ہماری وضع قطع :کیسی ہے اور کیسی ہونی چاہیے؟؟

نفسیات میں انسانی وضع قطع کو خصوصی مقام حاصل ہے ۔ یقینا انسان کی شخصیت پر اس کا اچھا یا برا اثر پڑتا ہے اور اسی کے مطابق کارکردگی رونما ہوا کرتی ہے ۔ کسی بھی انسان کی وضع قطع دیکھ کر اس کی اندرونی حالت کا باآسانی پتہ لگایا جا سکتا ہے ،اس کا جسم ، لباس ،سوچ ، گفتگو اور طرزِ زندگی اس کی ذہنی اور روحانی حالت کی عکاسی کرتی ہیں۔

بحیثیت ایک قوم کے مجموعی طور پر مسلمان ایسی وضع قطع کا شکار ہو چکے ہیں جس کے برے اثرات نے ان کے کردار و عمل کو خراب کر دیا ہے چنانچہ مسلمانوں کو آج کاہل، سست ، لاپرواہ ، غیر ذمہ دار ،خیانت کرنے والا اور صفائی ستھرائی سے دور رہنے والا سمجھا جاتا ہے ۔اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سے سب سے اہم مسلمانوں کا ایک لمبے عرصے تک انگریزوں کی غلامی میں رہنا اور سالہا سال تک ہندو جیسی قوم کے ساتھ ہونا ہے ۔ ہماری تہذیب و تمدن پر ان دونوں کے نمایا ں اثرات پڑے اور بدقسمتی سے ہم مغرب سے فحاشی اور عریانیت اور ہندوﺅں سے مختلف رسوم و رواج اور طبقاتی فرق لے کر ایک ایسی قوم بن گئے جس کو’ چوں چوں کا مربہ‘ ہی کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اب ہماری تہذیب و تمدن اور وضع قطع میں یہودو نصاری اور ہندوﺅں کے افکارو نظریات کامکسچر شامل ہو چکا ہے۔

اسلام نے انسانی وضع قطع کی طرف بھر پور رہنمائی کی ہے جس کے ذریعہ ہم لوگ خوش لباس بھی نظر آ سکتے ہیں اور ایک مکمل تہذیب یافتہ قوم بھی۔ ارشادِ ربانی ہے ” ہم نے انسان کو بہت اچھے سانچے کا پیدا کیا “ (التین : ۴۰) اس میں کسی طرح کی صنفی تفریق نہیں کی گئی ہے۔

وضع قطع میں سب سے نمایاں اور مقدم چیز انسان کا لباس ہے ۔ اسلام کی نظر میں لباس سے دو باتیں مطلوب ہیں ۔ایک سترِ عورت اور دوسرا زینت۔ جیسا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں © ©” ائے بنی آدم ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی بھی کرتا ہے اورباعثِ زینت بھی ہے “ (الاعراف: ۶۲) اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے آرائش و زیبائش سے پہلے صفائی کے اہتمام کو ضروری قرار دیا ۔لباس کا قیمتی ہونا ضروری نہیں بلکہ صاف ستھرا ہونا ضروری ہے ۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے بدن، لباس ، گھر اور راستوں کی صفائی کی تاکید کی ہے اور زیادہ بھڑکیلے ، شان و شوکت والے یا حقیر اور کم تر درجہ کے لباس پہننے سے منع فرمایا ہے۔

