نیا سال: نیا عزم

نئے سال کی آمدہوچکی ہے۔ وقت کی رفتارکتنی تیز ہے۔ کل ہی کی بات لگتی ہے کہ نیا سال شروع ہوا اور اب ختم ہوچکا ہے۔ ہر سال کی آمد پر خیر کی دُعائیں مانگی جاتی ہیں۔مُلک وقوم کے دفاع اور خوشحالی کے لیے عزم کیا جاتا ہے معاشرے کو سنوارنے کی باتیں کی جاتی ہیں اور پھر چند دن بعد معمول کی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔

لیکن حالات جس انداز میں بدل رہے ہیں اور مُلک کو درپیش مسائل حل ہونے کے بجائے تکلیف دہ صورت حال پیدا کر رہے ہیں اُس میں تو اب عزم و ہمت کے ایک نئے عہد کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب پیچدہ معاملات کو نظر انداز کرنے اور اچھے وقت کا انتظار کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا بلکہ غورو فکر اور مناسب منصوبہ بندی ہی ہمیں موجودہ اور آنے والے بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔ جب بھی مُلک کی سلامتی اور ترقی و خوشحالی میں اپنے کردار کا ذکر ہوتا ہے تو ہر فرد یہ کہہ کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جاتا ہے کہ میں تنہاکیا کر سکتا ہوں یہ تو حکومت وقت اور سیاسی قائدین کا فرض ہے۔ حکومت اور سیاسی لیڈر جب عوام کی خاموشی دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے اور مسائل پروہ آہستہ آہستہ قابو پالیں گے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر پاکستان کے مفاد کی بات سوچنی ہے تو حکومت اور عوام الگ الگ نہیں ہیں۔ ایک ہی سوچ اور عمل ہی ہمیں ہر مسئلے سے نکال سکتا ہے۔

ہم سب کے لیے کہناسُننا، نصیحت اور تنقید کرنا آسان ہے۔ عملی طور پر قدم اُٹھانے میں مشکل آتی ہے۔ سب سے اہم تو یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ کو مثبت رکھیں۔ اختلاف رائے نئے نقطے سامنے لاتا ہے جو مسئلے کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اگر مثبت تنقید کو سمجھا جائے اور دوسرے کی نیت پر شک نہ کیا جائے تو یہی اختلاف رائے باہمی رضامندی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ دوسروں کی بات سُننے کا حوصلہ پیدا کرنا ضروری ہے اور پھر ہر اچھی بُری بات کو پرکھ کر فیصلے کرنا آگے بڑھنے میں مدد کرتے ہیں۔

قومی سطح پر مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ صحیح منصوبہ بندی سے ہر مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے نیک نیتی اور قومی اتحادکی سخت ضرورت ہے۔ اگر ہم تعلیم کو عام کریں تو بھی لوگوں میں آگاہی بڑھئے گی اور وہ اپنے روز مرہ معاملات میں ایسی باتوں کا دھیان رکھیں گے جن سے اُن کی صحت، تعلیم اور معاشرتی رکھ رکھاؤ میں مثبت تبدیلی آئے۔ مُلکی دفاع کے لیے ذہنی دفاع زیادہ ضروری ہے تا کہ اندرونی و بیرونی دشمن ہمارے خیالات پر حاوی نہ ہوں اور ہماری سوچ میں اپنی مرضی کی تبدیلی نہ لائیں۔ اس کے لیے سب کو ہوشیار رہنا پڑے گا تاکہ کسی کی باتوں میں آکر اپنے ملک وقوم کو نقصان نہ پہنچائیں۔

اﷲ تعالٰی نے ہر انسان کو بے انتہا صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ اُسے اشرف المخلوقات کا درجہ اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ باقی سب سے افضل ہے۔ اور یہ صرف اُس کے عقل و شعور کی وجہ سے ہے۔ بس ہمیں اب ایک ہی عہد کرنا ہوگا کہ آنے والے سال میں ہم اپنی سوچ کو مثبت رکھیں گے۔ جو بھی کام ہم کر رہے ہیں اُسے ایمانداری اور خلوص کے ساتھ پورا کریں گے۔ اپنے ہر قومی ادارے کو مضبوط بنائیں گے اور اپنے گھروں میں رشتوں کے تقدس کو اہمیت دیں گے۔ اگر ہم انفرادی طور پر اپنے نفس پر قابو پا کر اپنے آپ کو ایک اچھا اور ذمہ دار فرد بنالیں تو مُلک وقوم بھی سنور جائے گی۔ اگر ہم اس سال ایک بھی مسئلے پر قابو پالیں تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ قربانی دینے والے تو زندگی میں بھی ساراوقت اپنے وطن کی حفاظت میں گزار دیتے ہیں اور پھر اپنی قوم کے لیے شہادت کا تمغہ بھی سجا لیتے ہیں۔ کیا ہم اپنی چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں پوری کر کے بڑے بڑے کام مکمل نہیں کر سکتے۔ کیا ہم آج صدق دل سے یہ دُعا نہیں مانگ سکتے کہ ہم کوشش ضرور کریں گے اور ہر اُس شخص کا ساتھ دیں گے جو مُلک و قوم کی بہتری اور تحفظ کے لیے سوچے۔

Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 40436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.