ڈاکٹر حنیف، سٹی فورم اور سرگالہ سرکار

 شیخ شرف الدین سعدیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خلیفہ مامون الرشید کو ایک لونڈی بے حد پسند آگئی خلیفہ نے اس کی خوبصورتی کی بنا پر منہ مانگی رقم ادا کر کے اسے خرید لیا یہ لونڈی بڑی اعلیٰ صفات کی مالک تھی جس قدر حسن تھا سیرت بھی اتنی ہی خوبصورت تھی خلیفہ اسے اپنے محل میں لے آیا اور جب اس سے ہم کلام ہوا تو لونڈی نے منہ پھیر لیا خلیفہ اس گستاخی پر غصے میں آگیا اور حکم دیا کہ اس گستاخ کا سر قلم کر دیا جائے لیکن پھر لونڈی کی خوبصورتی دیکھ کر رہ گیا اور غصہ ٹھنڈا ہوا تو حکم واپس لے لیا پھر اس نے لونڈی سے منہ پھیرنے کی وجہ دریافت کی تو لونڈی نے جواب دیا کہ مجھے آپ کے منہ سے بد بو آئی تو میں نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا اب اس سچ کے بدلے خواہ آپ مجھے قتل کروا دیں لیکن مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں اور آپ کی ہم نشینی قبول نہیں خلیفہ کافی عرصہ سے اس بیماری کا شکار تھا لیکن کسی نے اس سے یہ کہنے کی ہمت نہ کی تھی خلیفہ نے شاہی طبیب سے اپنا علاج کروایا اور چند دنوں میں ٹھیک ہو گیا وہ لونڈی کی اس ہمت پر حیران ہو گیا اور اس کی صفات کا مزید قائل ہو گیا۔

قارئین!بے ہودگی اور بد صورتی کا ایک بازار گرم ہے اور غلاظت کے ڈھیر کو صاحبان اقتدار و اختیار مشک وعنبر سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے سمیٹتے ہوئے اپنے دامن میں بھر رہے ہیں گندگی اور غلاظت کے اس نیلام گھر میں ’’انصار نامہ‘‘نقار خانے میں طوطی کی آواز جیساہے لیکن بقول شاعر
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا کہ زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
دل میں طوفانوں کی ٹولی اور نسوں میں انقلاب
زندگی مہمان اپنی موت کی محفل میں ہے

ہم نے جس دن قلم اٹھایا تھا اس دن یہ عہد کیا تھا کہ ہم اس قلم کو ’’کاسہء گدائی ‘‘بنانے کی بجائے ایک ایسا نشتر بنائیں گے کہ جس کے ذریعے سچ کو پوری دنیا کے سامنے اجاگر کیا جائے گا۔ قلم کاری کے اس سفر کے آغاز ہی میں ہماری محسنہ آنٹی ڈاکٹر نجمہ پیرزادہ مرحومہ، حاجی محمدسلیم بانی کشمیر ادارہ امراض قلب، استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان اور سٹیشن ڈائریکٹر ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزادکشمیرچوہدری محمد شکیل نے ہمیں یہ نصیحتیں کی تھیں کہ سچ کا سفر طویل ہوتا ہے کہ اور قدم قدم پر کٹھنائیوں کے صحرا پیاس کے سمندر لئے موجود ہوتے ہیں اور اس سچ کے صحرائی سفر میں جگہ جگہ ’’جھوٹے چشموں کے سراب‘‘دکھائی دینگے ان سرابوں کے دھوکے میں نہیں آنا یقین جانئیے کہ ایسا ہی ہوا ہے کہ ہر قدم پر ’’ترغیب ،تحریص، دھمکی ‘‘سمیت ہر نوعیت کے سراب ہمارے سامنے آتے رہے لیکن والدین کی دعاؤں اور دوستوں کی تمناؤں کی وجہ سے ہم لڑکھڑانے اور گرنے سے محفوظ رہے ۔اﷲ تعالیٰ آئندہ بھی ہماری حفاظت فرمائے آمین

