ورکرز پر حملے، پاکستان پولیو فری کب ہو گا؟

پولیو ایک مہلک بیماری ہے جو ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتی ہے،پاکستان میں پولیو کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں جب کہ ہر سال پولیو مہم بھی چلائی جاتی ہے جس میں گھر گھر جا کر بچو ں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔پولیو ایک عالمگیر مسئلہ بن گیا ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومت کوموثر اقدامات اٹھانے ہونگے۔ پولیو کسی ایک علاقے اور قوم کا مسئلہ نہیں اس مہلک اور خطر ناک بیماری سے بچاؤ کیلئے معاشرے کے ہر باشعور فردکو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ذمہ داری نبھانی ہو گی۔پولیوایک لاعلاج مرض ہے۔جس میں مبتلا بچہ زندگی بھر کیلئے معذور ہوکر زندہ لاش کی مانند بن جاتا ہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ بیرونی قوتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں لیکن اس کے مقابلے میں حکومت صرف دعوے کر رہی ہے،پولیو ورکرز پر2010سے حملے شروع ہوئے ،اب تک بیس سے زائد ورکرز مارے جا چکے ہیں لیکن حکومت نے انہیں سیکورٹی فراہم نہیں کی،گزشتہ روزکراچی کے علاقے قیوم آباد اے ایریا میں انسداد پولیو ٹیم جب قطرے پلانے میں مصروف تھی کہ پہلے سے گھات لگائے 2 نامعلوم ملزمان نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک بچہ اور ایک شخص سمیت 2خواتین پولیو رضاکار شدید زخمی ہو گئیں، زخمیوں کو فوری طور پر جناح اسپتال منتقل کیا گیا تاہم 2خواتین پولیو ورکر اور ایک شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئے، جاں بحق ہونے والوں کی شناخت انیتا، اکبری اور فہد کے ناموں سے ہوئی ہے۔ گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ کو تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ، دوسری جانب پولیو ورکرز نے واقعے کے بعد سندھ بھر میں پولیو مہم روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔اس کے علاوہ مانسہرہ میں انسداد پولیو ٹیم پر فائرنگ کے نتیجے میں رضا کار جاں بحق ہوگیا، جاں بحق شخص کی شناخت مقامی اسکول کے استاد کی حیثیت سے ہوئی ہے جبکہ بلوچستان کے علاقے پنجگور نامعلوم افراد پولیو ٹیم کے زیر استعمال گاڑی چھین کر فرار ہوگئے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ روز پولیو مہم شروع ہوئی تھی تاہم پشاور میں پولیو مہم سیکیورٹی خدشات کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جانب سے کراچی، مانسہرہ اور بلوچستان کے علاقے پنجگور میں انسداد پولیو مہم کے رضا کاروں پر حملوں کے خلاف ملک میں جاری انسداد پولیو مہم کو روکنے کا اعلان کردیا ہے جس کے باعث ملک میں 5 سال سے کم عمر کے لاکھوں بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا، چیرپرسن سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ انسداد پولیو مہم سیکیورٹی خدشات کے باعث روکی گئی ہے، جب تک حکومت کی جانب سے فول پروف سیکیورٹی کے انتظامات نہیں کئے جائیں گے مہم شروع نہیں کی جائے گی۔وفاقی حکومت نے پولیو ورکرز پر دہشت گردوں کے مسلسل حملوں کے پیش نظر ان کے لئے خصوصی حفاظتی فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فورس صوبوں کی مشاورت سے تیار کی جائے گی اور یہ تمام صوبوں میں صوبائی حکومتوں کی سفارشات کے مطابق کام کرے گی۔ فورس کے اخراجات وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر برداشت کریں گی۔ اخراجات کا 60 فیصد وفاقی حکومت جبکہ40 فیصد صوبائی حکومتیں دیں گی۔ پنجاب حکومت کی ہدایت پر صوبے میں پولیو ٹیموں کی سکیورٹی سخت کر دی گئی۔ فیصل آباد کے ڈی سی او کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں 3 ہزار اہلکار پولیو ٹیموں کے ساتھ ڈیوٹی دینگے۔ ملتان میں بھی پولیو ورکرز کے ساتھ پولیس اہلکار متعین کر دئیے گئے ہیں۔ گوجرانوالہ میں بھی پولیو ٹیم کو ڈنڈے برداروں نے ویکسین پلانے سے روک دیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا۔ بتایا گیا ہے کہ گرجاکھ کے علاقہ محمد آباد میں محکمہ ہیلتھ کی ٹیم پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلا رہی تھی کہ ذوالقرنین عرف پومی نے ساتھیوں کے ہمراہ ڈنڈے سے ٹیم کے انچارج رضوان کریم اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کر دیا اور انہیں دھمکیاں دیں ‘علاقہ سے نکال دیا۔ٹیم کی طرف سے اطلاع ملنے پر ڈی ایس پی کوتوالی نعیم الحسنین ایس ایچ او گرجاکھ کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے جبکہ ذوالقرنین عرف پومی کو گرفتار کر کے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ فیصل آباد میں بھی مکوآنہ میں پولیو ورکرز کی ٹیم کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنا دیا گیا۔