دعوتِ دین کا طریقۂ نبویﷺ (قسط اول)

نبی اکرمﷺ کااپنی امت پر یہ احسان ہے کہ آپ نے نہ صرف دینِ اسلام کے احکامات سے ہمیں آگاہ فرمایا،بلکہ ان احکامات پر عمل کرنے کا طریقہ بھی ہمیں سکھلایا۔ایک صاحب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،اسلام قبول کیا اور عرض کی یا رسول اللہ!مجھے اسلامی احکامات کی تعلیم دیجیے۔آپ نے فرمایا میرے ساتھ ایک دن ٹہرو اور پھر آپ ﷺ نے ان کے سامنے مسلمانوں کے روزو شب کی عملی تعلیم رکھ دی ۔یہ تعلیم کاوہ طریقہ نبوی تھا جس نے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے اسلام کو معمولی سی تحریف سے بھی محفوظ کر دیا۔چنانچہ دینِ اسلام کے کسی بھی عمل کے بارےمیںدریافت کرنا ہو تو دو باتوں کی جستجو کی جاتی ہے،نبی کریم ﷺ کا ارشاد اس بارے میں کیا ہے؟اور رسول اللہ ﷺیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پر عمل کیسے فرمایا۔یہی وجہ ہے کہ جب کبھی آپﷺ کے ارشاد کو آپ کے اور آپ کے صحابہ کے عمل سے جدا کرکے سمجھنے کی کوشش کی جائےلامحالہ اس میں کوئی بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔

آج کے دور میں ہم مسلمان دین کے حوالے سےجہاں اور کوتاہیوں کا شکار ہیں وہیں ایک بڑی کوتاہی یہ بھی ہے کہ ہمارا ذاتی ذوق اورمزاج دین کے جس حکم کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔ہم شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے مصداق بن کر اس حکمِ اسلام کی پاسداری میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ ہمیں یہی یاد نہیں رہتا کہ کم از کم اس حکم پر رسول اللہ ﷺ یاصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرزِ عمل ایک بار تو ملاحظہ فرمالیں!!!!ہماری یہی روش دین کے دوسرے احکامات کی طرح دعوتِ دین کے سلسلے میں بھی ہے۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی 13سالہ مکی زندگی میں مسلسل اور 10 سالہ مدنی دور میں گاہے بگاہے اس عظیم اسلامی حکم کے طریقۂ کار کو نہایت واضح اور شفاف انداز میں اپنے عمل سے بے غبار فرمادیا۔

17 رمضان المبارک بمطابق 6اگست 610 ءمیں آپ ﷺپر پہلی وحی نازل ہوئی۔یہاں سے آپ کی پیغمبرانہ حیات کا آغاز ہوتا ہےجو23سال کے عرصے پر محیط ہے۔ویسے تو مکمل23سال کی آپ کی زندگی دعوت و تبلیغ ہی میں گزری،لیکن ان میں سے ابتدائی 13 سال گویا صرف اسی کام کے لیے وقف تھے۔اسی بناء پر سیر نگار آپ کے اس عرصہ کو دعوتی دور سے تعبیر کرتے ہیں۔دعوت و تبلیغ کا یہ دور تین مرحلوں پر مشتمل ہے:
1۔خفیہ دعوت 2۔اعلانیہ دعوت اندرونِ مکہ 3۔اعلانیہ دعوت بیرونِ مکہ

ابتدائی تین سال آپ ﷺنے انتہائی رازدارانہ انداز میں خفیہ طور پر صرف اپنے قریبی اور بااعتماد لوگوں میں دعوت چلائی۔یہ دعوت صرف ' 'اسلامی عقائد ' ' یعنی توحید،رسالت ،آخرت اور ' 'شائستہ اخلاق ' 'کے دائرے تک محدود تھی۔گویا ایسی چیزوں کی دعوت جو فطرت و عقل کے نزدیک ناقابلِ انکاراور شرافت و انسانیت کے عین مطابق تھیں۔ایک صحیح المزاج آدمی کے لیے انہیں ماننے میں کوئی عذر نہ تھا اور ان کا انکار فطرتِ سلیمہ کے فقدان یا ہٹ دھرمی کے سوا کسی اور چیز کا نتیجہ نہ تھا۔چنانچہ ہلکے ہلکے یہ دعوت مخاطبین کے دلوں میں گھر کرتی گئی یہاں تک کہ تقریباََ 40 کے قریب افراد حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔تب جاکر اعلانیہ دعوت کا حکم آیا۔یہاں ہمآگے بڑھنے سے پہلے ایک بار بغور اس ابتدائی دعوتی دور کا جائزہ لیتےہیں۔کیونکہ اسلام نے جو اتنا عظیم انقلاب اپنے وقت میں برپا کیااور جو بے پناہ کامیابی اسے حاصل ہوئی اس تمام تر انقلاب وا کامیابی کا مدار اسی ابتدائی دور اور کٹھن وقت میں اختیار کی گئی حکمتِ عملیوں اور احتیاطی تدابیر پر ہے اور آج بھی ہم اگر کسی دینی دعوتی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار دیکھنے کی آرزو رکھتے ہیںتوبلا شبہ اسی منہجِ نبوی سے قندیلیں روشن کرنے کے سوا ہمارے پاس اور کوئی مننہج اور راستہ نہیں۔