قارئین!آج کی اس تمہید کے بعد اب ہم براہ راست کالم کے موضوع کی طرف آتے ہیں ۔2006ء سے لے کر 2011تک کی آزاد کشمیرقانون سازاسمبلی آزاد کشمیر کی تاریخ کی بدنام ترین اسمبلی ثابت ہوئی تھی اس قانون ساز اسمبلی نے چار وزرائے اعظم دیکھے اس قانون ساز اسمبلی کے بطن سے پاکستان مسلم لیگ آزادکشمیر نے جنم لیا جو اس وقت آزاد کشمیر کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے اورآئندہ انتخابات میں ’’بھاری بھرکم مینڈیٹ ‘‘حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اسی اسمبلی کے بطن سے ہم نے وہ وہ شگوفے کھلتے دیکھے کہ جن کے متعلق سنا بھی نہیں تھا شہاب نامہ کے مصنف قدرت اﷲ شہاب اپنی تصنیف میں بندروں کی دم کے ذریعے درخت کے ساتھ لٹک کر لگائی جانے والی چھلانگوں کو سیاستدانوں کی قلابازیوں سے تشبیہ دے چکے ہیں تقریباًایسی ہی ’’بندر نما اصولی قلابازیاں ‘‘آزاد کشمیر کے معزز اراکین قانون سازاسمبلی لگاتے رہے اور حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں آج کے موضوع کیساتھ جس واقعے کا انتہائی گہرا تعلق ہے ہم وہ رقم کرتے چلیں مسلم کانفرنس کے صدر سردارعتیق احمد خان کی وزارت عظمیٰ کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد موجود ہ صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب خان وزیراعظم بنے اور کچھ عرصے بعد جب ان کا ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ ہوا تو مسلم لیگ ن آزاد کشمیرکے موجودہ صدر راجہ فاروق حیدرخان کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج رکھا گیا انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران اپنے قلندرانہ اور جوشیلے انداز حکمرانی سے بڑے بڑوں کوپریشان کر کے رکھ دیا حتیٰ کہ انہوں نے آزاد کشمیر کے بااثر ترین فرد چیف جسٹس سپریم کورٹ آزاد کشمیر جسٹس ریاض اختر چوہدری کے ساتھ بھی ایک سنسنی خیز میچ کھیلا اور آخر کار انہیں چیف جسٹس شپ سے مستعفی ہونا پڑا یہ پورا قصہ بھی بہت سے رازوں سے بھرا ہوا ہے اور ان سے پردہ ہم جلد ہی کسی کالم میں اٹھائیں گے میرپور میں راجہ فاروق حیدر خان وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے تشریف لائے اور انہوں نے ایک بہت بڑا اعلان کر ڈالا انہوں نے کہاکہ وہ میرپور نہیں بلکہ پورے آزاد کشمیر کے سب سے زیادہ مالیاتی وسائل رکھنے والے ادارے میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو آزاد کشمیر کا کرپٹ ترین ادارہ سمجھتے ہیں اور وہ شہر کی تمام تنظیموں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس ادارے میں اصلاحات متعارف کروانے کے کے لئے اپنی اپنی تجاویز دیں اس وقت ادارے کے سربراہ موجودہ سیکرٹری سیرا سردار رحیم خان تھے جبکہ ان کے ہمراہ موجودہ پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم آزاد کشمیر احسان خالد کیانی کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ تمام شہری تنظیموں کی طرف سے پیش کردہ اصلاحات کو مرتب کریں ۔ڈاکٹر سی ایم حنیف عرصہ دراز سے شہری معاملات کی اصلاح کے لئے سٹی فورم کے نام سے ایک انٹلکچول تنظیم چلارہے تھے اور اس میں ان کے ہمراہ صدر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹرریاست علی چوہدری، صدر پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن ڈاکٹرطاہر محمود، صدر فرینڈزفورم ڈاکٹرامجد محمود، پروفیسر ارشد عادل راٹھور، سابق جنرل سیکرٹری میرپور بار ومعروف قانون دان امتیاز حسین راجہ ایڈووکیٹ ،عرفان صابر ایڈووکیٹ سمیت دیگر شخصیات شامل تھیں اور راقم بھی اس فورم کی ٹیم کا ’’بارہواں کھلاڑی‘‘تھا ۔