اللہ تعالی کے فرمان اور آپ ﷺ کی اتنی تاکید کے باوجود ہم نے مغربی تہذیب وتمدن کو آنکھ بند کر کے اپنا لیا ہے اور اس بات پر توجہ دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ وہاں کے اچھے خاندان خود اس لباس اور طرزِ زندگی کو نا پسند کر رہے ہیں چنانچہ یورپ میں بھی عریاں لباس پہن کر نکلنے والی عورتوں اور لڑکیوں کو بد کردار اور گھٹیا سمجھا جاتا ہے اور تمام لوگ جانتے ہیں کہ ایسی عورتیں یا لڑکیاں شکار کی تلاش میں نکلتی ہیں۔ مگر ہماری مسلم خواتین اور لڑکیوں نے اس کو فیشن کے طور پر اپنا لیا ہے اور گرمی کا جواز نکال کر ایسے لباس پہننے لگیں جو اتنا باریک ہوتا ہے کہ سورج کی شعاﺅں اور گاڑیوں کی روشنی میں جسمانی نشیب و فراز اور خدوخال کو نمایاں کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔اب شلوار کی جگہ چوڑی دار پاجاموں اور جینس نے لے لی ہے اور دوپٹے سرو ں سے غائب ہو گئے ہیں البتہ اس کی جگہ کپڑوں کی چند دھجیاں ضرور لٹکی ہوئی نظر آتی ہیں۔جب کہ اسلام نے عورت کے لئے ایسے کپڑے پہننا حرام کر دیا ہے جس کے اندر سے بدن جھلکے اور وہ کپڑے بھی حرام قرار دیئے گئے جس سے بدن کے خدوخال اور خاص طور سے وہ اعضاءنمایاں ہوں جس سے فتنے کا اندیشہ ہو۔ ایسے کپڑوں میں ملبوس عورتوں کو کاسیات عاریات (کپڑا پہننے کے باوجود ننگی )کہا گیا ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا ! ” دو گروہ دوزخی ہیں جنہیں میں نے دیکھا نہیں ہے ،ان میں سے ایک وہ عورتیں جو کپڑے پہن کر بھی برہنہ رہیں گی ۔ وہ اپنی طرف مردوں کو مائل کریں گی اور خود مردوں کی طرف مائل ہوں گی ۔ ان کے سر اونٹ کے جھکتے ہوئے کوہان کی طرح ہوں گے ۔ وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پا سکیں گی حالانکہ اس کی خوشبو دور دور تک پھیلی ہوئی ہو گی“ (صحیح مسلم : ۸۲۱۲)ان کے سر کو اونٹ کے کوہان سے اس لئے تشبیہ دی گئی کہ وہ اپنے بالوں کا جوڑا سر کے درمیانی حصہ میں اونچا کر کے باندھیں گی ۔ جیسا کہ عصرِ حاضر میں ہو رہا ہے او راس کے لئے باقاعدہ ’بیوٹی پالرس یا کوافیر‘ قائم ہو رہے ہیں جن میں زیادہ تر مرد کام کرتے ہیں ۔

وضع قطع میںزیب وزینت اختیار کرنابھی اہمیت کا حامل ہے مگر زیب و زینت میں اس قدر غلو کہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ ساخت میں تبدیلی ہو جائے یا جسمانی تکالیف کا سبب بن جائے تو اسلام کے نزدیک ناجائز اور حرام ہے ۔ قرآن کریم اس کو شیطانی عمل کہتا ہے ۔قرآن میں شیطان کی بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ” اور میں انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں ردو بدل کریں گے“ (النسائ: ۹۱۱)اس میں بدن گودنا ، دانتوں کو نوک دار بنانا اورخوبصورتی کی غرض سے آپریشن کرانا وغیرہ شامل ہے ۔ عہدِ حاضر میں مسلم نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے جسموں پر ٹیٹو بنواتے ہیں اور ناک ،ہونٹ اور پستان وغیرہ کی خوبصورتی بڑھانے کے لئے آپریشن کراتے ہیں ۔ خود ہندوستان میں بھی اب یہ تقریبا پانچ سو کروڑ سے زائد کی انڈسٹری ہے۔ یہ تمام کام حرام اور موجبِ لعنت ہیں ۔ حدیثِ نبوی ہے کہ آپ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے گودنے والی پر، گودوانے والی پر، دانتوں کو نوکدار بنانے والی پر اور ا س پر جو نوکدار دانتوں کو بنوائے(صحیح بخاری:۲۳۹۵)

