ہمارے معاشرے کی ایک سچا واقعہ :شرک کا نتیجہ

[ ہمارے معاشرے کا ایک سچا واقعہ جس میںشرک اور بدعات سے اجتناب کا ایک پیغام ہے ۔اسمیں صرف نام اور جگہ کی تبدیلی کی گئی ہے]

حسن پور ایک بڑا گاﺅں تھا جس میں زمیندار شجاعت علی رہتے تھے ۔انکے اندر زمینداروں کی ساری روایتی خصوصیات موجود تھیں۔لمبا قد،چوڑے شانے لمبی مونچھیںاور چہرے سے رعب ٹپکتا تھا۔پورے گاﺅں میں آپ کا حکم چلتا تھا۔جب یہ اپنے جلال میں ہوتے تھے تو حویلی میں نوکروں کی روح کانپتی تھی ۔انکی بیگم قیصرجہاں بھی ایک بڑے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں انکے والدبھی زمیندار تھے ۔شجاعت علی کی ایک بیٹی ماہ رخ خانم جو اٹھارہ سال کی تھی اور ایک بیٹا شمشیر خان جو بارہ سال کا تھا ۔بیٹابالکل اپنے باپ پر گیا تھا اور بیٹی کو جہاں اپنے باپ کا مزاج ملا تھا وہیں حسن و خوبصورتی اور سیرت ماں سے ملی تھی ۔بالکل اپنے نام کا عکس تھی۔لمبا قد ،گلابی رنگ ،تیکھے نقوش یعنی مکمل طور سے قدرت کے حسن کا شاہکار تھی۔پھر دیہات کی صاف ستھری اور صحت بخش ہو انے حسن کو سونے سے کندن بنا دیا تھا۔چہرے پر جوانی کا رنگ ایسا چڑھا کہ جو بھی دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا ۔حالانکہ ابھی زیادہ عمر نہیں ہوئی تھی مگر شادی کے رشتے آنے لگے تھے ۔شجاعت علی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔اللہ کا دیا ہو سب کچھ تھا اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا مگر کہتے ہیں نہ کہ زمانہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ۔اور نہ ہی خوشیاں بہت دنوں تک باقی رہتی ہیں۔زمینداری میں لڑائیاں عام بات ہوا کرتی ہے۔زمین کا مسئلے کو لیکر لڑائی ہوئی ۔اور اسی لڑائی نے شجاعت علی کو نگل لیا ۔بیگم قیصر جہاں ٹوٹ کے رہ گئیں ۔لیکن وقت رفتہ رفتہ سارے غم بھر دیتا ہے ۔اور مالی طور پر بھی کوئی تنگی نہ تھی ۔شوہر زمیندار تھے تو گھر بیٹھے ہزاروں کی آمدنی ہوا کرتی تھی۔اس لیے کوئی خاص دقت ہوئی نہیں ۔ بیٹا گھر میں موجود ہی تھا ۔اب اٹھتے بیٹھتے بیگم قیصر جہاں کے دماغ میں ایک ہی بات گونجتی رہتی تھی کہ جلد سے جلد ماہ رخ اپنے گھر کی ہو جائے۔مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ۔اچانک سے ایک دن ماہ رخ کو دورے پڑنا شروع ہو گئے ۔شروع شروع میں کسی نے خاص توجہ نہ دی۔مگر پھر یہ بڑھتے ہی گئے ۔ایک دم سے دورا پڑتا اور پورا بدن اینٹھ جاتا اور ماہ رخ مچھلی کی طرح تڑپنے لگتی اور اس دوران عجیب وغریب زبان میں اول فول بکنے لگتی۔دس بیس منٹ یہ حالت رہتی اور پھر اپنے آپ ٹھیک ہو جاتی۔بیگم قیصرجہاں پریشان ہو گئیں ۔ڈاکٹر پہ ڈاکٹربدلے گئے مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا ۔رفتہ رفتہ بات پھیلنے لگی ۔لڑکی کا معاملہ تھا ۔بیگم قیصرجہاں کو ڈر تھا اگریہی حالت رہی تو شادی ہونا مشکل ہو جائے گی۔اوپر سے عیادت کے لیے آنے والی عورتیں جن بھوت آسیب کا سایہ کی بات کہنے لگیں تھیں ۔(ویسے بھی گاﺅں دیہات کی عورتوں کو جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے تو اسکوجن بھوت کی طرف منسوب کرکے مطمئن ہو جایا کرتی ہیں )۔اور ہندوستان ہی کیا پورے بر صغیر میں اوہام پرستی اور جن بھوت کے قصے عام ہیں ۔