ڈاکٹر سی ایم حنیف نے ادارہ ترقیات میرپور میں اصلاحات پر کام کرنا شروع کیا اور راقم کے ہمراہ ایک انتہائی اہم ملاقات اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آزاد کشمیر جسٹس اعظم خان سے کی جو اُس وقت ایک وکیل کی حیثیت سے پورے آزاد کشمیر میں انتہائی شفاف شہرت رکھتے تھے ۔انہوں نے کمال مہربانی سے ہمیں ادارہ ترقیات میرپور کی اصلاح کے نکتہ نگاہ سے بیش قیمت مشورے دیئے الغرض مختلف صاحب عقل ودانش حضرات سے مشاورت کرنے کے بعد ڈاکٹر سی ایم حنیف نے ’’چارٹر آف ڈیمانڈ‘‘ تیار کیا جس کی روشنی میں عقلی بنیادوں پر ادارہ ترقیات میرپور کے تمام معاملات درست ہو سکتے تھے ۔’’بارہویں کھلاڑی‘‘ کی حیثیت سے راقم نے اس چارٹر آف ڈیمانڈ کی کمپوزنگ اور ڈرافٹنگ کاتمام کام اپنی نگرانی میں کروایا اور انتہائی خوبصورت فائلز بنوا کر ہم تمام ’’اصلاحات کے شہسوار‘‘خیالی گھوڑوں پر سوار ہو کر ایم ڈی اے پہنچے اور سردار رحیم خان اور احسان خالد کیانی کو وہ فائل پیش کر دی جس کے اندر ہمارے خیال میں وہ ’’نسخہ کیمیا‘‘موجود تھا کہ جس سے اس ادارے کی تمام بدبو دور ہوسکتی تھی، اربوں روپے کی کرپشن رک سکتی تھی اور یہ ادارہ جو آزاد کشمیر میں حکومتیں بنانے اور حکومتیں گرانے میں اپنا کلیدی ترین کردار ادا کرتا تھا یہ سیدھی پٹڑی پر چڑھ سکتا تھا یہ ادارہ اس حد تک بے لگام اور بدمعاش ہو چکا تھا کہ ہزاروں تارکین وطن مقیم برطانیہ،امریکہ، مشرق وسطیٰ ویورپ کے پلاٹوں کی خرد برد سے لے کر دیگر دھوکے بازیوں میں سب پر بازی لے چکا تھا لیجئے جناب وہ فائل جمع کروانے کے بعد ہم انتظار کرتے رہے کہ کب درویش صفت قلندر راجہ فاروق حیدر خان وزیراعظم آزاد کشمیر اس پر عمل کرتے ہیں اور ان تجاویز کی روشنی میں اس بدمعاش ادارے کو بندے کا پُتر بناتے ہیں لیکن اور تو کئی طرح کے دن ہماری زندگی میں آئے لیکن وہ دن کبھی نہ آیا اور وہ سورج کبھی طلوع نہ ہوا جو یہ نوید لے کر آیا ہو کہ ایم ڈی اے کی اصلاح کر دی گئی ہے کچھ عرصے بعد ارکان قانون سازاسمبلی کی مزید ’’بندر صفت اصولی قلا بازیوں ‘‘نے رنگ دکھایااور راجہ فاروق حیدر خان کی وزارت عظمیٰ ختم کر دی گئی اور پہلی مرتبہ سردار عتیق احمد خان کو یہ ریکارڈ قائم کرنے کا موقع ملا کہ وہ ایک ہی قانون سازاسمبلی کے دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی وزارت عظمیٰ پہلی مرتبہ اس الزام کے ساتھ ختم کی گئی تھی کہ انہوں نے ادارہ ترقیات میرپور کے ذریعے میرپور کی اربوں روپے کی زمین سو روپے کنال کے حساب سے ایک ایسی کمپنی کو لیز پر دیدی جس کے وہ خود بھی ’’سائلنٹ پارٹنر‘‘تھے اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ چندہفتے قبل وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اسی کمپنی کے اس ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ کا افتتاح میرپور آکر کیا ہے جو اب بھی اربوں روپے کی مالیت کی زمین سو روپے فی کنال کے حساب سے دبائے بیٹھی ہے اس کا کچھ ثواب تو یقینا سردار عتیق احمد خان کو بھی مل رہا ہو گا اور رہی بات منافع کی تو جناب آخر وہ اس کمپنی کے قانونی پارٹنر ہیں اس پر تو ان کا پورا حق ہے ۔

