جمعہ کے تقاضے اور ہمارا طرزِ عمل

اسلامی تقویم میں ہفتے کا ساتواں اور آخری دن جمعہ ہے جسے زمانہ قبل اسلام میں” یوم العروبہ“ کہا جاتا تھا ۔مگر جب اسلام آیا تو اسکا نام” یوم الجمعہ“ رکھا گیا کیونکہ اس دن مسلمان مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔جمعہ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کا شعارِملت ہے جس طرح سنیچر اور اتواریہودیوں اور عیسائیوں کےلئے شعارِملت ہے۔اس لیے جہاں یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یوم تعطیل سنیچر اور اتوار ہے وہیں مسلمانوں میں یوم تعطیل جمعہ کا دن ہے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مغرب سے مرعوبیت اور اسلامی حس کے خاتمہ سے رفتہ رفتہ مسلمانوں نے بھی اندھی تقلیدمیں اتوار کو یوم تعطیل بنا لیا ہے۔خود ”اسلامی ممالک“ میں بھی یوم تعطیل اتوار قرار پایا ہے چاہے وہ بر صغیر کا اسلامی ملک پاکستان ہو یا مصطفی کمال پاشا کا ملک ترکی۔

خود ہمارے ملک میں بھی” امت مسلمہ“ پر فخر کرنے والوں نے نام نہاد مدرسوں کالجوں یونیورسٹیوں میںبھی” مصلحت “کا لبادہ اوڑھ کے اس میں اندھی تقلید کی ہے۔ الا ما شاءاللہ۔جبکہ تقسیم ہند سے پہلے برطانوی ِہند اور مسلم ر یاستوں کا ایک نمایاں فرق یہ تھا کہ ملک ایک حصے میں اتوا ر تودوسرے حصے میں جمعہ یوم تعطیل ہوا کرتا تھا۔

جمعہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں ایک پوری سورة ”سورة الجمعہ “کے نام سے موجود ہے۔اور اس بات سے بھی اس دن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ اسی دن اللہ تعالی نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی اور اسی دن آدم اور حوا کا ملاپ اور اجتماع ہوا۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ بہترین دن جس میں سورج نکلتا ہے وہ جمعہ کادن ہے۔اسی دن حضرت آدمؑ پیدا کیے گئے اور اسی دن جنت میں داخل کیے گئے ، اسی دن جنت سے نکالے گئے ، اسی دن انکی توبہ قبول ہوئی،اسی دن انکی وفات ہوئی۔ اسی دن قیامت برپا ہوگی اورکوئی جاندار ایسا نہیں جو اس دن قیامت کے ڈرسے صبح سے لیکر آفتاب نکلنے تک کان نہ لگائے رکھتا ہو بجز جنوں اور انسانوں کے اور اسی دن ایک گھڑی وہ بھی آتی ہے کہ نماز کی حالت میں اگر کوئی مسلمان بندہ اللہ سے کچھ طلب کرے تو وہ اس کو ضرور دیتا ہے۔( ا ¿و کما قال )سنن ابوداﺅد۔

جمعہ کا فرض ہونا اس لیے کہ اللہ تعالی قرآن کریم میںفرماتے ہیں﴾ یا ایھا الذین آمنوا اِذا نودی للصلوة من یوم الجمعتہ فاسعوا اِلی ذکراللہ ﴿ سورة جمعہ:۸(ائے وہ لوگوجو ایمان لائے ہو!جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو)

یہاں پر ’ فاسعوا‘ کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آﺅ بلکہ یہ کہ اذان کے فورابعد آجاﺅ اور کاروبار بند کر دو۔کیونکہ نماز کیلئے دوڑ کر آنا ممنوع ہے۔وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔

جمعہ آپﷺ کی ہجرت سے پہلے ہی فرض ہو چکا تھا مگر چونکہ مکہ میں حالات اسکے لیے مناسب نہیں تھے تو مکہ میں جمعہ کی نماز نہیں ہوئی۔پھر آپﷺ نے ہجرت کے دوران ہی سب سے پہلے بنو سالم بن عوف کی بستی میںجمعہ کی نمازادا کی اور آپﷺ نے مدینہ پہنچتے ہی پانچویں دن جمعہ قائم کر دیا تھا۔
جمعہ کی فرضیت کےلئے کچھ شرطیں بھی ہیںجو کہ درج ذیل ہیں ۔

