پاکستان میں تعلیم کی موجودہ صورت حال۔۔۔۔اور ہماری ذمہ داریاں

کہتے ہیں کہ جب انگریز برصغیر میں آیا تو مسلمانوں کی شرح خواندگی نوے فیصد تھی۔۔۔وہ انگریز جو دنیا کو تسخیر کرنے اور دنیا میں جہالت اور غربت کو دور کرنے کا خواہاں ہے۔ایسا کیوں ہوا کہ انگریز کے قدم رکھتے ہی مسلمان علم اور عمل دونوں سے دور ہوتے چلے گئے۔۔۔۔زیر نظر مضمون میں ان عوامل کا احاطہ کیا جائے گا۔

ذہنی غلامی:
کہا جاتا ہے کہ بند ذہن ہر طرح کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔غلامی ایسی ذہنی بیماری ہے جو انسان سے اس کی اپنی ذات پر سے اعتماد اور کچھ کرنے اور آگے بڑھنے کی لگن کو ختم کر دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کے آنے سے مسلمان علم و عمل سے دور ہوتے چلے گئے۔کہا جاتا ہے کہ عرب قوم کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ہر طرح کے بیرونی تسلط اور ذہنی غلامی سے آزاد رہے تھے،جبھی نبی کریمﷺ کو ایک ایسی قوم میں مبعوث کیا گیا کہ ان کے دماغ اگرچہ جاہلان رسومات میں مشغول تھے مگر آزاد تھے۔یہی وجہ تھی کہ نئی تعلیمات نے ان پر انمٹ نقوش چھوڑے اور اکیس سال کے قلیل عرصے میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔دنیا آج تک حیران ہے۔

میکالے کا دیا ہوا نظام تعلیم:
پاکستان کو آزاد ہوئے ایک لمبا عرصہ بیت چکا مگر ہم آج بھی ذہنی طور پر آزاد نہیں ہو سکے،و؟اس کی وجہ لارڈ میکالے کا دیا ہوا نظام تعلیم ہے جو کہ ایک خاص مقصد کے لیے تیارکیا گیا۔جس کا مقصد انسانوں کی ایک ایسی کھیپ تیارکرنا تھی جو کہ کلرکی کا کام سنبھال سکے ۔جن کے دماغ بند ہوں۔یہی وجہ ہے ہم میں آج بھی لیڈرشپ کا فقدان ہے۔کوئی ایک بھی انسان ایسا نہیں جو خواب غفلت سے جگا سکے۔

مشرقی علوم سے نفرت اور انگریزی زبان کی اجارہ داری:
میکالے ایک متعصب شخص تھا۔اس نے اپنے دیے ہوئے نظام تعلیم میں انگریزی علوم کے تسلط کو برقرار رکھنے اور مشرقی علوم سے نفرت کو پھیلانے کے لیے ایک ایسی بنیاد رکھی جس سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔بلکہ یہ بنیاد دن بدن ہمیں اور ہماری نئی نسل کو نگلتی جا رہی ہے۔زبانوں میں ایسا الجھا دیا گیا ہے کہ اصل مقصد پیچھے رہ گیا ہے۔

آبادی میں اضافہ اور دیہی زندگی:
2012 کے سروے کے مطابق پاکستان میں تعلیم یافتہ لوگوں کی شرح تقریباَ 58 فیصد ہے اور سروے سے مزید یہ معلوم ہوا کہ دیہی علاقوں کی نسبت شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کافی زیادہ ہے۔
دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان خواندگی کی شرح میں فرق کی کافی ساری وجوہات ہیں جیسے دیہی علاقوں میں سرکاری اداروں کی کم تعداد، تعلیمی سہولتوں کا فقدان وغیرہ۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح مزید بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پڑھی لکھی قوم ہی ملک کی ترقی میں اہم کردارادا کر سکتی ہے۔ خواندگی کی شرح میں اضافہ کرنے کی ایک اوبڑی وجہ روزگار کے بڑھتے ہوئے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہے کیونکہ پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے بہتر مستقبل کی تلاش میں مصروف ہو جائیں گے اور جلد ہی اپنی منزلوں تک پہنچ جائیں گے کیونکہ ایک پڑھا لکھا انسان اپنے روزگار کے لیے وسائل پیدا کرسکتا ہے۔

نااہل انتظامیہ:
پاکستان میں تعلیمی فقدان کی ایک بڑی وجہ نااہل انتظامیہ ہے جن میں جعلی ڈگریوں والے ہمارے نمائندے بھی شامل ہیں جنہوں نے ملک کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزارت تعلیم کا عہدہ جعلی ڈگری ہولڈرشیخ وقاص اکرم جیسے شخص کو دیا گیا، ایک جعلی ڈگر والا شخص تعلیم میں کیسے بہتری لائے گا۔ وزراء اپنی مراعات اور پروٹوکول کے لیے تو اسمبلیوں میں بل پاس کرا لیتے ہیں مگر تعلیمی اصطلاحات میں بہتری کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا جا رہا۔ حال ہی میں پاکستان کے حالیہ وزیراعظم کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔اس ملک کی شرح خواندگی اور تعلیمی معیار کیا ہوگا جہاں ڈگریاں یوں بانٹی جا رہی ہوں۔