قارئین! آئیے اب 2013 کی بات کرتے ہیں وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید 2011ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے تو بزعم خود ’’گڑھی خدابخش اور نوڈیرو کے مزاروں کے مجاور اعلیٰ ‘‘بن بیٹھے اور اس کے بعد انہوں نے بھی اپنی توپوں کا رخ ادارہ ترقیات میرپور کی طرف کیا جہاں پر انتہائی سرد گرم چشیدہ بیورو کریٹ چوہدری عبدالقیوم سربراہ ادارہ کی حیثیت سے تشریف رکھتے تھے انہوں نے چند ہی دنوں میں وزیراعظم کو ’’مطمئن ‘‘کر دیا ۔ اطمینان کی وجہ ہمیں تو سمجھ نہیں آئی اگر آپ پڑھنے والے دوستوں کو اس بارے میں کچھ خبر ہو تو بمہربانی ہمیں بھی اپ ڈیٹ کردیجئے گا ۔ دو سال کاعرصہ گزر گیا اور آزاد کشمیر کی تاریخ کاسب سے بڑا ’’ارضیاتی مالیاتی سکینڈل ‘‘جناح ماڈل ٹاؤن سکینڈل سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری تمام دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ منظر عام پر لے آئے اس پر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے ’’اکرم سہیل کمیشن‘‘تشکیل دیا سینئر بیورو کریٹ وسیکرٹری آزاد حکومت اکرم سہیل ایک انتہائی دیانتدار اور ادبی مزاج رکھنے والے انسان ہیں انہوں نے تمام تفتیش کرنے کے بعد جو رپورٹ پیش کی اس نے ہوش اڑا دیئے اس رپورٹ نے انکشاف کیا کہ جناح ماڈل ٹاؤن منصوبے میں 90کروڑ روپے کے قریب کرپشن کی گئی ہے چوہدری عبدالمجید نے بجائے کمیشن کی تجاویز پر عمل کرنے کے الٹا کمیشن کے سربراہ اکرم سہیل کو او ایس ڈی کر دیا اور اس کمیشن کے اوپر دو سیکرٹری صاحبان سردار محمود اورعبدالسمیع خان کی صورت میں ایک اور کمیشن تشکیل دیا جس کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ اکرم سہیل کمیشن کی رپورٹ کو ’’درست ‘‘کرے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں سیکرٹری صاحبان بھی انتہائی دیانتدار نکلے اور واضح ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نے اکرم سہیل کمیشن کی رپورٹ کی ’’درستگی ‘‘نہ کی اور اس کی پاداش میں ان دونوں سیکرٹریز کو بھی او ایس ڈی کر دیا گیا اور اس تمام ’’کمیشن کمیشن‘‘ کے کھیل میں یار لوگ اپنااپنا کمیشن وصول کر کے کرپشن کرتے رہے ۔

