کچھ ہماری بھی سنو

وکلاء کی دو سال کی پرامن تحریک میں ایک ٹہنی، ایک بلب۔، ایک گملا تک نہ ٹوٹا۔ مخالف نعروں سے مزین بینروں کی حفاظت کر کے وکلاء کی قیادت نے جمہوری اقدار کو مستحکم کیا۔ مگر اچانک ایک خاص تاریخی مرحلے پر میڈیا پر دکھایا جانے لگا کہ وہ وکلاء اپنے روایتی استدلالی رویہ کو چھوڑ کر پولیس اور صحافیوں پر تشدد کرنے لگے۔ ”مظلوم“ پولیس کے ساتھ میڈیا کی مظلومیت کی داستانیں اس طرح خلط ملط کردی گئیں کہ جیسے پولیس اور میڈیا کی اتھارٹی کو بیک وقت وکلاء سے خطرہ پیدا ہوگیا۔ دونوں وکلاء کے خلاف یک جان دوقالب کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

میڈیا نے بلاتحقیق ایسے تھانے دار کی حمایت شروع کردی جس پر گینگ ریپ کا الزام تھا اور اس کے خلاف عدالتی اور محکمانہ کارروائی شروع ہونے والی تھی۔ مورخہ 8-3-09 کو محمد شبیر کی بیٹی خدیجہ بی بی کو طارق گلزار اور ایلیٹ فورس کے شیراز نے ریحانہ کی مدد سے اغوا کیا۔ جس پر محمد شبیر نے ایف آئی آر نمبر 259/09 تھانہ نشتر کالونی میں درج کرائی اس کیس کی تفتیش اسی فقیر حسین وٹو اے ایس آئی کے پاس آئی جو میڈیا کا پسندیدہ ہیرو ہے اور جسے دکھائے بغیر صحافیوں کو چین نہیں آتا۔ اس ”مظلوم“ اے ایس آئی نے اس ایف آئی آر کے دو ملزمان کو بے گناہ قرار دے دیا۔ ریحانہ بی بی کی ضمانت سیشن سے خارج ہو کر ہائیکورٹ میں پیش کی گئی۔ جہاں اسی فقیر حسین وٹو نے 5-6-2009 کو ہائیکورٹ کے سامنے بیان دیا کہ اس نے مغویہ خدیجہ بی بی کا فون وصول کیا ہے جس میں خدیجہ بی بی نے بتایا ہے کہ اس نے اپنی رضامندی سے کسی علی رضا نامی شخص کے ساتھ نکاح کرلیا ہے۔ اس بیان پر چونکہ ثابت ہوگیا کہ اے ایس آئی کا کوئی نہ کوئی رابطہ مغویہ سے ہے اس لئے اس اے ایس آئی کو مغویہ کو عدالت میں پیش کرنا ہی تھا۔ مگر علی رضا نام کا کوئی شخص موجود ہی نہیں ہے۔