آپ نے اپنی دعوت کا آغاز رازدارانہ اور خفیہ طور پر کیااور جب تک ایک اچھی خاصی جماعت اس دعوت کو سنبھالنے والی تیار نہ ہوگئی،آپ نے اعلانیہ دعوت سے اجتناب برتا۔یہ نقطہ ہمارے اسلامی جذبہ سے سرشار نوجوان بھائیوں کے لیے انتہائی اہم ہےجو معاشرے میں پنپنےوالی برائیوں کا درد و احساس اپنے سینوں میں رکھتے ہیں اور اپنی قوم اور دینِ اسلام کے لیے کچھ کرگزرنے کا عزم رکھتے ہیں....کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھنڈے دل سے اپنے نبی ﷺ کے دور کے حالات کا جائزہ لیں....آخر وہ کونسی برائی ہے جو اس وقت نہ تھی....ظلم اتنا بڑھا ہواکہ معصوم بچیوں کو زندہ درگور کردیاجاتا....فحاشی کا ایسا سیلاب کہ زنا معیوب نہ رہا،ایک عورت کا کئی کئی مردوں کے ساتھ سمبندھ تو ایک معمولی بات تھی....سفاکی ایسی کہ مقتول دشمن کی کھوپڑی میں شراب پی جاتی....جہالت ایسی کہ خانۂ خدا میںاپنے ہاتھوں تراشےبتوں کی پوجا ہوتی....لیکن، کیا رسو ل اللہ ﷺ نے نبوت ملتے ہی ان بتوں کو خانۂ خداسے نکال باہرکیا؟؟؟نہیں !!!بلکہ آپ ﷺ نے تو تین سال تک توحید کی دعوت بھی خفیہ رکھی۔دوسرے نمبر پر مسلمان ہونے والے حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہ ﷺنے دعوت دی تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد(ابوطالب)سے مشورہ کرکے کوئی رائے قائم کروں گا۔آپﷺ شروع شروع میں اپنے سگے چچا(ابوطالب) سے بھی دعوت کو خفیہ رکھنا چاہ رہے تھے،لہذا فرمایا:نہیں ،خود سوچو ۔دل مطمئن ہو تو قبول کرلو،لیکن والد سے ذکر نہ کرو۔اس طرزِ عمل نے ایک اصول داعیانِ دین کے لیے وضع کردیاکہ جب کبھی دعوت عوام کے ذہنوں اور ان کے نظریات کے خلاف ہو تو اسے اس وقت تک خفیہ رکھو جب تک اس دعوت کے حاملین کی ایک اچھی خاصی جماعت تیار نہ ہوجائے۔کیونکہ حق کی آواز کو دبانے والے ہر دور میں ہوتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ داعی کومخالفین کی طرف سے کوئی نقصان پہنچتا ہےتو اس کے جانشین اس کے مقصد کو اس کے ساتھ فوت نہ ہونے دیں۔

اسی طرح ابتداءََ آپ ﷺ نے اپنی سرگرمیوں کو پہاڑ کی گھاٹیوں یا دارِ ابنِ ابی ارقم تک محدود رکھا۔جو پیغام بھی نئے مسلمان ہونے والوں تک پہنچاناہوتایا کسی بھی عمل ( مثلاََ نماز)کی تربیت دینی ہوتی تو مسلمان محفوظ مقام میں جمع ہوجاتے۔چنانچہ جب تک اللہ رب العزت نے حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام کوسربلندی عطا نہیں کی اس وقت تک آپﷺ اورصحابہ نے خانہ کعبہ میں نماز ادا نہیں فرمائی۔اس طرح ایک سنہرا اصول ہمارے سامنے آگیا کہ کسی بھی تحریک کوابتداءََاپنی دعوت افراد کی طرح جگہ کے حوالے سے بھی محدود رکھنا ضروری ہے۔ خلاصہ یہ کہ دعوت کے ان ابتدائی تین سالوں میں آپﷺ نے دو باتوں کا بطورِ خاص اہتمام فرمایا:
1۔ ہر کسی کو نہیں 2۔ ہر جگہ نہیں۔
mubashir
About the Author: mubashir Read More Articles by mubashir: 8 Articles with 10405 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.