چوہدری عبدالقیوم کے بعد ایم ڈی اے کا سربراہ کچھ عرصہ کے لئے بعض ناہنجار الزام تراشوں کے مطابق نو کروڑ روپے کی بولی لگنے کے بعد جاویداقبال مرزاکو بنایا گیا اور جب ایک سینہ گزٹ اطلاع کے مطابق زرداری ہاؤس کو جانے والا ایک چیک باؤنس ہوا تو مرزا صاحب کو بھی باؤنسر مار کر بولڈ کر دیا گیا۔ بعد ازاں کمشنر میرپور ڈویژن راجہ امجد پرویز اس ادارے کے امور اضافی چارج کے ساتھ دیکھتے رہے

قارئین!حال ہی میں بزرجمہرِوقت وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید پرانکشاف ہوا کہ ایم ڈی اے اتنااہم ادارہ ہے کہ اس کے لئے ایک ’’سالم وزیر‘‘سربراہ ہونا چاہیے چنانچہ قرعہ فال سیالکوٹ سے سیٹ جیت کر مسلم لیگ ن چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے محمد حسین سرگالہ کے نام نکلا گزشتہ روز راقم کو وزیر ایم ڈی اے محمد حسین سرگالہ کی ایک تاریخی پریس کانفرنس میں شرکت کا اتفاق ہوا اس پریس کانفرنس میں دیگر وزرائے حکومت عبدالماجد خان اور اکبر ابراہیم بھی موجودتھے محمدحسین سرگالہ نے انکشاف کیا کہ ایم ڈی اے اس وقت پانچ کروڑ روپے کا مقروض ہے اور تین ہزار الاٹیوں کو پلاٹ بھی ڈویلپ کر کے دینے کا پابند ہے اور مالیاتی مشکلات عروج پر ہیں راقم نے انتہائی ادب کیساتھ جان کی امان پاتے ہوئے عرض کیا کہ جناب ایم ڈی اے کے سرتاج سرگالہ صاحب یہ تمام مشکلات دور ہو سکتی ہیں اگرہماری تجویز پرغور کر لیا جائے تمام وزرائے حکومت متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ آپ کی کیا تجویز ہے؟ہم نے عرض کیا کہ یہ بات تو طے ہے کہ میرپور کی تمام اراضی کراؤن لینڈ ہے اور میرپور کی زمین کی قیمت آزاد کشمیر کے تمام اضلاع سے زیادہ ہے کوئی ایسا قانون پاس کروایا جائے کہ جس سے میرپور کی زمین اور رقبے میں اضافہ ہو جائے اس دانشمندانہ کام کے لئے دیگر اضلاع میں ریفرنڈم کروا لیا جائے کہ آیا وہ میرپور میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا نہیں ہم نے یہ بھی عرض کیا کہ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق متعدد بار یہ بات آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ بھمبر کو ضلع بنانے کا فیصلہ غلط تھا اور میرپور کی مرکزیت کو تقویت ملنی چاہیے اس پر ایم ڈی اے کے سرتاج سرگالہ صاحب اور دیگر معزز وزرائے حکومت انتہائی معنی خیز انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے کہ چوہدری طارق فاروق کی حکومت ’’جب ‘‘آئیگی تو انہیں کہیے گا کہ یہ کام وہ خود کر دیں ۔

قارئین!یہاں ہم یہ تذکرہ بھی کرتے چلیں کہ چیئرمین سٹی فورم ڈاکٹر سی ایم حنیف اب بھی جاگتی آنکھوں کے ساتھ وہ دلکش خواب دیکھ رہے ہیں جو نیندمیں کھویا ہوا کوئی دیوانہ بھی نہیں دیکھتاانہوں نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے اس حوالے سے یہ کہاکہ گزشتہ تیس سالوں کے دوران میرپور میں جو سیکٹر بنائے گئے ان میں کھمبال، گلشن کشمیر، مجاہدٹاؤن سمیت دیگر علاقے شامل ہیں اور ان تمام علاقوں میں بجلی پانی گیس اور سڑکوں سمیت زندگی کی کوئی بھی بنیادی سہولت موجود نہیں ہے ۔محمد حسین سرگالہ وزیرایم ڈی اے آگا دوڑ پیچھاچھوڑ کی پالیسی ترک کرتے ہوئے ماضی کے اعلان کردہ تمام سیکٹرز میں ترقیاتی کام مکمل کروائیں ڈاکٹر سی ایم حنیف نے کہاکہ تارکین وطن ایم ڈی اے کی بے ایمانیوں اور بدمعاشیوں کی وجہ سے اپنی جائیدادیں بیچ بیچ کر وطن سے اپنا رشتہ ہی ختم کر رہے ہیں تارکین وطن کے پلاٹ ڈبل اور ٹرپل فائل کے ذریعے ایم ڈی اے کے عملے ہی نے غبن کئے، مفاد عامہ کی جگہوں، پبلک پارکس اور اب تو قبرستانوں تک پر قبضہ مافیا ایم ڈی اے کی آشیرباد سے قابض ہوچکا ہے ایم ڈی اے کے تمام معاملات کی اصلاح ضروری ہے اور اس کے لئے جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے ۔سٹی فورم جلدہی تمام شہری تنظیموں کیساتھ مل کراس حوالے سے علمی وفکری بنیادوں پر کام کریگا وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید اگر ایم ڈی اے کی اصلاح کر دیں تویہ ان کا ایک ایسا کارنامہ ہو گا جسے اہلیان میرپور کی نسلیں رہتی دنیا تک یادرکھیں گی ۔ڈاکٹر سی ایم حنیف نے کہاکہ ریوائزنگ کے نام پر کرپشن کابازار گرم ہے تارکین وطن سمیت اہلیان علاقہ کے پلاٹ ریوائزنگ کے نام پر قطع برید کر کے سائز میں چھوٹے کر دیئے جاتے ہیں اور رشوت لے کر ان پلاٹوں کے درمیان منظور نظر بدمعاشوں کو پلاٹ الاٹ کر دیئے جاتے ہیں اہلیان میرپور بری طرح تنگ آچکے ہیں اور کسی بھی وقت بہت بڑی عوامی تحریک کھڑی ہو سکتی ہے۔
ستائش گر ہے زاہد اس قدر ،جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا
بیاں کیا کیجئے بیدادِ کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر ایک قطرہء خون دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا
دکھاؤں گا تماشا، دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہرداغِ دل ایک تخم ہے سروِچراغاں کا
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے، خونِ گرم دہقاں کا
اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ، ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا
نظر میں ہے ہماری جادہء راہِ فنا غالبؔ
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

