خون پیتی سڑکیں

ہماری مادری زبان گجراتی میں ایک کہاوت مشہور ہے،’’جے ناں ماس ما گھاؤ لاگے اے نیچ دوکھے۔‘‘ یعنی جس کا جسم زخمی ہوتا ہے، زخم کا اندازہ بھی وہی کرسکتا ہے۔

کراچی میں ٹریفک کی صورت حال پر شہر کے گھروں سے سڑکوں تک ہر روز بحث ہوتی ہے۔ شاید ہی اس شہر کا کوئی باسی ہو جسے کسی بھی طور ٹریفک کے حوالے سے پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میرے ساتھ بھی کئی حادثات پیش آچکے ہیں، لیکن گذشتہ ہفتے، یعنی سات دسمبر، کی شام جو حادثہ پیش آیا وہ اتنا خطرناک تھا کہ میں اسے کبھی نہ بھول پاؤں گی۔

ویک اینڈز میں کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ گھنٹوں کی تاخیر اور شدید ذہنی کوفت کے بعد ہی اپنی منزل تک پہنچ پائیں گے، لہٰذا ہفتے کو کہیں جانا ضروری ہو تو میرے شریک حیات کار پر بائیک کو ترجیح دیتے ہیں، کہ اپنے مختصر حجم کے باعث بائیک ٹریفک کے رش میں راستہ بناہی لیتی ہے۔ اس روز بھی ہم بائیک پر تھے۔ شام سات اور آٹھ کے درمیان کراچی میں ٹریفک کی جو خوف ناک صورت حال ہوتی ہے، اس سے شہر کا ہر رہنے والا واقف ہے۔ یہی دورانیہ تھا جب ہم ناظم آباد میں واقع میٹرک بورڈ آفس سے کچھ فاصلے پر ٹریفک سگنل پر کھڑے سرخ بتی کا رنگ بدلنے کے منتظر تھے۔ سرخ رنگ جوں ہی سبز میں تبدیل ہوا سگنل پر کھڑی گاڑیاں بے ہنگم انداز میں دوڑ پڑیں۔ اس افراتفری میں ایک بائیک سوزوکی سے ٹکرا کر اچھلی، اس کے ساتھ ہی ہماری موٹرسائیکل سمیت چار بائیکس آپس میں ٹکرا گئیں۔ پیچھے سے آتی ایک کار نے ہمارے موٹرسائیکل کو ٹکر ماری اور میں سڑک پر آرہی۔ عجیب لمحہ تھا، میرے بیٹے اور دوسالہ بیٹی کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے آگئے، اب میں انھیں اور وہ مجھے شاید ہی دیکھ پائیں، یہ خیال یقین کی طرح میرے دل میں تیر کی طرح اترگیا۔ میں نے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔

آنکھیں کھلیں تو میں عباسی شہید اسپتال کے ایمرجینسی وارڈ میں تھی، جہاں کے وحشت طاری کرتے ماحول میں مجھے اپنے زندہ ہونے کی نوید ملی۔ میں کافی زخمی ہوگئی تھی۔ ان زخموں کی تکلیف اب تک جھیل رہی ہوں، لیکن اﷲ کا احسان ہے کہ ہاتھ پاؤں سلامت رہے۔ یہ خوف میں ڈوبے وہ لمحات ہمیشہ یاد رہیں گے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار پر تو پھر کبھی لکھوں گی، فی الوقت تو میرا موضوع ٹریفک حادثات ہیں، وہی بات کہ خود کو ضرب لگی تو اس اہم موضوع پر قلم اٹھانے کاخیال آیا، ورنہ اب تک شہر کے اور لوگوں کی طرح میں ان حادثات پر زبانی تبصرے ہی کرتی رہی ہوں۔

اعتدال سے ہٹ کر اختیار کیا جانے والا ہر عمل مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ عدم اعتدال ہی کا رویہ ہے جو ٹریفک حادثات میں کارفرما نظر آتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس صورت حال کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔

کراچی کی سڑکیں روزانہ کتنی ہی جانیں نکل جاتی ہیں۔ ایک طرف شہر کی اپنی بڑھتی آبادی کا بوجھ، دوسری طرف دیگر شہروں اور دیہات سے آنے والے اور شہریوں کی سفری ضروریات، گاڑیاں امڈی پڑ رہی ہیں۔ کوئی اصول اور کوئی ضابطہ کہیں نظر نہیں آتا، البتہ شہر کے وہ علاقے جہاں شہر کا صرف پانچ فی صد امیر ترین طبقہ رہائش پذیر ہے، وہاں سڑکیں اور گلیاں بھی دیگر علاقوں کی نسبت کہیں کشادہ ہیں، وہاں ٹریفک پولیس کے اہل کار بھی نظر آتے ہیں اور صحیح کام کرتے سگنل بھی۔ دیگر علاقوں بھی ٹریفک پولیس کے اہل کار تو ہوتے ہیں، مگر ان میں سے دو چار کے علاوہ سب ہی سو پچاس کی ’’دہاڑی‘‘ لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔

جس شہر میں ٹریفک کے قوانین اور ضابطے سو اور پچاس روپے میں بِکتے ہوں، وہاں بے ہنگم ٹریفک کے وحشت ناک نظارے اور سڑکیں خون میں نہلاتے حادثات نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا۔

