ستارہ علم وشجاعت کا مستحق علمی ہیرو

 ایک زمانہ تھا جب میڈیا میں بیرسٹر اعتزازحسن کا طوطی بولتاتھا۔ پرویز مشرف نے سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری سمیت عدلیہ کے ساٹھ ججزکو برطرف کرکے ایمرجنسی پلس لگائی۔ تو وکلاء نے عدلیہ کی بحالی کے لیے تحریک چلانا شروع کردی۔ اس تحریک کی قیادت بیرسٹراعتزازاحسن کے پاس تھی۔ انہوں نے اس تحریک کو اس انداز سے چلایا کہ میڈیا کے کیمرے اوررپورٹر اس تحریک پر اورعوام کی نظریں نیوزچینلزاوراخبارات پرمرکوزہوکررہ گئیں۔ انہوں نے عدلیہ بحالی تحریک سے ملک بھرمیں ہی نہیں دنیا بھر میں شہرت پائی۔ وہ عدلیہ بحالی تحریک کے ہیر و کہلاتے ہیں۔ ہم اس اعتزاز احسن کی زندگی یا اس کی تعریف میں لکھنے نہیں جارہے ہیں۔ ہم ایک اورہیروکے بارے میں لکھنے جارہے ہیں۔ اس کا نام بھی اعتزازحسن ہے۔ وہ نہ تو بیرسٹرہے اورنہ ہی ایڈووکیٹ ہے۔ اس نے کوئی تحریک بھی نہیں چلائی۔ بیرسٹراعتزازاحسن کو ہیروبننے میں کتنا وقت لگا یہ قارئین اچھی طرح جانتے ہیں۔ اورجس اعتزازکی ہم بات کررہے ہیں اس کو ہیروبننے میں چند منٹ ہی لگے ہیں۔ نام دونوں کا ایک ہی ہے۔ دونوں اعتزازنے قوم کا سرفخرسے بلند کردیا۔ ایک نے عدلیہ کو بحال کرنے اورپھر اسے بچانے کی تحریک چلائی۔ اورایک نے اپنے سکول کے ساتھیوں کی جان بچائی۔ ایک نے پرامن تحریک چلاکرعدلیہ بحالی کی راہ ہموارکی۔ اورایک نے اپنی جان دے کر زندگی کی راہ ہموارکی۔اس تحریر میں ہم ایک ایسے شہید کی بات کرنے جارہے ہیں جو میدان جنگ میں نہیں سکول کے میدا ن میں شہید ہوا۔ اس کی شہادت نے سینکڑوں زندگیوں کو بچالیا۔ جنگ کے میدانوں میں بھی پاکستان فوج کے جوانوں نے جرات وبہادری کی مثالیں قائم کیں۔ اوریہ شہید سکول کے میدان میں اپنی جان دے کر اپنی مثال آپ بن گیا۔ جی ہاں ہم بات کرنے جارہے ہیں۔ ہنگوکے ایک سکول میں شہید ہونے والے اعتزازحسن کی۔

والدین خصوصاًمائیں روزانہ بچوں کو تیارکرکے ناشتہ کراکے اس لیے سکول بھیجتی ہیں کہ یہ پڑھنے لکھنے کے قابل بھی ہوجائیں گے اوراچھے انسان بھی بن جائیں گے۔ تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پڑھائی میں سب سے زیادہ لائق ہو۔ وہ امتحانات میں تمام طلباء سے زیادہ نمبرز حاصل کرنے کا اعزازحاصل کرے۔ والدین کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ اپنی تعلیم مکمل کرکے کسی اچھی سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے۔ تاکہ یہ ان کے بڑھاپے کا سہارابن سکے۔ والدین کو بچوں کی ہر اچھی بات اوران کے ہر اچھے کام پر فخرہوتاہے۔ اپنی جان کو محفوظ کرکے دوسروں کی جان بچانا بھی کسی اعزازسے کم نہیں تاہم اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کی جان بچاتے بچاتے جان سے چلے جانا اس سے بھی بڑے اعزازکی بات ہے۔ بچے جب کوئی اعزازحاصل کرتے ہیں تو والدین کی خوشی کی انتہا ہوتی ہے۔ اعتزازحسن کے والدین بھی اس کو روزانہ تیارکراکے اوراس کو ناشتہ کراکے سکول بھیجتے تھے کہ ان کا یہ نوجوان پڑھ لکھ کر اچھا انسان بن جائے گا۔ اورتعلیم مکمل کرکے کسی سرکاری یا پرائیویٹ ادارے میں ملازمت کرکے ان کے بڑھاپے کا سہارابن جائے گا۔ وہ جس روزشہید ہوا۔ اس روزبھی اس کو والدین نے اس نیت سے ہی سکول بھیجا تھا۔ روزانہ کی طرح اس روزبھی اس دعاکے ساتھ گھر سے سکول جانے کے لیے روانہ کیا تھا کہ خیر خیریت سے گھر واپس آجائے۔ مگر انہیں کیا خبر تھی کہ آج ان کے اس بچے کی زندگی کا آخری دن ہے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ آج ان کا یہ بیٹا زندہ واپس نہیں آئے گا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے جگر کا ٹکڑاایک نئی داستان شجاعت رقم کر جائے گا۔ سکول میں زیرتعلیم کسی بھی طالب علم کے لیے سب سے بڑا اعزازیہ ہوتاہے کہ وہ اپنی کلاس، اپنے سکول، اپنے شہر، ضلع ، صوبہ یاملک بھر میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کر اول نمبر پر آجائے۔ اپنی کلاس میں اول نمبر پر آنا بھی ایک اعزازہے۔ پورے ملک میں اول نمبر پر آنا سب سے بڑا تعلیمی اعزازہے۔ اعتزازحسن کی شہادت کے روزاس کے والدین کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کا بیٹا آج ایسا اعزازحاصل کرے گا کہ اس سے پہلے کسی نے بھی حاصل نہیں کیا ہوگا۔ اعتزازحسن کو اس دن سکول آنے میں دیر ہوگئی تھی۔ اس کو سزاکے طورپر باہر ہی کھڑاکردیا گیا۔ ایک اوراطلاع کے مطابق وہ اپنے دوستوں کے ساتھ سکو ل جارہا تھا۔ تو سکول کی وردی پہنے ہوئے ایک لڑکے نے اس سے سکول کا پتہ پوچھاوہ بھی سکول کے ٹھیک باہرتو اعتزازکو شک گزراکہ یہ سکول پڑھنے کے لیے نہیں کسی اورنیت سے آیا ہے۔ اس کو دیکھ کر اورلڑکے تو سکول کے اندربھاگ گئے۔ لیکن اعتزازحسن بھاگا نہیں بلکہ اس کا پیچھا کیا۔ اس نے مشکوک کو چیلنج کیا اوراسے رک جانے کوکہا۔ جب وہ سکول میں ن گھسنے کی کوشش کررہا تھا تو اعتزازحسن نے اس کو پتھر دے مارا۔ جس کے بعد اس بہادرلڑکے نے اسے پکڑنے کی کوشش کی جس سے وہ گھبراگیا اوردھماکہ کردیا۔ جس سے خودکش بمبارموقع پر ہلاک جبکہ اعتزازحسن کی شہادت واقع ہو گئی۔ اس نے دھماکہ سکول کے بڑے دروازے پر کیا۔ اگر وہ سکول کے اندریہ دھماکہ کرتا تو بہت سوں کی جان جاسکتی تھی۔ کیونکہ اس وقت طلباء سکول کی اسمبلی کررہے تھے۔ پولیس کا کہناہے کہ اس وقت سکول میں دوہزارکے لگ بھگ اساتذہ اورطلباء موجود تھے۔ ہنگو شہر اورپاکستان بھر کے لوگ اس کی بہادری کی تعریف بھی کررہے ہیں اوراس کو ایورڈ دینے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ کسی نے کیا ہی خوب بات کی ہے کہ اس کا کہنا ہے کہ اعتزازنے سینکڑوں طلباء کی جان بچائی ہے۔ اس لیے اس کو ملالہ سے زیادہ ایوارڈ ملنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ اس کی اس بہادری کی تعریف کررہے ہیں۔ اور اس کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ اعتزاز حسن نے اپنی جان دے کر دوہزارکے لگ بھگ جانیں بچائی ہیں۔ اس کو ہنگو اورپاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں ہیروکہا جارہا ہے۔

