وکلاء کو بھی کٹہرے میں لایا جائے

لاہور میں گزشتہ دو دنوں میں ہونے والے دو واقعات نے کئی سوالات کو جنم دیدیا ہے۔ یہ واقعات لاہور میں پیش آئے۔ پہلے واقعے میں لاہور ہائی کورٹ میں وکلاء کی جانب سے ایک تھانیدار پر تشدد کیا گیا ( جس کی ویڈیو بھی مختلف چینلز پر دکھائی گئی )۔ دوسرا واقعہ اس سے اگلے دن کا ہے جب اس واردات کی فوٹیج بنانے والے صحافی جب سیشن کورٹ گئے تو وکلاء نے ان کو گھیر لیا، معاملہ رفع دفع ہونے پر جب یہ کیمرہ مین اور رپورٹر سیشن کورٹ سے باہر آئے تو ایک کار میں سوار وکلاء نے انہیں پکڑ کر زدوکوب کیا اور ان کا کیمرہ توڑ دیا۔ صحافیوں نے اس واقعہ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے سامنے مظاہرہ کیا اور مال روڈ بلاک کی۔

اس سے پہلے بھی وکلاء کی آپس میں دھینگا مشتی، لڑائی، اور مارپیٹ کے واقعات پیش آتے رہیں ہیں لیکن دیکھا جائے تو وہ انکے آپس کے معاملات تھے۔ یعنی وکلاء مختلف وجوہات کی بناء پر ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہوتے تھے، اس لیے اس اس کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے لیکن حالیہ واقعات کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ لاء اینڈ آرڈر کا معاملہ ہے اور اس کی سنگینی اس لیے بھی بڑھ جاتی ہےکہ یہ واقعات خود قانون دانوں کے ہاتھوں پیش آئے ہیں۔

پہلے پاکستان کو پولیس اسٹیٹ کہا جاتا تھا لیکن اگر ان واقعات کو سدباب نہ کیا گیا تو شائد مستقبل میں پاکستان کو وکیل اسٹیٹ کہا جائے گا۔ عدلیہ کی آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وکلاء اور ججز بے قابو ہوجائیں، جس کو چاہے پِیٹ ڈالیں، جس کی چاہیں پگڑی اچھال دیں۔ وکلاء کو یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ قانون دان ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ یہ ٹھیک ہےکہ ہماری پولیس بھی کوئی قابل فخر کردار کی حامل نہیں ہے، اور اس واقعہ میں بھی وکلاء کے اشتعال کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اے ایس آئی فقیر محمد نے ایک زیر حراست ملزم پر اس کے جرم کے برعکس ایک دوسری اور سخت دفعہ لگائی تھی، لیکن اس کا یہ مطلب کہیں نہیں نکلتا کہ وکلاء قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اسی طرح صحافیوں پر تشدد کا معاملہ تو اور بھی سنگین ہے کہ اس طرح صحافیوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وکلاء کی بدمعاشی کو بے نقاب کرنے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا، اور اس طرح صحافیوں کو پابند کرنے کی کوشش کی گئی ہے لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو اس واقعہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور اس کا سختی سے جائزہ لینا چاہیے، اور جو وکلاء اس جرم میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی جرات نہ ہوں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ خود عدلیہ کے وقار کا مسئلہ ہے۔

اسی طرح جج صاحبان کو بھی انتہائی محتاط رویہ اپنانا ہوگا کیوں کہ یہ بات بہت شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ جج صاحبان بعض معاملات میں بہت غیر محتاط نظر آتے ہیں بالخصوص جب سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل مشرف کو قانونی نوٹس جاری کیا تو اس وقت یہ منظر دیکھا گیا کہ لاہور میں ایک جج صاحب نے پریس کانفرنس کے دوران براہ راست سابق صدر مشرف پر جملے بازی کی۔ یہ ایک غیر مناسب رویہ ہے۔ جج صاحبان کو کسی بھی حال میں ایسا کوئی عمل نہیں اٹھانا چاہیے جس کے باعث عوام ایک بار پھر عدلیہ سے متنفر ہوجائیں۔ اور ان کے ذہن میں یہ سوچ پیدا ہو کہ ہم نے عدلیہ کی بحالی کی جدوجہد میں وکلاء اور ججز کا ساتھ اس لیے تو نہیں دیا تھا کہ ہم وردی والوں کے بجائے کالے کوٹ والوں کے ظلم کا شکار ہوں۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1458816 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More