ایس پی کے سامنے انکوائری کے لئے یہ سارا معاملہ پیش کیا گیا۔ جس نے اے آیس آئی کو حکم دیا کہ ہر حالت میں لڑکی کو پیش کیا جائے اس اے ایس آئی نے لڑکی کے بھائی اور باپ (ایف آئی آر نمبر 259/09کے مستغیث) محمد شبیر کو گھر سے اٹھایا اور لڑکی کے سامنے شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور لڑکی سے کہا کہ اگر ان کی زندگی عزیز ہے تو ایس پی کے سامنے وہ بیان دو جو ہم کہتے ہیں۔ لڑکی نے ایس پی کے سامنے وہی بیان دیا اور ایس پی نے لڑکی کو دارالامان بھجوا دیا جہاں سے اسے ایس آئی نے نکلوا کر غائب کردیا۔ اس لڑکی کا اتا پتہ سوائے اس اے ایس آئی کے اب بھی کوئی نہیں جانتا۔ اس مغویہ نے اپنے کزن وکیل کو تھانے میں بتایا کہ یہ اے ایس آئی دیگر ملزمان کے ساتھ مل کر میرے ساتھ گینگ ریپ کرتے رہے ہیں چونکہ یہ اے ایس آئی کسی عدالت میں اس لڑکی کو پیش کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ اس لئے اس کے لئے ضروری تھا کہ عدالتی اور محکمانہ کارروائی سے توجہ ہٹانے کیلئے اور وکیلوں کی قانونی کارروائی کو روکنے کیلئے کوئی غیرمعمولی ڈرامہ کیا جائے۔ اس نے پہلے سے کیمروں کا انتظام کیا اور مخصوص وکیلوں کو انتہائی غلیظ گالیاں دیں جس پر مشتعل ہو کر وکیلوں نے اس اے ایس آئی کے ساتھ لڑنا شروع کردیا۔ اور اس طرح پولیس میڈیا ملی بھگت سے اس اے ایس آئی کی نہ صرف جان چھوٹ گئی بلکہ پولیس کے اعلیٰ افسران کو اس کی مظلومیت کا ساتھ دینا پڑا۔ وہ لڑکی آج بھی غائب ہے۔ اس لڑکی کا بھائی حسنین بغیر گرفتاری درج کئے آج بھی اسی اے ایس آئی کی غیرقانونی تحویل میں تشدد کا شکار ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس لڑکی پر بھی ایک ایف آئی آر درج ہوچکی ہے۔ وکیلوں پر بھی جھوٹی ایف آئی آر ایک اضافی باب ہے۔ وکلاء کی قیادت معذرت خواہانہ انداز میں بلیک میلنگ کا شکار ہورہی ہے۔ ٹی وی پر بار بار جو منظر اس اے ایس آئی کا دکھایا جارہا ہے۔ وہ اس گھناﺅنے کردار کے شخص کے پہلے سے تیار کردہ سکرپٹ اور سکرین پلے کا مرہون منت ہے۔ میڈیا نے کمال محنت سے ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا دیا اور اس تھانیدار کے خلاف ہونے والی کارروائی کا رخ موڑ دیا۔

اس تھانیدار سے صحافیوں کی طرف کہانی کو کس طرح موڑا گیا یہ اس سازش کو بے نقاب کرتا ہے۔ جو کہیں دور بیٹھے بااثر لوگوں نے تیار کی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ہر وقت کیمروں سے مسلح ہونے کے باوجو صحافی ایک ایسا منظر پیش نہ کرسکے کہ جس میں کسی وکیل کو کسی صحافی پر تشدد کرتے دکھایا گیا ہو۔ یہ بناوٹی شوروغوغا صرف چند بکاﺅ صحافیوں کا ڈرامہ ہے۔ جو ہمیشہ ایجنٹوں کے ایجنٹ رہے ہیں۔ اس مختصر سے گروہ کی وجہ سے صحافت کے قابل احترام شعبے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ مدبر اور معزز صحافی آج بھی اس جھوٹی لڑائی کو ختم کرانا چاہتے ہیں۔

بحالی عدلیہ کی قومی تحریک کے دو مستحکم ستون اور مستقبل کے ممکنہ شرکائے جدوجہد یعنی میڈیا اور وکلاء کے درمیان غلط فہمی اور دشمنی کی خلیج پیدا کرنا آسان کام نہ تھا۔ لیکن خفیہ ہاتھوں کی اعانت سے دراڑ بڑھتی جارہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس اختلاف سے قومی اہداف کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہوگی یا سہولت۔ قومی تفاخر کا جذبہ مجروح ہوگا یا قومیت پروان چڑھے گی۔ قوم کی قوت محرکہ کو شکست فاش دینے کے لئے وہ تمام مفاد پرست قوتیں اکٹھی ہوگئیں جو کبھی نہیں چاہتیں کہ پاکستانی عوام میں خود اعتمادی پیدا ہو۔ یا اجتماعی جدوجہد کی خواہش منظم ہو یا مشترکہ قومی اہداف کے لئے پوری قوم متحد ہوکر قیام کرے۔ آمریت کی پروردہ انہی قوتوں سے ملک میں بار بار سیاسی عمل کے تسلسل کو توڑا گیا۔ اکثریت کی حامل سیاسی قیادت کو بدنام کیا گیا۔ انہی نقب زنوں کے ہاتھوں قوم کو اجتماعی معاملات سے لاتعلق کردیا گیا۔ کئی بار میڈیا کو عضو معطل بنانے کی کوشش کی گئی۔ میڈیاکو کبھی ڈرایا گیا اور کبھی خریدا گیا۔ انہی مکروہ سازشوں نے وکلاء کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے ان میں گروہ بندی کی سازش کی۔ وکلاء کو نوکریوں کا لالچ دے کر ان کی تحریک کو کمزور کیا۔

