’لمس ‘ ۔ عابد خورشیدؔ

میں نے عابد خورشیدکو ۱۱ مئی ۲۰۱۰ء کو اس وقت دیکھا جب میں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز، جامعہ سرگودھا میں بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر منسلک ہوا،شعبہ سے منسلک ہوتے وقت جس کاغذی کاروائی کی ضرورت ہوتی ہے عابد خورشید نے اس میں نا صرف میری مدد کی بلکہ بہت ہی خوش اسلوبی سے تمام کاروائی کو تکمیل تک پہنچایا۔ ایک اجنبی کے ساتھ جب کہ اس کے ساتھ صرف سلام دعا ہی ہوئی تھی مثالی کارکردگی کا اظہار قابل تعریف تھا ۔ اس کا یہ عمل ظاہر کررہا تھا کہ عابد خورشید ایک نیک ، سچا ، ہمدرد اوردوسروں کی مدد کرنے والا انسان ہے۔ عابد میرے شعبہ میں میرا رفیق کار تھا۔مجھے یہ پہلی ہی نظر میں بھلا معلوم ہوا، تفصیلی تعارف نہیں ہوا تھا لیکن میرا گمان تھا جو بعد میں یقین میں بدل گیاکہ کسی بھلے خاندان کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کی پرورش اس کی ماں نے بہت ہی احتیاط سے کی ہے۔یہی نہیں بلکہ اس کے اندر ایک ا یسا انسان موجود ہے جس میں دکھ بھی ہے سکھ بھی، خوشی بھی ہے غمی بھی، آنسو بھی ہیں تبسم بھی ، یہ ہنستا ہے تو اس کے دکھ کا سایہ بھی جھلک دکھا رہا
ہوتاہے،جب یہ افسردہ ہوتا ہے تو اس کے چہرہ پر ہلکی سی اداسی نمایاں ہوتی ہے۔

حالیؔ نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ـ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں لکھا کہ ’یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ شاعری اکتساب سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ جس میں شاعری کا مادہ ہوتاہے وہی شاعربنتا ہے۔ بعض طبعیتوں میں اس کی استعداد خداداد ہوتی ہے‘ مجھے یہ کہنے میں کوئی تعمل نہیں شعری مجموعہ ’لمس ‘ کا خالق عابد خورشید ایک اکتسابی شاعر نہیں بلکہ شاعری کی استعداد ‘ عطیہ خدا وندی ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ شاعر نے اﷲ کی اس نعمت کو اپنے اندر محسوس کیا اور اس عطیہ الہٰی کو مقتضائے فطرت کے موافق کام میں بھی لارہا ہے۔

شاعری کی ایک علامت موزونیِ طبع بھی ہے۔ بے شمار شاعر بہت اچھا کہتے ہیں لیکن اشعار کی ادائیگی موزوں نہیں ہوتی۔ الفاظ کی ادائیگی، اتار چڑھاؤ، زیر ‘زبر اور پیش کا ادراک کیے بغیر اشعار پڑھتے ہیں۔ عابد خورشید ایک اچھا شا عر تو ہے ہی، ساتھ ہی موزونیِ طبع کا مکمل ادراک رکھتا ہے۔ مشاعرے میں اشعار پڑھنے کا انداز بہت موزوں ساتھ ہی پر کشش بھی ہے۔

عابد خورشید کا مجموعہ کلام ’لمس‘ اپنے تجربات و مشاہدات کی رعنائی کے اعتبار سے شاعر کے احساسات کا خوبصورت عکس ہے ہی نہیں بلکہ اس میں آپ بیتی کا حسن بھی جھلک رہا ہے۔ یہ رومانیت اور حقیقت پسندی کی خوبصورت کاوش ہے۔عابد خورشید کا تعلق شاہینوں کے شہر سرگودھا سے اور یہ نوجوان شاعر سرگودھا کے شعراء کے اس قبیل سے ہے جو مداحین ِڈاکٹر وزیر آغاہی نہیں بلکہ سرگودھا اسکول جس کے بانی بھی ڈاکٹر وزیر آغا ہی تھے کے سرگرم کارکن ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا بلاشبہ اردوزبان کی ایک قدآور شخصیت کا نام ہے۔ آپ ان دانشوروں میں سے تھے جو بیک وقت ہفت پہلو یعنی شاعری، تحقیق، تنقید ، فلسفہ سائنس، تاریخ ،اساطیر اور اردو انشاپردازی کے شہسوار تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے اردو انشائیہ کو عام کرنے میں جو کام کیا وہ نا قبل فراموش ہے۔وہ یقینا ہمارے عہد کی ایک اہم اور معتبر ادبی شخصیت تھے۔ عابد خورشیدؔ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے مجموعہ کلا ’لمس‘ کا فلیپ ڈاکٹر وزیر آغا نے تحریرکیا۔ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں’’عابد خورشید کی غزل میں ایک ایسی کیفیت کا لمس اُبھر ہے جس میں آنسو اور تبسم باہم آمیز ہوگئے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اُس کے اَندر کا دُکھ اور کرب گنجان ہوکر ایک ایک لفظ سے پھوٹتا نظر آنے لگا ہے‘‘۔مزید لکھتے ہیں کہ’’ عابد خورشید کے ہاں ایک آشنہ ضبط ہے۔ وہ نہ صرف اِس دل دوز اور کربناک صورتِ حال کا سامنا کرنے میں کامیاب ہے بلکی اُس نے اپنے اور اِس کے درمیان جمالیاتی فاصلہ بھی قائم کررکھا ہے‘ جب وہ کہتا ہے ؂
رت جگے کا کرب ہے یا اروشنی کا خوف
ایک ہنگامہ ساہے شام و سحر کے آس پاس

تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ساری صورتِ حال کا ایک بلند مقام سے دیکھ رہا ہے ۔ یعنی وہ اُسے خود میں پوری طرح جذب کرنے کے باوجود اُس پر ایک ترچھی نظر ڈالنے پر قادر ہے۔دُکھ کی معیت میں زندہ رہنے کی یہ سعادت بہت کم تخلیق کاروں کے حصے میں آئی ہے‘‘۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے سند دے دینے کے بعد اب اس بات کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کہ مجھ جیسا شخص کچھ کہے۔

فلیپ دوم سرگودھا کی ایک اور بہت ہی محترم و معزز شخصیت نے تحریر کیا ہے وہ ہیں پروفیسر صاحبزادہ عبد الرسول صاحب۔ سرگودھا میں رہتے ہوئے میں نے ان کی انگریزی تصنیف ’’سرگودھا کی تاریخ‘‘ سے استفادہ کیا۔ اپنے موضوع پر انتہائی عمدہ تحقیق ہے۔ صاحبزادہ صاحب نے لمس کے شاعر کو ’’پختہ فکر اور انوکھے اظہار کا شاعر قرار دیا ہے‘‘۔

جناب ریاض احمد شادؔ عابد خورشید کے مجموعہ کلا م پر اپنے اظہاریے بعنوان ’لمس کی مہک‘ میں عابد خورشید کی شاعری کا تجزیہ مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔آپ کے خیال میں عابد خورشیدؔ ہمارے سماج کی اُس اکثریت کا شاعر ہے‘ جن کے لیے صَبح کرنا شام کا ہی جوئے شِیر لانا نہیں ہے بلکہ شام کرنا صَبح کا بھی اُتنا ہی مُحال ہے۔ اس سفر کی دشواریوں کو پوری گہرائی سے محسوس کرنے اور پھر تمام تر شعری رچاؤ کے ساتھ بیان کرنے کے ضمن میں عابد خورشیدؔ کا جو کمال ہے اُس کا سب سے بہتراِدراک اُس کے شعروں سے ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایسے شعروں کی تشریح و توضیح کبھی خود شعروں سے بہتر نہیں ہوسکتی۔ المختصر شادؔ صاحب نے عابد خورشیدؔ کو شاعرِ حزن و ملا ل یا شاعرِ غم اندو کے لقب سے نوازا ہےـ‘‘۔

شاعری میں دکھ و تکلیف، غم و اندوہ، دکھ اور کرب کے احساسات کو خوبصورت الفاظ میں ڈھالنا شاعر کا فن قرار پاتا ہے۔ زندگی میں عابد خورشیدؔ پر جو گزری یا معاشرے میں جو کچھ اس نے دیکھا ، محسوس کیا اسے اشعار کی صورت میں پیش کردیا ۔ ایک جگہ اپنے کرب کا اظہار اس طرح کیا ؂
ایک لمحے کو بھی اپنا سَرہلاسکتا نہیں
اِتنی تلواریں ہیں عابدؔ اپنے سَر کے آس پاس

عابد ایک عام آدمی ہے، اس کی زندگی آسائشوں سے عبارت نہیں بلکہ یہ ایک سیلف میڈ انسان ہے جس نے اپنی زندگی میں دکھ زیادہ دیکھے، معاشرہ نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا، اسے اس کی صلاحیتوں کے مقابلے میں وہ کچھ نہیں ملا جس کا یہ حق دار تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کے بیان میں دکھ کا اظہار نمایاں ہے۔ غموں کے بیان کرنے پر اپنے آپ کو بے اختیاری محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے ؂
ہر سمُند ر شمار میں کب ہے
غم مِرے اختیار میں کب ہے

عابد خورشیدؔ اپنے مستقبل سے ما یوس نہیں، پر امید ہے۔ میں بہت ہی پر امید ہوں کہ عابد خورشیدؔ سیکھنے، محسوس کرنے اور علم کی جس منزل پر سبک رفتاری، ثابت قدمی سے رواں دواں ہے ، ایک وقت آئے گا کہ اس کی زندگی ماضی سے بالکل مختلف ہوگی ، ہوسکتا ہے اس نئی زندگی میں اس کی شاعری کا انداز بھی بدل جائے، احساسات کی رت میں تبدیلی آجائے۔ عابد خورشیدؔ کے ہاں رومانیت بھی پائی جاتی ہے لیکن اس کے دکھ کا سایہ اس کی رومانیت پر غالب دکھا ئی دیتا ہے۔ ماں اور باپ جیسی عظیم ہستیوں کی موجودگی ہمارے لیے ایک عظیم نعمت ہوتی ہے لیکن ان کی جدائی اور جدائی کے بعد کی صورت حال کو عابد نے اس طرح بیان کیا ؂
باپ جو مرگیا مِرا، اینیٹیں سَرکنے لگ گئیں
سارے مکین بٹ گئے، سارا مکان بٹ گیا

عابد خورشیدؔ کے چندخوبصورت شعر ؂
کسی کی آنکھ کے بھیگے ہوئے منظر میں رہتے ہیں
ہمارا گھر نہیں ہے ہم کسی کے گھر میں رہتے ہیں
ہمارے دل میں آکر آپ سے دو دن نہیں نکلے
ہم اِ ک مدت سے اِس ٹوٹے ہوئے مندر میں رہتے ہیں
تمہارا واقعہ یہ ہے کہ ہو اگلی قطاروں میں
ہماری داستان یہ ہے کہ ہم آخرمیں رہتے
: ۲ مئی ۲۰۱۱ء

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1292056 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More