قارئین!ہم امید رکھتے ہیں کہ محمد حسین سرگالہ سیالکوٹ سے منتخب ہونے کی لاج رکھتے ہوئے میرپور کو بھی سیالکوٹ جیسی ترقی دینے کی کوشش کرینگے ویسے سننے میں آیا ہے کہ جب جنرل مشرف پاکستان کے سیاہ وسفید کے مالک تھے تو وہ ’’داد عیش‘‘ دینے کے لئے خفیہ دوروں پر منگلاتشریف لایا کرتے تھے جہاں وہ اپنے کور کمانڈری کے دور کی محبوباؤں سے شرف ملاقات حاصل کیا کرتے تھے اور اسی طرح گجرات کے چوہدری صاحبان کے لاڈلے صاحبزادے ایم ڈی اے میرپور تشریف لایا کرتے تھے اور ایم ڈی اے کی گدی کا فیض ’’گجرات شریف ‘‘ تک پہنچا کرتا تھابعدازاں محترمہ فریالتالپور، زرداری ہاؤس اور منظوروٹو کے نام بھی میرپور میں مختلف حلقوں میں سرگوشیوں کی شکل میں ایک کان سے دوسرے کان تک پہنچا کرتے تھے اب اسلام آباد میں میاں نواز شریف تشریف رکھتے ہیں اور تختِ لاہور پر میاں شہبازشریف براجمان ہیں حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک ان شخصیات کے حوالے سے ایک بھی سرگوشی میرپور کے کسی کونے سے نہیں سنائی دی اﷲ سرگالہ صاحب کو ہمت دے کہ وہ ایم ڈی اے کے معاملات درست کر سکیں۔آمین
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک چور نے بڑی محبت کیساتھ اپنی محبوبہ کو انتہائی قیمتی ہیروں کا ہار پیش کیا
محبوبہ نے خوش ہو کر حیرانگی سے پوچھا
’’جانِ من اس کی قیمت کتنی ہو گی‘‘
چور نے بے نیازی سے جواب دیا
’’کوئی زیادہ نہیں بس یہی کوئی تین سال قید بامشقت‘‘

قارئین! ایم ڈی اے میں بدعنوانیوں اور بدمعاشیوں کے ذریعے آج تک جو اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کی گئی ہے اس کے تمام ذمہ داروں کو زیادہ نہیں تو ’’عمر قیدبامشقت‘‘سزاضرورملنی چاہیے یہ ہماری دیوانوں جیسی خواہش ہے آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔؟

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 337380 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More