مولانا حسرت موہانی

’’اردوئے معلی ‘‘پہلا اُردو جریدہ تھا جس نے ہندوستانی سیاست کو وسعتِ ذہن اور بلند نگاہی عطا کی
ادب اور سیاست کے شہسوار

مولانا سید فضل الحسن، حسرت موہانی کے نام سے معروف ہیں اردو ادب میں اعلیٰ مقام اور بلند منصب و مرتبہ پر فائز ہیں۔ وہ ’سید الا حرار‘ اور’ر ئیس المتغزلین‘ کہے جاتے ہیں۔ وہ ایک نڈر صحافی ہی نہیں بلکہ اردو صحافت کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ اردو غزل کے ممتاز شاعر ، شارح ،تذکرہ نگار، نقاد، سیاسی رہنما ء ا ور تحریک آزادی کے صفِ اول کے رہنماؤں میں سے تھے ، صاف گو اورحق پرست ہی نہیں خدا رسیدہ صوفی اور درویش منش انسان تھے۔اپنے نام اور تخلص کے حوالہ سے ان کا یہ شعر بہت مقبول ہے ؂
عشق نے جب سے کہا حسرت مجھےکوئی بھی کہتا نہیں فضل الحسن

بابائے اردو مولوی عبد الحق نے اپنے ایک مضمون ’’مولاناحسر ت موہائی‘‘ جو ماہنامہ ’تہذیب‘ ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا ۔ مولانا حسرت موہانی کے بارے میں لکھا کہ ’’اگر کوئی ناواقف پہلی بار مولانا حسرت کو دیکھتا تو سمجھتا کہ یہ کوئی مخبوط الحواس شخص ہے۔ ان کی ٹوپی پر جو اکثر ترکی ہوتی تھی۔ آدھ آدھ ا نگل چیکٹ جمع ہوتا تھا۔ داڑھی پریشان، لباس میں کوئی سلیقہ نہیں، نہ میلا نہ اجلا، جوتے نے کبھی برش کی صورت
نہ دیکھی تھی۔ آواز جھینگر سے ملتی جلتی۔ لیکن اس بے ڈال قالب میں بے پایاں روحانی وقت، اخلاقی جرأت اور خلوص و صداقت تھی‘‘۔

حسرت نے سادہ زندگی گزاتے ہوئے دنیا میں جو نام پیدا کیا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہو سکا ہے۔ان کی اسی خصوصیت نے انہیں سید الا حرار اور تحریک آزادی کے عظیم رہنما ء ہونے کا اعزاز بخشا۔ معروف دانش ور سر شار صدیقی نے انہیں’’فوق البشر‘‘ کہا۔مشکل وقت میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، جیل میں رہے تو وقت ضائع نہیں کیابلکہ ادب اور غزل میں ایسا مقام پیدا کیا کہ ’’ر ئیس المتغزلین‘‘
کہلائے۔ جیل میں کہا ہوا ایک شعر جو بے انتہا مشہور ہے ؂
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اِک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

حسرت نے برطانوی سامراج کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا، انہیں کئی بار جیل جانا پڑا، انہیں پہلی بار ۱۹۰۸ء میں گرفتار کیا گیا اور دو سال کی سزا اور بصورت عدم ادائیگی جرمانہ چھ ماہ کی مزید سزا تجویز کی گئی۔چونکہ آپ جرمانہ اداکرنے سے معذور تھے اس وجہ سے ان کا نہایت نادر کتب خانہ جس میں سیکڑوں نایاب قلمی کتابیں اور کمیاب تصانیف، دیوان اور تذکرے تھے جنہیں حسرت نے انتہائی تلاش و جستجو اور صرف سے اکٹھا کیا تھا کاٹ کباڑ کی طرح نیلام کر دیا گیا۔بیگم حسرت کے مطابق ’’یہ کتب خانہ ساڑھے چار ہزار کی مالیت کا تھا اور حکومت نے اسے صرف ساٹھ روپے میں فروخت کردیا‘‘۔ حسرت کے ساتھ جیل میں عام قیدی کی مانند سلوک کیا گیا، مولانا کی قید میں اور اخلاقی مجرموں کی قید میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ان سے دس ماہ تک چکّی پسوائی گئی۔ اس دوران رمضان شریف کا مقدس مہینہ بھی آیا ۔ آپ نے اس موقع پر یہ شعر کہا
جو بہت مشہور ہوا ؂
کٹ گیا قید میں ماہ رَمضان بھی حسرت
گرچہ ساما ن سحر کا تھا نہ افطاری کا

