شام میں مغربی جہادیوں کا میلہ

شام میں زندگی موت پر حاوی ہے ، موت کے خوف سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں ۔ نئی زندگی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں ، مگر جہاں لوگ جان بچا کر بھاگ رہے ہیں وہیں کچھ لوگ ایسے ہیں جو جان ہتھیلی پر لے کر شام آنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ سات سمندر پار کرکے شام کی سر زمین پر قدم رکھنے کے لئے ہر رُکاوٹ کو پار کرنے کا حوصلہ دکھا رہے ہیں ، کیونکہ ان کے لئے شام ایک ایسی منزل ہے جہاں دنیا کا سب سے بڑا مقصدپورا ہو گا، جس کو دنیا جہاد کے نام سے جانتی ہے ۔ شام کی بدترین اور خوفناک خانہ جنگی کو شیعہ ۔ سنی کا نام دے رہے ہیں اور گمراہ کن پروپیگنڈہ کا عالم اسلام کے ساتھ مغرب پر ایسا گہرا اثرپڑ رہا ہے کہ مغربی جہادیوں کی ٹولیاں شام کے لئے نکل پڑی ہیں اور اب شام کی خانہ جنگی کے لئے غیر ملکی جہادیوں کے چہرے عیاں ہو رہے ہیں ۔کیا خواتین کیا بزرگ اور کیا جوان، سب جہاد کے نام پر موت سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہیں ۔امریکا، برطانیہ ، ناروے، کینڈا ، فرانس ، جرمنی، اٹلی اور بیلجم سے جہادی شام پہنچ رہے ہیں ، جہاں نوجوانوں کے لئے جہادی کیمپ لگائے گئے ہیں ، جہاں ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ پچھلے ایک سال کے دوران مغربی جہادیوں کی تعداد میں زبر دست اِضافے کا سبب مختلف ویب سائیٹس پر جہاد کی تشہیر ہے ۔ اس وقت یورپ کے جہادیوں کی تعداد ایک ہزار سے ذیادہ ہے، جبکہ پچھلے سال یہ تعداد صرف 250تھی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک انٹیلی جنس کے لئے یہ سراغ پانا مشکل ہو رہا ہے کہ یہ نوجوان کس طرح شام کی سرحد پار کر رہے ہیں ۔ مغربی انٹیلی جنس کا دعویٰ ہے کہ انٹر نیٹ پر جہاد کے پروپیگنڈے نے یورپ سے لے کر امریکا تک نئی نسل پر گہرا اثر ڈالا ہے ۔ ان میں نومسلم بھی شامل ہیں ، جو جہاد کے لئے بے چین ہیں ، جنہیں بتایا گیا ہے کہ شام میں اسلام خطرے میں ہے اور جہاد کے لئے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس جنون نے عجیب و غریب صورتحال پیدا کر دی ہے ۔شام میں خانہ جنگی نے خود ساختہ جہاد کا دائرہ اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ شام میں باغیوں نے مختلف ممالک کے نوجوانوں کے لئے جہادی کیمپ لگائے ہیں جو نوجوان یورپ اور امریکا سے شام آ رہے ہیں اُنہیں ہتھیاروں کی تربیت دی جا رہی ہے اِنہیں جنگ کا حصہ بنانے سے پہلے یہ پرکھا جاتا ہے کہ وہ کس محاذ پر بہتر ثابت ہوں گے۔مغربی جہادیوں کے لئے جو تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں اُن میں مغربی نوجوانوں کو ہر ممکن سہولیات مہیا کرائی جاتی ہیں ۔ نوجوانوں کے لئے کھانے اور کپڑے کے ساتھ موبائل اور لیپ ٹاپ پر وائی فائی پر انٹر نیٹ کنکشن دیا جاتا ہے جو فیس بک اور ٹوئیٹر کی ویب سائٹ سے جڑے رہتے ہیں۔ مغرب کا اصل خوف یہی ہے کہ شام کی خانہ جنگی سے زندہ لوٹنے والے نوجوان یورپ سے امریکا تک دہشت گردی پھیلا سکتے ہیں ۔اس لئے انٹیلی جنس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔ یعنی ہزاروں میل دور جاری خانہ جنگی مغرب کی نیند اُڑا رہی ہے۔