اگر مجھے علم ہو کہ گاڑی چلاتے ہوئے موبائل فون استعمال کرنے کی صورت میں پکڑے جانے پر مجھے دس ہزار روپے جرمانہ دینا پڑے گا، تومیں کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گی، لیکن جب پکڑے جانے کا خطرہ ہی نہ ہو اور ایسا ہونے پر معمولی سی رقم دے کر جان چھوٹ جائے، تو خوف کیسا۔ اگر کوئی دیانت دار سفید وردی والا اہل کار قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے کی ٹھان لے اور رشوت ٹھکرا دے تو کالی قمیص والی پولیس تھانے میں چند گھنٹے بند اور ملزم کی جیب خالی کرکے معاملہ رفع دفع کردیا جائے گا یا پھر کورٹ میں حاضری ہوگی اور ہزار بارہ سو روپے میں معاملہ طے ہوجانے کے بعد گاڑی کے کاغذات ہاتھ میں تھمادیے جائیں گے۔ بس اتنی سی بات ہے، پھر کیسا ڈر اور کیسی فکر، اڑاتے رہیں گاڑی، توڑتے رہیں قوانین، جان لیتے رہیں لوگوں کی۔

آج انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ وقت ہے، لیکن وقت بہرحال اپنی اور دوسروں کی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں۔ ہمارے ہاں تھوڑا سا وقت بچانے اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش کے باعث ایسے بھیانک ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں جو نہ صرف فردِواحد بلکہ اس کے پورے خاندان کے لیے اذیت کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہ موت کا وہ کھیل ہے کہ اگر سانسیں واپس مل بھی جائیں تو جسمانی معذوری کبھی کبھی زندگی کو موت سے بدتر کردیتی ہے۔

ٹریفک کی خراب صورت حال اور حادثات میں جہاں دیگر عوامل کا ہاتھ ہے، وہیں ہمارے رویے اس کے سب سے زیادہ ذمے دار ہیں۔ ہماری سڑکیں ہمارے اخلاقی بحران کا سب سے بڑا اور واضح ترین مظہر ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہم نے خود کو غیرمہذب قوم ثابت کرنے کا تہیہ کرلیا ہو۔ جہاں سڑک پر ذرا سا ٹریفک جام ملا گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا دی، یعنی پیدل چلنے والا جو پہلے ہی پریشان ہے ٹوٹی پھوٹی سڑک سے بھی محروم ہوجائے۔

ٹریفک قوانین کے تحت موٹر سائیکل چلانے والے اور اس کے پیچھے بیٹھے شخص، دونوں پر ہیلمٹ پہننے کی پابندی ہے، مگر پیچھے بیٹھنے والے تو سرے سے ہیلمٹ پہنتے ہی نہیں، بائیک رائڈرز میں سے بھی بہت بڑی تعداد اس قانون کو خاطر میں نہیں لاتی۔ نتیجتاً موٹرسائیکل کے حادثات عموماً جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔

ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اس سال صرف اپریل تک کراچی میں 100مہلک حادثات رونما ہوئے، جن میں 113افراد جان کی بازی ہار گئے اور 75 شدید زخمی ہوئے، جب کہ بعض اعدادوشمار کے مطابق روزانہ شہر کی سڑکوں پر حادثات کا شکار ہونے والے پندرہ سے بیس افراد خطرناک حالت میں اسپتال لائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر حادثات مِنی بس، کوچز اور بائیکس کے ہوتے ہیں۔ رہی سہی کسر چنچی رکشاؤں نے پوری کردی ہے، جس کے ڈرائیور کی معمولی سی غلطی کے باعث تیز ٹریفک میں الٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور ایسے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔

حادثوں کی ایک بڑی وجہ غیرلائسنس یافتہ ڈرائیور بھی ہیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ ٹرک اور ڈمپر چلانے والوں کا پاس بھی لائسنس نہیں ہوتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور اور ان کی تنظیمیں اپنا مکمل ریکارڈ ٹریفک پولیس کے حوالے کریں، مگر نہ وہ خود ایسا کرتے ہیں نہ ان سے ریکارڈ وصول کیا جاتا ہے۔

حادثات کا ایک سبب بعض روڈ کٹس کی ساخت بھی ہے، جس کی وجہ سے حادثے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کئی پُل بناتے ہوئے بھی غلط پلاننگ کی گئی ہے۔ متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ اس طرف توجہ دیتے ہوئے یہ سقم دور کریں۔

کراچی میں ٹریفک کی صورت حال جتنا اہم مسئلہ ہے اسے اس طرح قابل توجہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ سڑکوں پر ہونے والے طوفان بدتمیزی کے باعث نہ صرف خوف ناک اور جان لیوا حادثات ہوتے ہیں بلکہ ٹریفک جام اور ٹریفک کی روانی میں خلل کی وجہ سے شہریوں کا قیمتی وقت اور پیٹرول کی مد میں روزانہ کروڑوں روپے کی خطیر رقم بھی ضایع ہوتی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اسے سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اس ضمن میں سب سے اہم اقدام یہ ہے کہ لوگوں کو اس بارے میں شعور دیا جائے۔ جب تک ایک عام فرد ٹریفک کے حوالے سے اپنی ذمے داری محسوس نہیں کرے گا، صورت حال کو بہتر نہیں کیا جاسکتا۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹی تھی تو اسکولوں میں بچوں کو روڈ سائنز اور ٹریفک کے اصولوں کی بابت بتانے کے لیے ٹریفک پولیس کی جانب سے باقاعدہ ٹیمیں آتی تھیں، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا، حالاں کہ گراس روٹ لیول سے ٹریفک قوانین کے بارے میں شعور بیدار کرنا بہت ضروری ہے، اس کے ساتھ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی بھی ضرورت ہے۔

کراچی میں ٹریفک کا مسئلہ دن بہ دن گمبھیر اور سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس مسئلے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ اپنے خطرناک نتائج اور ضمنی مسائل کے ساتھ سنگین تر ہوتا جائے گا۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 284883 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.