۱۹۱۶ء میں حسرت کی دوبارہ گرفتاری عمل میں آئی اور مقدمہ چلا کر دو سال قید با مشقت کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ جیل میں محنت مشقت، سختی، مصائب و آلام اور مظالم نے مولانا کی طبیعت میں درویشانہ شان پیدا کردی تھی۔ ان کی طبیعت میں سادگی کے ساتھ ساتھ نڈر اور دلیر انسان نے جنم لے لیا تھا۔ آپ کے ساتھ یہ مظالم ’اردو ئے معلیٰ ‘ کی اشاعت اور ان میں شائع ہونے والے مضامین کی پاداش میں رواں رکھے گئے۔ اردوئے معلیٰ کے بند ہوجانے کے بعد مولانا نے سُدیشی تحریک علی گڑھ میں چلائی ، ان کے اس اقدام پر مولانا شبلی نعمانی نے انہیں لکھا ’’تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے ، پھر پالی ٹیشن بنے اور اب بنیے ہوگئے‘‘۔ ۱۹۲۲ء میں حسرت کو آخری بار گرفتار کیا گیا تو آپ اسی سدیشی اسٹور کے لیے فکر مند تھے۔اس بار مولانا ڈھائی سال قید میں رہے۔مولانا ایک طریق علم کے بھی موجد بھی ہیں اسے انہوں نے مزاحمت دفاعی یعنی (Passive Resistence) کانام دیا تھا۔ یہ نظریہ بعد میں ’’ستیہ گرد ‘‘ کہلایا۔ اسے گاندھی نے اختیار کیا اور عدم تعاون اور ستیہ گرد قرار دیا۔ کہا جاتا ہے کہ گاندھی کافلسفہ مولانا حسرت موہانی کے مزاحمت دفاعی سے اخذ کیا گیا ہے جو انہوں نے ستمبر ۱۹۰۷ء میں اپنے ایک مضمون میں پیش کیا تھا۔

مولانا حسرت موہانی ایک بلند پایہ شاعر اور تذکرہ نگار و نقاد ہونے کے ساتھ سا تھ بے باک اور نڈر صحافی بھی تھے ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق ’’حسرت موہانی کا مطالعہ شعر و ادب میں چونکہ اپنے سارے معاصرین سے وسیع ، توانا تھا اس لیے اس توانائی و وسعت کے آثار اُن کی شاعری میں بھی نمایاں ہیں۔ حسرت بنیادی طو ر پر غزل کے شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے نعتیہ کلام میں غزل کی جھلک نظر آتی ہے انہوں نے اس کا اعتراف اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے ؂
عشق حسر ت کو ہے غزل کے سوا
نہ قصیدہ نہ مثنوی کی ہوس

حسرت موہانی کی تذکرہ نگاری کا انداز سب سے مختلف ہے۔ ان کے تذکروں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے ہر بڑے شاعر کے ذکر کے ساتھ اس کے تلامذہ کا سلسلے وار ذکر کیا ہے۔ اصغر کاظمی کی کتاب ’’مولانا حسرت موہانی کی تذکرہ نگاری ‘‘، حسرت فہمی اور حسرت شناسی کے حوالہ سے اچھا کام ہے۔