مکوآنہ کے نواحی علاقہ شفیق ٹاؤن گلی نمبر7 میں پولیو ٹیم کے سینٹری ورکر رورل ہیلتھ سنٹر مکوآنہ کے محمد نذیر اور رابعہ دیہاتی شاہد کے گھر قطرے پلانے گئے جہاں مبینہ طر پر ملزم شاہد نے محمد نذیر کے ساتھ بدتمیزی اور گالی گلوچ شروع کر دی اور طیش میں آ کر اپنے اہلخانہ کے ہمراہ اسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے شدید زخمی کر دیا۔ اطلاع ملنے پر متعلقہ پولیس موقع پر پہنچ گئی تاہم ملزم موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ پولیس نے کارروائی شروع کر دی۔صدر مملکت ممنون حسین نے کراچی اور مانسہرہ میں پولیو ورکرز کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیو ورکرز پر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے حملے قوم کا عزم متاثر نہیں کرسکتے۔ پاکستان کو پولیو جیسے موذی مرض سے پاک کرنے کی مہم ہر صورت جاری رکھی جائے گی۔ وزیراعظم ڈاکٹر محمد نواز شریف نے بھی کراچی میں پولیو ورکرز پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے بھی واقعہ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کا مستقبل محفوظ سنانے کا قومی فریضہ سرانجام دینے والے پولیو ورکرز پر فائرنگ کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ممتاز سماجی کارکن عبدالستار ایدھی نے کراچی میں قتل ہونے والے پولیو ورکرز کے ورثا کے لئے ایک ایک لاکھ روپے امداد کا اعلان کردیا، ان کی اپیل کے بعد سندھ حکومت نے بھی مقتول ورکرز کے ورثا کو پانچ پانچ لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان کیا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پشاور دنیا بھر میں پولیو وائرس کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔پاکستان میں 90 فیصد پولیو وائرس جینیاتی طور پر پشاور میں موجود وائرس سے جڑا ہوا ہے۔دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں 2013 ء میں پولیو کیسز کی تعداد 2012 ء کے مقابلے میں بڑھی ہے۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پولیو وائرس کی ریجنل ریفرنس لیبارٹری کے مطابق پچھلے سال پاکستان میں 91 میں سے 83 پولیو کیسز کا تعلق جینیاتی طور پر پشاور میں پائے جانے والے پولیو وائرس سے ہے۔ گزشتہ سال افغانستان میں 13 پولیو کے کیسز سامنے آئے جن میں سے 12 کیسز میں وہ پولیو وائرس ہے جو پشاور میں پایا جاتا ہے۔عالمی ادار ہ صحت کے پاکستان میں سربراہ ڈاکٹر الائس ڈرے نے بتایاکہ ہمیں شمالی و جنوبی وزیرستان میں پابندی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تاہم پشاور پولیو وائرس کا ذخیرہ ہے جس کی وجہ سے اس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔خیبر پختونخواہ و قبائلی علاقوں میں پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لئے عمران خان نے مولانا سمیع الحق سے بھی ملاقات کی تھی جس میں باقاعدہ پولیو مہم کا آغاز کیا گیا تھادوسری طرف لوگوں کو اعتماد میں لانے کے لئے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نے پولیو ویکسین کے استعمال کے حق میں فتویٰ بھی دیا اور ویکسین کے حوالے سے شکوک و شبہات کو بے بنیاد قرار دیا ۔ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے جاری فتوے پر دارالعلوم کے مہتمم مولانا سمیع الحق کے دستخط موجود ہیں۔ فتوے میں واضح کیا گیا ہے کہ پولیو، خسرہ اور ہیپاٹائٹس کی ویکسین، قطرے اور ٹیکے مہلک بیماریوں سے بچاو کیلئے مفید ہیں اورپولیو سے بچاو کیلئے ماہرین طب کی تجویز کردہ ویکسین کا استعمال شرعا جائز ہے۔ فتوے میں والدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ مہلک امراض سے بچاوکیلئے ٹیکے اور قطرے استعمال کروائیں۔ فتوے میں پولیو کے حوالے سے پھیلائے جانے والے شکوک و شہبات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق 2013 میں پاکستان میں نہ صرف گزشتہ سال کے مقابلے میں مجموعی طور پر پولیو کیسز کی تعداد میں تقریباً 35 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا بلکہ پولیو مہم میں حصہ لینے والی ٹیموں پر پہلی مرتبہ سب سے زیادہ حملے ہوئے جس سے اس بیماری کے خلاف مہم میں ایک نیا پہلو سامنے آیا۔ امن وامان کی بگڑتی صورتحال اور پولیو کی ٹیموں کو کام کی اجازت نہ ملنے سے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تقریباً ڈیڑھ سال سے پولیو سے بچاؤ کی مہم نہیں چلائی گئی جس کی وجہ سے ان علاقوں میں زیادہ بچے اس موذی مرض کا شکار ہوئے۔عالمی ادارہ صحت نے پشاور کے سیوریج کے پانی کے 86 نمونے حاصل کئے ،72 میں خطرناکپولیو وائرس پایا گیا۔ بھارت، افغانستان سمیت دیگرممالک سے پولیو کامکمل خاتمہ ہوچکاہے جبکہ بدقسمتی سے پاکستان میں پولیو ورکرز کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔ ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس ، پولیو اور دیگر صحت کے منصوبوں میں شفافیت یقینی بنائی جائے جبکہ عوام میں موذی امراض کے خاتمے کیلئے شعور اجاگر کرنا ہوگا۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 177648 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.