بیگم قیصرجہاں کو ان سب باتوں پر یقین نہیں تھا مگر جب بیماری کو ایک سال گزر گیا اور ڈاکٹر بھی کچھ نہیں بتا پائے اور عورتوں کے قصے جاری ہی تھے تو انکو بھی رفتہ رفتہ آسیب ہونے کا یقین ہوتا چلا گیا اور اب عاملوں ،سیانوں اور جھاڑ پھونک کرنے والوں کے چکر لگنے شروع ہو گئے ۔اور جہاں بھی عامل کا پتہ چلتا فورا اس کے یہاں جا کر اس سے علاج شروع کرا دیتی تھیں مگر بات جہاں کی تہاں تھی۔ہر عامل ڈھیر سارے دعووں سے علاج شروع کرتا تھا اور اس کی تگڑی فیس بھی وصول کرتا تھا۔اور” کالے بکرے،ناریل،لوبان،اگربتیاں اور ڈھیر سارا غلہ“ اور پتہ نہیں کیا کیا الم غلم منگا کر کام کا آغاز کرتا اور پھر دعوی کرتا کہ سخت مقابلے کے بعد جن کو بھگا دیا ہے مگر ماہ رخ کو کچھ دن بعد پھر دورے پڑنے شروع ہو جاتے۔اسی دوران حویلی کے ایک ملازم نے ایک بہت بڑے’ شاہ صاحب‘ کا پتہ بیگم قیصرجہاں کو بتایا اور انکی تعریف میں زمین آسمان ایک کردیا۔اندھا کیا چاہیے دو آنکھیں ۔بیگم قیصرجہاں فورا تیار ہو گئیں اور بیٹی کو لیکر اس مشہور شاہ صاحب کے پاس چل دیں۔ شاہ صاحب کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی کہ بہت تہجد گزار ہیں اور پنج وقتہ نمازی بھی ہیں (جو اپنے حجرے ہی میں ادا کرتے تھے)مسجد سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔اور کہا جاتا تھا کہ ایک خاص نماز وہ کنویں میں لٹک کر پڑھتے تھے اور اگر اس دوران کسی کی نظر ان پر پڑ جاتی تھی تو وہ انکے جاہ و جلال کا دیوانہ ہو جاتا تھا۔اور یہ دیوانے سب کچھ تیاگ کر انکے’ در‘ کے ہو کر رہ جاتے تھے (یہ الگ بات ہے کہ یہی لوگ شاہ صاحب کا کاروبار چلاتے تھے اور انہیں کے تیار کردہ تھے)۔بہرحال بیگم قیصرجہاں اپنی بیٹی کو لے کر انکے دربار میں پہنچ گئیں اور اپنی باری پر جب اندر گئیں تو شاہ صاحب کو مراقبہ میں پایا ۔بیگم صاحبہ نے سلام کیا اور اپنی مشکل بتانے کے لیے اسٹارٹ لینا چاہا تھا کہ شاہ صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور آنکھ کھول کر خود ہی بیگم قیصرجہاں کے بارے میں اور انکے شوہر کے بارے میں اور حویلی کی باتوں کو بیان کرنا شروع کر دیا۔(وہ ساری باتیں جو انکو بیگم قیصرجہاں کے ملازم نے ہی بتائیں تھیں)اور بیگم صاحبہ کا یہ حال تھا کہ حیرت کے مارے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی کہ اف !کس قدر پہنچے ہوئے ہیں یہ حضرت !!اور مارے عقیدت کے فورا اپنا سر شاہ صاحب کے قدموں پر رکھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کے رونا شروع کر دیا اور اپنے آنسوں سے شاہ صاحب کے پیر دھونے لگیں ۔بڑی مشکل سے شاہ صاحب نے انکو اٹھایا ۔بیگم قیصرجہاں نے سارے حالات بیان کرے تو شاہ صاحب پھر مراقبے میں غرق ہو گئے اور ۰۱ منٹ بعد آنکھیں کھولی اور ناامیدی اور مایوسی سے فرمایا کہ آپ نے بڑی دیر کر دی ہے ۔آپ کی بچی پر” شاہ جنات کا سایہ “ہو گیا ہے اور وہ بہت دنوں سے اس پر قابض ہے اسکو چھڑانا بڑی جان جوکھم کا کام ہے ۔بیگم صاحبہ گڑگڑا اٹھیں کہ حضرت آپ کے بس میں سب کچھ ہے آپ سب کچھ جانتے ہیں آپ کچھ بھی کریے اور میری بیٹی کو بچا لیجئے میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی اور روپیہ پیسہ کی فکر مت کریے جتنا بھی ہو گا سب میں دوں گی۔

