جوائنٹ فیملی سسٹم : نعمت یا زحمت

والدین کے لئے اولاد بہت بڑی نعمت ہوتی ہے مگر یہی نعمت بعض اوقات سب سے بڑی آزمائش ثابت ہوتی ہے۔کیونکہ پاکستانی معاشرے میں والدین ہی اولاد کے ہر فعل کے لئے جوابدہ ہوتے ہیں۔

آج کل ماڈرن سوسائٹی کا نظریہ یہ ہے کہ اولاد کو بالغ ہونے کے بعد والدین سے الگ رہنا چاہیے۔ایسا ہی دستور ہی مغربی دنیا کے تمام ممالک میں نافذہے۔وہاں پر بچے ہائی اسکول ختم ہوتے ہی نوکری کرنے لگتے ہیں۔اور اپنے والدین کو چھوڑ کر الگ رہنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ یہی وہاں کا کلچر اور تربیت ہے کہ بالغ ہونے کے بعد بچے اپنا خرچ خود اٹھائیں اور الگ سے رہیں۔یہی دستور آہستہ آہستہ پاکستانی معاشرے میں بھی پیدا ہوتا جارہا ہے۔

مغربی ممالک میں زیادہ تر بچے والدین سے علیحدہ ہو جانے کے بعد خود جاب کر کے اپنا خرچ اٹھاتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم (جو مکمل کرنا چاہے)بھی جاری رکھتے ہیں۔یہاں پر تھوڑا سا مختلف ہے کہ والدین اولاد کو پال پوس کر جب انہیں مستقبل کی تمام آسانیاں فراہم کرنے کے بعد ان کی شادی کر دیتے ہیں تب وہ بڑھاپے میں وہ والدین کو چھوڑ کر الگ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ بڑھاپے میں ہی والدین کو اپنی اولاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔کہ وہ زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے ذمہ داریاں اس طریقے سے نہیں نبھا سکتے جس طرح سے وہ اپنے بچوں کے بچپن میں کرتے تھے۔

پاکستانی معاشرے میں الگ رہنے سے انسان کو تمام تر ذمہ داریاں خود اُٹھانی پڑتی ہیں۔جبکہ اگر والدین ساتھ میں رہتے ہوں تو بہت سے معاملات وہ با آسانی سنبھال لیتے ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام صرف ایشیا کے ہی ممالک میں رائج ہے۔کیونکہ یہاں کے رہن سہن سے مطابقت رکھتا ہے۔اس نظام کی بہت سی خوبیاں ہیں مگر ہر اچھی چیز کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں ۔لہذا آج ہم اس کے دونوں پہلو پر نظر ڈالتے ہیں ۔اس کے بعد آپ مجھے بتائیے گا کہ کون زیادہ بہتر ہے؟

مالی معاونت:
مشترکہ خاندانی نظام میں چونکہ تمام لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور گھر کے تمام مرد حضرات اخراجات کے لئے مالی معاونت کرتے ہیں ۔اس طرح کسی بھی ایک فرد پرذمہ داریوں کا بوجھ نہیں پڑتا ۔اور چونکہ بوڑھے والدین بھی اولاد کے ساتھ ہی رہتے ہیں تو انہیں بھی اپنے لئے بزرگی میں کمانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ گھر کے تمام افراد کا معاشرے میں سٹیٹس برابر ہوتا ہے۔گھر میں کسی کے ساتھ بھی مقابلے کی فضا نہیں ہوتی ہے۔لئکن بعض جگہوں پر اس بات پر خوشی محسوس نہیں کی جاتی کہ وہ محنت کر کے کسی دوسرے کا بوجھ بانٹ لیں۔اس بات کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گھرکا نظام کسی ایسے بڑے بزرگ کے ہاتھ میں ہو جو تمام افراد کو اس سلسلے میں مطمئن کر سکے۔اور انہیں دوسرے پہلو دکھا کر سمجھا سکے۔کیونکہ صرف مالی ذمہ داریاں نہیں ہوتیں بلکہ اخلاقی فرائض بھی ہوتے ہیں جیسے مشکل پڑنے پر یا بیمار ہو جانے کی صورت میں ساتھ رہنے والے لوگ ہی کام آتے ہیں۔

خاندان کے اُصول:
مشترکہ خاندانی نظام میں اُصولوں اوررواجوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔کیونکہ یہی تمام عناصر ہیں جو خاندان کے افراد کو آپس میں باندھ کر رکھتے ہیں۔جہاں پر بھی ایسا خاندانی نظام رائج ہوتا ہے وہاں لوگ پیار اور محبت کے ساتھ رہتے ہیں اور دوسرے کی خواہشات کا احترام کرتے ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل سب سے رضامندی لی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پسند کی شادی گھر والوں کی مرضی سے کرنا جوائنٹ فیملی سسٹم میں بہت کامیاب ہے۔

تفاق میں برکت:
بچپن سے ایک کسان اور اس کے بیٹوں کی کہانی سنتے آئے ہیں کہ جب لکڑیاں الگ ہوتی ہیں تو آسا نی سے انہیں توڑا جا جا سکتا ہے۔لیکن اگر سب ایک ساتھ بندھی ہوں تا کوئی بھی ان کی مضبوطی کو ختم نہیں کر سکتا کیونکہ ایک ساتھ رہنے میں بہت برکت ہوتی ہے۔بالکل یہی معاملہ اکٹھے ایک چھت کے نیچے رہنے میں ہے۔ اگر گھر میں کسی کا اختلاف رائے ہو جائے تو گھر کے بڑے معاملہ فہمی کے ساتھ اس کو حل کر دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے مسائل کی بھی خبر رہتی ہے اور وقت پڑنے پر مدد بھی کی جا سکتی ہے۔ دنیا میں طلاق کا رجحان بڑھنے کی ایک بہت بڑی وجہ جوائنٹ فیملی سسٹم سے دوری ہے۔کیونکہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف بڑھتے بڑھتے شدیدجھگڑے سے نوعیت اختیار کر لیتے ہیں۔جس کا اختتام طلاق پر ہوتا ہے۔اگر مسائل ابتدا میں ہی کسی بڑے بزرگ کی مدد سے سلجھا لئے جائیں تو کسی سنگین نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

اس نظام میں اچھائیوں کے ساتھ خامیاں بھی ہیں کیونکہ جہاں پر پھول ہوتے ہیں کانٹے بھی وہیں ہوتے ہیں،لیکن ان کا درجہ کم ہے۔کچھ پانے کے لئے اپنی انا کی قربانی دینی پڑتی ہے۔لیکن اگر ہم دوسروں کے ساتھ میں ہی اپنی خوشی ڈھونڈ لیں تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں۔لیکن یہ محض میرا نقطہ نظر ہے۔آپ بتائیے کہ آپ کیا کہتے ہیں۔۔
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 258383 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More