بنگلہ دیش: نیا جال لائے پرانے کھلاڑی

ہندوستان میں اگر کوئی ٹی وی چینل اپنے ناظرین سے سوال کرے کہ: پریش بروہ کو پھانسی کی سزا بحال کردی جائے یا نہیں؟ تو لوگ پلٹ کر سوال کریں گے آخر یہ صاحب ہیں کون ؟ جب انہیں بتایا جائیگا کہ وہ ہندوستان کا سب بڑا دہشت گرد ہے تو ایک قہقہہ بلند ہوگا ۔ لوگ اسے ماننے سے انکار کردیں گے اس لئے کہ بھارت ورش میں دہشت گردی کا ٹھیکہ مسلمانوں کے سر تھوپا جاچکا ہے۔ کوئی قصاب ہو یا ٹنڈا اس کا پہلا نام یقیناً مسلمانوں جیسا ہی ہوتا ہے۔کبھی کبھار کسی سکھ کا نام بھی اس فہرست میں آجاتا ہے لیکن کوئی ہندو اور دہشت گرد یہ تو ناممکن ہے ۔ اسی لئےہزارہا ثبوت کے باوجود کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ رہائی کیلئے پر تول رہے ہیں اور جس بجرنگی یا کوندنانی کو عدالت نے سزا سنا دی ہے وہ بھی جیل کے اندر اپنی فطری موت کے انتظار میں عیش کررہے ہیں۔ یہاں تو صرف افضل گرو جیسے معصومین کو عوامی جذبات کے پیش نظر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا ہے ۔

پریش بروہ آسام کی علٰحیدگی پسند تنظیم اُلفاکے آزاد دھڑے کا رہنما ہے جو حکومتِ ہند کے ساتھ کسی مفاہمت کا قائل نہیں ۔ پرویش کو اس کی غیرموجودگی میں بنگلہ دیش کی ایک نچلی عدالت نے پھانسی کی سزا سنادی ہے۔ ایسا اس لئے نہیں ہوا کہ وہ ہندو ہے بلکہ اس کے ساتھ ۱۳ مسلمانوں کو بھی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ دراصل پرویش بروہ سرزمین بنگلہ دیش پرکسی دہشت گردانہ کارروائی کا مرتکب نہیں ہوا بلکہ ہندوستان میں دہشت گردی کی خاطر اس نے جو اسلحہ چین سے منگوایا تھا اس کو بھی خالدہ ضیاء کی حکومت نے چھاپہ مار کر اپنے قبضہ میں کرلیا اورہندوستان پہنچنے نہیں دیا۔ اس احسانمندی کا بدلہ بیگم خالدہ ضیاء کو یہ ملا کہ ہندوستان کی منظورِ نظرشیخ حسینہ نے اپنے سیاسی مفاداور حکومت ہند کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے انہیں لوگوں کو اسلحہ اسمگلنگ کرنے اور رکھنے کے جرم میں سزائیں بحال کردیں جن لوگوں نے اس کوضبط کرکےہندوستان میں داخل ہونے سےروک دیا تھا ۔

بیگم خالدہ کی مانند اُلفا کے ستارے بھی آج کل گردش میں ہیں ۔آپسی چپقلش کے چلتے ان لوگوں نے اپنے معمر ساتھی پارتھا گوگوئی سمیت ۶ کارکنان کو چند ہفتوں قبل موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بروہ بنگلہ دیش میں اُلفا کو مضبوط کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا ظاہر سی بات ہے بروہ کے چکر میں مسلم نوجوان تو آنہیں سکتے اس لئے وہ وہاں موجود ہندو نوجوانوں کو مسلح جدوجہد کیلئے تیار کررہا ہوگا ۔؁۱۹۸۹ سے لے کر ؁۲۰۱۰ تک اُلفا نے بنگلہ دیش میں اپنی تنظیم کا زبردست جال پھیلا دیا ہے اور ذرائع ابلاغ سے لے کر حمل و نقل تک مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔لیکن اس عدالتی فیصلے نے پریش کی راہ میں رکاوٹ پیدا کردی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ اب وہ بنگلہ دیش کے بجائے چین میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔چین نےاگردلائی لامہ کے جواب میں پریش بروہ کو شہ دی تو حکومتِ ہند کوشیخ حسینہ کا یہ تعاون مہنگا پڑے گا ۔

