اروند کیجریوال: اس پر ہی وشواس کرے ہے جس سے دھوکہ کھائے

انتخاب سے قبل عام آدمی پارٹی ایک خاص سیاسی جماعت تھی جس میں صرف آم ہی آم تھے لیکن حکومت سازی کیلئے اپنی ٹوکری میں کانگریسی امرود بھی شامل کرلینے کے بعد اب وہ ایک عام سیاسی پارٹی بن کررہ گئی ہے ۔ عام آدمی پارٹی جس کیلئے ’’ آپ ‘‘ کا مخفف استعمال کیا جاتا ہے کے اندر جوانقلاب برپا ہوا وہ نیا نہیں ہے بلکہ اس سے قبل کئی انقلابی تحریکوں کے ساتھ یہ عمل ہوچکا ہے۔ عام آدمی پارٹی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر تبدیلیاں غیر معمولی رفتارکے ساتھ وقوع پذیر ہوئیں۔ دو اکتوبر ؁۲۰۱۲کودہلی کے جنتر منتر پر ایک بے نام پارٹی کا قیام عمل میں آیا ۲۹ اکتوبر کو اس کا نام رکھا گیا اور ایک سال بعد اس نے کانگریس کو اقتدار سے چھومنتر کردیا لیکن اس کمال سے بڑا چمتکار یہ ہوا کہ جس کانگریس پارٹی کا سر کچلنے کیلئے اس نے جنم لیا تھااسی کو حکومت سازی کی غرض سے آپ نے اپنی آستین میں پناہ دے دی ۔

اروند کیجریوال نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے سے قبل عوامی رابطے کی ایک بہت بڑی نو ٹنکی کھیلی جس سے ظاہر ہو گیا کہ انہوں نے عوام کوبے وقوف بنانے کے فن میں اچھی خاصی مہارت حاصل کرلی ہےاور اب وہ کوئی عام سیاسی رہنما نہیں رہے ۔ انہوں نے اول تو عام لوگوں کے نام ایک نہایت دلچسپ خط لکھا اور پھر آخرِ ہفتہ میں خطابِاتِ عام کا سلسلہ شروع کیا ہرمقام پروہ اپنی تقریر کے اختتام پر عوام سے پوچھتے کہ کیا پارٹی کوکانگریس کی مدد سے سرکار بنانا چاہئے ۔ عوام ہاتھ اٹھا کر تائید کرتے۔ اسے دیکھ کر ان کا سینہ پھول جاتا اور وہ اگلے جلسۂ عام کی جانب بڑھ جاتے ۔اس طرح ۲۸۰ جلسوں سے خطاب کرنے کے بعد انہوں نے حکومت سازی کا اعلان کردیا حالانکہ انتخابی نتائج کے فوراً بعد جب انہوں نے طنزیہ کہا تھا کہ بی جے پی اور کانگریس کو مل کر حکومت بنا لینا چاہئے اس لئے کہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے تو اسی وقت ان قریبی ساتھی منیشسسودیہ نےکہہ دیا تھا کہ ہمارے سامنے سارے امکانات کھلے ہوئے ہیں ۔ اس طرح عوام و خواص کواندازہ ہو گیا تھا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والاہے۔

بی جے پی چو نکہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی اس لئے اس کوسب سے پہلےگورنر جنرل نے حکومت سازی کی دعوت دی ۔ بی جے پی نے بڑی چالاکی سے اپنی معذوری ظاہر کردی ۔ اس کے بعد عام آدمی پارٹی کو بلایا گیا۔ اس نے بھی اولتوصبر وضبط سے کام لیا لیکنبعد میں اروند کیجریوال کے اس بیان کے اندر کہ میں ذاتی طور سے حکومت سازی کے خلاف ہوں اس بات کا اعتراف تھا کہ پارٹی کے اندر اس پر اختلاف ہے ۔بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنا کانگریس کی مجبوری تھی اس لئے اس نے اپنی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرکے کیجریوال کی آزمائش میں مزید اضافہ کردیا۔ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس کی شیلا دکشت کو شکستِ فاش سے دوچار کرنااروند کیلئے آسان تر تھا لیکن خود اپنے ہی منتخب شدہ ارکانِ اسمبلی کو قابو میں رکھنا ان کیلئے مشکل ہوگیا ۔

