امیرمقام پر حملہ

چنددن پہلے خیبرپختون خواہ کے ضلع شانگلہ کے علاقے مارتونگ کے قریب پاکستان مسلم لیگ نواز خیبر پختون کے صدر اور وزیراعظم کے مشیر انجینیئر امیرمقام پر ہونے والے حملے میں اگرچہ امیرمقام بچ گئے تھے۔لیکن اس حملے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے یہ باتیں سامنے آرہی ہے۔ کہ:امیر مقام پر ہونے والے حملے کے بعد طالبان اور حکومت کے مابین ہونے والے ممکنہ مزاکرات کے دروازے بند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن کیا ایسا واقعی ہوگا؟یا پھر یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر واقعی مذاکرات ہونے جارہے ہیں ’’کیونکہ میرا نہیں خیال کہ مذاکرات ہورہے ہیں ۔یا فریقین اس کے لیے کوئی تیاری کررہے ہیں،، تو پھر اس واقعے کی وقوع پزیر ہونے کے بعد بھی مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔بشرطیکہ حکومت اس واقعے کو بلاوجہ انا کا مسئلہ نہ بنائے۔کیونکہ میرے خیال میں یہ حملہ نواز حکومت یا ان کے کسی فرد پر نہیں کیا گیا۔میرے اس بات سے شائد بعض قارئین کو تعجب ہوا ہو کہ میں اخر کس بنیاد پر یہ بات لکھ رہاہوں۔کیونکہ حملے کے وقت امیر مقام نہ صرف وزیراعظم کے مشیر تھے۔بلکہ وہ خیبر پختوں خواہ کے لیے نواز لیگ کے صوبائی صدر بھی تھے۔

اس بات می کوئی شبہ نہیں کہ حملے کے وقت امیر مقام کے پاس نواز لیگ اور انکی حکومت کے دو اہم عہدے تھے۔ لیکن ہمیں یہ بات ہیں بھولنی چاہیئں کہ ان عہدوں کے علاوہ ایک اور عہدہ بھی انجینیئر صاحب کے پاس تھا۔ اور اس عہدے یا’’رشتےِ،،سے انہوں کبھی انکار نہیں کیا۔حتیٰ کہ نواز لیگ جوائن کرتے وقت بھی۔

وہ عہدہ یا رشتہ اخر کیا اور کس کے ساتھ ہے؟ جسکی وجہ سے امیر مقام اتنے شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ کہ ان کے اوپر اب تک نصف درجن حملے ہوچکے ہیں۔ اور نہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔تو قارئین کرام! وہ رشتہ ہے پرویزمشرف کے ساتھ دوستی اور اسے بھائی بنانے کا۔ جی ہاں! مجھے یاد ہے کہ جس وقت پرویز مشرف کا طوطی بولتا تھا۔اس وقت کئی دیگر ضمیر فروشوں کی طرح امیر مقام بھی ’’پرویزی کرامات،،سے خوب مستفید ہوئے ۔یہ 2002؁ کی عام انتخابات سے کچھ پہلے کی بات ہے ۔الیکشن کی تیاریاں عروج پر تھیں۔انجینیئر امیرمقام شانگلہ کے قومی اسمبلی سے متحدہ مجلس عمل کے متفقہ امید وار تھے اور اسکی کامیابی کے لیے مذہبی طبقہ خصوصاًائماکرام اور جماعت اسلامی کے کارکنان دن رات کمپئین چلاتے رہے۔ جسکے نتیجے میں ایک ایسا شخص بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا کہ جس کا سیاسی میدان میں کوئی جان نہ پہچان۔جی ہاں ! امیر مقام کہ جن کے نام کا آج ہر طرف چرچہ ہے ۔اور جو پاکستانی سیاست کہ ایک لازم جز بن چکا ہے۔اس وقت سیاست کے میدان میں باالکل نووارد تھے۔لیکن جماعت اسلامی کے ضلعی شورٰی نے ان کو منتخب کرکے ایم۔ایم۔اے کی پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کا ممبر بنادیا۔ 2002کے عام انتخابات کے بعد متحدہ مجلس عمل نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔جس کے کچھ ہی دنوں بعد امیر مقام نے مذہبی جماعتوں کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے جنرل پرویزمشرف کے قائم کردہ پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم المعروف ق لیگ میں شمولیت اختیار کی۔حالانکہ اصولاً امیر مقام کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔لیکن اگر اسنے جانا بھی تھا تب بھی اسے اسمبلی رکنیت سے استعفٰی دیکر دوبارہ الیکشن لڑکر جانا چاہیئے تھا۔اس لیے کہ جن ووٹوں سے موصوف قومی اسمبلی میں جا بیٹھے تھے ۔وہ ووٹ انکے ذاتی نہیں بلکہ متحدہ مجلس عمل کے ووٹ تھے۔