پریش بروہ کوجس مقدمہ کے اندر سزا ہوئی ہے اس کے تانے بانے چین سے جڑے ہوے ہیں ۔؁۲۰۰۴میں چٹاگانگ کے اندر دس ٹرکوں میں ۱۵۰۰ بکسوں کو پولس نے اپنے قبضے میں لیا جن میں ۴۰۰۰ہزار بندوقیں اور ۱۱۵۰،۰۰۰کارتوس،۲۵۰۰۰گرینیڈ،۹۰۰راکٹ اور ۱۵۰ راکٹ لانچرتھے۔ یہ ایک بین الاقوامی سازش کے تحت وہاں پہنچے تھے ۔ اس اسلحہ کو چین کی اسلحہ سازکمپنی نورینکو نے بنایا تھا اور اس کی قیمت پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے ادا کی تھی۔ یہ اسلحہ ہانگ سے نکل کر سنگا پور ہوتا ہوا بنگلہ دیش پہنچا لیکن اس کی منزل آسام تھی۔بنگلہ دیش کا حصہ تو صرف یہ تھا کہ اس کی سرزمین سےوہ گزررہا تھا لیکن شومئی قسمت کہ نہ تو چین کا اور نہ پاکستان کا کچھ بگڑا ،سنگاپور والوں سے بھی کسی کچھ نہ پوچھا مگروہ بنگلہ دیشی اس طوفان کی زد میں آگئے جنہوں نے اسے نظر انداز کرنے کے بجائے چھاپہ ماردیا۔

؁۲۰۰۴ میں جب یہ کارروائی ہوئی اس وقت بیگم خالدہ ضیاء کی قیادت میں چار جماعتوں کا محاذ برسرِ اقتدار تھا ۔ یکم اپریل کی رات چٹا گانگ کے کورنوفل پولس تھانے میں اس کی رپورٹ درج کرائی گئی اس کے بعد ۱۱ جون ؁۲۰۰۴اولین فرد جرم داخل کی گئی ۴۲ افراد کے خلاف مقدمہ کا آغاز ۶ جولائی ؁۲۰۰۵ کو ہوا اور ۱۴ اگست؁۲۰۰۷ تک جاری رہا اور ۵۹ گواہوں نے اپنی شہادت پیش کی ۔ اس بیچ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی نے استعفیٰ دے کر اقتدار غیر جانبدار مشیر فخرالدین احمد کو سونپ دیا۔ ۲۰ نومبر ؁۲۰۰۷ کووکیل استغاثہ ہمایوں کبیر نےعدالت سےمزید تفتیش کی درخواست دی ۔ فروری ؁۲۰۰۸ میں عدالت نے اس کی اجازت دے دی مگر ۶ مرتبہ کی توسیع کے باوجود ایڈیشنل سپرانٹنڈنٹ پولس اسماعیل حسین اضافی فردِ جرم داخل نہ کرسکے۔دسمبر؁۲۰۰۸ میں شیخ حسینہ نے انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار سنبھالا اورجنوری ؁۲۰۰۹میں اپنے آدمی اے ایس پی منیرالزماں کو تفتیش کا کام سونپا۔ اس طرح جون ؁۲۰۱۱میں جو ترمیم شدہ فرد جرم داخل ہوئی اس میں ۱۱ نئے لوگوں پر الزامات لگائے گئے جن میں جماعتِ اسلامی کے سابق امیر مطیع الرحمٰن نظامی اور بی این پی کے سابق وزیرلطف الزماں کا نام تھا ۔ان کے علاوہ چند فوجی وسرکاری افسران کے علاوہ کھاد کی کمپنی کے مالک اور جنرل منیجر کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا ۔ تاریخوں اور واقعات کی اس ترتیب و تواتر ظاہر ہے کہ یہ کھچڑی کس نے اور کب پکائی ہے ؟ اگر اس میں ذرا بھی سچائی ہوتی تو کم ازکم فخرالدین احمد کےغیر جانبدار دورِ اقتدار میں جبکہ خالدہ ضیاء کی حکومت پر بدعنوانی ۲۶۰ الزامات لگے یہ الزام بھی لگ جاتا لیکن عدالتی فرمان کے باوجود ایسا نہیں ہوا۔