ذرائع ابلاغ میں جب یہ پروپگنڈہ شروع ہواکہ عام آدمی پارٹی نے اقتدار میں آنے کیلئے عوام سے ایسے وعدے کردئیے ہیں کہ جنہیں وہ پورا نہیں کرسکتی اس لئے وہ اپنی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیارکررہی ہے تو اروند کیجریوال کی پریشانیاں اور بڑھ گئیں اب انہوں نے چور دروازے کی تلاش شروع کی اور سب سے پہلے دونوں سیاسی جماعتوں کو خط لکھ کر ان کے سامنے اپنی شرائط رکھیں ۔ بی جے پی جس نے مسائل کی بنیادپر حمایت کا اعلان کیا تھا خط کا جواب دینے سے انکار کردیا بلکہ سوالات کے جواب میں سوالات کی بھرمار کردی ۔ کانگریسیوں نے بڑی عیاری سے ایک منافقانہ جواب دے دیا ۔ اس کا کہنا تھا ان اٹھارہ شرائط میں سے دو یعنی دہلی کو مکمل ریاستی درجہ یا لوک پال بل تو مرکزی حکومت کے دائرۂ کار میں آتے ہیں اس لئے ان کی حمایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا باقی کا تعلق انتظامی امور سے ہے اس میں حمایت ممکن ہے ۔

سیاسی جماعتوں سے مایوس ہونے کے بعد اروند کیجریوال نے عوام کے نام مذکورہ دلچسپ خط لکھا ۔ اس خط کا مخاطب ویسے تو عوام ہیں لیکن اس کے لب ولہجے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارکان اسمبلی سے خطاب فرما رہے ہیں ۔ انہوں یاددہانی کے طور پر لکھا کہ ہمیں سب سے پہلے یہ سوچنا ہے کہ عام آدمی پارٹی کیوں وجود میں آئی ؟’’ آپ‘‘ کو کانگریس اور بی جے پی کے ذریعہ چلائی جانے والی بدعنوانی،جرائم اور فرقہ واریت کی سیاست کے خاتمے کی غرض سے قائم کیا گیا۔’’ آپ‘‘ کو اقتدار حاصل کرنے کی خاطر نہیں بلکہ سیاسی منظر نامہ کو بدلنے کی خاطربنایا گیا۔ جب ملک ان دونوں جماعتوں کی بدعنوانی سے چرمرا رہا تھا عام لوگوں نے عام آدمی پارٹی بنائی ۔ ایسی صورتحال میں’’ آپ‘‘ان دونوں میں کسی بھی ایک پارٹی کی حمایت سے حکومت کیسے بنا سکتی ہے ؟ اروند کیجریوال نے ویسے تو اتمامِ حجت کے طور یہ بھی لکھا تھا کہ یہ تمام جماعتیں ہر جائزو ناجائزہتھکنڈہ استعمال کرکےاقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ہم عام لوگ ہیں ۔ یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ ایک پارٹی اقتدار کی خاطر نہیں بلکہ عوامی مسائل کی بنیاد پر حکومت بنا نے جارہی ہے ۔ یہ دعویٰ درست نہیں ہے حکومت سازی کے وقت اس طرح کا بلند بانگ دعویٰ ہر سیاسی جماعت کرتی ہے ۔

کیجریوال نے بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے لکھا کہ بی جے پی نے خط کا جواب تک نہیں دیا جبکہ اس نے پہلے دہلی کی عوام کے فلاح و بہبود کی خاطر حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن اب یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ گندی سیاست کھیل رہی ہے۔اسے نہ ہی دہلی کے لوگوں کی بھلائی میں دلچسپی ہے اور نہ وہ عوامی مسائل پر حمایت کرنا چاہتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا نزلہ کانگریس پر اتارتے ہوئے لکھا ہم اس جماعت کی حمایت سے کیوں کر حکومت بنا سکتے ہیں جس نے پورے ملک کو لوٹا ہے اور ہم حقیقی معنیٰ میں جس کے خلاف ہیں؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس نے چودھری چرن سنگھ اور چندر شیکھر کی حمایت کس طرح سے واپس لی۔اروند کیجریوال کی اس منطق نے ان کے ارکانِ اسمبلی اور رائے دہندگان دونوں میں سے کسی کو مطمئن نہیں کیا ۔ان لوگوں نے عقل کے بجائے جذبات کی رو میں بہہ کر حکومت سازی کی پرزور حمایت کردی اور اروند کیجریوال کو اس کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑا۔ ان کی حالت پر فی الحال حفیظ میرٹھی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
اس دیوانے دل کو دیکھو کیا شیوہ اپنائے ہے
اس پر ہی وشواس کرے ہے جس سے دھوکہ کھائے ہے

