تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس ،بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے

خبر ہے کہ صدر ممنون حسین نے تحفظ پاکستان (ترمیمی) آرڈیننس 2014 پر دستخط کرنے کے بعد اسے جاری کر دیا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت تحفظ پاکستان آرڈیننس 2013 (IX آف 2013ء) کی مختلف شقوں میں ترمیم اور بعض شقوں کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کی سالمیت اور سکیورٹی کیخلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کیخلاف قانونی کارروائی کو موثر بنایا گیا ہے۔ 2013 ء کے آرڈیننس IX کے سیکشن 2 میں ترمیم کر کے کلاز (سی) میں اضافہ کیا گیا ہے اور اس میں جنگجو دشمن کا مطلب ایسا فرد ہے جو پاکستان، اس کے شہریوں، مسلح افواج یا نیم مسلح افواج کیخلاف ہتھیار اٹھاتا ہے یا پاکستان کیخلاف جنگ کرنے یا ہتھیار اٹھانے میں معاونت یا مدد فراہم کرتا ہے یا پاکستان کی سا لمیت اور سکیورٹی کیلئے خطرہ پیدا کرتا ہے یا شیڈول جرائم کے ارتکاب کی دھمکی دیتا ہے، اس میں وہ فرد شامل ہیں جو پاکستانی سرزمین کے باہر کوئی اقدام کرتا ہے جس کیلئے اس نے پاکستان کی سرزمین کو اس جرم کے ارتکاب کیلئے استعمال کیا جو پاکستان کے اور ریاست کے قوانین کے تحت جرم قرار پاتے ہیں۔ آرڈیننس کے تحت سیکشن 6 میں بھی ترمیم کی گئی ہے جس کے ذریعے وفاقی حکومت تحریری حکم سے کسی فرد کو اپنے حکم نامہ میں متعین مدت کیلئے تدبیری حراست میں لے سکے گی۔ یہ حراست آئین کے آرٹیکل 10 کی شقوں کے مطابق ہو گی۔ ایسے تمام علاقوں جہاں وفاقی یا صوبائی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کیلئے مسلح افواج یا انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 ء کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کیلئے نیم مسلح فوج کو بلایا ہو، یہ بلائی گئی فورس کسی اجنبی دشمن، جنگجو دشمن یا ایسے فرد کو حراست میں لے سکے گی جس کے بارے میں بجا طور پر یہ یقین ہو کہ وہ شیڈول جرائم کے ارتکاب سے وابستہ ہے۔ نوٹیفکیشنز کے دوران یا ان کے واپس لئے جانے پر کسی بھی وقت ایسے نظر بند آدمی کو باضابطہ تفتیش اور پراسیکیوشن کیلئے پولیس یا کسی بھی تحقیقاتی ایجنسی کے حوالے کیا جا سکے گا۔
آرڈیننس کے مطابق اس آرڈیننس کے اطلاق سے قبل مسلح افواج یا نیم مسلح فورسز کے زیر حراست یا گرفتار افراد اس آرڈیننس کی شقوں کے ماتحت زیر حراست یا گرفتار تصور ہونگے۔ کسی نظر بند فرد یا اس کے حراستی مقام کے بارے میں معلومات ظاہر نہیں کی جائیں گی۔ پاکستان کی سلامتی کے مفاد میں اجنبی دشمن یا جنگجو دشمن کے زمرے میں آنے والے ملزم یا نظر بند یا زیر حراست فرد سے متعلق کوئی معلومات یا حراست کی وجوہات سامنے نہیں لائی جائیں گی۔ ترمیمی آرڈیننس میں سیکشن 9 اے شامل کیا گیا ہے جس کے تحت پبلک کو خصوصی عدالت کی کارروائی سے خارج کیا گیا ہے البتہ سزا پبلک میں سنائی جائے گی۔ سیکشن 9 میں ترمیم کے تحت خصوصی عدالت جرم کرنے والوں کو شہریت سے محروم کر سکے گی۔ آرڈیننس کے تحت سیکشن 16 میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور اس میں ذیلی سیکشن 3 کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت اس آرڈیننس کے زمرے میں آنے والے مقدمات کو خصوصی عدالت منتقل کیا جا سکے گا۔ خصوصی عدالت کیلئے یہ ضروری نہیں ہو گا کہ وہ دوبارہ شہادت یا ثبوت ریکارڈ کریں۔ آرڈیننس کے تحت سیکشن 21 اور 22 کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت اس آرڈیننس کی شقوں کو کسی دوسرے قانون پر سبقت حاصل ہو گی۔