سازش کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ شیخ حسینہ کے اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ بعدمارچ ؁۲۰۰۹ میں دوملزمین حفیظ الرحمٰن اور دین محمد نےجو مزدوروں کو فراہمی کے ٹھیکیدار تھے الزام لگایا کہ اس معاملہ میں چند اعلیٰ افسران اور وزراء ملوث ہیں۔ ظاہر ہے ان کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا سبز باغ دکھلا کر عوامی لیگ نے اپنے مفاد میں استعمال کیا لیکن ان میں سے ایک کے ساتھ بھی دغا بازی کرتے ہوئے حفیظ الرحمٰن کو موت کی سزا سنا دی۔ حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ اس سے ؁۲۰۰۱ میں کسی زمان نام کے شخص نے مال برداری کی خاطر رابطہ کیا قائم کیاتھا چھاپے کے بعد فروری ؁۲۰۰۴ میں اسے پتہ چلا کہ وہ شخص پریش بروہ ہے۔ اس بیانکی بنیاد پر ترمیم شدہ فرد جرم میںنئے نام شامل کئے گئے۔ نئے سرے شروع ہونے والے مقدمے میں ۲۵۰ سے زیادہ گواہوں کے نام تھے لیکن صرف ۵۶ کو گواہی کیلئے بلایا گیا۔ ان میں سے نائب سیکیورٹی افسرمبین حسن خان نے بتایا کہ سابق سکریٹری شعبہ صنعت نورالامین کواسمگلنگ کی پیشگی اطلاع دی گئی تھی۔ نورالامین فی الحال فرار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی کوکسی بات کی اطلاع کا ہونااسے سزائے موت کا مستحق بنا دیتا ہے؟

ایک اور اہم گواہ جنرل انٹلی جنس فورس کے ڈائرکٹر جنرل صادق حسن رومی نے عدالت کو بتلایا کہ جب سابق وزیراعظم خالدہ ضیاءکو اس کی خبر دی گئی تو انہوں نے کہا ہم تفتیش کریں گے اور اس کمیٹی میں ڈی جی ایف آئی کا نمائندہ ہوگا۔اس وقت انہیں کچھ بڑے لوگوں کے ملوث ہونے کا خدشہ ہوا ۔ اس کے بعد لطف الزماں بابر نے اس کمیٹی میں جنرل رزاق حیدر کو نامزد کرنے کی تلقین کی۔ رومی کسی اور کو نامزد کرنا چاہتے تھے لیکن بابر نےاس تجویز کو مسترد کردیا۔ کیا کسی وزیر کا کسی افسر کی کسی تجویز کو مسترد کردینا اس کو قابلِ گردن زدنی مجرم بنا دیتا ہے؟ایک اورگواہ نے بتایا کہ بابر اس چھاپے کے بعد موقع واردات پر پہنچے اور انہوں وہاں سے گرفتار کئے جانے والے ۵ افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر بابر کا یہ اقدام غلط تھا تو ان لوگوں کو دوسری فرد جرم میں شامل کرکے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ ممکن وہ ایسے غیر متعلق مزدور ہوں جنہیں پولس نے بلاوجہ گرفتار کرلیا ہو۔ بابر پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے اپنے دورے کے بعد افسران کو تلقین کی چونکہ یہ نازک معاملہ ہے اس لئے اس بابت ذرائع ابلاغ جانے سے گریز کریں ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل نازک معاملہ تھا اور اس سے متعلق احتیاط کی ہدایت میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ ویسے بھی اس معاملے کی پردہ پوشی تو کی نہیں گئی۔ اسی وقت ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ساری دنیا کو اس کی اطلاع دے دی گئی۔

