اہلِ خبر، موضوع خبر

میڈیا کو بجا طور پر ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے۔ہمارے ہاں گذشتہ دہائی میں الیکٹرانک میڈیا کے انقلاب کے بعد اس نے واقعتا خود کوچوتھا ستون ثابت کیا۔ جنرل مشرف کی چھتری تلے قائم نا م نہاد جمہوری حکومت ہو یا پی پی پی کا گذشتہ برائے نام جمہوری دور، مفاد عامہ کے تنا ظر میں میڈیا کا کردارحقیقتاًقابل تحسین رہا۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا نے عوام کو بر وقت معلومات کی فراہمی اور حکومتی غلط کاریوں پر گرفت کی صورت اپنے وقار اور اعتبار میں بے پناہ اضافہ کیا۔ اسے الیکٹرانک میڈیا کی خوش قسمتی کہیے یا بد قسمتی کہ اسے آغاز میں ہی افغان جنگ اور عدلیہ بحالی تحریک جیسے بڑے صحافتی مواقع میسر آئے۔ خاص طور پر عدلیہ بحالی تحریک میں مثبت کردار اسکی مقبولیت کو بام عروج پر لے گیا۔ اسقدر پذیرائی نے الیکٹرانک میڈیا کو بے حد خود اعتماد بنا دیا۔ رفتہ رفتہ یہ خود اعتمادی ، خود سری میں ڈھلتی گئی۔نتیجتاً بہت سے ملکی و قومی نوعیت کے حساس معاملات پر میڈیا کو اپنی غیر منطقی اور غیر حکیمانہ روش کے باعث کڑی تنقید کا سامنا رہا۔ اس کے با وصف میڈیا نے اپنے لیے کسی قانونی و اخلاقی حد کا تعین کیا اور نہ ہی افرادی قوت کی تربیت کا اہتمام ۔ سبقت اور بالا دستی کی خواہش سے مغلوب میڈیا ، فوری اور بروقت خبر کی دوڑ میں سچائی، تصدیق، شخصی آزادی،حق رازداری، حساسیت اور قومی مفاد جیسے صحافتی تقاضوں سے گریز کی راہ اپنائے رہا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ٹی وی کیمرہ کسی بھی حد بندی سے مستثنی سب کچھ دکھانے کے لئے آزاد ہے۔گذشتہ ماہ اسلام آباد بلیو ایریا میں سکندر نامی محبوط الحواس کو میڈیا نے گھنٹوں پیہم کوریج فراہم کر کے پوری قوم کو ہیجان اور ذہنی آزار میں مبتلا کیے رکھا۔ قابل گرفت حکومتی نا اہلی و بد انتظامی سے قطع نظر ، میڈیا کا کردار ملکی وقار اور قومی مفاد کے انتہائی منافی تھا۔ میڈیا اس واقعہ کو نہایت اہتمام سے زیربحث لایا اور یوں ایک گلی محلہ درجہ کے معمولی واقعہ کو قومی اورعالمی سطح کا موضوع بنا دیا ۔اعلیٰ عدلیہ نے اس پر برہمی کا اظہار کیا اور میڈیا کے کردار کو نا مناسب اور ملکی وقار کے نا منافی قرار دیا ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے دہشت گردی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ ٹی وی چینلز کو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ واقعات کی براہ راست کوریج سے روکا جائے۔ فاضل ججوں کی جانب سے پیمرا اور متعلقہ حکومتی اداروں کو بھی سر زنش کی گئی جو میڈیا کو قابو کرنے اور کوریج کروانے میں ناکام رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کے پاس نشریات روکنے کا میکنزم ہونا چاہیے اور تمام ٹی وی چینلز پیمرا کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔

اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے حکومت اور حکومتی اداروں پر سر زنش بجا مگر در حقیقت میڈیا اپنی آزادی اظہار کے معاملے میں اسقدر حساس ہے کہ کسی اخلاقی و قانونی حد کی پا بندی پر آمادہ نہیں ۔میڈیا کے حوالے سے اخلاقی اور قانونی قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ مگر اصل مسئلہ ان کے نفاذ کا ہے۔ میڈیا ہاؤسز لائسنس حاصل کرنے سے قبل ان صحافتی قوانین پر پاسداری کی یقین دہانی کرواتے ہیں ۔ بعدازاں یہ پابندی فقط کاغذوں تک محدود رہ جاتی ہے۔ پیمرا حکومتی ادارہ سہی تاہم اس کے قوانین تمام میڈیا ہاؤسز کی رضا مندی اور مرضی کے بعد ہی وضع کیے گئے ہیں۔ مگرجب کبھی یہ قوانین متحرک ہوتے ہیں میڈیاآزادی اظہار پر قد غن کا جواز بنا کرواویلا شروع کر دیتا ہے ۔ نتیجتاً حکومتی ادارے دفاعی پوزیشن پر آجاتے ہیں ۔

