ہنر تجربہ اور گیڈر پروانہ

کسی بھی شعبے کی مارکیٹ میں جا کر دیکھیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو کم پڑھے یا سرے سے کبھی اسکول ہی نہیں گئے ہوتے‘ لکھنے پڑھنے کے ہنر سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ بات چیت کرنے میں بھی کچھ کم نہیں ہوتے لیکن انھیں ان پڑھ ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس کسی یونیورسٹی کا جاری کردہ گیڈر پروانہ نہیں ہوتا۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں اس گیڈر پروانے پر اس امر کی تصدیق لازم ہوتی ہے کہ وہ انگریزی میں پاس ہے۔ بہت سے ایسے ان پڑھ بھی دیکھنے کو ملیں گے جو میٹرک کے تمام مضامین میں کامیاب ہوں گے لیکن ماسی مصیبتے کو سر کرنے میں نا کام ہو گئے ہوں گے۔

ان رجسٹرڈ ان پڑھ حضرات کے پاس کوئ ناکوئ اور کسی ناکسی فیلڈ میں کمال کا ہنر ہوتا ہے اور یہ کوئ زبان کلامی بات نہیں میں نے پوری دیانت داری سے اس کا سروے کیا ہے۔ وہ اپنی فیلڈ سے متعلق وہ وہ باریکیاں جانتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ ان کی بد قسمتی یہ ہوتی ہے کہ وہ بلاسند ہوتے ہیں۔

ایسے لوگوں کو کیوں اور کس بنیاد پر غیر فائدہ مند قرار دیا جائے یا ڈگری ہولڈرز سے کم تر سمجھا جائے یا انہیں ان کے ہنر اور تجربے کی بنیاد پرتنخواہ نہ دی جائے۔ اس قسم کا سوتیلا رویہ ناصرف ان کے ہنر اور تجربے سے انحراف کے مترادف ہے بلکہ ان کے ہنر اور تجربے سے پورا پورا فاءدہ نہ اٹھانے والی بات ہے۔
ہمارے ہاں تجربے کے تسلیم کرنے کو محدود کر دیا گیا اور یہ رویہ کسی طرح درست اور مناسب نہیں۔ تاہم یہ طے ہو جاتاے کہ تجربہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ تجربے کے تسلیم کی یہ صورت قطعی نامناسب اور ادھوری ہے اور یہ ترقی کی راہ میں بہت بڑی چٹان ہے۔ تجربے کو تسلیم کرنے کی چند صورتیں درج کر رہا ہوں
١۔ سرکاری ملازمین کو سالانہ انکریمنٹ لگتی ہے کیوں‘ یہ ایک سال کے تجربے کو تسلیم کرنا ہے۔
٢۔ ایک اسکیل سے اگلے اسکیل میں ترقی ملازم کے تجربے کو قبول کرنا ہے۔
٣۔ کسی بڑی پوسٹ پر سلیکشن کے لیے تعلیم کے ساتھ تجربہ پہلی شرط ہوتی ہے۔
٤۔ شعبہ تعلیم میں چناؤ کے لیے تعلیمی سند تجربہ اور پبلیکیشنز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پبلیکیشنز کیا ہے اس شخص کا تجربہ اور کھوج ہی تو ہے۔
٥۔ بڑا عام سا مقولہ ہے “نواں نو دن پرانا سو دن“ کیا اس مقولے کا یہ مطلب نہیں بنتا کہ پرانا تجربہ کار اور وقت کے بہت سے موسموں سے گزر چکا ہوتا ہے۔
٧۔ دنیا کے بہت سے منظور شدہ تعلیمی ادارے لائف ورک ریسرچ وغیرہ سے متعلق تجربے کے کریڈیسز دیتے ہیں۔
٧۔ ہمارے ہا کسی تعلیمی ادارے میں داخلے کے لیے حفظ این سی سی ٹیچر سنز پسر سابقہ یا موجودہ فوجی سکاؤٹ وغیرہ کا داخلے میں فاءدہ دیا جاتا ہے۔
٨۔ کسی ملازمت کے حصول کے لیے ملٹری مین ہونے کا فائدہ دیا جاتا ہے

۔درج بالا چند ایک معروضات کے حوالہ سے میں نے تجربے کی اہمیت کو واضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ نان ڈگری ہولڈر کے تجربے اور ہنر سے معقول ترین فاءدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح قومی ترقی کا ایک اور ذریعہ تلاشا جا سکتا ہے۔