آرڈیننس کے تحت لاپتہ افراد پر مقدمات چلائے جائیں گے،جن پر کوئی الزام نہیں انہیں بحالی مراکز میں لانے کے بعد بری کیا جائے گا،خصوصی عدالتیں ملک دشمن اور جنگجو قرار دئیے جانے والوں کی شہریت ختم کر سکیں گی۔ سکیورٹی فورسز کے زیر حراست لاپتہ افراد کے معاملات کو باضابطہ بنانے اور سپیشل کورٹس کے اختیار میں اضافے کیلئے اس آرڈیننس میں 7 ترامیم شامل کی گئی ہیں جن میں لاپتہ افراد اگر سکیورٹی اداروں کے پاس ہوں گے تو وہ اس روز سے زیر حراست ہوں گے جب یہ آرڈیننس نافذ ہوگا سابقہ ایام حراست پر سکیورٹی فورسز کو استثنیٰ مل جائے گا، اب لاپتہ افراد کا معاملہ عدالتوں میں پیش ہوگا۔ تمام لاپتہ افراد کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے، جن پر کوئی الزام نہیں ہوگا انہیں رہا کردیا جائے گا تاہم رہائی سے قبل انہیں فوج یا فوج کی زیر نگرانی کام کرنے والے بحالی سینٹرز پر لایا جائے گا۔ اس کے لئے آرڈیننس میں شامل ترمیم میں کہا گیا ہے کہ فورسز کے بحالی مراکز کے معاملات کو باضابطہ بنایا جائے گاتاہم اس کے اوپن یا خفیہ رکھنے کا فیصلہ فوج پر چھوڑ دیا گیا ہے،آرڈیننس میں خصوصی عدالتوں کو اختیار دیا جارہا ہے کہ جن لوگوں کو جنگجو یا ملک دشمن عناصر قرار دیا جائے گا وہ ایسے پاکستانیوں کی شہریت منسوخ کر سکیں گی۔ اس آرڈیننس کے تحت فورسز کے حراستی مراکز کو افراد کو زیر حراست رکھنے کی قانونی اجازت مل جائیگی۔ ملک دشمن سرگرمیوں پر شہریت منسوخ کی جا سکے گی۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے پیش کردہ تحفظِ پاکستان آرڈیننس کا جائزہ لیگی اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہونے کی صورت میں اس سے متعلق فیصلہ بھی دے سکتی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مالاکنڈ ایجنسی میں واقع حراستی مرکز سے لاپتہ ہونیوالے 35 افراد سے متعلق مقدمے کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے جبری گمشدگیاں روکنے کیلئے ایسا قانون بنایا ہے جس پر جلد عملدرآمد شروع کردیا جائیگا۔ بینچ کے سربراہ نے کہا تھا کہ عدالت کے سامنے ایسا کوئی نیا قانون موجود نہیں عدالت ان افراد سے متعلق انھی قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ دیگی جو اس وقت رائج ہیں۔ ملک میں اس وقت جو حالات ہیں وہ قانون کی عملداری کو یقینی نہ بنانے کا نتیجہ ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس نئے قانون سے جبری گمشدگیوں اور شدت پسندی کے واقعات میں نمایاں کمی آنے کا امکان ہے، اسکے علاوہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلانے میں مدد بھی ملے گی۔ حراستی مرکز سے لاپتہ ہونے والے افراد سے متعلق عدالتی حکم پر عمل درآمد کیلئے مجاز حکام کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں وفاقی حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنائیگی۔

اب یقین ہو چلا ہے کہ اس نئے قانون سے جبری گمشدگیوں اور شدت پسندی کے واقعات میں نمایاں کمی آنے کا امکان ہے، اسکے علاوہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلانے میں مدد بھی ملے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھاکہ جو حالات پیدا ہوئے ہیں، وہ آئین اور قانون پر عمل نہ ہونے کے باعث ہیں۔ ہمارے سامنے یہ بات آ رہی ہے کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں ان پر قانون لاگو نہیں۔ مسودہ سامنے آئے گا تو دیکھیں گے نیا قانون آئین کے مطابق ہے یا نہیں۔ قانون سازی کی بات پہلے بھی آٹھ دس مرتبہ بتائی گئی ہے، یہ شیر آیا، شیر آیا جیسی صورتحال ہے۔ عدالت قانون سازی کیلئے حکومت یا مقننہ کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی۔ ان کی مرضی ہے قانون بنائے یا نہ بنائے۔ جو قانون ہمارے سامنے موجود ہو گا عدالت اس کی روشنی میں فیصلہ کرے گی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس میں 3 ترامیم کی گئی ہیں۔ ہم نے راتوں رات یہ آرڈیننس بنایا ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایک صدارتی آرڈیننس پیش کرنے میں اتنی دیر کیوں کی گئی؟ آرڈیننس کا ڈرافٹ جولائی میں پیش کیا گیا تھا،کیا اتنی لمبی رات بھی ہوتی ہے تو حکومت کا دن کتنا طویل ہو گا؟ا ٹارنی جنرل کا یہ کہنا کہ ہم نے ایک رات میں یہ آرڈیننس نبایا ہے ،اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ حکومت چاہے تو وہ کچھ بھی کرسکتی ہے ۔شیر آیا شیر آیا کی کیفیت ختم ہوچکی ہے اور امید کی جانی چاہئے کہ اب اس نئے قانقن کے آنے سے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہوجائے گا ۔متاثرین اپنے پیاروں کی شکلیں دیکھنے کو ترس گئے ہیں اور آئے نرو کے مظاہروں سے ملک کا بیرون ملک امیج بھی خراب ہورہا ہے ۔جس نے کوئی جرم کیا ہے اس کو پکڑٰن تو عدالت میں پیش کریں چارج شیٹ کریں ،شواہد لائیں اور اس کو سزاء دلوائیں غائب نہ کریں ۔

آرڈیننس کے تحت لاپتہ افراد پر مقدمات چلائے جائیں گے،جن پر کوئی الزام نہیں انہیں بحالی مراکز میں لانے کے بعد بری کیا جائے گا،خصوصی عدالتیں ملک دشمن اور جنگجو قرار دئیے جانے والوں کی شہریت ختم کر سکیں گی۔ سکیورٹی فورسز کے زیر حراست لاپتہ افراد کے معاملات کو باضابطہ بنانے اور سپیشل کورٹس کے اختیار میں اضافے کیلئے اس آرڈیننس میں 7 ترامیم شامل کی گئی ہیں جن میں لاپتہ افراد اگر سکیورٹی اداروں کے پاس ہوں گے تو وہ اس روز سے زیر حراست ہوں گے جب یہ آرڈیننس نافذ ہوگا سابقہ ایام حراست پر سکیورٹی فورسز کو استثنیٰ مل جائے گا، اب لاپتہ افراد کا معاملہ عدالتوں میں پیش ہوگا۔
Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 52002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.