پھٹیچر موٹر سائیکل، عامر محبوب اور جموں وکشمیر

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضورؐ نے فرمایا کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کو یہ وصیت کی تھی کہ اے میرے بیٹے میں تمہیں دو باتوں کی وصیت کرتا ہوں اور دو باتوں سے روکتا ہوں میں لا الہ الا اﷲ کہنے کی وصیت کرتاہوں کیونکہ اگر یہ کلمہ ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے تو اور دوسرے پلڑے میں سارے آسمان اورزمینیں رکھ دی جائیں تو کلمہ والا پلڑا جھک جائیگا اور اگر سارے آسمان ایک حلقہ بن جائیں تو بھی یہ کلمہ انہیں توڑ کر آگے چلا جائے گا اور اﷲ تعالیٰ تک پہنچ کر رہے گا اور دوسری وصیت یہ کرتا ہوں کہ سبحان اﷲ العظیم وبحمدہ کہا کرو کیونکہ یہ ساری مخلوق کی عبادت ہے اور اسی کی برکت سے ان کو رزق دیا جاتا ہے اور فرمایا تمہیں دو باتوں سے روکتاہوں ایک شرک دوسرا تکبر ۔کسی نے پوچھا یا رسولؐ اﷲ کیا کہ بات تکبر میں سے ہے کہ آدمی کھانا تیار کرے اور اس کھانے پر ایک جماعت کو بلائے اور انہیں کھلائے یا صاف ستھرے کپڑے پہنے ؟ آپؐ نے فرمایا نہیں یہ دونوں باتیں تکبر میں سے نہیں ہیں تکبر تویہ ہے کہ تم مخلوق کو بے وقوف بناؤ اور دوسرے لوگوں کو حقیر سمجھو۔

قارئین!ایک عجیب موڑ پر کھڑے ہو کر آج ہم دھوپ اور بارش کے امتزاج جیسی کیفیت میں آج کا یہ کالم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ صدمہ اور خوشی جب اکٹھے ہو جائیں تو دل میں جہاں دونوں کیفیات مقیم ہوتی ہیں وہاں آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش برس رہی ہوتی ہے اور ہونٹ مسکرا رہے ہوتے ہیں ہمارے آنسوؤں کاتعلق ایک ذاتی صدمے کے ساتھ ہے کہ ہمارے خاندان کے سب طویل العمر بزرگ ہمارے سگے دادا کے سگے چچا یعنی ہمارے پردادا رواں ہفتے انتقال کرگئے ان کی وفات سے اگلے ہی دن آزاد کشمیرکے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ’’مجاہد، مجذوب، درویش، مرد حر کا کردار ادا کرنے والے عوامی اخبار روزنامہ جموں وکشمیر ــ‘‘کی آٹھویں سالگرہ تھی اور راقم کو آزاد کشمیر، پاکستان اوردنیا بھر میں قلمی دنیا میں متعارف کرانے والے عامر محبوب کی اس مجاہدانہ تحریک کے متعلق کچھ لکھنا ہمارے لئے ایک قرض جیسا بھی تھا اور ایک ہدیہ تبریک اور’’نذرانے‘‘کی حیثیت بھی رکھتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مصروفیت سر پر کھڑی ناچ رہی تھی کہ ہمارے انتہائی عزیز اور محسن دوست پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کے پاکستان کے تین بڑے ناموں میں سے ایک ڈاکٹرمعید پیرزادہ نے راقم اور استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کو اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل میں منعقدہ دنیا بھر کے سفارتکاروں اور دیگر بڑی بڑی شخصیات کے ہمراہ کشمیر کی نمائندگی کرنے کے لئے ایک کانفرنس میں مدعو کر رکھا تھا اس کانفرنس کے متعلق ہم اگلے کسی کالم میں تفصیلی احوال آپ کی خدمت میں پیش کرینگے جس میں جرمن تنظیم کی کاوش سے پاکستان، ترکی، ایران، افغانستان، سنٹرل ایشیاء اوربھارت سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک کی اہم ترین شخصیات اور بڑے دماغوں نے مل کر ’’اسلام آباد ڈکلریشن‘‘ کا مسودہ تشکیل دیا۔ اس کانفرنس کامقصد 2014ء میں امریکن اور ایساف افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے امن کو فروغ دینے کیلئے روڈ میپ تشکیل دینا تھا اس کانفرنس میں بھارت سے جنرل مہتا، پاکستان سے سرتاج عزیز مشیر خارجہ، جیو ٹی وی نیٹ ورک کے افغان امور کے ماہر اورروزنامہ دی نیوز کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رحیم اﷲ یوسفزئی، پاکستان کے افغانستان میں تعینات سابق سفیر قاضی ہمایوں، صوبہ خیبر پختونخواہ کے سابق چیف سیکرٹری خالد عزیز، عسکری امور کے ماہر جنرل مسعود اختر، مسز ڈاکٹر معید پیرزادہ، پاکستان کے خارجہ امورکے ماہر محمود سہگل سے لے کر دنیا بھر میں معروف بڑی بڑی شخصیات نے شرکت کی۔ ڈاکٹر معید پیر زادہ اس جرمن تنظیم ’’فریڈ رچ ایبرٹ سٹفٹنگ Fredrich Ebert Stiftung‘‘کے کنسلٹنٹ اور ماڈریٹر کے طور پر کام کررہے ہیں اس سلسلے میں ایک تفصیلی کالم جلد ہی آپ کی خدمت میں پیش کرینگے۔