۱۔عاقل ۲۔بالغ ۳۔ذکوریت ۴۔حریت ۵۔قدرت ۶۔اقامت ۷۔قریہ
آپﷺ کے عہد مبارک میں اور ابوبکرؓ و عمرؓ کے عہد میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت کہی جاتی تھی جب امام منبر پربیٹھ جاتا تھا مگر جب حضرت عثمانؓ کے دور میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو آپ نے ایک اذان کا اضافہ کیا۔اور قرآن کریم میں سورة جمعہ کی آٹھویں آیت میں جس اذان کا ذکر ہے اس سے مراد امام کے خطبہ کیلئے منمبر پر بیٹھ جانے کے بعد دی جانے والی اذان ہے۔ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت خریدو فروخت حرام ہے اور حضرت عطاؓ کا قول ہے کہ اس وقت تمام کام حرام ہیں۔مگر افسوس ہم لوگ کا حال یہ ہے کہ اذان ہوتی رہتی ہے اور سارا’ ’کاروبار“ اورسارے” ضروری کام“ ہوتے رہتے ہیں۔جلدی جلدی سارے کام نپٹاتے رہتے ہیں اور نماز کھڑی ہونے سے ۰۱ منٹ پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیںبلکہ بعض دفعہ فرماتے ہیں ”ارے ابھی تو خطبہ ہو رہا ہو گاکیا جلدی ہے “۔افسوس بھی نہیں ہوتا کہ حرام کام اس دوران انجام دیا ہے۔جبکہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپﷺ فرماتے ہیں

جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور رجسٹر میں آنے والوں کا نام ترتیب وار لکھتے جاتے ہیں،پہلاآنے والا شخص اس شخص کی طرح ہے جو اونٹ کی قربانی کرے،دوسرا آنے والا اس شخص کی طرح جو گائے کی ،تیسرا آنے والا اس شخص کی طرح جو دنبہ کی،چوتھا اس شخص کی طرح جو مرغی کی اور پانچواں اس شخص کی طرح جو انڈے کی قربانی کرے اور جب امام خطبے کے لیے جاتا ہے تووہ اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور خطبہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔(اوکما قال )بخاری و مسلم

اس حدیث کی رو سے دیکھا جائے تو بعد میں آنے والے لوگ رجسٹر میں اپنا نام درج کرانے سے محروم رہ جاتے ہیںجس کی ہمیں کل قیامت کے دن سخت ضرورت ہوگی مگر ہم لوگوں کو آج نہ تو اسکا احساس ہے اور نہ ہی افسوس سوائے چندے معدودے کے۔ہم لوگ دنیاوی چیزوں کیلئے نہ صرف پہلے پہنچتے ہیں بلکہ اسکے لیے لائن لگاتے ہیں اور اسمیں بھی دھکا مکی کرکے سامنے والے کو پیچھے ڈھکیل کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسکی مثالیں ہم سینما ہال، ریلوے اسٹیشن اور یونیورسٹی وغیرہ میں ٹکٹ اور فارم وغیرہ لیتے وقت بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ شیطان ہمارا ازلی دشمن ہے اور وہ کبھی نہیں چاہتا کہ لوگ جمعہ کیلئے وقت پر مسجد پہنچ پائیں چنانچہ وہ مسلسل لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا رہتا ہے اور یہ بات حدیث سے بھی ثابت ہے ۔
حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کو فرماتے سنا کہ جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو شیاطین اپنے لشکر لیکر بازاروں میں نکل جاتے ہیں اور لوگوں کو کاموں میں لگا کر جمعہ میں شرکت کرنے سے روک دیتے ہیںاور فرشتے صبح سے ہی آکر مسجد کے دروازوں پربیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کے متعلق لکھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ امام خطبہ کےلئے نکلتا ہے پھر جو آدمی ایسی جگہ بیٹھتا ہے جہاں سے امام کو دیکھ اور سن سکے اور دورانِ خطبہ خاموشی اختیار کرے اور کوئی بیہودہ بات نہ کرے تو اسکو اجر کے۲ حصے ملتے ہیں۔اور اگر ایسی جگہ بیٹھا جہاں سے وہ خطبہ سن اور دیکھ سکتا ہے مگر وہ لغو کام کرتا ہے ،خاموشی اختیار نہیں کرتا ہے تو اسپر گناہ کا ایک بوجھ لاد دیا جاتا ہے اور جس نے خطبے کے دوران اپنے ساتھی سے کہا کہ چپ رہ تو اس نے بھی لغو کام کیا اور جس نے لغو کام کیا تو اسے جمعہ کا کچھ بھی ثواب نہ ملے گا۔(او کما قال )سنن ابوداﺅد