اس معاملے میں دو اہم گواہ سابق قومی سلامتی کے خفیہ ادارے کے ڈائرکٹر شہاب الدین اور ان کے ہم منصب عبدالرحیم ہیں جو دونوں جیل میں تھے۔ شہاب الدین کے مطابق سابق این ایس آئی ڈائرکٹر عبدالرحیم نے پاکستانی کمپنی اے آر وائی اور آئی ایس آئی کے ساتھ کئی نشستیں کیں لیکن حلفیہ بیان دیتے وقت انہوں نے آئی ایس آئی کا نام لینے کے بجائے صرف غیر ملکیوں سے ملاقات پر اکتفا کیا۔ عبدالرحیم نے اعتراف کیا کہ ان کی آئی ایس آئی کے احسان الحق سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی لیکن اس کا کوئی تعلق اسلحہ کی اسمگلنگ سے نہیں تھا عبدالرحیم کے مطابق خود شہاب الدین نے آئی ایس آئی سے ساز باز کررکھی تھی ۔ عبدالرحیم نے یہ الزام بھی لگایا کہ شہاب الدین ان سے الفا رہنما انوپ شیٹیار کی بابت بات کی (جو جو بنگلہ دیش کی جیل میں ہے) اور الفا کی مدد پر اکسایاجس کے جواب میں عبدالرحیم نے بگڑ کر کہا کیا ہم بنگلہ دیش الفا کے حوالے کردیں؟ شہاب الدین تفتیش کے دوران اعتراف کیا اس کی ملاقات ۳۰ مارچ ؁۲۰۰۴ کی شب میں فوجی ہسپتال کے اندر ایک پاکستانی امیر بھائی سے ہوئی ۔ این ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل رزاق حیدر کے ساتھ بھی وہ شخص نظر آیا لیکن بعد میں اسے پتہ چلا کہ امیر بھائی کے بھیس میں ملنے والا آدمی کوئی اور نہیں بلکہ پریش بروہ تھا ۔ان الزامات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں گواہ ناقابلِ اعتبار ہیں ۔ اتفاق سے ان دونوں کو بھی موت کی سزا سنائی گئی ہے ۔

ان تمام اہم گواہوں نے تو سرے سے سابق امیرجماعت مطیع الرحمٰن نظامی کا ذکر ہی نہیں کیالیکن عدالت میں بتلایا گیا کہ سابق وزارتِ صنعت اور کارگزار حکومت کے مشیر شعیب احمد نے سابق وزیر صنعت مطیع الرحمٰن نظامی پر الزام تراشی کی ۔ اسکے علاوہ بی سی آئی سی کے سربراہ میجر جنرل (سبکدوش) امام الزماں نے نظامی صاحب کا نام لیا ۔ ذرائع ابلاغ اس تفصیل سے خالی ہیں کہ الزام کیا تھا اور ذکر کس بابت کیا گیا تھا؟ غالبا ً الزام یہ تھا کہ جس نجی کھاد کے کارخانےکی بندرگاہ پر اسلحہ ضبط ہوااس کو وزارت صنعت نے لائسنس دیا تھا اور اس چھاپے کےوقت مطیع الرحمٰن وزیرصنعت وحرفت ہوا کرتے تھے۔ اگر ہندوستان میں نریندر مودی کے بجائے بی جے پی والےشیخ حسینہ کو وزیراعظم بنوادیں تو وہ وزیردفاع اے کے انٹونی کو ممبئی حملے کے الزام میں پھانسی چڑھوادیں گی اس لئے کہ حملہ آوروں کو روکنا ہندوستان کے بحری بیڑے کی ذمہ داری تھی جو وزارتِ دفاع سے تنخواہ پاتا ہے۔