شاہ صاحب کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی اور بولے آپ کو پتا ہے کہ میں روپیہ کی طرف دیکھتا بھی نہیں اور یہ بات درست بھی تھی شاہ صاحب ایک روپیہ خود نہیں لیتے تھے البتہ انکے ’چیلے چپاڑے ‘بڑی باریک چالوں سے اور نفسیاتی حربوں سے لوگوں کی جیب سے ایسے پیسہ نکلواتے تھے کہ لوگوں کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ شاہ صاحب نے روپیہ لیا ہے۔بیگم صاحبہ نے گڑگڑاکے کہا کہ غلطی ہو گئی معاف کر دیں اور اللہ کے نیک بندے تو ایسے ہی ہوتے ہیں جو انسانوں کی ’بے لوث خدمت‘ کرتے ہیں ۔آپ ہم بے سہارا کی مدد کریے ۔بیگم صاحبہ شدت جذبات سے بلک بلک کے رو پڑیں۔شاہ صاحب نے کہا اچھا بی بی ذرا اپنا ہاتھ تو دکھانا ۔اور بڑی بے نیازی کے ساتھ اپنا ہاتھ ماہ رخ کی طرف بڑھا دیا ۔ماہ رخ نے شرماتے ہوئے اپنا ہاتھ شاہ صاحب کی مضبوط گرفت میں دے دیا۔ہاتھ تھا یا آگ کا انگارہ اور اسکے ساتھ ہی شاہ صاحب کا دماغ آگ سے جل اٹھا اور انکے سفلی جذبات میں آگ لگ گئی ۔ماہ رخ کے ہاتھ نے انہیں ایک سیکنڈ میں ہی بتا دیا تھا کہ اصلی بیماری کیا ہے مگر انھوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔اس دوران ایک بار بھی انھوں نے ماہ رخ کا چہرا نہیں دیکھا۔خوبصورت ہاتھ ہی نے بتا دیا تھا کہ برقع کے اندر کیا ہو گا وہ اس میدان کے پرانے کھلاڑی تھے ،جانتے تھے کی ذرا سی جلد بازی بنا بنایا کھیل بگاڑ دے گی۔معصوم اور بھولی بھالی عورتوں کا شکار کرنے میں تو انھیں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ چنانچہ ایک گہری سانس لی اور فرمایا اچھا بی بی ذرا اپنی آنکھ تو دکھانا انھوں نے سپاٹ اور غیر جذباتی لہجے میں کہا۔اس کے لیے انکو بہت محنت کرنی پڑ رہی تھی۔ماہ رخ گھبرا گئی وہ ایک سیدھی سادھی لڑکی تھی ۔غیر مردوں کے سامنے اس نے آج تک چہرا نہیں کھولا تھا وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ بیگم قیصرجہاں نے کہا بیٹی !سن نہیں رہی ہو حضرت کیا’ حکم‘ دے رہے ہیں ؟بیگم قیصرجہاںنے بے چینی سے پہلو بدلتے ہو ئے بیٹی کو ڈانٹ پلائی۔ماہ رخ نے گھبرا کر جلدی سے نقاب الٹ دیا اور نگاہیں جھکا لیں۔شاہ صاحب کی آنکھ کھلی کی کھلی رہ گئی اور وہ مارے حیرت کے گنگ ہو کر رہ گئے ۔سب کچھ ناک نقشہ، رنگ روپ سب انکی بہن مہ جبیں جیسا تھا جو کہ ان سے آج سے پندرہ سال پہلے بچھڑ گئی تھی ۔جسکے ساتھ اسی کے کلاس میٹ نے پہلے تو پیار کا ناٹک کھیلا اور پھر اسکی عصمت لوٹ لی تھی جسکو انکی بہن برداشت نہ کر سکی تھی اور اس نے خود کشی کر لی تھی۔آج وہی ماہ رخ کی شکل میں انکے سامنے موجود تھی اور انکو لگا کہ وہ بھی اس لڑکے کا کردار ادا کرنے جا رہے ہیں جس نے انکی بہن کو ان سے محروم کر دیا تھا ۔کیا پھر ایک بار وہی کہانی دہرائی جائے گی؟اور کیا پھر آج ایک مہ جبیں ہوس کی بھینٹ چڑھ جائے گی؟ انکے دل میں خیالات کی آندھیاں چلنے لگیں اورآخر کار باطل کو شکست ہوئی، شیطان ہارگیا۔اور شاہ صاحب زور سے چیخ پڑے ہر گز نہیں بیگم قیصرجہاں اور ماہ رخ ڈر کے اچھل پڑیں اور بیگم قیصرجہاں کانپتے ہوئے پوچھنے لگیں کہ کیا ہوا حضرت ؟؟