اروند کیجریوال کو غالباً اس کا اندازہ تھا اس لئے ان اصولی باتوں کے بعد انہوں نے پینترا بدل کر یہ بھی لکھ دیاکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آئندہ قومی انتخاب کے پیش نظر کانگریس کی یہ مجبوری ہے کہ وہ ۶ ماہ تک کوئی شرارت نہ کرے اور عدم استحکام کی صورتحال پیدا نہ ہونے دے اس لئے’’ آپ‘‘ کو حکومت بنا کر عوامی فلاح بہبود کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنا چاہئے۔چند لوگ حکومت بنا کر عوام کو یہ دکھا دینا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ؟مگرکئی ارکان ان دونوں میں سے کسی جماعت کی حمایت نہ لینے میں یقین رکھتے ہیں۔اب ہم مخمصے میں ہیںاور آپ سے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا کیا جائے ؟ دیگر جماعتوں کی مانندہمارا فیصلہ بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہوگا ۔ خط کا یہ حصہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت سازی کے حامی اقلیت میں ہیں لیکن وہ اقلیت پارٹی کو بلیک میل کررہی ہے ۔ اس خط کے بعد کھیلے جانے والا ڈرامہ چغلی کھاتا ہے کہ درپردہ حکومت سازی کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اب اس پر عوام کی جانب سے مہر ثبت کرائی جارہی ہے۔ یہ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف آپ کے حامی بلکہ کانگریس اور بی جے پی بھی عام آدمی پارٹی کا کھوکھلا پن ظاہر کرنے کیلئے اس بات کے خواہشمند ہیں کہ کم ازکم ایک بار اس کی حکومت بنے اور اسے دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہو۔

کیجریوال کےخط میں اس الزام کی تردید بھی کی گئی ہے کہ وہ ذمہ دارویوں بھاگ رہے ہیں بی جے پی کے بارے میں انہوں نےلکھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس نے گوا، ہماچل پردیش ،چھتیس گڈھ اور اترپردیش میں حزب اختلاف کے ارکان کوتوڑ کر اپنے ساتھ کرچکی ہے مگر دہلی میں’’ آپ‘‘ کی صاف شفاف سیاست سے ڈر کر وہ حکومت کا دعویٰ نہیں کرپارہی ہے اور اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار کررہی ہے ۔ سچ تو یہ ہے اروند کیجریوال کا یہ دعویٰ سراسر بکواس ہے ۔ اس لئے کہ بی جے پی کو کانگریس کی حمایت نہ حاصل ہے اور نہ ہوسکتی ہے دوسرے خوف بی جے پی کو نہیں بلکہ عام آدمی پارٹی کو ہے کہ اگر اس نے اقتدار کوسنبھالنے میں تاخیر کی تو ’’آپ‘‘ کے۱۰ ارکان اسمبلی بی جے پی سے بیاہ رچا کرباپ بن جائیں گے۔چونکہ ان کی تعداد ایک تہائی ہوگی وہ دل بدلی قانون کی زد میں بھی نہیں آئیں گے۔ اسی خطرے نے اروند کیجریوال کومصلحت کے زہر کاپیالہ پینے پر مجبور کردیا ہے ؎
ٹھٹک گئی ہے ہوس مصلحت کے پاس آکر
وفا گذر بھی گئی تخت و تاج ٹھکرا کر

انقلاب کی شاہراہ پر مصلحت پسندی سب سے بڑی رکاوٹ ہے جن لوگوں کواروند کیجریوال سے اس بات کی توقع تھی کہ وہ خیرات کا تخت و تاج ٹھکرا آگے نکل جائیں گے وہ خاصے مایوس ہوئے ہیں۔ جمہوری سیاسی حکمت عملی کے لحاظ سےکیجریوال کی مصالحت پسندی صد فیصد درست ہے لیکن اصول و اخلاق کی میزان پریہ سراسرغلط ہے ۔ اس میں اروند کیجریوال سے زیادہ اس نظام کا قصور ہے جو اصول پسندی کے بجائے ابن الوقتی کو فروغ دیتا ہے ۔ اروند کیجریوال اگر حکومت سازی نہ کرتے تو ان کے رائے دہندگان مایوسی کا شکار ہوکر دوبارہ کانگریس اور بی جے پی کی جانب نکل جاتے۔ ان کے ارکان اسمبلی دلبدل کر کمل اور ہاتھ کے ساتھ ہولیتے۔ غیر تربیت یافتہ رائے دہندگان اور بے صبرے ارکان جماعت کی مدد سے جلدبازی میں انقلاب لانے کی کوشش کرنے والوں کا انجام اس کے سوا کچھ اورنہیں ہو سکتا۔ کیجریوال نے سیاسی شعبدہ بازی سیکھ لی ہے ۔ اب وہ کانگریس سے کشمکش برپا کرکے اسے مجبور کریں گے کہ وہ ان کی حکومت گرا دے۔