دانش اسکول ہی کی مثال لے لیں جس پراربوں روپےلاگت آئی مگر یہ ایک خاص علاقے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا حالانکہ سرکاری تعلیمی ادارے پورے پاکستان میں موجود ہیں مگر انہیں اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ توانتہائی فضول عمل ہے کہ پہلے سےموجود تعلیمی اداروں پرتوجہ دینے کے بجائے مزید نئی عمارتیں بنانا شروع کردیا جائے اوراربوں روپے خرچ کر کے بھی فائدہ صرف خاص ریجن کو ہو جہاں دانش اسکول واقع ہیں۔ پاکستان میں تعلیم ایک رخ یہ بھی ہے کہ سرکاری اسکولوں کی چھت تک نہیں اورطلبہ کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبورہیں ۔راقمہ خود پاکستان کے دل لاہور میں قذافی سٹیڈیم کی قریب واقع ایک سکول میں پڑھاتی رہی جہاں طالبات گرمی سردی کھلے آسمان تلے بیٹھنے پہ مجبور،یہ تو لاہور کے سکول کا حال ہے۔دیہی علاقوں کا کیا ہو گا ؟

موجودہ شرح خواندگی اور اعدادوشمار:
پوری دنیا میں خواندگی کی شرح اگر دیکھی جائے تو یورپی ممالک میں شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی خواندگی کی شرح 74 فیصد ہے جبکہ چین کی شرح خواندگی 93 ہے جو پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں تعلیمی مسئلہ آج کا نہیں بلکہ ملکی قیام کے وقت سے چلا آرہا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں شرح خواندگی کو دیکھا جائے تو راولپنڈی کے قریب واہ کینٹ (ٹیکسلا) سب سے آگے ہے، دوسرے نمبر پراسلام آباد ہے جس کی شرح خواندگی 87 فیصد ہے ، جبکہ 84 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ لاہور کا تیسرا نمبر ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ناخواندہ افرادکی شرح 79 فیصد ہے اور شرحِ خواندگی کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر دنیا میں 180واں ہے۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق اس رپورٹ میں سنہ 2012 میں 221 ممالک میں عوام کی تعلیمی حالت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

رپورٹ میں درج ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ناخواندہ افراد کی عمر 15 سے 24 برس کے درمیان ہے اور اس عمر کے 72 فیصد افراد تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہیں۔

بتایا گیا ہے پچیس سے 44 برس کے افراد میں ناخواندگی کی شرح 57 اور 45 سے 54 برس کے افراد میں 46 فیصد ہے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ شرحِ خواندگی 55 سے 64 برس عمر کے افراد میں پائی گئی جن میں سے 62 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے اور ناخواندگی کی شرح سب سے کم 38 فیصد تھی۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق شرح خواندگی کے حوالے سے پاکستان جنوبی ایشیا میں صرف افغانستان اور بنگلہ دیش سے اوپر رہا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2012 میں 70 لاکھ طلبہ سکول اور کالج جا رہے تھے جن میں سے 29 لاکھ بچے پرائمری سکول، 26 لاکھ سیکنڈری سکول اور 15 لاکھ کالج یا یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے۔
یونیسکو کے مطابق اس ملک میں محض تین فیصد بچے ہی ایسے ہیں جو کالج تک پہنچ پاتے ہیں اور ان صرف ایک فیصد ہی گریجویشن کی سطح پر تعلیم حاصل کر پاتا ہے۔

اس کے برعکس پاکستان میں 75 فیصد طلبہ و طالبات نے میٹرک سے قبل ہی تعلیم کو خیرباد کہا اور صوبہ بلوچستان اور سندھ میں تین سے پانچ برس عمر کے بالترتیب 78 اور 72 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔ دوسری جانب حکومت خواندگی بڑھانے کی کوششوں سے مخلص ہونے کا دعویٰ بھی کرتی رہی ہے اور صوبہ پنجاب میں تو حکومت نے 100 فیصد خواندگی کے لیے مہم کا آغاز بھی کر رکھا ہے۔

ہماری ذمہ داریاں:
پاکستان کے حکمرانوں کی اب تک کی پالیسی اور کارکردگی تسلی بخش نظر نہیں آتی،سڑکیں ،پل اور عمارتیں بنانا اتنا اہم نہیں جتنا دماغ بنانا۔نبی کریم ﷺ کی سنت ہمارے سامنے ہے۔انھوں نے مدینہ میں آکر جو اسلامک مملکت بنائی وہاں سڑکیں اور پل نہیں بلکہ لوگوں کو وژن دیا۔یہی وژن تھا کہ مسلمان دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا پر حکمرانی کرنے لگے۔لحاظ ایسی قیادت آگے لائی جائے جو ایمان اور بصیرت رکھتی ہو۔
ہر انسان سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔لہذا ہر انسان کی یہ انفرادی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم اور عمل عام کرنے کے لیے حتی الامکان کوشش کرے۔اگر ہر شخص یہ عہد کر لے کہ اس نے کم ازکم کسی ایک بے وسیلہ انسان کو پڑھانا ہے۔تو معاشرے میں خاطر خواہ تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔کالجز اور یونیوسٹیز میں ایسی سرگرمیاں رکھی جائیں کہ ہر طالب علم ان پڑھ بچوں کو تعلیم دے۔جس کے اضافی نمبرز رکھے جائیں۔باحثیت لوگوں صدقہ و خیرات کی مد میں جو روپیہ خرچ کریں تو ان کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پر رکھیں۔اور اس سلسلے میں اقدامات کریں۔علماء اس سلسلے میں بہت بہتر اقدامات کر سکتے ہیں۔مساجد کو تعلیمی مراکز بنائیں۔ان کے اندر لاابریریاں بنائیں۔قرآن حدیث کے علاوہ دیگر علوم کو بھی پڑھائیں۔

درج بالا اقدامات اگر خلوص دل سے کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں تعلیم عام ہو سکے۔
 
robina shaheen
About the Author: robina shaheen Read More Articles by robina shaheen: 31 Articles with 104710 views I am freelancer and alif kitab writter.mostly writes articles and sometime fiction.I am also editor and founder Qalamkitab blog... View More