ہاں کیا ؟؟ شاہ صاحب جیسے ہوش میں آ گئے اور کہا کچھ نہیں بی بی سب ٹھیک ہے ۔اور انھوں نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی اورماہ رخ سے کہا کہ تم ذرا باہر جاﺅ اور پھر انھوں نے بیگم قیصرجہاں سے کہا کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا کہ بچی پر’ شاہ جنات کا سایہ‘ ہے ۔آپ کی بچی کی صحت غیر معمولی طور پر اچھی ہے اور اسکی اب تک شادی ہو جانی چاہیے تھی ۔آپ جلد سے جلد شادی کرا دیجیے سارے دورے خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔اور کہا کہ میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے گا کہ کبھی کسی شاہ یا عامل کے پاس نہ تو خود جائیے گا اور نہ ہی اپنی بچی کو لے جائیے گا ورنہ پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔یہ دنیا بہت ہوس پرست شکاریوں سے بھری پڑی ہے اور جنکا کام آپ کی طرح معصوم عورتوں اور لڑکیوں کو اپنے جال میں پھسانا ہوتا ہے اور پھر وہ عورتیں اور لڑکیاں مال و عزت دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔دنیا اور آخرت دونوں سے جاتی ہیں۔میری بہن آپ کی بیٹی سی مشابہ ہے تو مجھے احساس ہو گیا کیونکہ اس کو بھی ایک انسان نما بھیڑیے نے برباد کر دیا تھا ۔اور کسی بھی مرد کے ’پرنور چہرے‘ اور’ پر تقدس حلیہ‘ سے دھوکا نہ کھانا۔مرد بہرحال مرد ہوتا ہے چاہے جوان ہو یا بوڑھا۔اور جو عامل یا شاہ نامحرم عورتوں لڑکیوں کو بے پردہ اور تنہائی میں دیکھنے کا خواہش مند ہو وہ کیسے نیک اور پاکباز ہو سکتا ہے؟اور نہ ہی اسکی نیت درست ہو سکتی ہے۔آپ نے غلطی کی جو میرے پاس چلی آئیں اب آپ جایئے اور میری باتوں کو یاد رکھیے گا ۔یہ کہتے ہوئے عامل بابا باہر نکل گئے اور بیگم قیصرجہاں جو خوف او ر شکوک وشبہات سے کانپ رہی تھیں اپنی بیٹی ماہ رخ کو ساتھ لیے واپس گھر آگئیں ۔اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ بیٹی کی عزت بچ گئی اور اللہ تعالی نے میری لاج رکھ لی۔

مگر ضروری نہیں ہے کہ ہر بار عزت محفوظ رہ جائے اور شیطان کا حملہ ناکام ہو جائے اس لیے اس سے سبق لے کر ان تمام جگہوں پر جانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔اور یہ جائز بھی نہیں ہے ۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ﴾ سئل النبی عن النشرةفقال! ھو من عمل الشیطان ﴿ سنن ابوداﺅد:۸۶۸۳ ۔ آپ ﷺ سے نشرة(یعنی جادو کا علاج جادو کے ذریعہ کرنا)کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ شیطانی کام ہے۔البتہ مسنون دعاﺅں،اذکارو وظائف اور شرعی دم کے ذریعہ ضرورت پڑنے پر علاج کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ان دوروں کی بات ہے تو یہ دورے (یہ ایک بیماری ہے جسکو اختناق الرحم کہا جاتا ہے)عموما نازک مزاج اور مقوی، مرغ مسلم،روغن والی غذائیں کھانے اور ورزش ،بھاگ دوڑ نہ کرنے والیںغیر شادی شدہ لڑکیوں پر پڑتے ہیںجس میں مریضہ بے قابو ہو جاتی ہے اور اول فول بکنے لگتی ہے جس سے جاہل عوام یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ جن کا سایہ ہے اور پھر عامل ،پیر ، شاہ صاحب اور مزاروں کے چکر لگنے شروع ہو جاتے ہیں جس میں مال کی بربادی تو ہوتی ہی ہے اور عصمت و عفت کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں۔جبکہ عموما اسکا آسان علاج شادی ہے۔
Osama Shoaib Alig
About the Author: Osama Shoaib Alig Read More Articles by Osama Shoaib Alig: 65 Articles with 192584 views Osama Shoaib Alig is a Guest Faculty of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia, New Delhi. After getting the Degree of Almiya from Jamiatul Falah, Az.. View More