مشرف کی ڈائری کا ایک ورق

23 جولائی.... آخر وہی ہوا جس کا خوف مجھے ایک مدت سے کھائے جارہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی سبکدوشی سے پہلے اس بات کی پوری ضمانت حاصل کی تھی کہ دنیا چاہے اِدھر کی اُدھر ہوجائے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بحال نہیں ہوں گے٬ نہ میرا 3 نومبر 2007ء کا اقدام عدالت میں زیر بحث آئے گا۔ اس بات کی ضمانت مجھے امریکا نے بھی دی تھی٬ زرداری نے بھی دی تھی اور دیگر مقتدر قوتوں نے بھی دی تھی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ اس ضمانت پر سو فیصد عمل ہوگا اور میرا بال بھی بیکا نہ ہوپائے گا۔ لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ راتوں رات سارا منظر بدل گیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 15 مارچ کو رات کے آخری پہر ٹیلی ویژن پر آکر اعلان کیا کہ چیف جسٹس افتخار چودہری اپنے منصب پر بحال کردیے گئے ہیں اور ان کے ساتھ وہ تمام جج بھی بحال کردیے گئے ہیں جنہیں میں نے سبکدوش کر کے انہیں ان کے گھروں میں نظربند کردیا تھا۔ وزیراعظم گیلانی نے اپنی اس حرکت کا جواز یہ پیش کیا کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو عوام کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جاتا۔ لیکن مجھے یہ ڈراما لگتا ہے٬ عوام کے سیلاب کو روکنا کون سا مشکل تھا! دراصل یہ میرے خلاف سازش تھی جو اندر ہی اندر پک رہی تھی۔ زرداری نے جس چالاکی کے ساتھ مجھ سے صدارت چھینی تھی میرا ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا کہ میرے خلاف کچھ ہونے والا ہے۔ چنانچہ پہلے جج بحال ہوئے اور اب میری شامت آگئی ہے۔ سپریم کورٹ نے 3 نومبر 2007ء کے اقدام کے خلاف مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے مجھے اپنے روبرو پیش ہونے کا نوٹس جاری کردیا ہے٬ جب کہ اس سے پہلے وہ نوازشریف کو طیارہ سازش کیس میں بری کرچکی ہے اور اپنے فیصلے میں اس نے ہائی جیکنگ کے سارے ڈرامے کو مسترد کردیا ہے۔ اس طرح عدالت نے بالواسطہ طور پر مجھے مجرم قرار دیا ہے کہ میں نے سول حکومت کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے یہ ڈراما رچایا تھا۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی یوں لگتا ہے کہ سپریم کورٹ مجھے پوری طرح ایکسپوز کرنے اور رسوا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ میں نے سپریم کورٹ کے نوٹس پر اپنے قانونی مشیروں سے صلاح مشورہ کیا ہے لیکن افسوس شریف الدین پیرزادہ میرے ہاتھ نہیں لگ سکے۔ میں نے کل شام انہیں تین بار ٹیلی فون کیا۔ پہلے بتایا گیا وہ سو رہے ہیں۔ پھر ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ فون کیا تو پھر یہی جواب تھا کہ وہ سو رہے ہیں۔ پھر ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد تیسری بار رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ وہ واش روم میں ہیں۔ میں نے پوچھا کب تک برآمد ہوں گے؟ تو دوسری طرف سے جواب دیے بغیر سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ مجھے اتنا تاﺅ آیا کہ بڈھا سامنے ہوتا تو بتاتا۔ اس نے بھی خوب الٹی سیدھی پٹی پڑھائی تھی اور میری ہوسِ اقتدار کو خوب مہمیز دی تھی۔ ملک قیوم نے البتہ مجھے یہ مشورہ دیا ہے کہ میں عدالت میں اپنا دفاع کروں۔ اس طرح انہوں نے وکیل بننے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ خیر میرے پاس دولت کی کمی نہیں ہے٬ پہلے میرے قانونی مشیروں کو ادائیگی سرکاری خزانے سے ہوتی تھی اب میں ذاتی طور پر اس سے زیادہ خرچ کرسکتا ہوں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں پاکستان جانے کا رسک نہیں لے سکتا اور لندن میں بیٹھ کر پاکستان کی عدالت میں مقدمہ لڑنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ لندن میں بھی میرے دشمن کم نہیں ہیں اور وہ قانونی طور پر میرا گھیرا تنگ کررہے ہیں۔ یہ لوگ دعویٰ کررہے ہیں کہ میرے خلاف قانونی کارروائی کر کے چلی کے سابق ڈکٹیٹر پنوشے کی طرح مجھے بھی لندن سے ڈی پورٹ کراکے پاکستان بھجوا دیں گے۔ برطانیہ کی حکومت نے اگرچہ میری حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے لیکن گوروں کا کچھ پتا نہیں کب دغا دے جائیں اور قانون کے چکر میں آکر مجھے پابہ جولاں بپھرے ہوئے پاکستانیوں کے حوالے کردیں۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ مجھے ابھی سے کوئی ٹھکانہ تلاش کرلینا چاہیے۔ میں ابھی صدر بش کو ٹیلی فون کرتا ہوں۔ اوہ میرا سر چکرا رہا ہے‘ صدر بش تو کب کے رخصت ہوچکے ہیں‘ اُف خدا اب کیا ہوگا!!

نوٹ : مندرجہ بالا کالم متین فکری صاحب کا ہے جو کہ روزنامہ جسارت چھبیس جولائی کی اشاعت میں بعنوان َ َ ڈائری کا ایک ورق َ َ شائع ہوا تھا۔اس کے دلچسپ انداز بیاں نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اس کو ہماری ویب کے قارئین سے شئیر کریں
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1452300 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More