قارئین! ہم آپ کو یاد دلاتے جائیں کہ آج سے چندماہ قبل جب ڈاکٹر شہلا وقار کی جگہ آزاد کشمیر میں سیکرٹری اطلاعات کی ’’گرم کرسی یعنی Hot Seat‘‘پر انتہائی ادبی اور مفکر قسم کی شخصیت ہمارے مہربان دوست شوکت مجید ملک تشریف رکھتے تھے تو ان دنوں وہ آزاد کشمیر کے سب سے بڑے بڑے پریس کلب کشمیر پریس کلب میرپور میں آئے پریس کانفرنس میں سٹیج پر ان کے ہمراہ پریس کلب کے صدر ہمارے محسن سید عابد حسین شاہ، جنرل سیکرٹری سجاد حیدر جرال اور دیگر دوست بیٹھے تھے پریس کانفرنس میں دوستانہ گفتگو کے دوران شوکت مجید ملک پر غیب سے کچھ مضامین اترنا شروع ہوئے اور انہوں نے ایک تاریخی جملہ آن دی ریکارڈ کہہ دیا اور وہ جملہ یہ تھا کہ ’’ صحافت نہ تو کوئی پیشہ ہے اور نہ کوئی کاروبار بلکہ صحافت ایک ’کھرک ‘ کا نام ہے‘‘ اس پر راقم نے بآواز بلند ماشاء اﷲ کہہ کر جواب دیتے ہوئے کہاکہ عالی جاہ ہم صحافیوں کی یہ عزت افزائی اور آپ کی زبان سے بڑی بڑی مہربانی آپ کی ۔اس پر شوکت مجید ملک یہ سمجھے کہ انہوں نے دوستانہ گفتگو کے دوران دراصل صحافیوں کو یہ پیغام دے دیاہے کہ حکومت آزادکشمیر اور حکومت پاکستان یہ سمجھتے ہیں کہ آزادکشمیر اور پاکستان کے صحافیوں کو دراصل ’’کھرک ‘‘ کی بیماری ہے کہ وہ حکومت کے ہر ناجائز کام اور کرپشن پر اپنے قلم کو تلوار بناکر میدان میں اتر آتے ہیں اس پر شوکت مجید ملک نے معذرت طلب کرتے ہوئے اپنی بات کی وضاحت پیش کی کہ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحافت ایک ایسا جہاد ہے کہ جو صحافی فرض کفایہ کے طور پر اداکرتے ہوئے شہید بھی بنتے ہیں اور غازی بھی کہلاتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صحافت ایک انتہائی مقدس اورسچا پیشہ ہے اس کا روپے پیسے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔

