پاکستان میں امانت اور دیانت کا فقدان کیسے ہؤا ؟

جب پاکستان بنا تو پاکستان چلانے کے لئے نہ حکومت تھی، نہ انتظامیہ، نہ سرمایہ۔ انگریز حکمرانوں کی اجازت سے مسلماتوں پر مشتمل انتظامیہ پورے برِّصغیر سے جمع کرکے پاکستان بھیجی گئی اور ارکانِ حکومت متحدہ ہندوستان کی مرکزی حکومت سے آئے۔ سرمایہ حیدرآباد (دکّن) کی ریاست اور بمبئی اور کلکتہ کے مسلمان سیٹھوں نے فراہم کیا۔ بھارت کی نو آزاد حکومت نے پاکستان کے حصّے کا سرکاری سرمایہ روک رکھا تھا۔ اللہ تعالٰی نے گاندھی جی کے دل میں ڈالا، انہوں نے پاکستان کو اس کے حصے کا سرمایہ دینے کے لئے مرن برت (بھوک ہڑتال) شروع کیا۔ اس دباؤ سے پاکستان کو تو اسکے حصّے کا سرمایہ مل گیا، مگر گاندھی جی کی جان گئی۔ ایک ہندو دہشت گرد ناتھو رام ونائک گوڈے (قوم مرہٹہ) نے انھیں بھرے جلسے میں گولی مار دی۔

مزید سرمایہ جیسا کہ اوپر بیان ہؤا بمبئی اور کلکتہ کے مسلمان تاجروں نے بذریعہ بینک منتقل کیا، جبکہ ریاست حیدرآباد دکّن کے وزیرِاعظم میر لائق علی نے اس طرح فراہم کیا کہ آسٹریلیا کے ایک مہم جو پائلٹ سڈنی کاٹن (Sydney Cotton) کا طیارہ چارٹر کیا جو اتنی بلندی پر پرواز کرتا تھا کہ ہندوستان کے فائیٹر طیارے اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اس جہاز میں دو یا تین بار سونا بھر کر میر لائق علی نے پاکستان بھیجا اور نتیجتا“ ریاست حیدرآباد سے ہاتھ دھویا۔ بھارتی حکومت نے فوجی ایکشن کے ذریعے اس صدیوں پرانی ریاست کا خاتمہ کردیا۔ میر لائق علی پاکستان آگئے اور انہوں نے پاکستان میں پہلی ماچس فیکٹری قائم کی۔پاکستان کی حکومت نے پاکستان کی ترقی کا بہترین انفرا اسٹرکچر (بنیادی ڈھانچہ) بنایا۔ معیشت کے ہر شعبے کے لئے ترقّیانی کارپوریشن قائم کی گئی مثلا“ انڈسٹرئیل ڈیویلپمنٹ فائنانس کارپوریشن (I.D.F.C)، ایگریکلچرل ڈیویلپمنٹ فائنانس کارپوریشن (A.D.F.C) وغیرہ۔ جو صنعتیں پرائیویٹ سیکٹر میں کمی کی وجہ سے قائم نہیں کی جا سکتی تھیں، انکو قائم کرنے کی ذمہ داری حکومت نے خود لی، اور کامیابی سے چلاکر اور منافع بخش بنا کر پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کی۔ “پنج سالہ ترقّیاتی پروگرام“ بنائے گئے اور ان پر کامیابی سے عملدرآمد ہؤا۔ یہ پروگرام کوریا، ملیشیاء وغیرہ نے ہم سے حاصل کرکے اپنے ملکوں کو بھی ترقّی دی۔

