نبی کریم ﷺ کی فصاحت و بلاغت

تاریخ شاہد ہے کہ انسانی قیادت کا راز’’ حسن خطابت ‘‘ میں پوشیدہ ہے ۔جو بہتر طریقے سے بات سمجھا سکا۔لوگوں نے اسی کو آگے بڑھایا ۔جس نے تقریر کا جادو جگایا ،اسی کو عوام نے اپنا لیڈر بنایا۔ جو بہتر طریقے سے ترجمانی کا حق ادا کر سکا ،قوم نے اسی کے سرپر سربراہی کا تاج سجایا۔غرضیکہ ارتقائے انسانیت کا قافلہ ’’زبان و بیان ‘‘ہی کی علمبرداری میں فصاحت و بلاغت کے بھر پورپھر یرے اڑاتا ’’ایجاد واختصار ‘‘ کا پرچم لہراتا ہوا آگے بڑھتا رہا ہے!

ٍ’’خوش کلامی ‘‘نے ہر قوم و ملت سے خراج تحسین لیا۔ ’’شیریں بیانی‘‘ نے ہر جگہ دلوں پر راج کیا ہے۔

سنت الہیٰ:اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جس زمانہ میں جس چیز کا زور و شور ہوتا تھا ،اسی کے مطابق اصلاح معاشرہ کے لیے اس دور کے پیغمبر کو معجزہ خاص عطا ہوتا تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جاد و کا بڑا زور تھا۔’’سحر سامری‘‘ مشہورتھا ۔چنانچہ اس دور کا جادو توڑنے کیلئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ’’عصائے موسوی‘‘عطا ہوا!حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طب و حکمت کا دور دورہ تھا ۔تو رب تعالیٰ نے آپ کو’’ اعجازمسیحائی‘‘سے نوازا۔

نبی آخرالزمان ﷺ کا دورمبارک آیا تو دنیا حسن بیان سے آراستہ اور زیور کلام سے پیرا ستہ ہو چکی تھی ۔خاص طور پر عرب اپنی زبان دانی اور جادو بیانی کے سبب ساری دنیا کو ’’عجم ‘‘ (یعنی گونگا) کہتے تھے۔چنانچہ عربوں کی زبان بیان کے صنم خانہ کو ڈھانے کیلئے قدرت نے ’’اعجاز قرآن‘‘ سے کام لیا اور ’’صاحب قرآن ‘‘ ﷺ کو فصاحت و بلاغت کے حسن و جمال سے آراستہ و پیراستہ کیا ۔اس طرح خالق نطق و بیان نے اپنے نبی آخرالزماں ﷺ کو سر زمین عرب پر ’’افصح العرب‘‘ بنا کر بھیجا ۔چنانچہ آپ سب سے زیادہ فصاحت و بلاغت کے مالک تھے۔

جیسا کہ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے: ’’جہاں تک فصاحت لسانی اور بلاغت زبانی کا تعلق ہے تو اُمی لقب افصح العرب ﷺ اس میدان میں افضل ترین مقام کے مالک تھے۔‘‘

عرب میں دو قبیلے فصاحت و بلاغت میں سب سے زیادہ ممتاز تھے۔ایک تو’’قریش‘‘ اور دوسرے’’بنو سعد‘‘ ’’قریش ‘‘ میں تو آپ ﷺ پیدا ہی ہوئے تھے ،اور’’ بنو سعد‘‘ میں پرورش پائی تھی۔اس لیے فصاحت و بلاغت اور خطابت آپ کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی! ’’بنو سعد ‘‘صحرائی ماحول میں پرورش پانے سے آپ ﷺ میں زور کلام اور فطری انداز بیان از خود آگیا تھا اور قریش میں تو آپ ﷺ پیدا ہوئے تھے ، جس کا نتیجہ تھا کہ فصاحت و بلاغت کے ساتھ کے ساتھ ’’شہری انداز گفتگو کی شائستگی‘‘اور ’’شستہ الفاظ کی تابندگی‘‘ آپ ﷺ کے کلام میں رچ بس گئی تھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ تائیدالہٰی آپ ﷺ کو حاصل تھی،جس کا ادراک علم انسانی سے بعید ہے۔
الفاظ آیتیں ہیں تو فقرے ہیں سورتیں
گویا کہ بولتا ہوا قرآن ہیں مصطفیﷺ

چنانچہ آپ نے زبان کھولی تو معرفت کا نور برسنے لگا۔آپ نے کلام فرمایا تو فصاحت وبلاغت کے چشمے ابلنے لگے۔۔۔’’جلالت خطابت‘‘آپ پر نثار۔۔۔ ’’طلاقت بیان‘‘ آپ پر قربان ۔۔۔۔ ’’ضعف ایجاز واختصار‘‘ آپ کے وجدان کا صدقہ!