یہ اصول کسی طرح درست اور فائدہ مند نہیں کہ نگریزی میں فیل تو ان پڑھ پاس ہو گیا تو تعلیم یافتہ۔ ہر کوئ باہر سفیر بن کر نہیں جاتا اس نے یہاں ہی زندگی کے دن پورے کرنا ہوتے ہیں۔ اس کا واسطہ مقامی لوگوں ہی سے رہتا ہے۔ معاملے کو تین طرح سے لینا پڑے گا
:
١۔ انگریزی میں ناکام مگر دوسرے مضامین میں پاس ہونے والے کو بھی پاس سمجھاءے۔
٢۔ بہت پہلے انگریزی میں ناکام ہو گءے تھے اور اب کسی ناکسی میدان میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی مہارت اور تجربے کی جانچ کے بعد بورڈ یونیورسٹی کی اسناد جاری کر دی جائیں۔ یہ گیڈر پروانہ انہیں محض چند سال فائدہ دے گا لیکن
:
ا۔ ان کا ہنر بہتر طور پر استعمال میں آ سکے گا جو بہت سے آتے سالوں تک اپنے جوہر دیکھتا رہے گا۔
ب۔ ان کے ہنر سے متعلق تحریر صدیوں تک کام آتی رہے گی۔
ج۔ ہاں البتہ ان اسناد کے اجرا کا ایک معیار بنایا جا سکتا ہے۔ مثلامیٹرک کے لیے متعلقہ ہنر کا دو سالہ تجربہ + دو ہزار الفاظ کی ان کی اپنی زبان میں تحریر
انٹرمیڈیٹ کے لیے میٹرک‘ متعلقہ ہنر کا چار سالہ تجربہ + پانچ ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر
بی اے کے لیے میٹرک+ انٹرمیڈیٹ متعلقہ ہنر کا چھے سالہ تجربہ + سات ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر
ماسٹرز کے لیے میٹرک+ انٹرمیڈیٹ+ بی اے متعلقہ ہنر کا آٹھ سالہ تجربہ + دس ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر
ایم فل کے لیے میٹرک+ انٹرمیڈیٹ+ بی اے+ ماسٹرز متعلقہ ہنر کا دس سالہ تجربہ + پندرہ ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر اور تین پبلیکیشز
ڈاکٹریٹ کے لیے میٹرک+ انٹرمیڈیٹ+ بی اے+ ماسٹرز+ ایم فل متعلقہ ہنر کا بارہ سالہ تجربہ + بیس ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر اور پانچ پبلیکیشز
پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے میٹرک+ انٹرمیڈیٹ+ بی اے+ ماسٹرز+ ایم فل + ڈاکٹریٹ متعلقہ ہنر کا پندرہ سالہ تجربہ + تیس ہزار الفاظ پر مبنی ان کی پنی زبان میں تحریر اور سات پبلیکیشز

انگریز کی روحانی اولاد لکیر کے فقیروں اور ہنر دشمن لوگوں کو یہ تحریر خوش نہیں آئے گی لیکن اہل دانش ان معروضات کی افادیت کو ضرور تسلیم کیں گے اور ملک میں بےوقار پڑی ہنر مندی اور تجربے سے استفادے کا اہل اقتدار کو مشورہ دیں گے۔ اس طرح ملکی ہنر اور تجربہ کاغذ پر آ سکے گا اور یہ تحریرآتی نسلوں کے کام آسکے گا۔

٥۔ عوام تخت و تاج کے لیے کماتے ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ شاہ کو کسی قسم کی تھوڑ نہ آنے دیں۔ تھوڑ آنے کی صورت میں شاہ کا آءینی حق ہے کہ وہ زبردستی ان کے منہ کا نوالہ چھین لے۔
٦۔ حاکم کے منہ سے نکلی پہلے حکم پھر اصول پھر آئین اور اس کے بعد قانون کے درجے پر فائز ہوتی رہی ہے۔

یہ ضرب المثل سننے کو عام ملتی ہے۔ باس از آلویز راءٹ۔ یہ صرف زبانی کلامی کی بات نہیں چھوٹے بڑے تمام دفاتر کا نظام اس اصول کے تحت چلتا آیا ہے اور چل رہا ہے۔ اسی طرح لفظ ٹی سی بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ باس کے کہے پر انگلی رکھ کر تو دیکھیے بستر کے نیچے سے رسی نہیں نکلے
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 176138 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.