اس وقت شام میں لڑنے والے جنگجوؤں میں دس فیصد غیر ملکی ہیں ، جن میں اکثریت یورپ اور امریکا کی ہے ، جو دنیا کے مختلف ممالک سے عراق کے راستے شام میں داخل ہوئے ہیں اور القاعدہ کی طاقت بن گئے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ مغربی جہادیوں کی تعداد میں ہر روز ا،ضافہ ہو رہا ہے ۔ اب امریکا کی خفیہ ایجنسی ایم۔16 کے سربراہ اینڈریوپارکرکے مطابق برطانیہ سے سینکڑوں نوجوانوں نے شام کا رُخ کیا ہے اور القاعدہ میں شامل ہو گئے ہیں ، لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ القاعدہ نے متعدد نوجوانوں کے برطانیہ میں دہشت گردانہ حملوں کے لئے واپس بھیج دیا ہے ۔ اب ایسے نوجوان برطانیہ اور امریکا کے لئے بڑا خطرہ بن رہے ہیں ، جو شام اور عراق میں تربیت لے کر لوٹ رہے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق القاعدہ نے اس وقت اپنی لڑائی کو بشارالاسدتک محدود کر رکھا ہے مگر بعد ازاں اس جنگ کو شام کی سرحد کے باہر لے جانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔شام میں انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ جرمنی کے 200 سے ذیاد ہ نوجوان خانہ جنگی میں لڑ رہے ہیں ۔ بیلجم کی حکومت نے 150نوجوانوں کے شام میں جہاد کرنے کی توثیق کی ہے ۔ البانیہ کے 200جہادی بشارالاسدحکومت کے خلاف مورچہ بند ہیں ۔امریکا میں ایف بی آئی نے ایک پاکستانی باشندے کو گرفتار کیاجو جہاد میں حصہ لینے کے لئے شام جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ شام اس وقت جہاد کا سب سے بڑا میدان بن چکا ہے ۔ جہادی نظریات کے حامی شام کا رُخ کر رہے ہیں اور صومالیہ اور یمن کے القاعدہ نواز جہادی گروپ چیخ رہے ہیں کہ ہمیں مت بھولوہمیں بھی جنگجوؤں کی ضرورت ہے ۔افغانستان اور عراق سے ذیادہ مغربی جہادیوں کے شام میں داخل ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ شام کی سرحدیں یورپ سے زیادہ دور نہیں ۔ یورپی جہادی بذریعہ جہاز ترکی آتے ہیں اور شام کی سرحد پار کر لیتے ہیں ، جو 560میل لمبی ہے ۔ جرمنی کے باشندوں کو تو ترکی میں داخل ہونے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترکہ مغربی جہادیوں کے لئے شام کا محفوظ روٹ بن گیا ہے ۔شام کی جنگ کا دنیا پر کیا اثر پڑرہا ہے اس کا اندازہ قزاقستان سے ایک ہی خاندان کے 150افراد کی آمد سے لگایا جا سکتا ہے ، جن میں بزرگ، عورتیں ، جوان اور بچے شامل تھے۔ 150افراد نے شام کے جہاد میں حصہ لینے کے لئے بڑا طویل سفر طے کیا۔ تمام رُکاوٹوں کو پار کیا۔ اب جہادی ویب سائٹوں پر اس قزاقستانی خاندان کی تصاویر کو بڑے نمایاں طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور جہاد کے پروپیگنڈے میں استعمال کیا جا رہا ہے ۔اس ویڈیو کا آغاز قزاقستان کے خاندان کے مارچ پاسٹ سے ہوتا ہے ۔ ساتھ میں تین بڑی کاریں نظر آتی ہیں ، جن میں سیاہ و سفید پرچم لہرا رہا ہوتا ہے جو القاعدہ کا پرچم ہے ۔ 150افراد کو دکھایا جاتا ہے جو ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرکے عراق پہنچے تھے۔ایک بچہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے اس کے ساتھ تقریباً بیس بچے تھے۔ کچھ چند ماہ کے بچے بھی تھے جو اپنی ماؤں کی گود میں نظر آ رہے تھے۔ یہ خاندان مرکزی ایشاء کی سابق سوویت یونین کا حصہ قزاقستان سے 5ہزارکلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے شام آیا ہے اس ویڈیو میں جہادیوں نے کہا ہے کہ یہ ہر مسلما ن کا فرض ہے کہ جہاد کا حصہ بنے جو سب سے مقدس فریضہ ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے جن کسی جنگ کا حصہ بننے کے لئے پورا خاندان آیا ہوا ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انٹر نیٹ پر یہ پروپیگنڈہ کس قدر مضبوظ اور بااَثر ہے ، جو ایک خاندان کے 150افراد ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کر کے شام آ رہے ہیں ۔

Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 97 Articles with 80964 views i am a humble person... View More