ڈرون حملوں کا تسلسل اورطالبان سے مذاکرات

افسوس ، امریکہ کے سوایہ کون نہیں جانتا کہ 9/11کے بعد سے امریکہ نے ڈرون حملوں کاسلسلہ اپنے ملک اورشہریوں کے تحفظ کے نام نہاد سلامتی کے نام سے جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے نہ تو اُس کے شہریوں کی جانوں کی سلامتی محفوظ آج تک ہوسکی اور نہ ہی وسط ایشیا کے خطے کاامن برقرا ر رہ سکا اُلٹاامریکہ پاکستانی عوام کے ساتھ حکمرانوں کو یکجاں اور زباں ہونے سے اس دباؤ سے روکتا رہا کہ اگرپاکستان نے ڈرون حملوں کے خلاف اقوامِ متحدہ یا اور کسی عالم فورم میں جانے کی کاوش کی تو اُسے دہشت گردی کی جنگ کے سلسلے میں ملنے والی امداد روک دی جائے گی ۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے حکمران ڈرون حملوں کے خلاف ہوتے ہوئے بھی اس کی بندش کی پُرزور مخالفت کرنے سے ہمیشہ باز رہے گویابات رفتہ رفتہ امریکی ڈرون حملوں کا تسلسل اور طالبان سے مذاکرات کے امکانات ختم ہوتے محسوس ہونے لگے تو ایسے گھمبیر نازک صورتحال میں گزشتہ دسمبر کی ایک سرد صبح کو ایک قومی اداریے کے انسٹیٹیوٹ میں گرماگرم موضوع ڈرون حملوں کاتسلسل اور طالبان سے مذاکرات کے امکانات کے سلسلے میں ایک سیمینارسابق وفاقی وزیر خارجہ سردارآصف احمدعلی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس کے مہمان خصوصی میں تجزیہ نگار طیبہ ضیاء اورٹاؤن شپ کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹرمحمداعجاز بٹ تھے جبکہ مقررین میں فرخ سہیل گوندی اورمحترم فضل حسین اعوان صاحب مدعوتھے جبکہ اس سیمینار کی نظامت کے فرائض قائداعظم کی شبیہہ رکھنے والے انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی صاحب نے بخوبی سرانجام دئیے۔ اس سیمینار کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں ٹاؤن شپ کالج کے طلبہ وطالبات نے بڑی تعداد میں اپنے پرنسپل کی قیادت میں نہ صرف شرکت کی بلکہ فضل حسین اعوان صاحب سیمینار شروع ہونے سے قبل تک اِن طلبہ و طالبات کو اپنے پیشے کے حوالے سے پدرانہ شفقت سے مفیدرہنمائی کرتے ہوئے کارآمد ہدایات اورمشورے دیتے ہوئے راقم نے دیکھااور وہ گزرا ہوا وقت یادکیاجب یہی فضل حسین اعوان صاحب خودراقم کو سلطان راہی کی طرز پر بے تحاشہ ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے اصلاح کرتے تھے ۔ دوسری جانب اس سیمینار کاموضع کے مطابقت سے فضل حسین اعوان صاحب کاسوال معنی خیز تھا کہ ڈرون حملوں کاتسلسل مستقبل قریب میں کہیں رکتانظر نہیں آتا تودوسری جانب طالبان بھی حکومتی کاوشوں کے باوجود مذاکرات کی میز پرآنے کوتیارنہیں کیونکہ طالبان صرف حکومت سے اپنے مفادات میں مطالبات منوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ اُن کو پاکستان کی سلامتی اور اسلام کی فلاح سے دورتک کاکوئی تعلق نہیں حالانکہ یہ ہمارے ہی لوگ ہیں جو دوسرں کے آلہ کار بن رہے ہیں ایسے گھمبیرصورتحال میں سوال پیداکرکے فضل اعوان صاحب اپنے آفس کے فرائض سرانجام دینے کے لئے روانہ ہوگئے اور اس سوال کاجواب تلاش کرنے کیلئے دوسرے مقررین کے کندھوں پر ذمہ داری ڈال گئے ۔ اس سلسلے میں سیمینار کے تمام مقررین اس نقطے پر متفق تھے کہ اگرعوام کے ساتھ پاکستانی حکمران اپنی دوغلی پالیسی چھوڑ کرملک کے مفاد میں یک جان ہوکر سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے عالمی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کریں تو ممکن ہے کہ اس عملی طرز عمل سے امریکی ڈرون حملوں کاتسلسل بھی رُک جائے اور اس کے نتیجے میں طالبان سے مذاکرات کرنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے کیونکہ اس طرز عمل سے اینٹی طالبان واضح ہونے کی صورت میں اِن کے خلاف آپریشن کرنے میں آسانی ہوگی۔ جبکہ قارئین کے لئے عرض ہے کہ موجودہ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں ڈرون حملوں کے خلاف نیٹوسپلائی کی بندش کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائرکی تھی جس کے نتیجے میں گزشتہ دنوں پشاور ہائی کورٹ نے ڈرون رکوانے کی منظوری دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو UNO جنرل اسمبلی سے رجوع کرنے کے علاوہ ڈرون حملوں کامعاملہ تمام عالمی فورم پر اٹھانے کاحکم دیا جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی قراردادیں منظورکرلی گئی ہیں اگرچہ UN جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قراردادوں میں ڈرون حملے مکمل بندکرنے کامطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ ڈرون حملوں کوعالمی قوانین کے ماتحت لانے پر زوردیاگیا ہے جویقینا امریکہ کوناراض کئے بغیر اپنامقصد پیش کرناتھا۔ لہذا امید کی جاتی ہے کہ امریکہ عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے ڈرون حملوں کی پالیسی پرنظرثانی کرے گا اور اس طرح پاکستان میں پھیلی ہوئی دہشت گردی پر قابو پانا ممکن ہوسکے گا الغرض یہ ایک بھرپورمعلومات سیمینار تھا جس کی مقررین کی کاوش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
 
Nayyar Sadaf
About the Author: Nayyar Sadaf Read More Articles by Nayyar Sadaf: 3 Articles with 1507 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.