سیاسی '' پھنے خانوں '' کے نام

سیاست کے خیمے میں مفاد پرستی، اور نفرت کا اونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹے باہر نکل جاتی ہے ۔ صرف یہی نہیں نفرت اور علاقائی تعصب کا یہ دگر گوں ماحول جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہمیشہ جڑا رہا ہے۔ فیوڈل ازم اور مفادات کی سیاست نے سادہ لوح عوام کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ سیاست میں یا تو مفادات پلتے ہیں یا پھر ذاتیات ، ان دو محرکات کے علاوہ تیسری کوئی ایسی چیز شامل حال نہیں جس کا ذکرِ خاص کرنا ضروری ہو۔ ہمارے ہاں سیاست میں فیوڈل ازم اور کیپٹل ازم کا ہمیشہ سے طوطی بولتا آیا ہے، بات یہاں تک ختم نہیں ہوجاتی ، موجودہ حالات یہ ہیں کہ ارض پاک کئی تنازعات میں گھری ہوئی ہے، دہشت گردی مہنگائی، بے روزگاری ، توانائی بحران منہ کھولے ہیں، ان حالات میں معذرت کے ساتھ کئی ایسی سیاسی جماعتیں جنہیں عوام نے کبھی ووٹ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا، اس ملک کی نظریاتی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہیں۔کسی بزرگ نے کہا تھا کہ اگر سیاست میں مفاد پرستی ، منافقت اور اعتماد سازی نہ ہو تو یہ ایک '' گٹر '' کی مانند ہے ۔ یہ فقرہ قابل اعتراض اور قابل گرفت ضرور ہے مگر حقیقت میں اگر سیاست مفاد پرستی بھینٹ چرھا دی جائے ، عوام کو سیاسی شعور نہ دیا جاسکے تو ایسی سیاست کے بارے بزرگ کا یہ فرمان درست ہوگا ۔ اگر سیاست گٹر ہے تو ظاہر ہے اس میں گرنے والی ہر چیز غلیظ اور ذلیل ہی ہوگی۔ نہیں ہرگز نہیں !! سیاست اس وقت گٹر بن جاتی ہے جب اس مفاد پرستی، ذاتی تسکین، ظلم و جبر ، بے حسی کا تاج نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن پاکستانی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمیں یقین ہے کہ علامہ اقبال اگر آج حیات ہوتے تو ضرور کراہ اٹھتے کہ؛
'' ملے جومفاد پرستی سیاست میں تو آجاتی ہے چنگیزی'' !!

ہمارے ہاں مقامی سیاست کا حال بھی کچھ اسی طرح کا ہے ،کبھی تو ہم ایک دوسرے کے خلاف زبان کو حرکت میں لانے سے گریز کرتے ہیں تو کبھی جذبات کی راکھ میں ساری حدوں کو شعلہ بنا دیتے ہیں، کسی کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنے کی بجائے '' سیاسی مولوی '' بن کر ایسے ایسے فتوے '' ٹھوک '' دیتے ہیں کہ ہر ذی شعور کانو ں ہاتھ لگانے پر مجبو رہوجاتا ہے ، کچھ تو خدا کا خوف کریں ، سیاسی فتوے جاری کرنے سے پہلے یہ تو سوچ لیں کہ آپ کہہ کیا رہے ہیں، شاید اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ '' پہلے تو لو پھر بولو '' ۔۔۔ تند و تیز بیانات سے کسی کا سیاسی گراف '' اپ '' نہیں ہوتا البتہ اس میں '' گرانی '' ضرور آجاتی ہے، کسی کے جذبات سے کھیلنا دراصل انسانی اقدار کی توہین کے مترادف ہے ، دین متین ہمیں دوسرے کے بارے میں اچھا سوچنے ، صبر و رضا ، برداشت اور حقیقت کو تسلیم کرنے کا درس دیتا ہے۔ان دنوں ہمارے ہاں بھی شایدسیاسی ماحول کو کچھ اسی طرح کی کیفیت کا سامنا ہے ۔ موسم کبھی ابر آلود تو کبھی تیز و تند آندھیاں چلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ نوانی ڈگری کیس کے فیصلہ نے موسم میں انگڑائی پیدا کی تو سوائے ایک بادل کے پوری گھٹا کی گھٹا پر خاموش کے آثار نمایاں رہے ۔ حلقہ پی پی 48 کے گرجتے بادل نے آندھیوں میں شدت پیدا تو کی مگر جنوبی اطراف سے '' سیاسی حبس '' نے ماحول میں نرمی پیدا کردی ، شاید یہ سیاسی مصلحت تھی یا پھر مستقبل قریب میں کسی سیاسی اتحاد کی '' امید '' ۔۔۔ اس تمام تر صورت حال میںضلع کا نوجوان ضرور '' چوکنا '' ہوا ہے ، اور سوچنے پر مجبو رہے کہ یہ '' ملک ، خان ، وڈیرے '' صرف اپنے مفادات کی حد تک ایک دوسرے کے خلاف مخاصمت رکھتے ہیں ، جبکہ ان وڈیروں کے سیاسی کھیل کی بھینٹ چڑھنے والے '' بے چارے '' عوام ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہوجاتے ہیں، بے رحم سیاسی سرکس کے اس کھیل میں بھائی بھائی کا جانی دشمن بن جاتا ہے ، مگر سیاستدان آج ایک دوسرے کے حریف تو کل اتحادی بن جاتے ہیں۔ ہمارے ضلع کی سیاسی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ یہاں ہر دور میں نئے سیاسی اتحاد بنتے ، ٹوٹتے رہے ، ایک دوسرے کے خلا ف سیاسی '' زبان درازیاں '' بھی ہوتی رہیں،'' آئیں بائیں شائیں'' کے اس سیاسی کھیل میں کبھی کبھار صورت حال ذاتیات تک بھی چلی گئی ، سیاسی جلسوں میں ایک دوسرے کی '' ایسی کی تیسی '' کرنے والے آج ناجانے کس انجانے خوف کا شکار ہیں کہ نوانی ڈگری فیصلہ کے بعد بیانات دینے سے بھی گریزاں ہیں، یہ شاید سیاسی مصلحت ہے یا پھر کچھ اور ؟؟؟ فیصلہ کے بعد ضلعی کی سیاست عجیب کشمکش کا شکار تو ہے ہی مگر تند و تیز بیانات نے بھی اس گیم میں مزید جان ڈال دی ہے تاہم ایک ایم پی اے کے گرماگرم اور ''بااخلاق'' بیانات کے بعد انٹی نوانی حلقے بھی انتشار کاشکارنظر آتے ہیں ' نہ تو کھل کرموصوف ایم پی اے کا ساتھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی نوانی برادران کی مخالفت بارے کوئی بیان دینے کی '' جسارت '' کی ہے ۔ شاید اسی حوالے سے مولانافضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاالرحمن نے چند سال قبل کہاتھا کہ بھکرکی سیاست پر ''ذاتی دشمنی'' کاگمان ہوتاہے' ایک ممبراسمبلی کے بیانات ان کے کہے گئے الفاظ کاعملی نمونہ نظرآتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ''دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے' سجنڑاں وی مرجانڑاں'' کے مصداق''لوکل ''رہنما محض اس لئے خاموش ہیں کہ ''آج یہ کچھ نوانیوں کے ساتھ ہورہاہے تو کل ان کے ساتھ بھی ہوسکتاہے''۔سوائے ایک ایم پی اے کے انٹی نوانی حلقوں کی طرف سے نوانی فیصلہ پر خاموشی نے ان کے '' سیاسی کیئرر '' پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ صرف یہی نہیں پہلی مرتبہ ایم پی اے منتخب ہونے والے '' معزز '' سیاستدان جوکہ کیس کے مدعی بھی ہیں ، کی طرف سے بھی کوئی رد عمل سامنے نہ آسکا ۔صرف یہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ایک راہنما جوکہ ایم پی اے پی پی اڑھتالیس کے قریبی بھی سمجھے جاتے ہیں نے '' شرقی ایم پی اے '' کو یہ کہہ کر طعنہ تک دے دیا کہ آپ نوانی کیس کے فیصلہ پر سیاست چمکانے کی بجائے اپنی اصلاح کریں۔ بعض انٹی نوانی سیاستدانوں کے مبینہ طور پر نوانی برادران سے جیل میں بذریعہ ٹیلی فونک رابطوں کے بعد انٹی نوانی حلقوں کے آپسی اتحاد اور اعتماد کی قلعی کھل کر سامنے آگئی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تک سوائے پی پی اڑھتالیس کے ایم پی اے کے کسی نے نوانی کیس پر کوئی ریمارکس ادا نہیں کیے۔سیاستدانوں کا ارشادِ گرامی ہے کہ '' سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی '' ۔۔۔۔
واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 61 Articles with 92376 views i like those who love humanity.. View More