''قتلِ مسلم''

ملک کے موجودہ حالات کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ چار سو قتل مسلم عام ہوچکا ہے، آج میں ان آیات وروایات کو لے بیٹھا ہوں جن میں اللہ تعالیٰ اور آقائے نامدار حضرت محمد ۖ کے ارشادات ہیں کہ ایک مسلم کا قتل کتنا بڑا ''جرم عظیم'' اور ''گناہ کبیر'' ہے۔ سورة النساء آیت نمبر ٩٣ میں خدائے ذوالجلال کا واضح ارشاد ہے :]ومن یقتل مؤمنا متعمداََ فجزاہ جھنم خالداََ فیھا و غضب اللہ علیہ و لعنہ اعدلہ عذابا عظیما[ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو عمداََ یعنی قصدا جان بوجھ کر قتل کر ڈالے تو اس کی سزا ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے' اللہ رب العزت کا غضب ہے' اس کی لعنت اور پھٹکارہے' اور ایسے لوگو ں کے لئے بڑا دردناک والمناک عذاب تیار ہو چکا ہے۔امام بخار ی نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک حدیث نقل کی ہیں جو حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے: ] لایشیر احدکم علی اخیہ بالسلاح فانہ لایدری لعل الشیطان ینزع مافی یدہ ' وفی روایة ینزع بالعین فیقع فی حفرة من النار[ یعنی فرمایا کہ کبھی بھی اپنے مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کیا کرو' ممکن ہے کہ ہتھیار میں جو کچھ ہے وہ لگ جائے تو تم جہنم کے گڑھے میں گر پڑو یعنی آپ کے اشارہ کرنے سے تلوار چل گئی اور مسلمان کا خون ناحق ہوگیا تو ایک ایسے فعل کا ارتکاب ہو جائیگا جس کے پاداش عذاب جہنم ہے۔قارئین کرام! آپ نے آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ ملاحظہ کیا کہ اللہ تعالی ٰ نے قتل مسلم کو کتنا بڑا جرم قرار دیا ہے اور اس آدمی کا انجام جہنم بتایا ہے اور اس پر لعنت و پھٹکار کی ہے اور آپ ۖ نے بھی واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ مسلم کا خون کتنا قیمتی ہے ۔ حدیث مذکورہ سے تو واضح ہو جاتا ہے کہ از روئے مزاق اور دل لگی کے لئے بھی کسی مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ اٹھانا یا اس کو ڈرانے کے لئے کسی بھی قسم کا ہتھیار کا ر خ اس کی جانب کرنا یا اشارہ کرنا شرعاََ جائز نہیں ہے۔ ذرا ہمیں اپنی حالت زار کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے خون مسلم کو کتنا ارزاں سمجھا ہوا ہے۔

ایک اورحدیث حضرت عبداللہ بن عمر نے مرفوعاََ مروی ہے: ] زوال الدنیا کلھا اھون علی اللہ عن قتل رجل مسلم'[ اسی روایت کی تخریج امام نسائی نے ان الفاظ میں کی ہے ] قتل المؤمن اعظم عنداللہ من زوال الدنیا[ یعنی آقائے نامدار نبی رحمت سرور کائنات ۖ نے فرمایا ہے کہ'' اللہ کے نظروں میں تمام دنیا کے زائل یعنی نیست و نابود ہوجانے نے بھی بڑھ کر جو چیز ہے و ہ ایک مؤمن مسلمان کا قتل ہے۔قارئین دل کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں قتل مسلم مزاق بن چکا ہے ، خدا تعالی ٰ کے ارشادات اور نبی کریم ۖ کے فرمودات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک مسلمان کے لئے شرک کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی اور کفر نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ رنگین کرے۔روشنیوں کا شہر کراچی غریبوں کے خون سے سرخ ہوگیا ہے۔کراچی ایک شہر ہے جہاں پورے ملک کے باسی رہتے ہیں۔پورے ملک کے ہر علاقے کے نام سے کراچی میں کالونیاں بنی ہوئی ہیں مثلاََ گلگت کالونی، کشمیر کالونی' پنجاب کالونی' مانسہرہ کالونی'بلوچ کالونی'غرض ہر صوبے کے مختلف علاقوں کے ناموں والی کالونیاں کراچی میں ہیں اور وہاں اس علاقے کے لوگ فروکش ہیں مگرلسانیت، علاقائیت پر روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے۔ نہ قاتل کو معلوم نہ مقتو ل کو۔ بلوچستان تو مشرفی آمریت کے دور سے مسلسل جل رہا ہے اور جلانے کے لئے ایندھن مہیا کرنے والے کوئی بھی ہوں مگرماچس کی تلی سے آگ بھڑکانے والے اپنے مسلمان بھائی ہیں۔ گلگت بلتستان بھی کھبی امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ سالوں میں کوئی قتل ہوتا تھا، اگر کوئی ذاتی دشمنی میں قتل ہوتا تو قاتل کبھی بھی اپنے آپ کو چھپاتا نہیں تھا بلکہ وہ فخریہ اعلان کرتا کہ جی ہاں! میں نے قتل کردیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ دوسرے لوگ اذیت اور خوف و ہراس سے بچ جاتے تھے۔مگر چند سالوں سے یہ پرامن علاقہ بے گناہ مسلمانوں کے خون سے بھر چکا ہے، خون آشامی کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔خونیں ورادتیں روز کا معمول بن چکیں ہیں۔گلگت میں بھی قتل و خون کی ہولی کھیلنے کے لئے پلان جوبھی تیار کرتا ہو اور اس کے لئے فنڈنگ کوئی بھی کرتا ہو مگر ایک دوسروں کے گلے کاٹنے کی '' خدمت عالیہ'' مقامی لوگ ہی انجام دیتے ہیں۔ پتنگ کی ڈوری جہاں کہیں سے بھی ہلائی جائے مگر پتنگ گلگت سے ہی اُڑے گا اور گلگت کا ہی پتنگ کٹے گا' اور کٹ کر کرچی کرچی ہوکر ہواؤں کے دوش بکھر جائے گا۔