قارئین سابق سیکرٹری اطلاعات اور موجودہ سیکرٹری زکوۃ وعشر شوکت مجید ملک کی اسی بات کو ہم آج کے کالم کے عنوان کی طرف لے کر چلتے ہیں آپ نے عموماً دیکھا ہوگا کہ آزادکشمیر اور پاکستان بھر کی صحافی برادری بلاشبہ غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے اس وقت وطن عزیز میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد صحافی ہیں اور جن صحافیوں کو آپ ٹیلی ویژن یا اخبارات میں ’’لائم لائیٹ ‘‘ کے نیچے دیکھتے ہیں ان کی تعداد دوسو سے بھی کم ہے اور اگر ہم اعدادوشمار کی روشنی میں تھوڑااور خوردبینی جائز ہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ہائی ریٹنگ اور رینکنگ والے صحافی کی تعداد بیس سے زائد نہیں ہے گویا بیس کروڑ کی آبادی والے پاکستان اورآزادکشمیر میں بیس کے قریب ایسے صحافی ،نیوز اینکرز ،تجزیہ نگار موجود ہیں جنہیں بہت ذیادہ دیکھا اور پڑھا جاتاہے اور جو پالیسی میکنگ میں اپنا انتہائی موثر کردار اداکرتے ہیں اس سے ثابت یہ ہوا کہ ایک کروڑ انسانوں میں سے پاکستان میں ایک انسان ایسا ابھرتاہے کہ جو پاکستان کی پالیسی سازی میں اپنی کوئی رائے رکھتے ہوئے تبدیلی کی کوشش کررہاہے آئیے اب تھوڑا آگے چلتے ہیں اور اس تھوڑا آگے چلتے ہوئے ہم ’’فلیش بیک ‘‘ کرتے ہوئے آج سے پندرہ سال قبل کی ایک دھندلی سی تصویر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ایک خوبصورت سا چھیل چھبیلا بانکا نوجوان اپنے موٹر سائیکل کو کک مارتے ہوئے سٹارٹ کرنے کی کوشش کررہاہے درجنوں ککیں مارنے کے بعد بھی یہ موٹر سائیکل سٹارٹ نہیں ہوتا تو یہ نوجوان موٹر سائیکل کو لات مارتے ہوئے پٹرول کی ٹینکی سے ڈھکن ہٹاکر اندر جھانکنے کی کوشش کرتاہے اور زیر لب موٹر سائیکل کی شان میں گستاخیاں کرتے ہوئے اچانک اس کے منہ سے نکلتاہے ’’اوئے پٹرول ہی ختم ہوگیا ہے ‘‘ یہی نوجوان ایک اگلے منظر میں خبر کی تلاش میں مختلف دفتروں ،بازاروں ،چوکوں ،چوراہوں ،جلسوں اور جلوسوں میں دھکے کھاتاہوا دکھائی دیتاہے اور پھر ایک اور منظر سامنے آتاہے کہ اس نوجوان کی نیک اور بوڑھی ماں جائے نماز پر بیٹھے ہوئے اپنے اﷲ سے دعائیں کررہی ہے کہ اے میرے مالک میرے بیٹے کے حال پررحم فرما اور اسے کامیابی نصیب کر ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں اور ماں کی یہ دعائیں بارگاہ الٰہی کی طرف جاتے جاتے عرش ہلا کر رکھ دیتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ یکدم منظر تبدیل ہوجاتاہے اور دکھائی دیتاہے کہ موٹر سائیکل کو لات مار کر اس کی شان میں گستاخیاں کرنے اور دنیا جہاں میں مشقت کرتاہوایہ نوجوان ایک ریوالونگ سیٹ پر بیٹھ کر ایک اخبار کا چیف ایڈیٹر اور مالک بن کرہزاروں افراد کے لیے رزق حلال کا ذریعہ بن جاتاہے جی ہاں قارئین ہماری اس منظر نگاری اور خیالی دنیا سے جو سچائی سامنے آتی ہے وہ عامر محبوب کہلاتی ہے پاکستان اور آزادکشمیر بھرمیں عامر محبوب اس اقلیت سے تعلق رکھتاہے کہ جس نے اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر دنیا جہاں کے درد کو اپنا لیا عامر محبوب پاکستان اورآزادکشمیر بھر کے ان چند صحافیوں میں شامل ہے کہ جس نے ایک نیوز رپورٹر کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اورآج آزادکشمیر کے سب سے بڑے اخبار کامالک ہے عامر محبوب سے راقم کی پہلی ملاقات آج سے تین سال قبل اسلام آباد میں روزنامہ جموں کشمیر کے دفتر میں ہوئی اور چمکتی ہوئی آنکھوں اور چبھتے ہوئے جملوں کے ساتھ عامر محبوب نے راقم کو صحافت کی دنیا میں متعارف کروا دیا آج سے چند ماہ قبل عامر محبوب نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے جب یہ جملہ کہا تو ہم یقین جانیئے اﷲ کاشکر اداکرتے ہوئے خوشی سے پھولے نہ سمائے کہ آج اپنے والدین کی دعاؤں سے ہمیں بھی یہ مقام مل گیا ہے عامر محبوب کا جملہ تھا کہ ’’یہ روزنامہ جموں کشمیر اور عامر محبوب کا ادب ،اخبار اور صحافت پر بہت بڑا احسان ہے کہ جنید انصاری جیسے لکھاری کو متعارف کروانے کا سہرا ہمارے سرہے ‘‘اس بات سے ہم نہ تو خود ستائش کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہماری اس سے کوئی غرض وابستہ ہے اور نہ ہی ہم ’’گرگ ِ جہاں دیدہ ‘‘ عامر محبوب کو مکھن لگانا چاہتے ہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم تمام دوستوں کو بتائیں کہ ان تین سالوں میں ہم نے جو ساڑھے تین سوسے زائد کالمز تحریر کیے ہیں اور ان کالمز کو پڑھوانے کیلئے لاکھوں ایس ایم ایس کرتے ہوئے پوری دنیا کو تنگ کیاہے اس کا’’گناہ یاثواب ‘‘ عامر محبوب کے سرہے دعائیں دینی ہیں تو ان کو دیں اوراگر گالیاں دینی ہیں تو وہ بیشک ہمیں دے دیں بقول ساغر صدیقی اگر ہم عامر محبوب کے متعلق یہ کہہ دیں تو بے جا نہ ہوگا