کانگریس کے حمایت واپس لے لینے کے بعد وہ مظلوم کی حیثیت سے عوام کے سامنے جائیں گے اور ان سے رحم کی گہار لگا کر پھر اقتدار میں آجائیں گے لیکن اس دور ان کی زبان کا اعتبار ختم ہو چکا ہوگا ۔ لوگ ان کی باتوں کو بھی اسی طرح سنیں گے جیسے دیگر سیاسی جماعتوں کی سنتے ہیں لیکن ان پر یقین کوئی نہیں کرےگا۔ عوام جب تک پوری طرح مایوس نہیں ہوجاتے اس وقت ان کو ووٹ دیتے رہیں گے اور جب بیزار ہوجائیں گے تو انہیں بھی کوڑے دان میں پھینک دیں گے ۔ اس کے بعد یاتو کیجریوال کانگریس یا بی جے پی میں باقائدہ شامل ہو جائیں گے یا ان کے حاشیہ بردار بن جائیں گے ۔ پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے اور آگے بھی یہی ہوگا ۔ ہاں وہ حسین خواب نہ ہوں گے جو ماضی میں کیجریوال خوددیکھتے اور عوام کو دکھلاتے رہے ہیں۔ مناسب معلومات ہوتا کہ ماضی کے دریچوں میں جھانک کر ان خوابوں کا نظارہ آج کرلیا جائے ورنہ کل دیر ہوچکی ہوگی۔

تقریباً دو سال قبل اتر پردیش میں انتخابات کا انعقاد ہوا ۔ اس وقت نوئیڈا کے ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے اروند کیجریوال نےعوام کو خبردار کیا تھا کہ ہمیں اتر پردیش کے انتخابات سے کسی تبدیلی کی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے ۔ان انتخابات کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ سیاسی جماعتیں کامیاب ہو جائیں گی اور عوام شکست کھا جائیں گے ۔ حسنِ اتفاق یہ ہے کہ دہلی کے حالیہ انتخاب پر اروند کیجریوال کا یہ جملہ ہو بہو چسپاں ہوگیا۔دہلی کی عوام نے کانگریس کو ہٹایا لیکن بالآخر کانگریس بادشاہ گر بن گئی اور اس نے اقتدار کا تاج اپنے ہاتھوں سے کیجریوال کے سر پر رکھ دیا۔ ہندوستانی تاریخ کا غالباً یہ پہلا انتخاب تھا جس میں تینوں سیاسی جماعتوں کاگوں ناگوں وجوہات کی بناء پر اس امر پر اتفاق تھا کہ اقتدار کس کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے تھے اس طرح گویا ساری سیاسی جماعتیں اپنے گھناؤنے مقاصد میں کامیاب ہوگئیں اور عوام صحیح معنیٰ میں شکست کھا گئے ۔

مذکورہ عوامی بیداری کے پروگرام میں اروند کیجریوال نے بڑے طمطراق کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ لوک پال بل لانے کیلئے جس جدوجہد کا آغاز کیا گیا تھا اب اسے نظام کی مکمل تبدیلی تک وسیع کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد جب جنتر منتر پر پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی تو’’سوراج کا سنکلپ‘‘(جمہوریت کا تصور) نامی دستاویز کا اجراء کیا گیا جس میں کہا گیا تھا یہ کوئی سیاسی پارٹی نہیں بلکہ سیاسی انقلاب ہے۔ ملک میں دھرم یدھ (حق و باطل کی جنگ) کا آغاز ہوچکا ہے اور ہماری سیاست انقلاب کے عمل کو مضبوط کرے گی۔ اس نظام کو ہم اکھاڑ پھینکیں گے ۔ہمارے سیاست میں داخل ہونے کا مقصد انقلاب لانا ہے۔ خود اپنوں کے ہاتھوں مصالحت پرمجبور ہوکر کانگریس کی مدد سے حکومت بنانے والے اروند کیجریوال نے یہ ثابت کردیا کہ انقلاب لانے والے خود منقلب ہوچکے ہیں اس لئے اب وہ بیچارے حکومت تو کرسکتے ہیں لیکن انقلاب برپا نہیں کرسکتے۔

