زمین اور آسمان کا فرق

بُزدل ہونے اورشریف ہونے میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے،مگر عام طور پر ہم اپنی بُزدلی اور مُردہ ضمیری کو شرافت کا لبادہ اُوڑھا کر،اور اپنے آپ پر شرافت کی اِسٹیمپ لگا کر بات گُم کر جاتے ہیں۔لیکن اگر اِس طرح کرنے سے حقیقتیں چُھپ سکتیں تو پھر کیا ہی بات تھی۔

ہماری موجودہ حکومت بھی امریکہ بہادر کیطرف سے ہمارے شہروں تک میں ڈرون حملے کرنے کے ردِعمل میں کسی بھی قسم کے جواب دینے کے حوالے سے اِسی قسم کی کیفیت میں مُبتلہ ہے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہی جناب نوازشریف صاحب اور اِ ن کے ساتھی جب اپوزیشن میں موجود تھے تو اِن کی اِسی ڈرون والے مسئلے پر قومی غیرت اور زندہ ضمیری(بیانوں اور تقریروں کی حد تک)ہمیں سُنائی اور دِکھائی دیتی رہی،لیکن جونہی جناب نواز شریف صاحب اور اِن کے ساتھی صاحبِ اقتدار ہوئے،تو اِن میں اِس مسئلے کو لیکر ایک برف سی جم گئی ہے۔اور یہ لوگ اتنے دن گُزر جانے کے بعد بھی اب تک یہ مسئلہ اقوامِ مُتحدہ میں لے جانے سے بھی گُریز کیئے ہوئے ہیں۔اور اگر اِتفاق سے تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی اِس مسئلے کو لیکر کچھ کام کر رہے ہیں تو اُنہیں ایک پاگل کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے،بُہت سارے سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ یہ لوگ اِس مسئلے کو لیکراپنی سیاست چمکا رہے ہیں،اوراگرماضی کے آئینے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو مُلکی مسائل پر کسی قسم کا کوئی احتجاج کرتے رہنے کو باریکی سے دیکھا جائے تویہ بات ٹھیک ہی لگتی ہے، کیونکہ اِن سیاسی پارٹیوں سے خیر کی اُمید رکھنا ہی بے وقوفی ہے۔لیکن اِس بات سے بھی اِنکار نہیں کیا جاسکتا کہ ظاہری طور پر وہ کام کر رہے ہیں،اور اگر کوئی اچھا کام کرے اور اُسے نہ مانا جائے تو یہ اُنکے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ بھی نا اِنصافی ہوگی۔صحیح بات اور عمل کو تسلیم کرنا ہمارا فرض ہے۔زیادہ اُنکی نیّت اُنکے ساتھ۔۔۔

لیکن اگر ہم اِن کے برعکس دیگر سیاسی جماعتوں کو اور اقتدار میں موجودلوگوں کو دیکھیں تو کچھ کام نظر نہیں آتا ۔سب اپنے اپنے ذاتی مفادات کی جنگ میں یوں ڈَتے ہوئے ہیں کہ کسی کو یہ تک نظر نہیں آرہا کہ سامنے حُسین ہے یا یزید ،اور اِ نکے اِنہی مفادات نے اِنہیں حق اور باطل کے فرق سے مُبرّاکر دیا ہے ۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں، دُنیا کی بہترین افواج میں ہماری فوج کو شُمار کِیا جاتا ہے،اور ہم ڈرون گِرانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں،اِس کے باوجود بھی ہم امریکہ بہادرکواُس کے جائزاور ناجائزعمل کا فرق بتانے تک سے بھی ڈرتے ہیں۔ جب کہ ہم اُنکی جنگ میں اُنکی مفادپرست دوستی کے عیوض اپنے پچاس ہزار پاکستانی بھی شہید کروا چُکے ہیں۔

لیکن کیا کِیا جاسکتا ہے؟ہمارے حکمرانوں کوصرف اور صرف اپنی کُرسی اور ڈالر سے مطلب ہے،اور اِس کے بدلے اگر اِنکے سامراجی آقاپاکستان کے بڑے سے بڑے شہر پر بھی حملہ کردیں تو بھی اِنہیں منظور ہوگا۔کیونکہ جس نشّے میں یہ گُم ہیں وہ نشّہ اکثر قبر میں جاکر ہی اُترتا ہے۔

پاکستان میں حُکمرانوں کا چال چلن ،عوامل اور کردار کسی سے چُھپا ہُوا نہیں ہے،لیکن اگر ایک نظر ہم اپنی قوم کی طرف دیکھیں،توایک پاکستانی اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اِس مسئلے کو لیکر جتنا حساس ہونا چاہیئے تھا ،اور پوری قوم کا جو ردِ عمل ہونا چاہیئے تھا وہ کہیں بھی دِکھائی نہیں دیتا۔شاید میں بُہت زیادہ سخت الفاظ استعمال کر رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اِس پر مجھ پہ اعترازات بھی کیئے جائیں گے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم بھی ایک بے غیرت اور مُردہ ضمیر قوم بن چُکے ہیں۔اور اﷲ تعالیٰ قرآن میں سورۃالرعدکی آیت نمبر 11میں ہمارے اُوپر نافذ کئے جانے والے حکمرانوں کے حوالے سے کچھ اِس طرح فرماتے ہیں۔
’’بلاشُبہ اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتاجب تک کہ وہ لوگ اپنی حالت خود نہیں بدلتے‘‘۔

جاتے جاتے ایک بار پھر عرض کرنا چاہوں گا کہ بُزدل ہونے اورشریف ہونے میں زمین اورآسمان کا فرق ہوتا ہے،مگر عام طور پر ہم اپنی بُزدلی اور مُردہ ضمیری کو شرافت کا لبادہ اُوڑھا کر،اور اپنے آپ پر شرافت کی اِسٹیمپ لگا کر بات گُم کر جاتے ہیں۔لیکن اگر اِس طرح کرنے سے حقیقتیں چُھپ سکتیں تو پھر کیا ہی بات تھی۔

Nadeem Gullani
About the Author: Nadeem Gullani Read More Articles by Nadeem Gullani: 13 Articles with 8623 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.