مولانا حسرت موہانی نے ’’اردوئے معلی ‘‘۱۹۰۳ء میں شائع کیا، یہ ۱۹۴۲ء تک شائع ہوتا رہا، کئی بار بند بھی ہوا پھر جاری ہوتا رہا ۔ پروفیسر آل احمد سرورؔ کے مطابق ’’اس رسالے کا سب سے بڑا مقصد ’’درستُی مذاق ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔یہ صرف ادبی رسالہ نی نہ تھا بلکہ اس میں ملکی اور غیر ملکی سیا سیات اور حالاتِ حاضراہ پر تبصرے بھی ہوا کرتے تھے۔۱۹۱۲ء میں اردوئے معلی کے بند ہوجانے کے بعد ۱۹۴۱ے میں’’ تذکرۃ الشعراء‘‘ جاری کیا اس کے صرف سات شمارے ہی شا ئع ہوسکے، ۱۹۲۸ء میں’’ مستقل ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ کانپور سے جاری کیا ۔ ۱۹۲۱ ء میں مولانا نے’’ استقلال‘‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ ان رسائل میں مولانا حسرت موہانی اپنے ادبی ، سیاسی و مذہبی خیالات و افکار کا اظہار انتہائی بے باکی سے کرتے رہے۔ ان چاروں میں جو مقام و مرتبہ اردوئے معلی کو حاصل ہوا وہ کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا اس کی وجہ اردوئے معلی کا طویل عرصہ تک جاری رہنا تھا۔ یہ رسالہ انتالیس سال (جولائی ۱۹۰۳ے سے مارچ ۱۹۴۲ء ) تک جاری رہا۔ اس کی طویل زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے ، کبھی بند بھی ہوا پھر جاری ہوا۔ یہ در اصل مولانا حسرت کی مکمل زندگی کا آئینہ دار تھا۔ اس رسالے نے ہی اردو صحافت میں بے باکی اور بے خوفی کی روایت کو پروان چڑھایا، لوگوں میں سیاسی شعور کو بیدار کیا ، یہی رسالہ مولانا کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کا باعث بھی ہوا۔

مولانا ادب کے ساتھ ساتھ سیاسی ذہن کے مالک تھے۔ ادبی جریدوں میں انہوں نے ادب کی ترویج کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی خیالات و نظریات کو دلیری اور بے کانہ انداز سے شامل کرنا شروع کیا۔ انہوں نے ۱۹۰۹ء میں ہندوستان کی مکمل آزادی کا نعرہ بھی بلند کیا اور عوام کو اس کے حصول کے لیے برطانوی سامراج کے سامنے سینہ سپر ہوجانے کی تلقین کی۔ وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین اتحاد قائم کرنے کے داعی بھی تھے اور یہ جدوجہد ۱۹۲۲ء تک کرتے رہے اور ناامید ہوکر اس نظریے سے دستبردار ہوگئے۔ دوسری جانب ادبی پرچوں کے ذریعہ مولانا نے اُردو ادب کی جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا سنہری باب ہیں۔ اردو ادب میں انہیں اعلیٰ مقام حاصل رہے گا۔ دونوں صورتوں ادب اور یا سیاست مولانا نے مقصدی صحافت کی ، اصولوں کے پابند، حق گوئی ، بے باکی، عزم و استقلال میں چٹان کی مانند مضبوط انگریز کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اپنے نقطہ نظر پر ڈٹے رہنے والوں میں سے تھے۔برطانوی سامراج کا ظلم و بربریت، جیل سختی اور مظالم حسرت کے مقصد کے سامنے ڈھیر نظر آتا ہے۔

مولانا حسرت موہانی نے اپنے ایک مضمون میں اپنے شجرہ نسب، خاندان کی تفصیل، بیگم سے قرابت، سلسلہ علالت اور انتقال سے ایک روزقبل خواب میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کی تفصیل بیان کی ہے۔ آخر میں حسرت نے لکھا کہ مجھ کو برابر پاداش کا خطرہ لگا رہتا تھا جس کا اظہار میں نے اپنی آخری غزل میں بایں الفاظ میں کیا ۔ اس غزل کا ایک شعر ؂
چھوڑ کر وہ چل نہ دیں آخر ذراہِ انتقام
مجھ کو تنہا رات دن آنسو بہانے کے لیے

بیگم حسرت موہانی نے ۸ اپریل ۱۹۳۷ء کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ حسرت نے اپنے جذبات کا اظہار اپنی ایک غزل میں اس طرح کیا ؂
عاشقی کو حوصلہ بیکار ہے تیرے بغیر
آروزُو کی زندگی بیکار ہے تیرے بغیر
کاروبارِ شوق کی اب وہ تن آسانی کہاں
دِل پہ ذوق شاعری اِک بار ہے تیرے بغیر
جس فراغت کاتمنائی تھا میں تیرے لئے
اب وہ حاصل ہے تو اِک آزار ہے تیرے بغیر