سینیٹ میں کراچی میں سی آئی ڈی کے ایس ایس پی چوہدری محمداسلم اوردیگر پولیس اہلکاروں پرحملے اورہنگومیں طالب علم اعتزازکی شہادت کے معاملے پر مذمتی قراردادکو متفقہ طورپر منظورکرلیا۔ قراردادمیں چوہدری اسلم کی خدمات اوربہادری پر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ اوراے این پی نے چوہدری اسلم کی شہادت اوراپنے کارکنوں کی ہلاکت کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ اے این پی نے سوات اوربونیرکی طرزپرکراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں پولیس کا مورال گررہا ہے۔ ایوان بالا میں سعید غنی نے قراردادپیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان سی آئی ڈی پولیس کراچی کے ایس ایس پی چوہدری محمد اسلم اوران کے دیگر ساتھیوں کی شہادت پر گہرے دکھ اورافسوس کا اظہارکرتاہے۔ اور اس واقعہ کی شدید مذمت کرتاہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک بہادرافسرتھے۔ جنہوں نے قوم کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اﷲ پاک ان کو جواررحمت میں جگہ دے اوران کے خاندان کو صبر جمیل عطاء کرے۔آمین۔اسی قرارداد میں ہنگو میں سکول کے طلباء کو بچانے کے لئے جان قربان کرنے والے طالب علم اعتزازکو بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ ایم حمزہ نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ چوہدری اسلم ایک نڈراوردلیر افسر تھے۔ ان پر پہلے بھی حملے ہوتے رہے لیکن اپنی جان خطرے میں ڈال کروہ اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انہوں نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ چوہدری اسلم شہید اورہنگو کے طالب علم اعتزازکو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دیا جائے۔ ایک اورخبر ہے کہ ہنگو میں بہادری اورہمت کی مثال قائم کرنے والے طالب علم اعتزازحسین کی قبرپر خراج عقیدت پیش کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ پاک فوج کے دستے نے آرمی چیف کی طرف سے اعتزازکی قبرپر سلامی پیش کی ، پھول چڑھائے اوردعائے مغفرت کی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ اعتزازنے اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کیا۔ آئی ایس پی آرکے مطابق جنرل راحیل شریف نے کہا کہ پندرہ سالہ اعتزازحسین نے بہادری اورقربانی کی عظیم مثال قائم کی ہے۔ قوم کو اس نوجون ہیروپر فخر ہے۔ بریگیڈیئر ندیم ذکی کی سربراہی میں پاک فوج کے چاک وچوبند دستے نے شہید اعتزازحسین کی آخری آرام گاہ پر سلامی پیش کی۔ اس موقع پر اعتزازحسین کے رشتہ دار، سکول کے طالب علموں اوردوستوں سمیت عام لوگوں کی بڑی تعدادموجودتھی۔ اعتزازحسین کے والد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹے نے اپنی جان دے کر نوسو سے زائد طالب علموں کی جان بچائی۔ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میرے پورے خاندان اورپاکستانی قوم کو اعتزازحسین کی شہادت پر فخرہے۔ برطانوی ہاؤس آف لارڈزکے رکن لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ اعتزازکی جرات اوربہادری پرفخرہے۔ برطانیہ میں موجود پاکستانی برادری اورحکومت اعتزازکے خاندان کی مالی امدادکرے۔ ادھر امریکی میڈیا میں پاکستانی طالب علم اعتزازکی بہادری کے چرچے ہورہے ہیں۔ جن میں اعتزازحسین کو خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مطالبہ پر اعتزازحسین کی شجاعت کے لیے اسے پاکستان کے اعلیٰ اعزازسے نوازنے کی سفارش کی گئی ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے صدرممنون حسین کو ہنگو میں جان کی قربانی دے کر سینکڑوں طلباء کی جانیں بچانے والے شہید طالب علم اعتزازحسین کوستارہ شجاعت دینے کی سفارش کی ہے۔ جبکہ ذرائع کے مطابق گورنر سندھ اورحکومت سندھ کی سفارش پر کراچی کے شہید پولیس افسر چوہدری اسلم کو بھی ستارہ شجاعت دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ شہید اعتزازحسن نے اپنے جرات مندانہ اقدام سے سینکڑوں طلباء کی جان بچائی۔ شہید نے بہادری اورحب الوطنی کی شاندارمثال قائم کی۔ اعتزازحسن کے والدمجاہد حسین نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا کہ بیٹے کی شہادت کی خبر دبئی میں ملی۔ بیٹے نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر سینکڑوں طلباء کی جانیں بچائیں۔ بیٹے نے سرفخر سے بلند کردیا۔ شہید اعتزازکے والدنے مزید کہا کہ ضرورت پڑی وت پاکستان کی خاطر میرے باقی بچے بھی اپنی جان کا نذرانہ خوشی سے پیش کریں گے۔ شہید کے والد اوربھائی نے بتایا کہ ملالہ یوسف زئی نے لندن سے فون پر ہم سے اورشہید کی ماں سے اظہار تعزیت کیا اورکہا کہ ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ چیئر مین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ ہنگو میں شہید ہونے والا اعتزازحسین قوم کا ہیروہے۔ افسوس کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوانے بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ اور اس معاملہ میں وہ کردارادانہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ جبکہ خود موقع پر نہ گئے اورمایوس کیا۔ شہید کے خاندان کی کفالت پی ٹی آئی کرے گی۔

ملالہ کو ایک گولی لگی تو ملکی اورعالمی میڈیا نے اسے اپنی خبروں کا مرکز بنالیا۔ اس کو اس طرح کوریج دی جانے لگی جیسے اس نے کوئی انوکھا کام کردیا ہو۔ گولیاں تو یہاں روزانہ بہت سوں کو لگتی ہیں ۔ انہیں تو اتنی کوریج نہ مقامی میڈیا دیتا ہے اورنہ ہی عالمی میڈیا۔ اس نے جو کچھ کیا وہ بھی قوم کے سامنے آگیا ہے۔ اس کو اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب بھی کرایا گیا۔ اوباما سمیت کئی عالمی شخصیات نے اس سے ملاقاتیں کیں۔ اسے دنیا کے بڑے بڑے اعزاز بھی دیے گئے۔ اس کو امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ جو اسے نہ مل سکا۔ کہا گیا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کررہی تھی جس کی اسے سزادی گئی۔ اب بھی وہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرے گی۔ اس کے نام سے ملالہ فنڈبھی قائم کیا گیا ۔ اورکہا گیا کہ یہ فنڈزلڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ اس نے جو کتاب لکھی اس نے اس کی پاکستان میں تعلیم سے محبت کے سب رازفاش کردیے۔ دنیا کو اب اپنی آنکھیں کھول کر ضمیر کی عدالت سے یہ فیصلہ کرالینا چاہیے کہ تعلیم کے لیے اصل کام کس نے کیا ملالہ نے یا اعتزازنے۔ ایوارڈ کی حق دارملالہ تھی یا اب اعتزازہے۔ اعتزازکے والد تعزیت کے لیے آنے والوں کو درست ہی کہتے ہیں کہ وہ افسوس نہ کریں بلکہ مجھے مبارک باد دیں کہ میرے بیٹے نے اپنی جان دے کر سینکڑوں طلباء کی جان بچائی ہے۔ اس نے اپنی ماں کو رلا کر اپنے ساتھی طلباء کی ماؤں کورلانے سے بچالیا ۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ تعلیم سے محبت کس کو ہے ملالہ کویا اعتزازکو۔ اعتزازکو ملالہ پر ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے۔ وہ گولی لگنے سے زخمی ہوئی اس کی جان بچ گئی اوروہ صحت یاب بھی ہوگئی۔ اعتزازکو موت سامنے نظرآرہی تھی ۔ ایک طرف اس کی اپنی جان تھی دوسری طرف اس کے سکول میں موجود اساتذہ اورسینکڑوں طلباء کی جان تھی۔ اس نے ایک ہی لمحہ میں یہ فیصلہ کرلیا کہ اس کی جان چلی جائے تو چلی جائے۔ اس کے سکول میں موجود اساتذہ اورطلباء کی جان محفوظ رہے۔ اس نے اپنی جان دے کر سکول کو بچالیا۔ یوں اس نے تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی جان کی قربانی دی۔ ملالہ کو دنیا کے بہت سے ایوارڈ ملے۔ اس کو پاکستان کے سرکاری اعزازات میں سے ایک بھی نہیں دیا گیا۔ اعتزازکو دنیا کے اورتو کوئی اعزازات نہیں ملے لیکن اسے پاکستان کے اعلیٰ سول اعزازستارہ شجاعت کے لیے نامزدکردیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ یہ ایوارڈ اسے یوم مارچ کو دے دیا جائے گا۔ کہتے ہیں کہ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں ملالہ نے ان کے خلاف عالمی ذرائع ابلاغ میں ڈائریاں لکھی ہیں۔ اس لیے اس کو نشانہ بنایا گیا۔ وہ سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کررہی تھی۔ پاکستان میں تعلیم کے دشمن طالبان ہیں یا کوئی اوروہ لڑکیوں کی تعلیم نہیں بلکہ وہ تعلیم ہی کے دشمن ہیں۔ قبائلی علاقوں میں صرف لڑکیوں کے سکولوں پر ہی نہیں لڑکوں کے سکولوں پر بھی حملے ہوئے ہیں۔ تو پھر کیسے کہا جاسکتاہے کہ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ دشمن ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں توجو خودکش بمبار ہنگو میں سکول کو اڑانے آیا تھا وہ لڑکوں کے سکول میں کیوں آیا۔ اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ دشمن پاکستا ن میں تعلیم کے خلاف ہے چاہے وہ لڑکوں کی ہو یا لڑکیوں کی۔ عالمی میڈیا میں اعتزازحسن کی بہادری کے چرچے تو ہوئے ہیں تاہم اس کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو ملالہ کو دی گئی تھی۔ ملالہ سے تو ملکی اورعالمی شخصیات نے ملاقاتیں کیں۔ اعتزازتو آرام کے ساتھ ابدی نیند سورہا ہے اس کے والد سے عالی شخصیات تو رہیں ایک طرف قومی شخصیات میں سے کس نے ملاقات کی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اعتزازکو ستارہ شجاعت دینے کی سفارش تو کی ہے تاہم اس کے والد کے پاس افسوس کرنے اوربیٹے کی بہادری کی مبارک باد دینے اس کے گھر نہیں گئے۔ملالہ کے بغیر نیوزچینلز کی کوئی ہیڈلائنز مکمل نہیں ہوتی تھیں۔ اعتزازکو کتنی کوریج دی گئی یہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ملالہ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامز د کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس نے امن کے لیے کچھ نہیں کیا۔ امن کے قیام کے لیے کردارتو اعتزازحسن نے اداکیا ہے کہ اس نے سکول کو تباہ ہونے اوراپنے اساتذہ اورساتھی طلباء کو موت کے منہ میں جانے سے بچالیا۔ امن کا نوبل انعام تو اس کو ملنا چاہیے۔ اس کو دنیا کا کوئی بھی ایوارڈ نہیں دیا جائے گا۔ کیوں کہ اس سے پاکستان کی نیک نامی ہوتی ہے۔ اس کے خاندان اوروالدین سے کوئی عالمی شخصیت ملاقات تو کیا فون بھی نہیں کرے گی۔ اس کے خاندان کوکسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نہیں بلایا جائے گا۔ تعلیم کے فروغ کے لیے ملالہ فنڈز قائم کیا گیا تھا اس میں کتنے فنڈز جمع ہوئے اوراس میں کتنے فنڈزکہاں کہاں خرچ ہوئے ۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ جس طرح الطاف حسین باہر بیٹھ کر پاکستان میں سیاست کررہے ہیں۔ اسی طرح کتنی عجیب بات ہے کہ ملالہ باہر بیٹھ کر پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کررہی ہے۔ اس کے فنڈزسے کتنے سکولوں کی حالت بہتر بنائی گئی ہے۔ کتنے طلباء کی امدادکی گئی ہے۔ کتنے ایسے والدین کو بچوں کو سکول بھیجنے پر آمادہ کیا گیا ہے جو وسائل کی کمی کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے۔ کتنے سکولوں کی طالبات کے لیے کتابیں اورسٹیشنری خریدی گئی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے نا م پر ملالہ فنڈز قائم ہوا اب لڑکوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اعتزازفنڈز بھی قائم کیا جانا چاہیے۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف شہید اعتزازکے خاندان کی کفالت کرے گی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ پیشکش اس طرح کثرت کی جاتی کہ قرعہ اندازی کرنی پڑجاتی۔ یا دن مقرر کرنے پڑتے کہ اتنے دن فلاں کفالت کرے گا اوراتنے دن فلاں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اعتزازکی قربانی کے اعتراف میں صدرممنو ن حسین کو سفارش کی ہے کہ اسے ستارہ شجاعت دیا جائے۔ اگر چہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزازہے۔ تاہم اعتزاز کو یہ ایوارڈ دینا بھی اس کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ سینیٹ میں تو اسے خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں ایسا نہیں ہوا اورنہ ہی کسی صوبائی اسمبلی میں ایسا ہوا ہے۔ ستارہ شجاعت تو اسے اس لیے دیا جارہا ہے کہ اس نے اپنی جان کی قربانی دے کر سینکڑوں طلباء اوراساتذہ کی جان بچائی ہے۔ حالانکہ اس نے صرف انسانوں کی جان ہی نہیں بچائی علم کے مرکز اورعلم کے فروغ کو بھی بچایا ہے۔ شہید اعتزازصرف ستارہ شجاعت نہیں وہ ستارہ علم وشجاعت کا مستحق ہے۔ قومی اعزازات میں ستارہ علم وشجاعت کا اضافہ کرکے یہ ایوارڈ اعتزازکو دیا جائے۔ جس طرح اس نے نئی داستان رقم کی ہے ۔ اسی طرح اسے ایوارڈ بھی نیا دیاجانا چاہیے۔ تاکہ رہتی دنیا تک تاریخ میں لکھا جاتارہے کہ ہنگوکے سکول میں نہم جماعت کے طالب علم پندرہ سالہ اعتزازحسن نے اپنی جان کی قربانی دے کر علم اورعلم سے وابستہ سینکڑوں جانیں بچالی تھیں۔دنیا فلمیں فلمی ہیرو تو بہت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کے نام بھی بہت سوں کو یاد ہیں۔ اب علمی ہیروبھی آگئے ہیں۔ شہید اعتزازحسن فلمی ہیرونہیں علمی ہیرو ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 308571 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.