اروند کیجریوال نے جنتر منتر پر اعلان کیا تھا کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے ۔ ہم براہِ راست عوام کی حکومت چاہتے ہیں ۔ ہمارے مطابق ہر پانچ سال میں ایک بار ہونے والا انتخاب قابلِ قبول نہیں ہے ۔ فیصلوں سے قبل عوام کی رائے لینا جمہوریت ہے۔ اروند کیجریوال یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت سازی کا فیصلہ کرنے کیلئے ہم پھر ایک بار عوام کے پاس گئے لیکن کیاوہ جمہوری طریقۂ کار تھا؟ عام آدمی پارٹی کےجلسوں میں جو لوگ آئے تھے وہ عوام کے نمائندہ نہیں تھے ۔ جن کو’’ آپ‘‘ کی حکومت سازی میں دلچسپی تھے وہ آئے بقیہ نہیں آئے۔ ہاتھ اٹھا کر لوگوں کی رائے لینا اور یہ کہہ دینا کہ ۷۵ فیصد لوگ حامی ہیںبلی کا آنکھ بند کر کے دودھ پینے جیسا ہے۔ اروند کیجریوال نے ونود کمار بنی کو جب وزارت کا قلمدان نہیں دیا تومنیش سسودیا نےاس کی وکالت کرتے ہوئے کہایہ وزیراعلیٰ کا اپنا اختیار ہے کہ کسے وزارت دی جائے اور کسے نہیں گویا اہم فیصلے کیجریوال خود کریں گے اور غیر اہم کیلئے عوام کو زحمت دی جائیگی ؟ کیا یہی حقیقی جمہوریت ہے؟

کیجریوال نے پارٹی کے قیام کے موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ہم ایک ایسی حکمت عملی پر کام کررہے ہیں کہ جس کے ذریعہ دہلی اسمبلی کااقتدار سنبھالنے کے دس دنوں کے اندراقتداربراہِ راست عوام کے پاس آجائے۔ ہم اقتدار میں آنے کے۱۰ دنوں کے اندر جو بھی ضروری ہوگا کر گزریں گے ۔ انتخابی کامیابی کےبعد ۵ دنوں تووہ تذبذب کا شکار رہے اور پھردس دنوں کے اندراپنے ازلی دشمن کو گلے لگا کراس کے تعاون سے حکومت بنالی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ دس دنوں میں وہ کیا کرتے ہیں؟ گمان غالب یہی ہے کہ یہ وقت ان ساتھیوں کو سمجھانے منانے میں صرف ہو جائیگا جو وزارت سے محروم رہے ہیں۔ جہاں تک دس دنوں کے اندر لوک پال بل لانے کا سوال تھا وہ سرے سے دہلی کی حکومت کے کرنے کا کام ہی نہیں تھا اور جس مرکزی حکومت کا یہ کام تھا اس نےکیجریوال کے اقتدار سنبھالنےسے قبل ہی وہ کام تمام کردیاہے تاکہ کیجریوال اس کا کریڈٹ نہ لے سکیں۔

اروند کیجریوال نے ایک نہایت دلچسپ بات یہ کہی تھی کہ ملک میں فی الحال ہمارے سوا کوئی کوئی حزب اختلاف نہیں ہے ۔ سارے حکومت میں ہیں اب یہ ہوا کہ ان ساروں میں ’’آپ‘‘ بھی شامل ہوگئی ۔پارٹی کے قیام اس وقت کیوں ضروری ہوگیا تھا اس کے بارے میں ان کی منطق یہ تھی کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں کچھ انتظار کرنا چاہئے تھا لیکن ایسے میں جبکہ ملک کو فروخت کیا جارہا ہےہم کیونکر انتظار کرسکتے ہیں؟ کوئلہ، زمین، جنگل ، پہاڑ اور چھتیس گڈھ میں تو دریا کو بھی بیچا جارہا ہے۔ اگر ہم نے تاخیر کردی تو اگلے پانچ چھے سالوں میں بھارت کا وجود مٹ جائے گا۔ آئندہ پانچ چھے سالوں میں بھارت کاکیا حشر ہوگا یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن عام آدمی پارٹی کی کیا گت بنے گی یہ سبھی جانتے ہیں۔ اس کا اندازہ ڈاکٹر کمار وشواس کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ وہ اس جماعت کی رکنیت اختیار نہیں کریں گے بلکہ غیر سیاسی رہنا پسند کریں گے تاکہ اگر کل کو یہ پارٹی بھی پٹری سے اتر جائے تو اس کی اصلاح کرنے والا کوئی موجود ہو لیکن اب کمار وشواس خود پٹری سے اتر چکے ہیں اور راہل کے خلاف انتخاب لڑنے کی تیاری کررہے ہیں۔