اردو ادب کا کون سا ایسا بڑا ادیب اور دانشور ہے جس نے حسرت پر قلم نہیں اٹھا یا۔ حسرت کی شخصیت سے لے کر سیاسی جدوجہد، ادب کے مختلف پہلوؤں پر علیحدہ علیحدہ مضامین اور کتابیں لکھی گئیں اور حسرت پر مختلف زاویوں سے تحقیق کا عمل جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔حسرت پر کئی احباب نے کام کیا ۔ حسرت موہانی کے سوانحی تعارف کے طور پر سب سے پہلے ۱۹۱۸ء میں ’’حالات حسرت‘‘ کے عنوان سے عارف ہسوی کی کتاب شائع ہوئی۔ ۱۹۴۶ء میں عبدالشکور نے ’’حسرت موہانی ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، محمد اسلم ہندی نے ۱۹۵۵ء میں ’’راز دانِ حیات‘‘ تصنیف کی، اسی زمانے میں جناب عبد القوی دسنوی نے ’’حسرت کی سیاسی زندگی‘‘ کے نام سے کتاب چھاپی، پھر ساٹھ کی دیہائی میں ’’حسرت کی شاعری‘‘ اور ’’مولانا حسرت موہانی‘‘ کے عنوان سے علی التر تیب جناب داکٹر یوسف حسین خان اور جناب حکیم محمد سعید کی کتابیں شائع ہوئیں۔حسرت موہانی کے حوالہ سے سید اشتیاق اظہر کی مطبوعات میں سید الا حرار، مولانا حسرت موہانی حصہ اول ذاتی زندگی( اشتیاق اظہر اور نصرت موہانی)، حسرت کی زندگی، مقا لات حسرت، مولانا حسرت موہانی کا سلسلہ سخن، نشاط النسا ء بیگم حسرت موہانی سیرت و خطوط کی روشنی میں، حسر ت موہانی کی منتخب نظمیں (انگریزی ترجمہ) حسرت شناسی اور حسرت فہمی کی تحریک کو ایک نئی سمت دی۔جناب شفقت رضوی نے حسرت پر کئی کتابیں مرتب کیں ان میں ’گلدستہء حسرت‘، ’انتخاب دیوانِ حسرت‘،’ مولانا حسرت مجاہد آزادی کامل‘،’ مطالعہ حسرت موہانی ‘اور’ مولانا حسرت موہانی کتابیات‘ شامل ہیں۔ان مطبوعات کے بعد کراچی میں حسرت موہانی میموریل لائبریری ایند ہال ٹرسٹ نے حسرت پر مطبوعات کا سلسلہ دوبارہ جاری کیا ۔ ابتدا ء میں سید اشتیاق اظہر نے حسرت کے حوالہ سے کئی تالیفات مرتب کیں۔کراچی کے علاقے نارتھ نا ظم آباد میں قائم ’حسر ت موہانی لائبریری و ٹرسٹ ‘ جہاں ایک عمدہ لائبریری بھی قائم ہے حسرت فہمی اور حسرت شناسی کی تحریک کو زندہ رکھنے اور حسرت سے محبت کرنے والوں کی دلچسپی کا سامان فراہم کر نے میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے۔

حسرت موہانی نے ۱۹۵۰ء میں حج ادا کیا۔ وہ حج سے واپسی پر پاکستان بھی تشریف لائے ۔ شاید انہیں اپنے بلاوے کا احساس ہو چلا تھا ، بعض نے لکھا کہ انہیں اپنی موت کا یقین ہو گیا تھا ۔ انہیں اپنے مقصد میں کامیاب ہونے میں بے شمار مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور پاکستان تشریف لائے، کراچی میں اپنے احباب سے ملاقات ان کا بنیادی مقصد تھا۔ یہاں آپ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ مستقل طور پر پاکستان میں قیام کرلیں لیکن آپ کا جواب تھا کہ ’’میں ہندوستانی مسلمانوں کو اکیلا نہین چھوڑ سکتا‘‘۔ کراچی سے لاہور ہوتے ہوئے مولانا کانپور چلے گئے۔بیماری طول پکڑتی جارہی تھی، کمزوری اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔بہتر علاج کی غرض سے آپ کانپور سے لکھنٔو منتقل ہوگئے اور فرنگی محل میں قیام کیا اسی جگہ ۱۳ مئی ۱۹۵۱ء کو مولانا حسرت موہانی نے داعیٰ اجل کو لبیک کہا اور مولوی انوار کے بَاغ میں تدفین عمل میں آئی۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285024 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More