آب ِانگور سے وضو کرلو
دوستوبیعت ِسبو کرلو
گرسکھادیں گے بادشاہی کے
ہم فقیروں سے گفتگو کرلو
ان سے ملنا کوئی محال نہیں
ان سے ملنے کی آرزو کرلو

قارئین ہم آج روزنامہ جموں کشمیر کی سالگرہ پر اس عزم کااظہار کرتے ہیں کہ حق پرست اور بیباک لوگوں کی پیروی کرتے ہوئے ہم بھی عامر محبوب کے اس قافلے میں ہمیشہ شامل رہیں گے اور دن کو دن کہیں گے اور رات کو رات ہی کا نام دیں گے روزنامہ جموں کشمیراورعامر محبوب کا گناہ وہی ہے جو حمید نظامی اورروزنامہ نوائے وقت آج تک مجید نظامی کی قیادت میں کرتاچلا آرہاہے یہ تمام سچے لوگ حکومت کی طاقت سے کبھی مرعوب نہ ہوئے اور گورنر جنرل غلام محمد سے لیکر جنرل ایوب تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر جنرل ضیاء تک اور بینظیر بھٹو سے لیکر جنرل مشرف تک اور آج میاں محمدنوازشریف اور آزادکشمیر میں مجاور اعظم چوہدری عبدالمجید وزیراعظم آزادکشمیر کی طاقت سے کبھی بھی خائف نہیں ہوئے اور اربوں کھربوں روپے کی کرپشن ان لوگوں نے ہمیشہ بے نقاب کی ہے حبیب جالب عوامی شاعر نے جنرل ضیاء کے مارشل لا کے موقع پر محترمہ نورجہاں سے صلح کرتے ہوئے یہ شعر کہے تھے
ظلمت کو ضیاء ،صرصر کو صبا ء ،بندے کو خدا کیا لکھنا
دیوار کو در ،پتھر کو گہر ،کرگس کو ہما کیا لکھنا