اناّہزارے ؁۲۰۱۱ میں مشرقی دہلی کےجئے پرکاش نارائن پارک میں بھوک ہڑتال کرنا چاہتے تھے کانگریس نے پہلے تو انہیں گرفتار کرکے تہڑ جیل کی سیر کرائی۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس کا خوب چرچا کروایا اور پھر رہا کرکے رام لیلا میدان میںلے آئے جہاں ہزارے کی گرفتاری کے دوران تمام تیاریاں مکمل کر لی گئیں ابقومی انتخاب سے قبل لوک پال بل پاس کرکے ان سے شکریہ بھی وصول کرلیا۔ اروند کیجریوال نے جنتر منتر سے اپنا انقلابی سفر شروع کیا کانگریس ان کی بھی حلف برداری اسی رام لیلا میدان میں کروا کر کیجری وال کے پیروں میں احسان کی بیڑی ڈال دی۔انتخابی سیاست ہندوستان میں نظریاتی و انقلابی تحریکوں کا قبرستان رہی ہے اوراس شمسان گھاٹ میں جدید ترین اضافہ عام آدمی پارٹی ہے۔ وہ انقلابی تحریک جو الہامی ہدایت سے عاری ہو ۔ جس کے پاس نمونے کے طور پرخاتم الانبیاء کا اسوۂ حسنہ نہ ہو اور جو آخرت کی جوابدہی کے تصور سے محروم ہو وہ برضاو رغبت جمہوریت کے جھانسے آجاتی ہےمگر جو اسلامی تحریک سپرڈالنے سے انکار کردے ملحدانہ سفاک نظام سر کاٹ کراسے زندہ دفن کرنے سعی کرتا ہے۔ بنگلہ دیش اور مصر میں فی الحال یہی ہورہا ہے۔

انتخابی سیاست کے تالاب میں اترنے سے قبل کیجریوال نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام’’سوراج‘‘ تھا ۔ اس کتاب کے سرِ ورق پر اناّ ہزارے کا ایک فقرہ درج ہے ’’ یہ کتاب نظام کی تبدیلی اور بدعنوانی کے خلاف ہماری تحریک کا منشور ہے اور ملک میں اصلی ’’سوراج‘‘ (یعنی جمہوریت) لانے کامؤثر نمونہ بھی ہے ‘‘۔ اس مختصر سےجملے میں گویا ایک سمندر سمایا ہوا ہے۔ سب سے پہلی اور اہم ترین بات نظام کی تبدیلی ہے اور دوسری بات اسے کسی پارٹی کا نہیں بلکہ ایک تحریک کا منشور قرار دیا گیا ہے۔ اب اروند کیجریوال سوراج کے اس سبق کو بھول چکے ہیں نیز تحریک سے نکل کر ایک سیاسی جماعت چلارہے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وہ جس نظام کو تبدیل کرنے کےدعویدار تھے اب اس کا نہ صرف کل پرزہ بلکہ محافظ بن گئے ہیں۔اس فقرے میں اصلی جمہوریت کو لانے کا ذکر اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ فی زمانہ ہمارے ملک میں موجود نہیں ہے ۔ کیجریوال کی حقیقی جمہوریت کا نمونہ لوک راج نامی ویب سائٹ پر موجود ہے لیکن اسی کے ساتھقابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس ویب سائٹ پر ؁۲۰۱۰ کے بعد کسی سرگرمی کی رپورٹ موجود نہیں ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تین سال قبل اس کام کاآغاز کرنے کے بعد اسےمعطل کردیا گیا ہے اور ان تین سالوں میں جو کچھ ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اروند کیجریوال جوکبھی ایک انقلاب کے نقیب تھے اب دہلی کے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں ۔ وطنِ عزیز میں رائج سیاسی نظام کی یہ یقیناًبہت بڑی کامیابی ہے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2055 Articles with 1242551 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.