’’حسن ترکیب‘‘و’’جدت ترتیب ‘‘آپ ﷺ کے افکار کی زکوٰۃ! منتخب حروف ‘‘اور موزوں الفاظ ‘‘غلام تھے کہ آپ ﷺ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہا کرتے تھے! ’’خوش بیانی‘‘ اور شگفتہ بیانی‘‘ کنزیں تھیں کہ حاشیہ برداری میں آپ کے پیچھے پیچھے چلا کرتی تھیں! یہی سبب تھا کہ آپ ﷺ برملا فرمایا کرتے تھے۔

انا افصح العرب۔’’میں عرب کا فصیح ترین شخص ہوں۔‘‘ آپ ﷺ کے اس قول مبارک کو نہ تو آپ ﷺ کی زندگی میں کوئی جھٹلا سکا اور نہ آج تک کسی میں یہ جرأت پیدا ہو سکی!

ظاہر ہے کہ جس کے حسن بیان کی خالق نطق و بیان نے خود قسم کھائی ہو۔اس کے ’’کلام فصاحت نظام‘‘ کے مقابل بھلا کون آسکتا ہے؟(الزخرف87)
وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا،نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلام مجید نے کھائی شہا تیرے شہر و کلام و بقا کی قسم

اعجاز کلام:نیتجہ یہ نکلا کہ حضرت افصح العرب ﷺ کے اعجاز کلام نے’’ سخن دان عرب‘‘ کے ’’علم و ادب‘‘ کی بساط ہی الٹ کر رکھ دی۔آپ ﷺ نے’’توحید ‘‘ کا وہ نغمۂ جانفزا چھیڑا کہ عرب کی مردہ روایات کا جنازہ نکل گیا۔کفار کے فرسودہ اعتقادات ماضی کے تاریک غاروں میں دفن ہو کر رہ گئے۔آپ ﷺ کی’’صورت سرمدی‘‘ سے ’’زبان کے جادو گروں‘‘ اور ’’بیان کے سامریوں‘‘ کا طلسم ہو شربا ٹوٹا!

حضرت افصح العرب ﷺ کو فصاحت و بلاغت کی وہ بلندیاں عطا کی گئیں تھی کہ ان کے آگے فن و ادب کی کوئی معراج کمال باقی نہ رہی۔

آپ ﷺ کی زبان حق بیان میں وہ تاثیر تھی کہ اُدھر دہن مبارک سے کوئی کلمہ حق نکلا اور اِدھر کئی دشمن جانی ،نور ایمانی سے سرفراز ہو کر ہمیشہ کیلئے آپ ﷺ کے بے دام غلام بنے۔چنانچہ احادیث مبارکہ میں یہ بات تو اتر سے آئی ہے کہ آپ ﷺ نہایت ’’شریں زبان‘‘اور ’’فصیح بیان‘‘ تھے ۔جو کوئی آپ کا کلام سنتا دیوانہ ہو جاتا۔چنانچہ ایک موقع پر آپ ﷺ کفار مکہ کے سامنے’’سورۃ النجم‘‘ تلاوت کی۔ابھی آپ نے ان پر چند لفظ ہی ادا فرمائے تھے کہ ’’دمک کے ابر سے عالم پر گڑپڑی بجلی‘‘ سننے والے اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے،بے ساختہ سجدے میں گرپڑے۔

انہی’’عرفانی تجلیات‘‘ اور ’’نورانی واردات‘‘ کے سبب سیاہ بخت کافر آپ ﷺ کو دیکھ کر اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیا کرتے تھے کہ کہیں نبی اُمی ﷺ کی آواز حق ان کے محروم کانوں میں نہ پڑجائے اور کہیں اسے سن کر اثر و تاثیر کی نورانی بجلیاں ان کے تاریک دلوں پر نہ ٹوٹ پڑیں اور پھر امر واقعہ بھی یہ تھا کہ آپ ﷺ کے مواعظ حسنہ کے مسحور کن انداز میں تجلیات الہٰی کی بجلیاں کو ندا کرتی تھیں ۔بقول حضرت انس رضی اﷲ عنہ ،ایک دن حضور اقدس ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے لوگو! جو میں جانتا ہوں اگر تم وہ جانتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ!‘‘

حضور ﷺ نے یہ جملہ کچھ ایسے کرب سے فرمایا کہ اس اثر انگیزی سے لوگوں کی حالت غیر ہو گئی وہ منہ پر کپڑے ڈال کر بے اختیار رونے لگے!۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔!!!