زیب و زینت میں زیورات ، میک اپ اور خوشبو وغیرہ بھی شامل ہیں اور اسلام نے عورتوں کو اس کی اجازت بھی دی ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس کا مقصود مردوں کو راغب کرنا نہ ہو اور نہ ہی ان کے جذبات کو برانگیختہ کرنا ہو اور ساتھ ہی حدود بھی بتا دی کہ کس کے سامنے زیب و زینت کو ظاہر کیا جا سکتا ہے اور کس کے سامنے نہیں۔مگر عورتوں کی یہ ایک عجیب و غریب منطق ہے کہ گھروں میں نوکرانی کا حلیہ بنائے پھریں گی اور جب باہر جانا ہو تو بھاری زیورات پہن کر ،اگرچہ اس سے ایک آدھ کلو وزن کا اضافہ ہو اور گاڑھا میک اپ کرکے ، اونچی ہیل کی سینڈل یا جوتی پہن کرنکلیں گی،اگرچہ اس سے پنجوںاور کمر میں درد ہو رہا ہو اور چلنے میں تکلیف ہو رہی ہو تو ہوا کرے۔ اس کی مثالیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں با آسانی دیکھی جا سکتی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے نہیں بلکہ ماڈلنگ کرنے یا فیشن شو میں حصہ لینے آئی ہیں ۔

ان تمام چیزوں کے پیچھے صرف اور صرف ایک سوچ ہوا کرتی ہے یعنی خودنمائی اور اپنی دولت ،حسن کی نمائش تا کہ دوسرے دیکھ کر متاثر ہو سکیں ۔اس لئے لباس اگرپہنا جاتا ہے تو دوسروں کے لئے ، ورنہ اگر ستر پوشی ، آرام اور اطمینان کے لئے پہنا جاتا تو یقینا یہ اس سے مختلف ہوگا جو شوبازی کے لئے پہنا جاتا ہے۔

ان تمام چیزوں میں رہنمائی کے ساتھ ساتھ اسلام نے پردہ بھی لازمی قرار دیا ہے جس کی ایک مروجہ شکل ابایا(Abaya) ہے مگر اب اس میں بھی ایسی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں کہ اس کا بنیادی مقصد ہی فوت ہو گیا ہے ۔ ٹائٹ ، تنگ سلے ہوئے ، طرح طرح کے نقش و نگار اور جھالروں سے آراستہ کہ انسان نہ دیکھنا چاہے تو بھی نظر اٹھائے بنا نہ رہ سکے ۔ویسے بھی آج کل اس کا استعمال شناخت چھپانے ،خاص کر پارکوں اور سینما ہالوں میں بوائے فرینڈس کے ساتھ گھومنے کے لئے ہونے لگا ہے اور عموما باہر نکلتے وقت ماں باپ کے دباﺅ میں اوڑھ لیا جاتا ہے پھر کالج یا یونیورسٹی میں آتے ہی اتار کے بیگ میں رکھ لیا جاتا ہے ۔ جب کہ بے پردگی پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔

اگر لڑکوں کی وضع قطع کی بات کی جائے تو اس میں بھی عجیب و غریب نمونے نظر آتے ہیں ۔ جگہ جگہ سے کٹی پھٹی ، چست لو جنس کہ رکوع یا سجدے میں جائیں تو ستر کھل جائے اور تنگ اتنی کہ بیٹھنا مشکل اور استنجا خانے میں کھڑے کھڑے فراغت حاصل کرنی پڑے جس میں ناپاک ہونے کا قوی امکان ہے اور ٹی شرٹس پر کفریہ ،شرکیہ اور بیہودہ جملے یاتصاویر مثلاKiss me,I love u,Puss me,I am gay ےاہیرو ہیروئن کی چھپی ہوئی تصاویر نظر آتی ہیں ۔ اوپر سے رہی سہی کسر کلین شیو ، لڑکیوں کی طرح رنگے ہوئے یا جوڑے بندھے ہوئے پٹے دار بال ، کانوں میں ٹپس ،چھلے اور بالیاں، ہاتھوں میں کڑے اور بدن پر مختلف طرح کے ٹیٹو وغیرہ پوری کر دیتے ہیں۔یہ تمام چیزیں مغربی کلچر کی نقالی میں کی جاتی ہیں مگر مغرب میں بھی اس قسم کی نشانیاں نوجوانوں کے بد کردار اور ’Gay‘ ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے اور نہ تو ان کو معاشرے میں مہذب سمجھا جاتا ہے نہ ہی کوئی عزت ملتی ہے ۔ مگر ہمارے یہاں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ان کے مقام کو بھول کر نقل ضرور کرتے ہیں چاہے مغرب ہماری نقل نہ کرے اور ہمیں اس کے باوجود بھی حقیر اور کم تر سمجھے ۔