ہم آج اسی عہد کی تجدید کرتے ہیں ہم اربوں روپے کی کرپشن کو ہر گز ’’تعمیر وترقی‘‘نہیں کہیں گے ہم حکومت کے وزیروں کی طرف سے عوامی وسائل کی لوٹ کھسوٹ او ر مرمت کو کبھی بھی ’’ عوامی خدمت ‘‘ نہیں کہیں گے ۔ہم اپوزیشن کی طرف سے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و قانون ساز اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں سو فیصد اضافہ کو ’’ عوامی فلاح وبہبود‘‘ قرار نہیں دیں گے ہم بلیک میلر ز اور بڑے بڑے مافیاز کو کبھی بھی ’’ شرفاء ‘‘ کہہ کر نہیں پکاریں گے کیونکہ ہم اس عامر محبوب کے لگائے ہوئے پودے ہیں جس عامر محبوب کی تما م تر ترقی کا کریڈٹ ان کی نیک والدہ صاحبہ کی دعاؤں کو جاتا ہے جو بارگاہ الہیٰ میں قبولیت کا شرف حاصل کر چکی ہیں اگر ہم نے ’’ لفافہ صحافت ‘‘ شروع کر دی تو یہ ان نیک لوگوں کی دعاؤں کی توہین ہو گی یہاں ہم یہ ضرور کہتے چلیں کہ عامر محبوب کی طرح راقم کی آج تک کی تمام تر ترقی و پذیرائی کی اصل وجہ ہمارے نیک والدین بالخصوص ہماری ماں کی دعائیں ہیں جو چھتری بن کر ہر آفت کو ہم پر نازل ہونے سے پہلے ہی روک لیتی ہیں ورنہ کیا ہماری یہ مجال تھی کہ ہم آزادکشمیر کے مجاور وزیراعظم کی طرف سے اپنی اور تمام صحافی برادری کی شان میں ارسال کردہ گالیوں کے جواب میں کچھ دعائیں ان کے لیے کر سکتے یا ان کی کرپشن کی داستانوں کے خلاف کسی قسم کا جہاد کر سکتے ہیں جو صحافی آج بھی چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر کمپرومائز جیسا گناہ کرنے پر مجبور ہیں اس کی ذمہ دار بھی یہ ریاست اور سیاستدان ہیں حبیب جالب نے عامر محبوب اور ان جیسے دیگر سر پھروں کو مخاطب ہوکر کہا تھا ۔
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شاہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
لاکھ کہتے رہے ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا

قارئین ہم دعا گو ہیں کہ اﷲ عامر محبوب اور روزنامہ جموں کشمیر سمیت پاکستان اور آزادکشمیر بھر کے ان صحافیوں اور اشاعتی و نشریاتی اداروں کو نظر بد سے بچائے جو انتہائی مشکل او رخوفناک کے ماحول میں سچ کی شمع جلا کر ظلمتوں کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔آمین

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
جگر مراد آبادی نے اپنے دوست مجاز سے انتہائی ہمدردانہ انداز میں نصیحت کرتے ہوئے شراب کی خرابیاں بیان کی اور مجاز سے کہا
’’مجاز شراب واقعی خانہ خراب ہے ،خم کے خم لنڈھانے کے بعد انجام کار مجھے توبہ ہی کرنا پڑی میں دعاکرتا ہوں کہ خدا تمہیں بھی توفیق دے کہ تم بھی میری طرح توبہ کر سکو ‘‘
مجاز یہ سن کر معصومیت سے بولے
’’جگر صاحب آپ نے تو ایک بار توبہ کی میں سینکڑوں بار توبہ کر چکا ہوں‘‘

قارئین ہمیں لگتا ہے کہ یا تو ہم جگر مراد آبادی ہیں اور یا پھر مجاز کہ ہر بار سچ بولنے سے توبہ کرنے کے باوجود نہ عامر محبوب سچ بولنے سے باز آتے ہیں اور نہ راقم کی زبان اور قلم تھمنے کا نام لیتے ہیں اﷲ ہمارے حال پر رحم کرے ۔آمین ۔رہی بات ان لوگوں کی جو دستِ سوال پھیلائے ایک’ ’چلتے پھرتے کشکول ‘‘ کی صورت صحافی برادری میں داخل ہو چکے ہیں تو ان کے متعلق ہم حبیب جالب ہی کی زبان میں یہی کہیں گے کہ

قوم کی بہتری کا چھوڑ خیال
اب قلم سے ازار بند سے ڈال

نام سے پیشتر لگا کے امیر
ہر مسلمان کو بنا کے فقیر
جا کے ممبر پہ ہو قیام پذیر
اور خطبوں میں دے عمرؓ کی مثال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 337359 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More