جہاد کے لغوی معنی اور جہاد کی اقسام ۔ جہاد حصہ ١٠

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں جہاد کی اہمیت ہمارے دین اسلام میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور جہاد فی القتال کے خاص جس کے زریعے کفار و مشرکین کے خلاف فیصلہ کن لڑائی ہوتی ہے اور جس کا حکم قرآن میں بلاشبہ جابجا دیا گیا ہے۔

مگر جہاد کو صرف جہاد فی القتال سمجھ لینا اس ناچیز کے خیال اور علما کی رائے و نظر سے دیکھنے کے بعد ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم قرآن و حدیث کو صحیح سمجھ رہے ہیں یا قرآن و حدیث میں صرف اپنے مطلب کی بات ڈھونڈنا چاہ رہے ہیں ( یعنی بقول شخصے خود تو بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں ) اصلاح کے دروازے اللہ عزوجل کے حکم سے مجھ سمیت ہر ایک پر واضع کھلے ہوئے ہیں اللہ ہمیں حق بات سمجھنے اور سمجھانے والا بنائے آمین

جہاد کے موضوع پر چند ایک اور تحریریں پیش کرنے کی کوشش ہے اللہ قبول فرمائے آمین

جہاد کے لغوی معنی
جہاد۔ جہد سے مشتق ہے اور جہد کے معانی ہیں مشقت برداشت کرنا اور جہاد کے معنی ہیں کسی کام کے کرنے میں پوری طرح کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ کرنا۔

مولانا سید سلیمان ندوی صاحب اپنی کتاب سیرت النبی جلد ٥ کے صفحہ نمبر ٢١٠ طبع اول میں تحریر فرماتے ہیں
’’جہاد کے معنی عموماً قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مفہوم کی یہ تنگی قطعاً غلط ہے ۔۔۔۔۔۔ لغت میں اس کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں‘‘ (سیرۃ النبی جلد۵ صفحہ ۲۱۰ طبع اول۔ دارالاشاعت کراچی نمبر۱)

جہاد کی اقسام

قرآن اور حدیث سے جہاد کی چار بڑی اقسام ثابت ہوتی ہیں۔
۱۔ نفس اور شیطان کے خلاف جہاد
۲۔ جہاد بالقرآن یعنی دعوت و تبلیغ
۳۔جہاد بالمال
۴۔ جہاد بالسیف (دفاعی جنگ)

نفس اور شیطان کے خلاف جہاد
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)
ترجمہ:۔ اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر فرمایا۔
“تم جہاد اصغر یعنی چھوٹے جہاد سے لوٹ کر جہاد اکبر یعنی بڑے جہاد کی طرف آئے ہو (اور جہاد اکبر) بندہ کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد ہے‘‘

جہاد بالقرآن
اس جہاد سے مراد یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی فکر کی جائے نیز توحید کے قیام کے لئے بھر پور کوشش کی جائے اور قرآنی تعلیم کی نشر و اشاعت کی جائے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِه جِهَادًا كَبِيْرًا‏ (الفرقان:۵۳)
ترجمہ:۔ پس تو کافروں کی بات نہ مان اور اس (یعنی قرآن کریم) کے ذریعہ سے ان سے جہاد کر۔

جہاد بالمال
اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کی اشاعت کے لئے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس جہاد کا حکم ان الفاظ میں آیا ہے
وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ‌(التوبہ:۴۱)
ترجمہ:۔ اور اپنے اموال اور جانوں کے ذریعہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرو۔

جہاد بالسیف یا دفاعی جنگ
جہاد کی چوتھی قسم دفاعی جنگ یا جہاد بالسیف ہے یعنی جب دشمن دینی اقدار کو ختم کرنے اور دین کو تباہ و برباد کرنے کے لئے دین پر حملہ آور ہو تو اس وقت دفاعی جنگ کرنے کو جہاد بالسیف کہتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ نبی کریم نے اسے جہاد اصغر قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا‌ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصْرِهِمْ لَـقَدِيْرُۙ‏ ۔ ۨالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ‌ (الحج:۴۰۔۴۱)

یعنی وہ لوگ جن سے (بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے (یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا۔

علماء نے دفاعی جنگ کی بعض شرائط بیان کی ہیں جن کی موجودگی کے بغیر یہ جہاد جائز نہیں۔
اور ان میں سے کسی ایک کے بھی نہ ہونے سے دینی قتال نہیں ہوسکتا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ
۱۔امام وقت کا ہونا
۲۔اسلامی نظام حکومت
۳۔ ہتھیار و نفری جو مقابلہ کے لئے ضروری ہو
۴۔ کوئی ملک یا قطعہ ہو
۵۔دشمن کی پیش قدمی اور ابتدائی۔

اللہ عزوجل ہمیں ہر قسم کا جہاد کرنے والا بنا دے تاکہ مسلمانان عالم جس رسوائی بلکہ بے غیرتی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس زندگی سے غیرت مندانہ زندگی اسی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے کہ ہم کفار کے خلاف بھی سینہ سپر ہوسکیں ہر ہر میدان میں چاہے وہ حربی میدان ہو، چاہے تعلیمی میدان ہو چاہے میڈیا وار ہو چاہے ثقافتی یلغار ہو۔

اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جہاد بالسیف بھی صرف پاکستان کے مسلمانوں پر واجب و فرض نہیں ہے بلکہ تمام امت مسلمہ کے لیے ہے ہم پاکستان کے شہری کوئی اسلامی دنیا کے ٹھیکیدار یا غنڈہ نہیں ہیں کے دنیا کے دوسرے مسلمان ممالک تو غیروں سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں کافروں کے ممالک میں مسلمانوں کا سرمایہ رکھیں اور ہمیں بدمعاش اور اسلامی دنیا کا غنڈہ بنا کر ہمارے نوجوانوں کو جہاد کا ایندھن بنائیں اور اپنے بچوں کو عیش و عشرت کے لیے آزاد چھوڑ دیں۔

اور اگر کوئی غیر پاکستانی جہاد بالسیف کے لیے کوشش کرے تو اس سے اپنا ناطہ توڑ لیں اور ہم پاکستانیوں کو در پردہ اس کام میں لگائے رکھیں کہ ہم اپنا جوان خون نام کے اسلامی ممالک (جہاں کہیں بھی شریعت محمدی نافذ العمل نہیں ہے) کے زاتی مفاد اور اغراض کے لیے قربان کرتے رہیں۔

بلاشبہ اس نام نہاد جہاد جس میں غریبوں کے بچوں کو بے موت مروایا جاتا ہے وہ کسی بھی طرح جہاد کے زمرے میں نہیں آتا ہاں ان سے ہمارے ملک کی چند ایک جماعتیں جنہیں جہاد کشمیر جہاد فلسطین اور دوسرے نام نہاد جہاد کے عوض جو بوریاں بھر بھر ڈالر اور پونڈ اور ریال اور پتہ نہیں کون کون سے ممالک سے غیر ملکی کرنسیوں میں پیسہ ملتا ہے اور تو اور ہمارے ملک کی نام نہاد جہادی تنظیموں اور ان کے موالی و حواریوں کو تو آئی ایس آئی کے فنڈ سے بھی رقومات ملتی رہیں ہیں جن کی نشاندہی اور اعتراف ناصرف حمید گل ایک ریٹائرڈ جنرل آئی ایس آئی کا سابق سربراہ بلکہ بریگیڈیر امتیاز احمد سابق سربراہ انٹیلی جنس بیورو اور سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی بھی اپنے انٹرویو میں کرچکے ہیں۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 494554 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.