سال 2013 عوام کو کیا ملا

سال 2013بہت سی اچھی اور بری یادیں لیکر اپنے اختتام کو پہنچ گیا گزشتہ سالوں کی طرح پاکستانی عوام نے اس سال کو بھی اپنے خوابوں کو پورا ہونے کے انتظار میں گزار ہی لیا مصیبتوں کے پہاڑ میں کوئی کمی تو نہ آئی مگر زندگی کی نئی امید لئے بحرانوں کے خاتمے ملک کے حالات کو درست سمت میں لانے کے لئے اور عوام کے حالات کو تبدیل کرنے کے لئے بہت کچھ کہا اور سنا گیا ۔مگر نتیجہ کیا نکلا وہ سب کے سامنے ہے ۔پاکستان میں سنہ 2013 اقتدار کی منتقلی کا سال تھا ملک کی ایک جمہوری حکومت بے شمار مسائل میں گھِری ملکی معشیت کی باگ دوڑ دوسری حکومت کو تھما رہی تھی گیارہ مئی کے انتخابات میں تبدیلی کے عزم نے عوام کے دلوں کو گرمایا ان انتخابات میں عوام نے تین وجوہات کی بنا پر سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے اور نہ دینے کا فیصلہ کیا جن میں توانائی کا بحران، مہنگائی، کرپشن اور امن وامان وہ خاص عوامل تھے جو انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوئے نئی حکومت سے عوام کو بہت سی توقعات تھیں ان میں مہنگائی کا خاتمہ بجلی کے بحران کا خاتمہ سر فہرست تھا مگر اس توقع کا خون نئی حکومت کے پہلے ہی بجٹ میں ضروریات زندگی کی عام اشیا سمیت تمام چیزوں پر سیلز ٹیکس 16 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے سے ہی ہو گیا جس سے مہنگائی اتنی بڑھی کے عوام کو دن میں تارے نظر آنے لگے حکومت کے ابتدائی دونوں ہی میں بیرونی ادائیگیوں اور وصولیوں میں عدم توازن سے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے لگے جس سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر پر دباؤ بڑھا اور ایک ڈالر جو 104 روپے پر تھا بڑھ کر 110 روپے تک پہنچ گیا اور اس صورت حال کو قابو کرنے کے لئے حکومت نے وہی کیا جو ایسے موقع پر کیا جاتا ہے یعنی نئے نوٹوں کا اجراء (چھاپنا ) اور پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں نئے نوٹ چھاپے گے کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ان نئے نوٹوں کے اجراء سے روپے پر شدید ترین دباؤ پڑا اور ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی گو کہ حکومت اور مرکزی بینک نے کوڑیوں کی صورت اختیار کرتی روپے کی قدر کو سنبھالا دینے کی کوشش کی اور کچھ اہم اصلاحات بھی کی جس کے نتیجے میں ڈالر 108 پر ٹریڈ ہونے لگا۔زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کی سب سے بڑی وجہ درامدی بلوں کی ادائیگی میں اس کا استعمال ہے درامدی بل کا پچیس فیصد خام تیل پر مشتمل ہے کیونکہ بجلی بھی مہنگے فرنس آئل سے پیدا ہو رہی ہے اور سامان کی نقل وحمل بھی ٹرکوں کے ذریعے ہوتی ہے ایسے میں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونا یقینی امر ہے کیونکہ دنیا میں یہ قانون رائج ہے کہ درآمدی اشیا پر انحصار کرنے والے ممالک کی کرنسی دباؤ میں رہتی ہے ان حالات میں ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سلسلہ نہیں رک پا رہا تھاایسے میں حکومت کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور ایک ایسے قرضے کو عوام کی گردن پر لاد دیا گیا جو کھبی نہ ختم ہونے والا تھا اور اس کے لئے شرائط بھی اپنی مرضی کی شامل کی جس کی وجہ سے ماسوائے عوامی قربانی کے کوئی اور راستہ سامنے نظر نہیں آ رہا تھا اور وہ حکومت جو عوام مفادات کو اپنی اولین ترجیح قرار دے رہی تھی بڑے آرام اور سکون سے آئی ایم ایف کے ٹوکے کے نیچے عوام خواہشات کو قتل کرا کر سر خرو ہوئی جس پر ائی ایم ایف نے پاکستان کے لیے اِس شرط پر چھ ارب 70 کروڑ ڈالر کا قرض منظور کیا کہ وہ معیشت میں اصلاحات کے لیے تیار رہے جس کا مطلب تھا غریب عوام کو دی جانے والی سبسڈی کو ختم کرنا اور غریبوں کو دی جانے والی مراعات کا خاتمہ۔ آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک کو کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کرنے سے روکا پھر آئی ایم ایف نے کہا کہ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کی جائے اور بھی کئی اقسام کی خفیہ شرائط تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آئیں گی اس کے علاوہ اپوزیشن کے کچھ الز مات بھی ہیں جن کا جواب بھی برحال حکومت کو دینا ہے قرض کی جو بھی شرائط ہوں مگر ایک بات طے ہے کہ جو قرض دیتا ہے ہ کھبی بھی اپنے مفادات کو کم نہیں کرتا بلکہ مقروض کو اس کے ہر حکم کی ہر شرط کی پاسداری کرنی ہوتی ہے ایسے میں حکومتی الیکشنوں میں کئے گئے وہ وعدے کے وہ معیشت کو مضبوط کریں گے ملک سے بحرانوں کو ختم کریں گے اور غریب عوام کو ریلیف فراہم کریں گے ایک ایسا سراب نظر آتا ہے جس کے پیچھے یہ عوام بھاگ بھاگ کر اپنے ستر سال ضائع کر چکے ہیں اور ان ستر سالوں میں جو کچھ اس عوام کے ساتھ کیا گیا اس کے بعد ان میں مذید سکت نہیں کہ وہ مذید قربنانی دیں سکیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت بیرونی دنیا کے آگے ہاتھ پیھلانے کے بجائے روپے کی قدر مستحکم کرتی جو کہ کم نوٹ چھاپ کر اور منی لانڈرنگ کو کنٹرول کر کے ہی ممکن تھا ٹیکسوں کے دائرہ کار کو وسعت دینے کے لیے مزید لوگوں ٹیکس نیٹ میں لاتی ۔

مہنگائی، بحلی کی قیمتوں میں اضافہ، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ روپے کی غیر مستحکم قدر اورنتیجتاً افواہوں کاگرم بازار اور سال 2013 پاکستانی عوام کے لیے کٹھن رہا ملکی کی معاشی ترقی کے لیے ضروری تھاکہ حکومت روزانہ کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے بجائے بروقت اور اہم فیصلہ کرتی جو کہ ملک کی بہتری میں ہوتے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا کہ ان فیصلوں سے غریب عوام کم سے کم متاثر ہوں ماضی کی طرح یہ سال بھی بہت سی مشکلیں عوام کو دے کر رخصت ہو گیا تاہم عوام اب بھی پر امید ہیں کہ آنے والا سال ان کے لئے نئی امید نئی صبح لیکر آئے گا ۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 207942 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More