قارئین کرام سے معذرت کہ میں اصل موضوع سے کچھ دیر کے لیے ہٹ گیا۔بہر حال قاف لیگ میں جانے کے بعد امیر مقام پر پرویز مشرف نے خصوصی نظرکرم کیا ۔پہلے اسے وفاقی کابینہ میں مشیر جبکہ بعد میں وزیر بنادیاگیا۔ اس کے علاوہ بھی پرویز مشرف نے انجینئر موصوف کو اپنا بھائی بھی قراردیا۔ بھائی بھی اتنا خاص بنایا کہ اس اپنا ذاتی پستول تک تحفے میں دے دیا۔یہاں پر بات صرف یک طرفہ عنایات پر نہیں رکی۔ بلکہ فریق ثانی نے بھی بھر پور حق وفاداری ادا کیا۔ یہاں تک کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب پرویز مشرف اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف کھل کر میدان میں اترا ۔تب بھی امیر مقام نے انکو پوجنا باعث سعادت جانا۔یہاں تک کہ خیبر پختون کے ضلع بٹگرام میں ہونے والے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں اچھل اچھل کر فخریہ انداز میں کہا۔کہ میں پرویز مشرف کا ایجنٹ ہوں کیونکہ بقول مقام صاحب کے وہ اسلام کا ایجنٹ ہے۔بہر حال ’’اسلام کے اس ایجنٹ،، کا کشتی جب ڈوبنے لگی تو ایک ایک کرکے ان سے سب لوگ اترگئے تو امیر مقام بھی ان میں شامل تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس نے نہ تو مشرف سے’’روحانی،، تعلق توڑا اور نا ہی کھبی اس حوالے سے کسی قسم کی پشیمانی کا اظہار کیا۔ دوسری طرف پاکستان کے سیاسی جماعتوں نے بھی اس حوالے سے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔ بلکہ جس کو جہاں سے ’’لوٹےِِ،، ملتے گئے۔اس نے وہاں سے حاصل کرکے اپنی اپنی پارٹی میں شامل کردیئں۔حالانکہ ان بڑی سیاسی جماعتوں خصوصاً نواز لیگ ،پی پی پی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماوں کو چاہیے تھا۔کہ وہ یہ فیصلہ کرتے کہ پرویز مشرف کا جو بھی ساتھی ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہتا ہے ۔ان کے لیے لازم ہوگا کہ وہ پرویز مشرف سے لاتعلقی کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ عوام سے بھی اپنے ان کرتوتوں کی معافی مانگیں گے جو انہوں نے مشرف سے ساتھ تعاون کی صورت میں کیئں ہیں۔

میرے خیال میں اگر سیاسی جماعتیں مندرجہ بالا باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ’’لوٹوں ،، کے حوالے سے پالیسی بناتے تو انکے دو فائدے بہر صورت سامنے آتے ۔پہلا یہ کہ مشرف کے پکے وفادار بھیس بدل کر ان میں شامل نہ ہوتے اور دوسرا یہ کہ جو لوگ پاک صاف ہوکر آتے ان پر آج حملوں کا خطرہ نہ ہوتا۔بہر حال جو ہوچکا سو ہوچکا ۔ابھی حکومت وقت کو چاہیے کہ جس مشرف کی پالیسیوں کی وجہ سے آج وطن عزیز ہر طرف سے مشکلات میں گھرا ہواہے۔ اس مشرف کی ساتھیوں کو اپنی پارٹی سے اور انکی پالیسیوں کو وطن عزیز سے نکال کر اس مملکت کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنانے میں کردار ادا کریں ۔ کہ اسی میں دنیاوی سکون بھی ہے اور اخروی خوشیاں بھی۔لیکن اگر حکمرانوں نے پرویز مشرف کے ساتھیوں کو پاس بٹھائے اور انکی پالیسیوں کو جاری رکھا۔تو پھر نہ تو اس دنیا میں ہم امن سے رہ سکیں گے اور ناہی آخرت میں عافیت کے ساتھ۔لہٰذا اب یہ مسند اقتدار پر بیٹھے اہل اقتدار کی مرضی ہے کہ وہ ان میں کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 105882 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More