسان کو تصوف کے درجات کے بارے بتا تے ہوئے کہا کہ ؂
سنگلاخ زمیں رکھتی ہیں یہ منزلیں اپنی
خود چل کے نہ گرنا کہیں تم ٹھو کریں کھا کر
اس مرد خدا کی تمہیں ہے سخت ضرورت
جو کھینچ لے اوپر کو ذرا ہاتھ بڑھا کر
آئے نہ نظر گر تمہیں تھک جائیں نگاہیں
تب دیکھنا آزاد ؔ کی عینک کو لگا کر

جناب آزادؔ نے اپنی شاعری کے پیغام میں طریقت کو شریعت کاپابند بنایا چنانچہ آپ نے تمام مسلمانوں کو اور خاص طور پر اہل طریقت کو کھلے ہوئے الفاظ میں بتا دیا کہ ؂
اے طریقت توضیا ہے اور شریعت خورشید
سیرت مہر ہے تو مہر ہے صورت تیری
جناب آزادؔ نے حضرت غوث الا عظم محی الدین جیلانی، خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اور خواجہ حمید الدین ناگوری ؒ کی شان میں منقبت بھی کہی ۔ ان کے چند اشعارملاحظہ ہوں ؂
قتیل رنگ ِ یزدانی محی الدین جیلانی
شہید ِ ناز سبحانی محی الدین جیلانی
علیم علم ِ عر فانی محی الدین جیلانی
خبیر راز پنہانی محی الدین جیلانی

حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اور حضرت سلطان حمید الدین نا گوری رحمتہ اﷲ علیہما کی شان میں منقبت کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے آزادؔ نے کہا ؂
عجب ہیں دونوہی سلطان معین الدین حمید الدین
شہ دیں صاحب ایماں معین الدین حمید الدین
مالماں کیوں نہ شیدا ہوں کہ ہیں اسلام میں دونو
وہ نورقلب یہ ایماں معین الدین حمید الدین

آزادؔ دنیامیں رونما ہو نے والے حالات اور واقعات سے لا علم نہیں تھے بلکہ ان کی نظر پوری دنیا خصو صاً اسلامی ممالک میں ہو نے والے مظالم اور ذیادتیوں پر بھی رہتی تھی اور ان مظالم کو جو مراکش، ایران ، اٹلی، کابل اور ہندوستان کے مسلمانوں پر ہو رہے تھے انکی کسک وہ اپنے اندر محسو س کیا کرتے ان کا اظہار آپ نے بہت ہی خوبصورت انداز سے کیا ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂
علم مولا میں ہے جو حال مراکش اب ہے
کیسا مظلوم ہے ایران رسولِ اکرم
شہ کو معلوم ہیں اٹلی کے مظالم جو ہیں
اب غضب ڈھاتا ہے بلقان رسولِ اکرم
سلطنت مُلک مراکش کی بھی رکھنا قائم
اور سلامت رہے ایران رسولِ اکرم
اس پہ سایا رہے الطاف و کرم کا تیرے
جو یہ کابل کا ہے سلطان رسولِ اکرم
ہند والے بھی مسلماں ہوں ایسے آقا
جیسے تھے اگلے مسلماں رسولِ اکرم
ختم آزاد ؔ کی فر یاد ہے مولا اس پر
ہو درود آپ پہ ہر آن رسولِ اکرم
حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حضور سلام سوز غم اس طرح پیش کیا ؂
سوز غمِ امام میں آہ و غا ں نہیں
ایسا جلا دیا ہے کہ مطلق دہواں نہیں
آزادؔ کیا کہو گے سلامِ جناب پاک
طرزِ بیاں نہیں تمہیں تاب بیاں نہیں

فرماں روائے کابل سلطان محمد حبیب الرحمٰن خان بہادر کی ہندوستان آمد کے موقع پرآپ نے ایک نظم کہی آپ کے بقول یہ نظم برادران صاحبان قوم کی خواہش پر کہی ۔
مرحبا ہند ترے آج جو مہماں آئے
بارک اﷲ عجب شان کے سلطان آئے

آزادؔ صاحب نے بچوں کو انگریزی پڑھانے، کھیتی باڑی کرانے یا مدرسوں میں پڑھا کر مسجد کا مولوی بنانے کے عمل کواچھوتے انداز سے بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بچہ کھیتی باڑی کرے تو اسے کہا جاتا ہے کہ یہ کام تو کم تر لوگوں کا ہے ۔ انگریزی پڑھنے کی صورت
میں اسے والدین کے لاڈ پیارسے تعبیر کیا جاتا ہے اور اگر بچہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کرے تو اسے مسجد کا مولوی کہاجاتا ہے ۔ یہ صورت حال بچے کو کہیں کا نہیں چھوڑتی ۔ اس خیال کو آپ نے اس قطعہ میں اس طرح بیان کیا ؂
کھیتی کریں تو کہتے ہیں کام جاٹ کا
انگلش پڑہیں تو کہتے ہیں بچہ ہے لاٹ کا
مسجد کا مُلاں کہتے ہیں جو علمِ دین پڑہیں
جاہل ہے کُتا دہوبی کا گھر کا نہ کاٹ کا
جنابِ آزادؔنے رباعیات بھی کہیں ۔چند رباعیات ملاحظہ ہوں ؂
خاک بنتا ہوں تو ٹھو کر سے اُڑا دیتے ہیں
آنسوبنتا ہوں تو آنکھوں سے گرا دیتے ہیں
پھونس بنتا ہوں تو ہوں چھاج میں پھٹکا جاتا
دانہ بنتا ہوں تو چکی میں دلا دیتے ہیں
کیسی گھبراتی جوانی بسواری آئی
کہہ گئی جاتی ہوں میں پیری کی باری ّئی
آتے ہی بیٹھ گئی ٹیک کے زانو پیری
چو نکہ یلغار چلی تھی تھکی ہاری آئی