اب آخری حملے کا وقت آگیا ہے۔ جس کے دفاع کے لئے ہر محب وطن کو متحد ہونا پڑے گا۔وکلاء پی سی او کے خلاف تحریک شروع کرنے والے تھے اپنی صفیں درست کررہے تھے۔ سپریم کورٹ کا فل بنچ ایک تاریخ ساز فیصلہ کرنے والا تھا۔ ایسی نازک گھڑی میں میڈیا ننگی تلوار لے کر اپنے تحریکی ساتھیوں یعنی وکلاء کے خلاف نبرد آزما ہوگیا۔ وقت کا انتخاب بتاتا ہے کہ مقاصد کیا ہیں۔ دو بھائیوں کی لڑائی سے دشمن خوش ہوتا ہے۔ ہمیں دشمن پر نگاہ رکھنا ہوگی جس طاقت نے عدلیہ پر حملہ کیا اور پھر بہت مجبور ہوکر اسے بحال کیا۔ وہ طاقت ایک بار پھر اس وطن کی عظمت کی تحریک پر حملہ آور ہوگئی ہے۔ عدلیہ میں سے گندگی کو نکالنے کے عمل کو شکست دینی ہے۔ عقبی دروازوں سے خوشامدیں اور ترلے کرکے اونچی کرسیوں پر بیٹھنے والے چھوٹے لوگوں کو بچانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے وکلاء کا میڈیا ٹرائل بہت ضروری تھا مگر حیرانگی اس بات کی ہے کہ آج تک کسی صحافی پر کسی وکیل کو تشدد کرتے کیوں نہیں دکھایا جاسکا۔ سیشن جج کی کنٹین کے سامنے کسی صحافی پر تشدد کی مبینہ جائے وقوعہ پہلے عامر ہوٹل پر تبدیل کی گئی اور اب کہا جارہا ہے کہ وہ وقوعہ سیکرٹریٹ کے چوک پر ہوا ہے۔ جائے وقوعہ کے تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پڑرہی ہے۔ یاد رہے کہ سیکرٹریٹ کا چوک خفیہ کیمروں سے کور کیا گیا ہے اور وہاں پر پولیس کے متعدد ناکے لگے ہوتے ہیں۔ سول کپڑوں میں ملازمین بھی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ اتنے انتظامات کے باوجود کوئی نہیں بتا سکتا کہ کب اور کیسے صحافی پر تشدد ہوا اور کیمرہ ٹوٹا۔ بالکل اسی طرح ہائیکورٹ میں بھی میڈیا ایڑیاں اٹھا اٹھا کر ایک وقوعہ بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ حالانکہ وہاں پر بیس سے زیادہ میڈیا کے کیمرے تصویر کشی کررہے تھے ہائیکورٹ کے اپنے خفیہ کیمرے بھی موجود تھے۔ وہاں پر موجود ہر وکیل حلف دینے کو تیار ہے کہ کسی وکیل نے کسی صحافی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ کچھ وکیلوں نے اپنے موبائل کیمروں میں ایک صحافی کو دوسرے صحافی کی قمیض کندھے کے پاس پھاڑتے ہوئے محفوظ کرلیا ہے۔ جو ٹھیک وقت پر پیش کردی جائے گی۔ اگر میڈیا اسی شاخ کو کاٹنا چاہتا ہے جس پر اس کا قیام ہے اگر میڈیا اپنی قربانیوں اور جدوجہد کو خود ہی نفی کرنے پر تل گیا ہے تو اس خودکشی کا نتیجہ پوری قوم کو بھگتنا ہوگا۔
Syed Nisar Safdar
About the Author: Syed Nisar Safdar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.