جمعہ کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ اگر ہم صحیح معنوں میں اسکو جان لیں تو انشاءاللہ شیطان کا کوئی حربہ ہم پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔بس ہمیں اس کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ایک خاص بات ہم مسلمانوں میں خصوصا نوجوان طبقہ میںرواج پا رہی ہے کہ خطبوں میں لیٹ آتے ہیں اور پھرخطبہ کے دوران حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور باتیں شروع ہو جاتی ہیں اورغیبتیں،چغلیاں اور برائیاں ہوتی رہتی ہیںبلکہ اب تو موبائل میں ”گیم‘ ‘اور ”چَیٹنگ“ کی جاتی ہے۔جیسے خطبہ سننے نہیں بلکہ ’ٹائم‘ پاس کرنے آئے ہیں۔اور کچھ لوگ نیند کے مزے لیتے ہیں ۔جبکہ خطبہ کے دوران اس طرح کی تمام حرکتیں ممنوع ہیں۔جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے-

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ جمعہ میں تین طرح کے لوگ آتے ہیں ۔ایک تو وہ جو وہاں آکر بیہودہ بات کرے تو اسکا حصہ یہی ہے یعنی اسکو کچھ نہ ثواب ملے گا۔دوسرا وہ ہے جو وہاں آکر اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے اگر اللہ چاہے گا تو دعا قبول کرے گا اور نہیںچاہے گاتو نہیں۔اور تیسرا وہ ہے جو وہاںآکر خاموش سے بیٹھ جائے نہ لوگوں کی گردن پھاند کر آگے بڑھے اور نہ ہی کسی کو تکلیف پہنچائے تو اسکا یہ عمل اس جمعہ سے لیکر اگلے جمعہ تک بلکہ مزید تین دن تک گناہ کیلئے کفارہ بن جائے گا۔(او کما قال)سنن ابوداﺅد۔

اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اپنے اپنے عمل کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارا شمار کس طرح کے لوگوں میں ہوتا ہے۔اور اس میں جہاں عوام کی غلطی ہے وہیں ہمارے ”علمائے کرام“ یا ”مولوی حضرات‘ ‘کی بھی کمی ہے کہ عموما خطبے کی ’رسم‘ پوری کرتے ہیں اور خطبہ عربی زبان میں دیتے ہیںاور چونکہ اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہوتی ہے تو عام طور سے نوجوان طبقہ یا تو ’باتوں‘میں یا’موبائل‘ میں مشغول ہو جاتا ہے اور بوڑھے لوگوں کو نیند آنے لگتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اردومیں بھی خطبہ دیا جائے اور علمائے کرام ،مولوی حضرات اپنے اس’ ’اسٹیٹس “ یا’ ’خول“ سے باہرنکلیں جسمیں عموما’ ’مصلحت ،دوراندیشی اوررواداری‘ ‘ کا غلاف چڑھا ہوا کرتا ہے (الاما شاءاللہ) اور معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں اور نئے نئے درپیش مسائل کو خطبوں کا موضوع بنائیں۔

اگر ہم نے حتی الامکان جمعہ کی نماز کیلئے ا حادیث پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کی تو ہمیں اسکا کتنا زیادہ اجر ملے گا اسکا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے -

آپﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے اور جس قدر ممکن ہو پاکیزگی حاصل کرتا ہے ،بقدر استطاعت تیل خوشبو لگاتا ہے اور پھر نماز کےلئے اسطرح سے نکلے کہ ۲ آدمیوں کے درمیان نہ گھسے اور جتنا اسکے مقدر میں ہو نماز پڑھے اور جب امام خطبہ پڑھے تو خاموش رہے تو اس جمعہ سے لیکر دوسرے جمعہ تک کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔مزید روایت میں ہے کہ ساتھ ساتھ تین دن کے اور گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جو آدمی کنکریوں کو چھوئے تو اس نے لغو کام کیا۔(او کما قال)مسلم و سنن ابوداﺅد

سبحان اللہ !!اتنے سے عمل سے اتنی زیادہ معافی کیا ہمیں اسکی ضرورت نہیں ہے؟؟ تصور کیجیے آخرت میںحساب کتاب کے دن جب ہمیں نیکیوں کی کمی پڑ رہی ہوگی تب ہمارا کیا حال ہوگا؟؟آج ہمیں موقع ملا ہوا ہے مگر ہم میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ مسجدمیں خطبہ شروع ہونے کے بعد آتے ہیں اور فرشتوں کے رجسٹر میں نام لکھانے سے محروم رہ جاتے ہیںاور مزید یہ کہ بعد میں آنے کے باوجود گردنوں کو پھلانگتے ہوئے آگے بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے کہ منع کیا گیا ہے۔جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے
حضرت معاذ بن انسؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا! جس نے جمعہ کے روزلوگوں کی گردنیں پھاندیں اس نے جہنم تک ایک پل بنا لیا۔

اورہماری امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ جمعہ کی نماز سے ہی غافل ہے۔ان میں سے ایک قسم ایسی ہے جو عیدَین ہی کو کُل نماز سمجھتی ہے اوردوسری قسم وہ ہے جو اسکے لیے خود کو’ ’مجبور“ پاتی ہے۔او ربقول ان لوگوں کے ”مجبوری“ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ ایسی ’کمپنیوں‘ میں کام کرتے ہیں جہاں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے چھٹی نہیں دی جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسمیں ہماری ہی کمی ہے۔اسکو ہم اپنے لیے’ ’رخصت‘ ‘مان کر مطمئن ہو جاتے ہیںاور اسکے لیے نہ تو ہم کمپنی کے سامنے احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی مطالبہ کرتے ہیںالبتہ اگر ہماری’ تنخواہ‘ یا کسی’ سہولت‘ میں کوئی کمی آجائے تو سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔’سردار قوم ‘کی مثال ہمارے سامنے ہے۔فوج کا قانون انہوں نے اپنے تبدیل کرا لیا کیونکہ انکے مذہب میں بال کاٹنا صحیح نہیں ہے۔اور ہم لوگ ہر جگہ’ ’حیلے ،مصلحت ،دوراندیشی اور رواداری“ کی چادر اوڑھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ترکِ جمعہ پر سخت وعید ہے ۔حدیث ِنبوی ہے-

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہےکہ آپﷺ نے فرمایا کہ لوگ جمعہ کی نماز چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ تعالی انکے دلوں پر مہر لگا دیں گے پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔(او کما قال )صحیح مسلم۔
ایک جگہ آپﷺ نے فرمایا ! تارکِ جمعہ کی نہ نماز ہے نہ زکوة نہ روزہ اور نہ ہی حج اور نہ ہی اسکے لیے کوئی برکت ہے یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے۔

ان دونوں حدیثوں سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ترکِ جمعہ کتنا بڑا گناہ ہے اور اسکا کیا انجام ہوگا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو جمعہ کی اہمیت کو سمجھنے اور قرآن و حدیث کے مطابق جمعہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
Osama Shoaib Alig
About the Author: Osama Shoaib Alig Read More Articles by Osama Shoaib Alig: 65 Articles with 192204 views Osama Shoaib Alig is a Guest Faculty of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia, New Delhi. After getting the Degree of Almiya from Jamiatul Falah, Az.. View More