حسب حال گفتگو:حضور افصح الخلق ﷺ ہمیشہ حسب حال گفتگو فرمایا کرتے تھے ۔ہر شخص سے اس کے ذہن کے مطابق بات کرتے تھے اور اپنے صحابہ کرام کو بھی یہی ہدایت فرماتے تھے ۔زبان نبوت کا یہ اعجاز تھا کہ سب کچھ بر وقت فطری انداز میں بے تکلفانہ ادا ہوتا چلا جاتا تھا۔آپ ﷺ کے کلام میں ’’آمد ہی آمد‘‘ تھی، آورد‘‘ کا نام تک نہ تھا ۔موقع و محل سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی بات کو مؤثر بنانے کا فن آپ ﷺ کو خوب آتا تھا۔چنانچہ ایک موقع پر وعظ فرماتے ہوئے آپ ﷺ کی نگاہ معرفت اچانک ڈوبتے ہوئے سورج پر جا پڑی ۔سورج کے پیلے چہرے کو دیکھ کر آپ ﷺ نے عجب دلدوزانداز میں فرمایا:’’دنیا کی گذشتہ عمر کے مقابلہ میں اب اس کی عمر کااسی قدر حصہ باقی رہ گیا ہے جتنا آج کے دن کا سورج اور اس کے غروب ہونے کا وقفہ۔‘‘یہ سن کر لوگوں پر رقت طاری ہو گئی ۔دل آخرت کے تصور سے لرزنے لگا۔قرب قیامت کا احساس بیدار ہو گیا!

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ازواج مطہرات آپ ﷺ کے شریک سفر تھیں عرب کا لق و دق صحراتھا ۔حدی خواں نے اُنٹوں کو تیز دوڑانا شروع کیا تو مستورات بیقرار ہونے لگیں ۔اس وقت آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بے ساختہ یہ خوبصورت جملہ نکلا: رویدک رفقا بالقواریر۔آہستہ چلو ساتھ نازک(شیشے کے) آبگینے بھی ہیں۔‘‘

یہ حدیث شریف کیا ہے ؟ سراسر ادبیت ہی ادبیت ہے۔خصوصاً ’’قواریر‘‘ کا لفظ حدیث شریف کی جان ہے ۔ اس میں جو بلیغ ’’کنایہ ‘‘ ہے ،اس کی تعریف سے زبان عاجز ہے۔صنف نازک کو ’’شیشے‘‘ سے تشبیہ دینا آپ ﷺ ہی کا طرۂ امتیاز ہے۔خواتین کی اس خوبصورت تعبیر تو آج تک کوئی بڑے سے بڑا شاعر و ادیب بھی نہ پیش کر سکا ۔حقیقت یہ ہے کہ ساری ادبیت و بلاغت اس مختصر سی حدیث شریف کے اندر سمٹ آئی ہے اور لطف یہ کہ یہاں حقیقی اور مجازی دونوں معانی کی گنجائش موجود ہے۔سبحان اﷲ! سبحان اﷲ!

کلام وبیان میں میانہ روی: حضرت افصح الخلق ﷺ اپنے کلام فصاحت نظام میں درمیانہ روش اختیار فرماتے تھے۔ہمیشہ اعتدال سے کام لیتے تھے میانہ روی کا دامن کبھی نہ چھوڑتے تھے،ہمیشہ حسب موقع اور بقدر ضرورت کلام فرماتے تھے اور وہ بھی اس شان کے ساتھ کہ اپنی گفتگو میں نہایت ’’موزوں الفاظ‘‘ اور جچا تلا مگر نہایت‘‘ مؤثر انداز‘‘ اختیار فرماتے تھے۔بقول ام معبد رضی اﷲ عنہا ’’آپ ﷺ نہ تو کثیر الکلام تھے اور نہ ہی قلیل الکلام،بلکہ آپ ﷺ کی ہر بات بڑی واضح ہوا کرتی تھی۔!‘‘

غرضیکہ آپ ﷺ کے کلام میں الفاظ ضرورت سے کم ہوتے تھے اور نہ ضرورت سے زیادہ ! جیسا کہ ترمذی شریف میں ہے کہ:’’آپ ﷺ کے کلام میں نہ تو سست روی ہوتی تھی اور نہ ہی جلد بازی ،بلکہ الفاظ و معانی کا حسین ’’توازن ‘‘ ہوتا تھا۔