ہمارے معاشرے کا یہ عجیب و غریب المیہ ہے کہ ایک طرف مرد ہیں جو ملائمت اور نزاکت اور حسن و جمال میں عورتوں سے آگے نکل جانے کو بیتاب ہیں اور دوسری طرف عورتیں اور لڑکیاں ہیں جو مرد بننے میں اپنی پوری توانائی صرف کیے دے رہی ہیں۔ مرد اور عورت دونوں الگ الگ مخصوص مزاج کی حامل ہوتی ہیں اور ہر ایک کی جدا جدا صلاحیتیں ہوا کرتی ہیں لیکن جب مرد عورت بننے کی اور عورت مرد بننے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا نتیجہ بگاڑ، فساد اور اخلاقی تنزلی کی شکل میں ظاہر ہوا کرتا ہے ۔ جس نے کتنی ہی قوموں کو تباہ و برباد کردیا ہے ۔ اسلام جہاد اور قوت کا دین ہے اور مردانگی کا تحفظ چاہتا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالی نے مرد کو عورت سے مختلف جسمانی ساخت عطا کی ہے چنانچہ کسی مرد کے لئے جا ئز نہیں کہ وہ حسین عورتوں کے لباس ، زیورات اور ناز و ادا میں برابری کرنے لگے ۔ حدیثِ نبوی ہے کہ آپ ﷺ نے عورتوں کی مشابہت کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے (صحیح بخاری:۵۸۸۵)

وضع قطع کی ان تمام شکلوں کی شو بازی کا سب سے اچھا پلیٹ فارم ’شادی کی تقریبات‘ ہیں ۔ اس میں تمام لوگ خواہ وہ مرد ہوں، عورت یا لڑکیاں ہوں مکمل طور سے تیار ہو کر آتے ہیں کیوں کہ یہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں اپنی دولت اور حسن کی نمائش با آسانی کی جا سکتی ہے وہ بھی بالکل مفت۔ واقعی اگر معاشرے سے شادی کی تقریبات کو نکال دیا جائے تو بچے گا کیا؟؟ ایسے تو نام و نمود اور نمائش کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہی ختم ہو جائے گا ۔

شادیوں میں جس طرح سے وقت اور پیسے کا ضیاع کیا جاتا ہے وہ اس قوم کے فارغ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ایک دن کی شادی کے لئے مہینوں پہلے سے کپڑے ،زیور اور دوسری مختلف چیزوں کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے اور شادی اس طرح سے کی جاتی ہے گویا زندگی اور موت کا سوال ہے۔پھر شادی میں عموماعورتیں بے شمار زیورات پہنے ہوئے ، میک اپ پوتے ہوئے اور حیا سوز کپڑے پہنے ہوئے اور مرد حضرات کلف لگے ہوئے کڑک دار کپڑے پہنے ہوئے ، گلے میںسونے کی چین ، ہاتھوں میں مہنگے موبائل ، لائیٹر اور سگریٹ کیس لیے ہوئے ”اعلی تہذیب“ کا مظاہرہ پیش کرتے ہیں اور جیسے ہی کھانے کا وقت آتا ہے جانوروں کی طرح ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس ”اعلی تہذیب“ کی ہوا نکل جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ فطری سادگی ہی میں حسن ہے اور بہتری بھی۔ او ر اصل چیز وضع قطع میں انسان کی شخصیت ہوتی ہے جس میں اٹھنا بیٹھنا ، لباس کا مناسب انتخاب ، طرزِ گفتگو اور خوش اخلاقی وغیرہ ہوا کرتی ہے۔ان تمام چیزوں میں ہم اسلامی اصولوں کو ہی اپنا کر ایک مہذب قوم کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر سکتے ہیں اور لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا سکتے ہیں۔

Osama Shoaib Alig
About the Author: Osama Shoaib Alig Read More Articles by Osama Shoaib Alig: 65 Articles with 193261 views Osama Shoaib Alig is a Guest Faculty of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia, New Delhi. After getting the Degree of Almiya from Jamiatul Falah, Az.. View More