حصول رزق

یوں تو تمام معاملات میں اللہ تبارک تعالیٰ کے صوابدیدی اختیارات ہیں لیکن چند معاملات میں اس نے اپنے صوابدیدی اختیارات خاص طور پر الگ بتائے ہیں جیسے وہ جسے چاہے ہدائت دے، جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔رزق کے معاملہ میں رزق کا حصول انسان کی کوشش اور جدوجہد کے ساتھ مشروط کردیا لیکن اس میں کمی یشی اپنے صوابدیدی اختیار میں رکھی ہے۔ فرمان ہے

لیس للانسان الا ما سعیٰ (کچھ نہیں انسان کے لیے مگر جو کوشش کرے) لیکن کمی بیشی اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے فرمایا: واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب (بیشک اللہ جسے چاہے رزق دیتا ہے بے حساب، یعنی کم یا زیادہ) انسان ہمیشہ سے اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ رزق اپنی چالاکی سے زیادہ کر سکتا ہے اور اس کے لیے وہ ہر جائز ناجائز ذریعہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رزق میں اللہ کی خیروبرکت حاصل کرنے کے لیے تین واضع اصول ہیں

١۔ سچائی یعنی انسان جھوٹ نہ بولتا ہو۔

٢۔ ایمانداری یعنی رزق حاصل کرنے کے لیے کسی کو دھوکہ نہ دیتا ہو۔

٣۔ اپنے فرائض پورےدل و جان سے ادا کرتا ہو۔

ان شرائط کو پورا کر کے انسان اللہ تعالیٰ کی خیروبرکت حاصل کر لیتا ہے اور اس کے رزق میں کبھی کمی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر کسی ایک ہی جگہ پر دو مزدور کام کرتے ہیں ایک اپنی ڈیوٹی نہایت ایمانداری اور محبت کے ساتھ پورے ذوق و شوق سے سر انجام دیتا ہے اسے اس کے عوض دو صد روپے ملتے ہیں دوسرا نہایت کام چور ہے اور ایمانداری سے کام نہیں کرتا وقت گذاری کرتا ہے اسے بھی دو سو روپے ہی ملتے ہیں اب ایمانداری سے کام کرنے والا سوچتا ہے کہ میں اتنی محنت کرتا ہوں اور مجھے دو سو روپے ملتے ہیں جبکہ دوسرا کام بھی نہیں کرتا اور دو سو روپے لے جاتا ہے تو اس میں فرق کیا ہے؟ میں کیوں اتنی محنت کروں۔ اسے اس فرق کا علم نہیں جو اس کی اور دوسرے کی روزی میں ہے۔

 فرق یہ ہے کہ محنت اور ایمانداری سے کام کرنے والا جو دو سو روپے لے کر جاتا ہے وہ ان میں سے ایک سو روپے اپنے بچوں کے نان و نفقہ پر خرچ کرتا ہے اور ایک سو روپے محفوظ کر لیتا ہے جو اس کے آنے والے مشکل وقت میں اس کے کام آتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اسے پریشانیوں سے بچایا ہوا ہے اس کا پیسہ فضول خرچ نہیں ہوتا جبکہ دوسرے کو اللہ تعالیٰ نے بیماری اور پریشانی میں گرفتار کر دیا ہوا ہے اس کے دو سو روپے علاج معالجہ اور تھانہ کچہری کی نذر ہو جاتے ہیں اور وہ مقروض رہتا ہے اور تنگ دست۔ اگر انسان اس فلسفہء رزق کو سمجھ لے تو وہ کبھی ناجائز ذریعہ سے رزق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ رزق مقرر ہے اور اتنا ہی ملے گا جتنا لکھ دیا گیا ہے اب انسان کی مرضی ہے اسے اچھے طریقہ سے اللہ کی خیروبرکت کے ساتھ حاصل کرنا چاہتا ہے یا ناجائز طریقہ سے۔ مگر ملے گا اتنا ہی۔

Niaz-ul-Haque Pasha
About the Author: Niaz-ul-Haque Pasha Read More Articles by Niaz-ul-Haque Pasha: 3 Articles with 4613 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.