آزادؔ صاحب ہندوستان میں بے راہ روی اور اسلام سے دوری کو محسوس کررہے تھے ۔ ان حالات کا انہیں ادراک بھی تھا اور وہ ان کے لیے پریشان بھی دکھا ئی دیتے ہیں۔ ایک جگہ ان حالات کا ذکر اس طرح کیا ؂
کیا کہوں ہند میں اسلام کی حالت کیا ہے
مٹتے جاتے ہیں جہاں دین کے طور و اطوار
آزاد ؔصاحب مسلمانوں کی دین سے دوری کی وجہ خود انہیں قرار دیتے ہیں اور اس کے زوال کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں ؂
ہم نے خودپاؤں میں اپنے ہی کلہاڑی ماری
توڑ کر دین کے ارکان رسولِ ؑ اکرم
چودھویں صدی میں اسلام سے متعلق حالات تھے ان کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ زمانے کا نقشہ ہی پلٹ گیا ہے جو کل تک اسلام سے دور تھے وہ اسلام کے دعویدار بن گئے ہیں۔ اس دور کے بارے میں آپ نے اپنی ایک نظم میں کہا ؂
یک بہ یک رنگ زما نے کا یہ پلٹا کیسا
اے صدی چودہویں تیرا ہے یہ نقشہ کیسا
جناب ِ آزادؔ نے اپنے تخلص کے حوالے سے ایک جگہ کہا ؂
تخلص پر مرے آزادؔ جو حیراں ہیں ، ناداں ہیں
غلام اس شہؑ کا ہوں جس کے غلام آزاد رہتے ہیں

آزاد ؔ کو بیکا نیر کی اردو شعراء برادری میں غیر معمولی مقبولیت اور عزت و تو قیر حاصل تھی چونکہ آپ حضرت بیخودؔ دہلوی سے شرف تلمیذ رکھتے تھے اس لیے اس فن میں درجہ اعتبار حاصل تھا اور راجستھان کے تقریباً تمام شعراء ہی ان کے دامانِ فیض سے وابستہ تھے۔ آزادؔ الفاظ کے مزاج دان ہیں، صداقت‘ جذبات‘ عقیدت اور خلوصِ اظہار ان کی قدرتِ کلام کے ضامن ہیں اور سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ سوز و گداز شاعر کا خاص وصف ہے۔ ان کے ہاں ایک خوش گوار قسم کی جدت پسندی اور ندرتِ بیان کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کے کلام میں آپ کاشعری باطن تمام تر طہارت کے ساتھ جلوہ نما ہے بلکہ ایک خوشبو بھی ہمراہ ہے جس میں ان کے اظہار و افکار معطر ہیں۔

آپ نے عربی، فارسی اور اردو کے الفاظ اورمحاورات کاخوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر آزاد مکمل طور پر شعر و سخن کی جانب مائل ہوتے ، ان کے کلام کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ طبع کرنے کا اہتمام کیا جا تا اور اس کی مناسب تشہیر بھی کی جاتی تو ادب اور شعر و شاعری کے دنیا میں دیگر معروف شعراء اور ادیبوں کی طرح آزادؔ صاحب کا مقام محفوظ ہوتا اور شہرت کی بلندی پر ہوتے لیکن عشقِ مصطفےٰ میں مجسم ڈوبے ہوئے اس عاشق رسول ﷺ نے شعر گوئی کو اپنے جذبہ عشق رسول ﷺ کے اظہار کا وسیلہ بنا یا۔ انہیں نام و نمود کی ہر گز پروا نہیں تھی اور نہ ہی انہوں اس جانب توجہ کی۔آزادؔ صاحب کی شاعری بیان و انداز ، جملوں کی ترکیب اور استعمال نیز الفاظ کے خوبصورت چناؤ کے اعتبار سے خاص مقام رکھتی ہے۔ وہ بہت ہی اخلاق، سچائی،صفائی، نیک نیتی ، عجزو انکساری کے ساتھ اپنے اندر کی سچائی اور کیفیت کو شعر کا
جامہ پہنانے میں کامیاب وکامران نظر آتے ہیں۔ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
(مصنف کی’کتاب شیخ محمد ابراہیم آزادؔ : شخصیت و شاعری ‘شائع شدہ ۲۰۱۳ء سے ماخودذ)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284409 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More