اسی کے ساتھ آپ ﷺ سب سے زیادہ ’’فصیح البیان‘‘، ’’واضح البیان‘‘اور مختصر کلام‘‘ تھے۔ آپ ﷺکے الفاظ سب سے زیادہ وزنی ہوتے تھے اور معانی بھی سب سے زیادہ و سیع ہوتے تھے۔آپ ﷺ کی فصاحت آپ ﷺ کی فطرت کی غمار تھی! آپ ﷺ کی بلاغت آپ ﷺ کے انداز تکلم میں نہ تو بے جا تکلف کا عیب دکھائی دیتا تھا اور نہ ہی اس میں زبردستی کی لفّاظی کا خلل دکھائی دیتا تھا۔

اگر چہ کبھی کبھی کسی خاص موقع پر آپ اپنے خطبے کو طویل بھی کر دیا کرتے تھے مگر یہ طول لوگوں کی بیزاری کا باعث کبھی نہ بنا اور نہ ہی کبھی کوئی بات ضرورت سے زائد محسوس کی گئی ۔کیونکہ آپ ﷺ باتونی پن کو بہر حال ناپسند فرماتے تھے ۔جیسا کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:’’رسول اﷲ ﷺ یونہی باتوں میں نہیں لگے رہتے تھے جیسے تم لوگ باتیں کرتے چلے جاتے ہو۔‘‘نیز بقول حضرت ہند ابی ہالہ رضی اﷲ عنہ:آپ ﷺ کا کلام جوامع الکلم پر مشتمل ہوتا تھا،اس میں نہ تو فالتوبات ہوتی تھی اور نہ ہی کسی کمی یا کو تاہی کا احساس ہوتا تھا۔

نہ کبھی آپ ﷺ نے بازاری زبان بولی نہ کبھی کوئی گھٹیا لفظ استعمال کیا نہ کبھی تصنع برتا اور نہ بناوٹ سے کام لیابلکہ آپ ﷺ کا کلام’’بناوٹ سے خالی‘‘ ،’’تکلف سے پاک‘‘۔۔۔’’تفصیل کی جگہ تفصیل ‘‘، اختصار کی جگہ اختصار ‘‘گویا آپ ﷺ کا کلام مقتضائے حال کے عین مطابق ہوتا تھا۔
سیدھی سیدھی روش پہ کروڑوں درود
سادی سادی طبیعت پہ لاکھوں سلام

حضور اقدس ﷺ کی محفل میں جو شخص بھی اچھی بات کہتا ، آپ ﷺ اس کی تحسین فرماتے !اگر کسی کی گفتگو نامناسب ہوتی تو اشارے کنائے سے اپنی ناپسندید گی کا اظہار فرما دیتے!!دوران گفتگو آپ ﷺ کسی کی بات نہیں کاٹتے اور اگر کوئی دوسرا کسی کی بات کاٹتا تو اس کو بھی ناپسند فرماتے !!! صحابہ کرام کو اس بات کی سخت تاکید تھی کہ کسی کی شکایت یا عیب جوئی نہ کریں ۔آپ ﷺ فرماتے تھے کہ:
’’میں چاہتا ہوں کہ جب دنیا سے جاؤں تو سب کی طرف سے صاف جاؤں۔‘‘

غرضیکہ آپ ﷺ کا طرز کلام،تکلف سے پاک اور آپ کا انداز بیان ،تصنع سے آزاد تھا،نازک سے نازک معانی کو بیان کرنے کیلئے نہایت سادہ وسلیس مگر پر کشش اسلوب لفظی اختیار فرماتے تھے دقیق سے دقیق مطالب کو بڑی روانی سے دل پذیر انداز میں بیان کرتے چلے جاتے ،جسے سن کر روح وجد کرنے لگتی اور دل جھوم جھوم جاتے!

معزز قارئین !دراصل فصاحت و بلاغت کلام کی خوبیاں ہیں ۔اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ نبیوں کا کلام زبان و بیان کی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہوتا تھا۔مگر سرورکائنات ﷺ کو یہ وصف خاص بدرجہ اولیٰ عطا ہوا تھا ۔
الفاظ آیتیں ہیں تو فقرے ہیں سورتیں
گویا کہ بولتا ہوا قرآن ہیں مصطفیﷺ
 
Peer Owaisi Tabasum
About the Author: Peer Owaisi Tabasum Read More Articles by Peer Owaisi Tabasum: 85 Articles with 168661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.