قاضی نثار اور مولاناشہاب کی ایک خوش گوار ملاقات

اسلام آباد میں جنوری کی ایک خنک شام میں "رنگ رنگ "سیل فون کی گھنٹی بجی ، دوسری طرف گلگت بلتستان کونسل کے ممبر مولاناعطاء اللہ شہاب صاحب محو گفتگو تھے۔ علیک سلیک کے بعد کہنے لگے کہ ابھی ہم آپ کے ادارے کی طرف آرہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ خوش آمدید! مگر میں ادارے سے باہر ہوں۔ یہ تو مجھے معلوم تھا کہ وہ کیوں تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ قاضی نثار آئے ہوئے ہیں تو ان سے ملاقات کرنی ہے۔ مولانا شہاب کی اس خواہش کو دل ہی دل میں بہت سراہا ، اس لیے کہ گلگت بلتستان کی دو نامور مذہبی و سیاسی شخصیات کا اس طرح خوشگوار ماحول میں ملاقات کا کافی عرصہ بعد امکان ہور ہا تھا۔ جب میں نے قاضی نثار صاحب سے عرض کیا تو وہ بھی دیدہ دل فراش کیئے ہوئے تھے۔کہ ہاں ملاقات ہونی چاہیے تاکہ مل بیٹھ کر علاقائی امور پر گفت و شنید ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گلگت بلتستان سیاسی و مذہبی اور آئینی اعتبار سے پورے پاکستان سے مختلف ہے۔ یہاں ہمیشہ مذہبی کشیدگی رہتی ہے۔ ماحول ہمیشہ گرم رہتا ہے۔ ٹارکٹ گلگت اور مذہبی فسادات سے پورے خطے کے لوگ تنگ آچکے ہیں۔ کسی بھی مکتبہ فکر کے لوگ قتل و غارت اور امن و امان کے سبو تاژ سے خوش نہیں ہے۔ جس سے بھی بات کریں تو وہ اندر اندر سے کڑہن میں مبتلا ہے کہ آخر میری دھرتی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مختلف قسم کے لوگوں نے گلگت بلتستان کے لوگوں میں دوریاں پیدا کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ ان کا شعلہ ہی اسی سے جلتا ہے کہ وہاں ہمہ دم مذہبی کشیدگی ہو۔ امن وا مان سبوتاژہو۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک ہی مسلک کے لوگوں میں بھی نفرت کے بیج بوئے جار ہے ہیں۔ ان کو ایک دوسروں سے دور کیا جارہا ہے۔ غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ ان میں کسی قسم کے اختلافات نہ ہونے کے باوجود قربتوں کے بجائے دوریوں کی روش ہے۔ قریب آنے کے بجائے دور ہورہے ہیں۔ اور کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔

مولاناعطاء اللہ شہاب گلگت بلتستان کی سیاست کے جھومر ہیں۔ ان کی سیاسی بصیرت کی گواہی غیر بھی دیتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں نظریاتی سیاست متعارف کروانے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ جمعیت علما ء اسلام کو گلگت بلتستان میں مولانا عطاء اللہ شہاب کی وجہ سے کافی پذیرائی ملی ہے اور مرکز سے بھی مولانا شہاب کی وجہ سے مضبوط تعلقات استوار ہوئے ہیں۔ ا گر چہ مولانا لقمان حکیم اور قاضی عنایت اللہ کی خدمات بھی جمیعت علمائے اسلام کے لیے گرانقدر ہیں۔اگر آج جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب، مولانا محمد خان شیرانی صاحب ، مولانا عبدالغفور حیدری صاحب اور اعظم سواتی صاحب جیسے مرکزی ذمہ داران اور وزیر اعظم گیلانی، منظور وٹو ار قمرالزمان کائرہ جیسے قومی رہنماں گلگت بلتستان پر توجہ دے رہے ہیں تو گلگت بلتستان کی جغرافیائی، مذہبی ، سیاسی اور آئینی و دفاعی اہمیت کے ساتھ ساتھ مولانا شہاب کی انتھک محنتیں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے تقریر و تحریر اور اپنی مسلسل کوششوں سے ہی اکابر علماء اور قومی و سیاسی لیڈروں کو گلگت بلتستان کی طرف توجہ مبذول کروایا ہے۔ ان کی بے شمار خدمات ہیں ان کا تذکرہ پھر کبھی ہوگا۔ جسطرح گلگت بلتستان میں تحریکی سیاست کے حوالے سے شہاب صاحب سرگرم میں اسطرح دینی و مذہبی اور اصلاحی خدمات کے حوالے سے قاضی نثاراحمد بھی ستاروں کے جھرمٹ میں چاند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قاضی نثار احمد گلگت بلتستان کے اہلسنت عوام کے بے تاج بادشاہ ہیں ان کو جو احترام و مقام عوامی حلقوں سے ملا ہوا ہے۔ شاید ان کے والد مرحوم قاضی عبدالرزاق کے بعد آج تک کسی سیاسی و مذہبی لیڈر کو ملا ہو۔ قاضی نثار صاحب کے نانا قاضی عبدالرحیم صاحب اور والد گرامی قاضی عبدالرزاق کی گلگت بلتستان کی جنگ آزادی میں بنیادی کردار ہے۔ ان دونوں کا شمار گلگت بلتستان کے اولین فضلائے دارالعلوم دیو بند میں ہوتا ہے،قاضی عبدالرزاق صاحب وہ واحد شخصیت ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان کا سبز ہلالی جھنڈا جامع مسجد گلگت میں سب سے پہلے لہرانے کا شرف انہیں حاصل ہوا۔ ڈوگرہ راج اور گوروں کے ساتھ ان کی لڑائیاں تاریخ کے انمٹ نقوش ہیں۔ بلتستان اور استور کے مضافاتی علاقوں سے ڈوگرہ کو مار بھگانے کے حوالے سے قاضی عبدالرزاق کی پالیسیاں اور کوششیںتاریخ کا وہ سنہری باب ہے جس سے کوئی بھی مورخ نظریں نہیں چرا سکتا۔ صوبیدار بابر خان اور قاضی عبدالرزاق کی مشاورتیں اور ڈوگرہ کے خلاف کوششیںکس سے پوشیدہ ہیں؟ قاضی عبدالرزاق صاحب کے ہونہار بیٹے قاضی نثار صاحب نے بھی اپنے والد گرامی اور نانا جی مرحوم کی خدمات و افکار کو اپنے لیے مشعل راہ بنایا ہوا ہے۔ وہ رخصتوں کے بجائے عزیمتوں کی راہ پر گامزن ہیں۔ جامعہ مسجد کی خطابت کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی سب سے قدیم اور بڑی دینی درسگاہ جامعہ نصرة الاسلام کا انتظام وانصرام بھی انہی کے ناتواں کندھوں پر ہے۔ تنظیم اہلسنت وا لجماعت گلگت بلتستان و کوہستان کے مرکزی امیرکی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھار ہے ہیں۔ اور پاکستان کے سب سے بڑے اسلامی وفاقی بورڈ ''وفاق المدارس العربیہ ''پاکستان کے مجلس عاملہ و شوری کے رکن بھی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ عالم اسلام کے عظیم مفکر اور شہید پاکستان مولانایوسف لدھیانوی صاحب کے خلیفہ مجاز ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے نامور فاضل مولانا قاضی مظہر حسین صاحب مرحوم اور ختم نبوت پاکستان کے امیر مرکزیہ مولاناخواجہ خان محمد صاحب مرحوم کے بھی خلیفہ و مرید ہیں۔ اکابرین علماء دیوبند ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ علامہ بنوری ٹائون،جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک جیسے دینی اداروں سے تعلیم کی تکمیل کی ہے۔ اور گلگت بلتستان کے اہلسنت عوام کے واحد غیر متنازعہ دینی رہنماء ہیں ہماری دعا ہے کہ ان دونوں حضرات کو اللہ تعالیٰ عمر خضر عطاء فرمائیں اور ان کو اپنے خصوصی امن و سلامتی میں رکھیں۔ گزشتہ دنوں ان دونوں صاحبان نے اسلام آباد میں ایک سرد شام کو ایک خوشگوار ملاقات کی۔ علاقے کے حوالے سے مختلف امور پر گفت و شنید کی اور جو بھی لائحہ عمل ہوگا وہ آپس کی مشاورت سے کرنے کا عزم کیا۔ یاد رہے کہ تنظیم اہلسنت والجماعت اور جمعیت علماء اسلام گلگت بلتستان نے گزشتہ دنوں گلگت میں تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے ایک شاندار جلسہ منعقد کیا تھا۔ اور دونوں کے مرکزی عہدہ داروں نے ایک ہی اسٹیج سے تحفظ ناموس رسالت اور دیگر اہم مسائل میں مکمل مشاورت اور یکجہتی سے کام کرنے کا واضح عزم کا اظہار کیا تھا۔ حالت پر نظر رکھنے والے احباب کے لیے یہ ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ مجھے امید ہے کہ قاضی صاحب اور شہاب سے کہ وہ آئے روز قریب ہوتے چلے جائیں گے۔ مجھے اگر قاضی نثار صاحب سے عقیدت واحترام اور مودت کا تعلق ہے تو مولاناشہاب صاحب سے محبت و منزلت اور رفاقت کا تعلق بھی ہے۔ ان کے ساتھ یہ تعلق سالوں پر مشتمل ہے۔ دونوں حضرات نے ہمیشہ میری حوصلہ آفزائی کی ہے۔ اپنے اہم امور میں مجھے بھی شامل مشاورت کی ہے۔ مولانا شہاب صاحب سیاسی حوالے سے کبھی مشاورت کرے یا نہ کرے مگر ''دارالعلوم گلگت ''اور ماہانہ "شہاب"کے حوالے سے ہمیشہ مشاورت کرتے ہیں بلکہ شاید ہی ماہانہ شہاب کے حوالے سے میرے بغیر انہوں نے کوئی اہم میٹنگ کی ہو، یہ ان کا بڑا پن ہے کہ ایک طالب علم کو اتنا اعزازدے رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح قاضی صاحب بھی بعض اہم امور میں مشاورت کرتے ہیں۔ وہ بھی عنقریب کوئی میگزین نکال رہے ہیں تو اس حوالے سے ہمیشہ گفتگو رہتی ہے۔ میں اپنے پراعتماد کرنے کی بنیاد پر ان دونوں حضرات سے ایک مخلصانہ گزارش کرونگا کہ چند ایسے شرپسند عناصر ہیں جو آپس کی محبتوں کو دوریوں میں بدل رہے ہیں۔ وہ لوگ ان دو حضرات سے علیحدہ ملاقاتیں کرتے ہیں اور ان میں رنجشیں بڑھاتے ہیں۔ کبھی کسی کے پاس غلط بیانی کی کبھی کسی کے پاس ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر قاضی صاحب اور شہاب صاحب ایسے بدنما لوگوں کی حوصلہ شکنی نہ کریں تو یہ لوگ آنے والے دنوں ناسور بن سکتے ہیں۔ یہ لوگ کسی کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے کہ ان بڑوں کے پاس جاکر اپنی چرب زبانی سے چھوٹی سی بات پر لیپاپوتی کرکے نفرتیں پھیلائیں ۔ اور رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں،ان کے دلوںمیں محبتوں کو رواج دینے کا کوئی پلان نہیں اور میرے نزدیک اللہ کی تمام مخلوق اور انسان میں صرف ایک فرق ہے وہ لفظ ''محبت ''اگر یہ لفظ انسان سے ہٹا دیا جائے تو انسان میں کچھ بھی نہیں رہتا۔ خدا سے محبت رسول ۖ سے محبت ، صحابہ و اسلاف سے محبت ، والدین بہن بھائیوں ، عزیزوں ، رشتہ داروں اور ہمسائیوں سے محبت اور پھر انسانیت سے محبت ، جو ان تمام محبتوں کا قائل نہیں وہ انسان کہلانے کے قابل نہیں ۔ بہر صورت مجھے امید واثق ہے کہ دونوں حضرات اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام اور تنظیم اہلسنت والجماعت کو قریب کرنے میں کوشش کریںگے۔ یہ عوام کے لیے ایک بہترین تحفے سے کم نہیں ۔ اور عوام کو ان کا یہ بہترین تحفہ جلد ازجلد ملنا چاہیے۔
 
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 384320 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More