دنیا بھر کا میڈیا اخلاقی و قانونی ضابطے کا پابند ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں آزادی اظہار کی اہمیت مسّلم مگراخلاقی و قانونی ضابطوں کی پابندی بھی لازم ہے۔ شخصی آزادی ، قومی وقار، دلآزاری اورحق رازداری جیسے عناصر بھی میڈیا کو ملحوظ رہتے ہیں۔ تاہم ہمارا میڈیا خود کو کسی بھی قسم کی جوابدہی اور قدغن سے مستثنٰی قرار دئیے ہوئے ہے۔ حکمران ہوں ، عدلیہ یا افواج ،میڈیا ہر ایک پر کڑی تنقیدکو اپناحق گردانتاہے۔ مگر خودکو کسی بھی گرفت سے بالا خیال کیے ،نا قابل احتساب ادارے کا روپ دھارچکاہے۔ ٹی وی چینلز ظلم کا شکار کسی مظلوم بچی کا براہ راست انٹر ویو نشر کریں یاخوف و ہراس پھیلانے والے واقعات کی تشہیر ۔ دہشت گردی کے واقعات کی براہ راست کوریج کر کے ملوث افراد کو تقویت اور حکومتی کام میں حائل ہوں یا طاہر القادری کے دھرنے جیسے معاملات کی گھنٹوں تشہیر کا اہتمام کریں۔ عدلیہ کی تذلیل کریں یاافواج کی کردار کشی، اداروں کے مابین ٹکراؤ کے تاثر کو ہوا دیں یافوج کو مارشل لاء کی دعوت ۔ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اعتدال اور توازن جیسے اہم صحافتی تقاضے سے بے بہرہ انتہائی غیر حکیمانہ اور غیر دانشمندانہ روش اپناچکاہے۔

میڈیا کا یہی غیر منطقی اور استدال سے عاری رویہ ریاست کے اس چوتھے ستون کا اعتبار اور وقار متاثر کرنے کا باعث ہے۔ یہ موضوع بھی زیر بحث ہے کہ یہ چوتھا ستون دیگر ستونوں کے استحکام کا باعث بن رہا ہے یا شکستگی کا۔ میڈیا کی آزادی اس کا حق سہی مگر اسے ذمہ داری کا پابند ہونا چاہیئے۔اس سلسلے میں حکومت کو جائز حد تک میڈیا پر کنٹرول کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ پیمرا جیسے اداروں کو متحرک ہونا چاہیئے اور اخلاقی و قانونی ضابطوں کی پابندی کے لیے برؤے کار آنا چاہیئے۔ واضح رہے کہ فریکونسی ایلوکیشن بورڈ کے پاس ٹی وی چینلز کے سگنلز بند کرنے اور روکنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جرمنی سے درآمد کی گئی 85 ملین کی اس ٹیکنالوجی کی موجودگی میں بھی ا سکندر جیسے واقعات میں متعلقہ اداروں کا بروئے کار نہ آنا، حکومت اور متعلقہ حکومتی اداروں کی کمزوری اور نا اہلی کا مظہر ہے۔

دوسری جانب میڈیا کو بھی اپنا قبلہ درست کرنا چاہیےے اور آزادی کو خود سری کی حدوں تک نہیں لے جانا چاہیے ۔اسے پرنٹ میڈیا کی طرز پر کوئی ادارتی چیک یقینی بنانا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ حکومت ایسے کسی واقعہ اور غیر ذمہ دارانہ طرز صحافت کو جواز بناتے ہوئے پیمرا اور فریکونسی ایلوکیشن بورڈ جیسے اداروں کے ذریعے بروئے کار آئے اورمیڈیا اپنی جائز اور ضروری آزادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا خود احتسابی کی راہ اختیار کر ئے۔ اس سے پہلے کہ حکومت، عدلیہ یا کوئی طاقتور ادارہ میڈیا کو نکیل ڈالنے کا قصد کرئے، میڈیا خود اپنے لیے اخلاقی حدود کی پابندی کا اہتمام کر لے ۔ یہ خود ساختہ اخلاقی حدود کا تعین کسی جانبدار قانونی شکنجے میں کسے جانے سے بہت بہتر ہے۔میڈیا کو یاد رکھنا چاہیئے کہ معلومات کی فراہمی میڈیا کا فرض سہی مگر اس کی زد ریاستی اداروں اور قومی مفادات پر ہر گز نہیں پڑنی چاہیئے۔ ریاست کے اس چوتھے ستون کو اپنے وقار اور اعتبار میں اضافہ کرنا ہے تو اسے ریاستی اداروں اور ریاست کے مفادات کے تحفظ کا ضامن بننا ہو گا۔
Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25646 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.