اس مقدمہ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش میں اسمگلنگ کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے لیکن مذکورہ عدالت نے اس حد سے تجاوز کرتے ہوئے موت کی سزا سنائی ہے نیز جس نچلی عدالت میں یہ سزا سنائی گئی اسے موت کی سزا دینے کا اختیار بھی نہیں ہے اس لئے فیصلے میں یہ کہنا پڑا کہ موت کی سزا عدالتِ عالیہ کی تو ثیق کے بعد ہی بحال کی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عدالت عمر قید کی سزا بھی دے دیتی تو ملزم اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرتے ہی کرتے اس لئے موت کی سزا دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ لیکن ممکن ہے عدالت کے کٹھ پتلی جج نے سوچا ہو کہ فی الحال بنگلہ دیش میں عدلیہ کی حالتِ زار کے پیشِ نظر یہ ملزمین عدالتِ عالیہ کا رخ ہی نہ کریں ۔ شہید عبدالقادر ملا کے معاملے میں بنگلہ دیش کی عدالت نے وہ کیا اس مثال دینے سے دنیا قاصر ہے ۔ عام طور پر اونچی عدالت میں نچلی عدالت کا فیصلہ بحال رکھا جاتا ہے یا سزا میں تخفیف ہوتی ہے لیکن بنگلہ دیش میں عدالتِ عالیہ نےعمر قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کرکے فوراً اس پر عملدرآمد کروادیا اس لئے کہ اس کی مدد سے شیخ حسینہ کو انتخاب میں کامیابی حاصل کرنی تھی ۔

شیخ حسینہ نے اس ظلم کی مدد سے انتخاب میں کامیابی تو حاصل کی لیکن اس کا جشن نہیں مناسکیں اس لئے کہ حزب اختلاف کے اتحاد نے انتخاب کا اس قدر مؤثر بائیکاٹ کیا کہ پارلیمان میں تین چوتھائی ارکان کی موجودگی کے باوجودحسینہ کہنا پڑا اگر بی این پی گفت و شنید کیلئے راضی ہوجائے تو دوبارہ انتخاب کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں ۔ اس بیان میں وہ اعتراف پوشیدہ ہے کہ ابھی حال میں جو کچھ ہوا ہے وہ انتخاب نہیں بلکہ کچھ اور ہی تھا ۔ اسکے جواب سابق وزیر اعظم خالدہضیاءنے کہا وہ عملا ً اپنے گھر میں نظر بند ہیں اور حزب اختلاف کو آئےدن مظالم کا شکارکیاجارہاہے۔ اس لئے حالات کی تبدیلی کے بغیر دوبارہ انتخابات کا انعقاد بے معنی ٰہے۔بنگلہ دیش کے حالات بتدریج بگڑ رہے ہیں اس لئےحلف برداری کے بعد بھی شیخ حسینہ کو اپنا منافقانہ بیان دوہرانے پر مجبور ہونا پڑا اور اس نے کہا وہ جمہوریت بقاء کیلئے سرگرم رہیں گی اور اتفاق رائے ہوجانے کے بعد کسی بھی اقدام سے پس و پیش نہیں کریں گی اس بیان میں بھی دوبارہ انتخاب کا اشارہ موجود ہے لیکن شیخ حسینہ کے اڑیل رویہ کے سبب جس اتفاق رائے کی وہ دہائی دے رہی ہیں وہ کب اور کیسے ہوگا یہ کہنا نہایت مشکل ہے؟ بقول شاعر
امیدوصلنےدھوکےدئیےہیںاسقدرحسرت
کہ اس کافر کی 'ہاں' بھی اب 'نہیں' معلومہوتی ہے

