ہمارے حالات ۔۔۔۔۔اور ہمارا کردار

یہ اس زمانے کی بات ہے جب مسلمان حقیقتا مسلم ایمان ( مسلمان ) تھے۔ مسلمان اپنی انفرادی ذات سے بالاتر ہو کر امت مسلمہ کی سربلندی کی بات کرتے تھے وہ محض صحراؤں اور بیابانوں میں رہنے والے لوگ نہ تھے بلکہ ایک مارشل قو م تھے۔ ان کا نظریاتی ٹکراؤ یہود و نصاری، آتش پرستوں اور رومیوں ( آج کے امریکیوں) سے تھا۔ جس قوم کا نظریاتی نظام مضبوط ہو گا وہی فتح کی حق دار ٹھہرتی ہے۔ طاقت کا توازن ہو یا نہ ہو لیکن ایمان کا توازن مسلمانوں کے حق میں تھا۔ جہاد فی سبیل اللہ اور نبی آخر الزمان حضرت محمد ؐ کا لایا ہوا عدل و انصاف پر مبنی نظام اس وقت کی دریافت شدہ دنیا تک پہنچانے کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دی جاتی تھی۔ مسلمانوں کے سیاسی سماجی معاشرتی فوجی اور سب سے بڑھ کر نظریاتی نظام کی مضبوطی نے حریف اقوام کے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔

آج ١٢ صدی میں معاملہ اس سے بالکل الٹ ہے۔ مسلمانوں کے پاس نہ تو اپنا سیاسی نظام ہے اور نہ ہی معاشی اور معاشرتی نظام ہے۔ اسلامی نظریا ت سے وابستگی محض رسمی کاروائی ہے عملی طور پر اسلامی معاشرے کے تار پود بکھر کر رہ گئے ہیں۔ اغیار بھیس بدل کر ہمارے صفوں میں گھس گئے ہیں۔اگر ہماری قلعہ بندیا ں مضبوط ہوتیں اور درست ہوتیں تو ہمفرے جیسا برطانوں جاسوس دس برس تک بغدا د کی ایک مسجد میں امامت نہ کروا پاتا اور مسلمان میں فرقہ بندی کے بیج نہ بوتا۔ ایک وہ بھی وقت تھا جب راجر بیکن اسپین کی مسلم درسگا ہ میں داخلے کا متمنی تھا اس کے باوجود کہ اس کے ہم وطن اسے کافروں کے دیس میں جانے سے منع کرتے تھے اس کا استدلال تھا کہ میں مسلمانوں سے علم و تحقیق جیسے فنون سیکھنے جا رہا ہوں۔ چنانچہ راجر بیکن یہاں آیا ، پڑھا لکھا اور علم کے خزینے اپنے دماغ میں بھرنے کے ساتھ ساتھ معروف مسلم اکابرین ابن خلدون، البیرونی ، ابن رشد اور محمد ابن موسی الخوارزمی جیسے کئی اہل علم کے تحقیقی کاموں کے انمول نسخے بھی ہمراہ لے گیا علوم و فنون کے ان پاور پلانٹس نے یورپ کے ظلمت کدوں کو اجالوں میں تبدیل کردیا۔ آج کا سائنسی طور پر ترقی یافتہ یورپ بھی قرون وسطی کے مسلمانوں کے علمی کارناموں کا معترف ہے۔ ماضی کی مضبوط قوم سے تعلق پر فخر کرنے والا آج کا منتشر مسلمان اپنے نظریاتی حریفوں کے سفارتخانوں کے سامنے قطار در قطار کھٹرا اپنی عصمت کا سودا کرنے پر مصر ہے۔ جعلی کاغذات ، وکیلوں، وظیفوں دعاؤں، ٹوٹکوں اور ایجنٹوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تاکہ ویزے کا حصول ممکن ہو سکے۔ یہ جستجو علوم و فنون کے حصول کے لیے نہیں بلکہ پاؤنڈوں اور ڈالروں کی کھنک کی ہے۔آ ج کا مسلمان ہنود و یہود کے پھیلائے جال میں پھنس کر نہ مارشل رہا اور نہ ہی مسلمان۔ صرف چند رسمیں پوری کرنے سے مسلمانیت نہیں آ جاتی ۔ آج کے مسلمان کی نہ تو اپنی زبان ہے اور نہ ہی کلچر۔ آ ج کی تعلیم یافتہ ماں بچے کو السلام و علیکم کی بجائے ھیلو سیکھانا پسند کرتی ہے جبکہ غیر تعلیم یافتہ ماں کو شعوری محتاجی ہے۔ مسلم دنیا میں معاشرتی کے فقدان اور استحصالی نظام کے شیطانی پنچوں کی بدولت مسلم ممالک برین ڈرین کا شکار ہیں جبکہ اوسط اذہان غیر ممالک میں جا کر گھٹیا اور رذیل کام کرنے پر بھی عار محسوس نہیں کرتے جس سے قومی غیریت پر حرف آتا ہے۔ ایک طرف تو ہم خود کو اللہ کی برگزیدہ قوم ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف اعمال و معاملات سے روگردانی عام سے مسلم معاشرے بے سمتی بے حیائی بے پردگی اور بد نظمی کا بدترین نمونہ ہے اقتدار کی کرسیوں پر نااہل افراد متمکن ہیں جو تمام اخلاقی قدروں سے عاری ہیں اور مسلم معاشرے کو اعلی اور با مقصد علم کے بجائے سطحی اور عیامیانہ انگریزی اور اردو تعلیم سے مزین کر کے لولی لنگڑی قوم تیا ر کی جا رہی ہے۔ تاکہ ترقی پسند مسلم اذہان کی بجائے یر غمالی دماغ تیا ر کیے جائیں۔ اور چند مخصوص کلاسیں اور طبقے اقتدار پر قابض رہ کر اپنا الو سیدھا کر سکیں اور بیرونی ایجنڈوں پر عمل کر سکیں۔ ان چند طبقوں نے کروڑوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ طبقے جو با اثر اور باہم مربوط ہیں ملی بھگت سے کبھی آٹا غائب کرتے ہیں اور کبھی چینی تو کبھی گھی۔ قوم کو آئے دن بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے جھٹکے لگا لگا کر آدھ موا کیا جا رہا ہے۔

آج ہمیں کسی حجاج بن یوسف یا پھر محمد بن قاسم جیسے کی تلاش ہے جو کہ محکوم مسلمانوں کو مسلمانوں کے بھیس میں ہنود و یہود کے ایجنٹوں سے آزاد کرائے اور مسلمانوں کا اپنا فکری اور عادلانہ نظام نافذ کرے ۔ اگر ڈنمارک میں عمر لاء نافذ ہو سکتا ہے فرانس فاروق اعظم کے عدالتی نظام سے استعفادہ رک سکتا ہے۔ اگر برطانیہ اسلام کی فلاحی ریاست کے ماڈل کو کاپی کر سکتا ہے۔ تو ہمیں کیا تکلیف ہے۔؟ آج کی دنیا ون کلچر، ون تہزیب اور ون ورلڈ کے دہانے پر ہے مسلمان خاص نشانے پر ہیں ۔ اس وقت ہمیں ان سازشوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اپنے کردار اور اعمال کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
 
Waqas khalil
About the Author: Waqas khalil Read More Articles by Waqas khalil: 42 Articles with 35277 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.