میڈیا ہینڈلنگ اور چیف جسٹس کا پہلا ’’از خود نوٹس‘‘

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سروس کے آخری روز جس طرح سے سپریم کورٹ کے میڈیا ونگ کی میڈیا ہینڈلنگ سامنے آئی اس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ بہت سے چینل ایک نجی چینل کے اس رپورٹر کی درگت بنانے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں جس نے اپنے چینل کے لئے چیف جسٹس کی کورٹ روم میں ہونے والی کوریج حاصل کر لی۔ کسی بھی رپورٹر کے لئے اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے اخبار یا چینل کے لئے کوئی ایسا معرکہ مار لے جو کوئی اور نہ مار سکے۔ یہاں معاملہ تو ادارے پر آن پڑتا ہے کہ اس کے وہ لوگ جو میڈیا ہینڈلنگ یا پبلک ریلیشنگ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ان کا کردار کیا رہا۔ یقینا وہ لوگ انتہائی پروفیشنلز ہوں گے جو وہ ایک عرصے سے میڈیا ہینڈلنگ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن یہ اپنی جگہ پر اہمیت کا حامل ہے کہ چیف جسٹس کے آخری روز کی کوریج تو ظاہر ہے ہر ٹی وی چینل اور ہر اخبار کو چاہئے تھی پھر میڈیا پروفیشنل اور پی آر پروفیشنلز کہاں مات کھا گئے کہ صرف ایک ٹی وی چینل کوریج چلاتا رہا اور باقی دیدے پھاڑ پھاڑ کر اس کوریج کو دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔

آج کے الیکٹرانک میڈیا کے دور میں میڈیا ہینڈلنگ اور تعلقات عامہ ایک آرٹ بن چکا ہے اور یہ ایک باقاعدہ سبجیکٹ ہے جس کو سب لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دراصل گزشتہ ایک دہائی میں جس طرح سے میڈیا کی مشروم گروتھ ہوئی ہے تو ہر کوئی میڈیا پروفیشنل بنا دکھائی دیتا ہے۔ جس کسی نے دوچار ٹاک شوز بغور دیکھے ہوتے ہیں وہ بھی میڈیا کو کوئی نہ کوئی لائن دیتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی کی ایئرپورٹ پر کسی معروف کالم نگار یا اینکرپرسن سے سرراہے ملاقات ہو گئی ہو تو وہ بھی خود کو میڈیا ایکسپرٹ سمجھنا شروع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ میڈیا کی انڈر سٹینڈنگ ایک ٹیکنیکل کام ہے جو اس فیلڈ سے متعلقہ لوگ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ جس طرح کوئی ہیلتھ رپورٹر شائد سیاسی پارٹیوں کی سوشیالوجی نہیں سمجھتا اسی طرح کوئی سیاسی رپورٹر بھی شائد ہیلتھ ایشوز کو اتنا نہ سمجھتا ہو جتنا کہ ہیلتھ رپورٹر سمجھتا ہے۔ حالانکہ دونوں ایک ہی شعبے یعنی صحافت میں ہوتے ہیں لیکن ذمہ داریاں اور دلچسپیاں چونکہ مختلف ہوتی ہیں لہٰذا ان کی متعلقہ ایشو پر دسترس بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔

بدقسمتی سے بہت سی جگہوں پر میڈیا پروفیشنل اور میڈیا ہینڈلنگ کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کی وہ متقاضی ہوتی ہے۔ میڈیا سے ڈیل کرنے کے لئے اگر کسی جگہ ایسے لوگ ہوں جو اس فیلڈ میں دس سے پندرہ برس کا تجربہ رکھتے ہوں وہ پرنٹ یا الیکٹرانگ میڈیا سے متعلق کسی شعبے سے ہوں تو وہ بہتر میڈیا ہینڈلنگ کر سکتے ہیں جو اس فیلڈ میں نہ ہوں۔ دوسری جانب اخبارات اور میڈیا کا تجربہ رکھنے والوں کے لئے ایک پلس پوائنٹ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی رپورٹر‘ صحافی‘ سب ایڈیٹر‘ کالم نگار اوراور اسی طرح کے دیگر صحافتی عہدیداروں کے صحیح صحیح مقام‘ عزت اور استحقاق سے آگاہ ہوتے ہیں یوں وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے کوئی ایسا ’’پنگا‘‘ کرنے سے گریز کرتے ہیں جو خود ان کے لئے مصیبت بن جائے۔ اب جس طرح کا ایشو جسٹس افتخار چودھری کی کورٹ روم کے براہ راست کوریج کا ہوا ہے اس کے بارے میں اگر پہلے سے میڈیا پلان بنایا گیا ہوتا تو سب چینلوں کو نہ صرف پریس ریلیز‘ تصاویر اور ویڈیو فوٹیج مل جاتی بلکہ وہ شور و غوغا بھی نہ ہوتا جو ویڈیو لیک ہونے کی وجہ سے ہوا۔ یہ بھی حیران کن امر ہے کہ کس طرح سے پوری کی پوری ڈی وی ہی ادھر ادھر ہو گئی اور بہت سے میڈیا رپورٹرز پریس ریلیز کے انتظار میں بیٹھے رہے۔

متعدد اداروں میں تو میڈیا کی آسامیوں پر ریکروٹمنٹ کرتے ہوئے بھی رولز اور ریگو لیشنز کا خیال نہیں رکھا جاتا الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جب ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کی آسامی پر بھرتی کی تو اس نے اسی قسم کی بے ضابطگی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح سے جو لوگ ڈیپوٹیشن پر یا دیگر ذرائع کے ذریعے اپنی پروفیشنل اور تعلیمی استعداد سے ہٹ کر کسی شعبے میں کام کر رہے ہوتے ہیں وہ خود بھی پریشانی سے دوچار رہتے ہیں اور اداروں کے لئے بھی نقصان کا باعث ہوتے ہیں۔ کام میں ٹھہراؤ اور اعتماد تبھی آتا ہے جب اس شعبے کی مکمل انڈر سٹینڈنگ اور ادراک ہو۔

بہرکیف سپریم کورٹ کے حوالے سے میڈیا کوریج کا جو معاملہ اٹھا ہے اس پر نئے چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ازخود نوٹس لے لیا ہے جو ان کا پہلا از خود نوٹس ہے۔ یقینا اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ جسٹس تصدق جیلانی کی ساکھ ایک انتہائی پروفیشنل‘ سوبر اور انصاف پسند جسٹس کی ہے۔ راقم کو 1999میں بطور رپورٹر‘ لاہور ہائی کورٹ میں ان کی عدالت میں کئی مقدمات کی رپورٹنگ کا موقع میسر رہا ہے۔ انشاء اﷲجہاں ان کے دور میں انصاف کا بول بالا ہو گا وہاں لوگ اس امر کی توقع بھی کریں گے کہ وہ مختلف اداروں کو متعلقہ تعلیم اور تجربے کے لوگوں کو ہی ذمہ دار عہدوں پر تعینات کرنے کے احکامات جاری کریں گے کہ ’’رائیٹ پرسن ایٹ دی رائیٹ پلیس‘‘ کی پالیسی پر گامزن رہ کر ہی اداروں اور ملک میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
Yousaf Alamgirian
About the Author: Yousaf Alamgirian Read More Articles by Yousaf Alamgirian: 51 Articles with 94704 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.