انتہائی غور سے جائزہ لیا جائے تو ہم نے خدائی فرمودات اور نبوی تعلیمات سے روگردانی کی ہوئی ہے۔یہ اٹل ہے کہ شریعت اسلامی نے مسلمانوں کی جمیعت و قومیت کی اساس و بنیاد باہمی مؤاخات پر رکھی ہے' یعنی ہر مسلمان کا شرعی رشتہ دوسرے مسلمان سے بھائی کا رشتہ ہے۔ قرآن کریم کا دو ٹوک مؤقف ہے کہ]فاصبحتم بنعمتہ اخوانا ' انماالمؤمنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم[ یعنی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں' پس جب دو بھائیوں میں رنجش پیدا ہوجائے تو ان کے مابین صلح کرادو۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کی قومی سیرت و کردار جابجا بیان فرمایا ہے' سورة المائدہ کی آیت نمبر٥٤ میں صاف ارشاد ہے] اذلة علی المؤمنین اعزة علی الکافرین[اور سورة الفتح کی آیت نمبر٢٩ میں بھی اسی قسم کا ارشاد ہے]اشداء علی الکفار رحماء بینھم[۔ دونوں آیات کا مفہوم بتلاتا ہے کہ مسلمان میں جس قدر بھی نرمی و محبت ہے مسلمانوں کے ساتھ ہے' اور جس قدر بھی سختی اور درشتی ہے غیروں کے لئے یعنی کفار کے لئے۔ ایک کامل مسلمان کی علامت یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ نرم بھی ہے اور سب سے زیادہ سخت بھی ، یعنی اپنوں کے لئے ابریشم اور غیروں کے لئے سخت جان'مسلمانوں کے پاس محبت بھی ہے اور عداوت بھی' ان کی محبت پرستارانِ حق کے ساتھ اورعداوت دشمنانِ حق کے ساتھ۔ تو کیا ہم مسلمان ہیں؟۔ہمیں اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہیے۔

سیرت نبویۖ اور احادیث نبویۖ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قتل مسلم سے بڑھ کر کون سا فعل ہے جو خدا کے عرش جلال وغیرت کو ہلا دے اور اس کی لعنتیں بارش کی طرح آسمانوں سے نہ برسے' جس مؤمن کا وجود اللہ کو اس قدر محبوب و محترم ہواور لائق و فائق ہوکہ تمام دنیا کا زوال اس کی ہلاکت کے مقابلے میں ہیچ بتلائے' اسی کا خون خود ایک مسلمان کے ہاتھوں سے ہو ' اس سے بڑھ کر شریعت الہی کی کیا توہین ہوسکتی ہے؟ جس بدبخت انسان کا احساس ایمانی یہاں تک مسخ ہو جائے کہ باوجود دعوائے مسلم ومؤمن کے مسلمانوں کا خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرے بلکہ اس کو کار خیر بھی سمجھے' تو یاد رہے کہ وہ یقینا مسلمانوں کا خون نہیں بہاتا بلکہ وہ توپروردگار عالم کے کلمہ توحید کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور شانِ کبریائی کو بٹہ لگانا چاہتا ہے۔سَو' ایسوں کو ] ان عذابی لشدید[ کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ وماعلینا الا البلاغ۔
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 444 Articles with 384814 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More