اس وقت پاکستان اسلامی جذبے سے بھرپور تھا اس لئے امّتِ مسلمہ کے اتحاد کے اقدامات شروع ہوئے۔ انٹرنیشنل اسلامک اکانومک کانفرنس منعقد کی گئی اور مسلمانوں کی ہر مصیبت میں پاکستان نے ساتھ دینا اور مدد کرنا شروع کیا۔ مراکش کے سیاسی لیڈر حبیب بو رقیبہ کو فرانس کی حکومت نے پاسپورٹ نہیں دیا تو حکومتِ پاکستان نے انہیں اپنا پاسپورٹ جاری کر دیا۔ یورپئین سامراج کی پیداوار، اسرائیل پاکستان کے وجود میں آنے سے سخت خوفزدہ تھا۔ اسے اپنی “عالمی حکومت“ قائم کرنے کی اسکیم خاک میں مِلتی نظر آرہی تھی، اس خطرے کا ازالہ پاکستان سے اسرائیل کو “تسلیم“ کروا کر کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ وزیرِاعظم پاکستان، لیاقت علی خان کے دورہِ امریکہ کے دوران نیویارک کے یہودیوں نے لیاقت علی خان سے اسرائیل کو “تسلیم“ کرنے کی درخواست کی، جو لیاقت علی خان نے یہ کہ کر مسترد کردی کہ “Gentlemen our souls are not for sale” (معزز حضرات، ہمارا ضمیر برائے فروخت نہیں ہے)۔ اس سے یہودیوں کو وہی دھچکا پہنچا جو ترکی کے خلیفہ کے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہ دینے سے پہنچا تھا۔ تو جس طرح انھوں نے خلیفہ کے انکار کے بعد اپنے ترک ایجنٹوں کے ذریعے مسلمانوں کی عالمی خلافت کا خاتمہ کیا تھا، اس طرح وزیرِاعظم پاکستان کے اسرائیل کو “تسلیم“ کرنے سے انکار کے بعد پاکستان کو دنیا کے نقشے سے محو کرنے کی سازشیں شروع کردیں۔

انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، لیاقت علی خان کو اپنے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے قتل کرادیا اور پاکستان کی حکومت پر قوم کے بدترین اور ضمیر فروش لوگوں کو مسلط کردیا، جنھوں نے مارشل لاء لگاکر ان 313 قابل و تجربہ کار افسران کو، جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالا تھا، انتظامیہ سے نکال باہر کیا اور اس ظرح پاکستان کے زوال کا دور شروع کروادیاگیا۔ بعد اذاں انہی ضمیر فروش ایجنٹوں کے ذریعے اُن قومی اثاثوں کو، جو بڑی محنت اور قربانیوں سے بنائے گئے تھے قومیا کر (نیشنلائیزیشن کے ذریعے) لوٹ لیا گیا۔ اسطرح پاکستان کو بنائے جانے کے اس کے اصل مقصد یعنی “اسلامی فلاحی مملکت“ بنائے جانے کے بجائے اسے “لٹیروں کی چراہ گاہ“ بنادیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک کو قوانین کی پابندی سے آزاد کرکے اور مختلف گروہوں میں منقسم کرکے “تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کا اتنا ظالمانہ اطلاق کیا گیا کہ پاکستان کی حالت اسپین کے آخری زمانے کی مسلمان حکومت سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ اسے نزع کے عالم میں پہنچادیا گیا ہے اور اسے “ آکسیجن ٹینٹ“ میں رکھنے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ مگر ایک بات سے سرنگ کے آخری سرے پر روشنی نظر آئی ہے کہ جن ضمیر فروش لوگوں نے پاکستان کو اس حالت تک پہنچایا ان سب کو اللہ تعالٰی نے نیست و نابود کر دیا۔ اتنی سازشوں اور کوششوں کے باوجود “دو قونی نظریہ“ کو جھٹلایا نہیں جا سکا، وہ قائم ہے اور انشاءاللہ قیامت تک قائم رہے گا۔ اور اسی نظریہ کے تحت پاکستان بھی قائم و دائم رہے گا اور ترقی کرے گا۔ پاکستان کو تباہ وبرباد کرنے کی کوشش کرنے والے تمام سرگرم یہودی ایجنٹ مارے اور حکومت سے نکالے جا چکے ہیں۔ اور اب نسبتاّ بہتر لوگ حکومت میں آتے جا رہے ہیں، جو انشاءاللہ پاکستان کی سمت بدلیں گے، اسے غلامانہ ذہنیت سے آزاد کرائیں گے اور اسے تباہی کے غار میں گرنے سے بچائینگے۔ یہودیوں کی عالمی حکومت نہ قائم ہونی ہے اور نہ قائم ہوگی۔ پاکستان کی تلوار اسکے سر پر لٹکتی رہے گی اور بالاٰخر اس کا سر قلم کردے گی۔ انشاءاللہ۔

ظفر عمر خان فانی
About the Author: ظفر عمر خان فانی Read More Articles by ظفر عمر خان فانی : 38 Articles with 39395 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.