بنگلہ دیش کی عوام کو انتخاب کے عمل میں خاصی دلچسپی ہے ۔ ؁۲۰۰۸میں۸۳ فیصد رائے دہندگان نے اپنا حق استعمال کیا تھا۔لیکن اس بار بائیکاٹ کے سبب آزاد ذرائع کے مطابق پولنگ صرف۱۰ فیصد کے آس پاس تھی۔۱۵۳حلقہ ہائےانتخاب میں بلا مقابلہ عوامی لیگ کا امیدوار جیت گیا بقیہ ۱۴۷ میں مقابلہ خود اس کے اپنے حلیفوں یا جعلی آزاد امیدواروں کے ساتھ تھا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایوان حکومت میں موجود ۳۰۰ میں سے ۲۳۲ ارکان پارلیمان کا تعلق عوامی لیگ سے ہے۔ اس بار ہندوستان کے علاوہ کسی عالمی تنظیم مثلاً اقوام متحدہ،یوروپی یونین یا دولتِ مشترکہ تک نے اپنے مشاہد نہیں بھیجے اور ان انتخابات کو سراہنے والی بھی صرف بھارتی سرکار تھی۔ انتخاب کے دن ۲۰ مظاہرین کو پولس نے ہلاک کردیا اور اکتوبر کے بعد سے تقریباً ۲۰۰ لوگ ہلاک ہوئے۔

؁۲۰۱۳ بنگلہ دیش کی تاریخ کا سب سے زیادہ پرتشدد سال رہا۔ اس میں شیخ حسینہ نے ۵۰۰ معصوموں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ بے قصورعوام کا لہو سڑکوں پر بہتا رہا اور سربراہِ مملکت ؁۱۹۷۱ کے زخموں کو تازہ کرکے بےگناہ لوگوں پر مقدمات چلاتی رہی ۔ ان مقدمات پر ساری دنیا کے حقوق انسانی کی تنظیموں نے لعنت ملامت کی اقوام متحدہ کے علاوہ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھی عدالت کے طریقۂ کار پر اعتراض کیا۔ اس دوران ججوں سے ساز باز کے منظر عام پر آجانے سے بھی حکومت کی سبکی ہوئی لیکن ساری خواری سے بے نیاز حکومت بنگلہ دیش اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں سر گرم رہی اور اس نے عبدالقادر ملا کو تمام تر مخالفت کے باوجود شہید کردیا۔

شیخ حسینہ واجد کے مظالم کا شکار نہ صرف اسلام پسند لوگ رہے بلکہ حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والی تنظیم ادھیکار کے دفتر کو خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے تھوڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا۔ اس کے ذمہ داران عادل الرحمٰن اور نصیرالدین اعلان کو گرفتار کرکے سائبر جرائم کی عدالت میں پیش کردیا گیا ۔ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ ایک بلاگر کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔حکومت کی سفاکی اس حد تک بڑھی کہ رانا پلازہ فیکٹری میں جو ۱۱۰۰ لوگ جل کر ہلاک ہوئے ان کے ورثاء تک کو ہرجانہ مانگنے کے جرم میں پولس گولیاں سے دوچار ہونا پڑا۔ بی این پی کے سکریٹری جنرل مرزہ فخرالاسلام عالمگیر نے حکومت پر الزام لگایا کہ اب اس نے ان لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کر دی ہے جنہوں نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا ۔عام لوگوں کو نہ صرف ستایا بلکہ ہلاک کیا جارہا ہے۔ سادے لباس میں پولس والے شب خون مارتے ہیں عوام کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ عالمگیر کے مطابق ۴۲ رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے صرف ۱۲ نے حالیہ انتخاب میں حصہ لیا مرزہ فخرالاسلام نے الزام لگایا کہ عوامی لیگ ایک دہشت گرد جماعت ہے اور وہ دہشت گردی کی مدد سے اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے۔ عوامی لیگ پر لگائے جانے والے ان الزامات کا سب سے بڑا ثبوت دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں بے قصور لوگوں کو سنائی جانے والی سزائے موت ہے لیکن شیخ حسینہ اور اس کے دیوانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ؎
جو چپ رہے گی زبان ِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1235559 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.