کرم کی آس

 سیدہ شاہین زیدی :کرم کی آس (افسانوی مجموعہ) ،علم وعرفان پبلشرز ،لاہور ،جولائی 2013،صفحا ت:192،قیمت :300 روپے

سیدہ شاہین زیدی کا شمار پاکستان کی ان ممتاز خواتین تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے شعر و ادب میں اپنی تخلیقی فعالیت سے اردو ادب کی ثروت میں گراں قدر اضافہ کیا ہے ۔ان کا تعلق عالمی شہرت کے حامل ایک نامور علمی و ادبی خاندان سے ہے ۔لاہور سے ان کی ادارت میں شائع ہونے والا ادبی مجلہ ’’سہ ماہی نوادر ‘‘ قارئین ادب میں بہت مقبول ہے ۔وہ سال 2001سے اس رجحان ساز ادبی مجلے کی چیف ایڈیٹر ہیں۔ یہ مجلہ ان کے شوہر سید مسعود لحسنین زیدی (مرحوم ) اور سید نظیر الحسنین زیدی(مرحوم) ( جو کہ ان کے پُھوپا اور سُسرتھے ) کی یاد میں شائع ہوتا ہے ۔ ’’نوادر ‘‘ میں انھوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔انھوں نے پاکستانی ادبیات میں تانیثیت کے حوالے سے جو تخلیقی کام کیا ہے اسے علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔سیدہ شاہین زیدی کا ناول ’’ جدا منزلیں جد ا راہیں‘‘ 2010میں شائع ہوا اس کے بعد سال 2013میں سفر نامہ ’’سفر حج‘‘شائع ہوا ۔ان کی متعدد کتابیں زیر طبع ہیں ۔ان میں نور بانو (ناول )،گھروندا (ناول )زنجیر جنوں (ناولٹ )،اور ’’ابھی موسم نہیں بدلا‘‘شعری مجموعہ شامل ہیں۔ہفت روزہ ’’شہاب ‘‘لاہور میں ان کا کالم ’’چلمن کی اوٹ سے ‘‘قارئین بہت توجہ اور دلچسپی سے پڑھتے تھے ۔فیملی میگزین لاہور میں ان کے دو مشہور ناول ’’اماوس ‘‘اور’’آنگن ‘‘قسط وار شائع ہوتے رہے ،جنھیں قارئین ادب کی طرف سے بہت پذیرائی نصیب ہوئی ۔جولائی 2013 میں ان کا افسانوی مجموعہ ’’کرم کی آس ‘‘شائع ہوا ہے ۔اس میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں۔مصنفہ نے ان افسانوں کے پلاٹ بڑی مہارت سے تیار کیے ہیں ۔ان افسانوں میں کردار نگاری ان کی فنی مہارت کی دلیل ہے ۔ان کہانیوں میں سے ہر ایک کہانی کا مر کزی خیال معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کا مکمل احاطہ کرتا ہے ۔ان کہانیوں کا معاشرتی زندگی ،ماحول اور سماجی مسائل سے گہرا تعلق ہے ۔مصنفہ نے اپنے زاویہء نگاہ کے بر ملا اظہار میں کوئی تامل نہیں کیا۔معاشرتی زندگی کے تضادات ،سماجی مسائل اور مناقشات اور بے اعتدالیوں کو بڑی خوش اسلوبی سے موضوع بنایا گیا ہے ۔مصنفہ کے اسلوب میں بیانیہ کا سحر ،علامت نگاری ،تجریدیت ،تمثیل نگاری اور جزئیات نگاری کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔اس افسانوی مجموعے میں سماجی زندگی کی بے اعتدالیوں اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے بارے میں کھل کر لکھا ہے ۔مصنفہ نے عالمی کلا سیک اور معاصر عالمی ادبیات کا عمیق مطالعہ کیا ہے ۔اردو ادب کے ممتاز تخلیق کاروں کے فن پاروں پر ان کی نظر ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں مصنفہ نے ارضی و ثقافتی حوالوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔ان کا موثر تخلیقی عمل اور اس کے پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شعور کی ر و ان افسانوں میں اپنے وجو دکا اثبات کرتی ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ سیل زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں لیکن تہذیب اس سے محفوظ رہتی ہے ایک زیرک تخلیق کار حدود وقت سے آگے نکل کر آنے والے دور کی ایک دُھندلی سی تصویر قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں مصنفہ نے خود کلامی ،کرداروں کے بیانیہ انداز ،حقیقت نگاری اور فطرت نگاری اپنے اسلوب کو نکھار عطا کیا ہے ۔ان افسانوں کے مطالعہ سے قاری پر زندگی کی حقیقی معنویت واضح ہو جاتی ہے اور وہ عملی زندگی میں سنبل و سلاسل ،سم اور ثمر ، اقارب اور عقرب ،عسل اور حنظل ،گل اور خار ،عقاب اور شپر کا فرق بآسانی سمجھ جاتا ہے ۔معاشرتی زندگی میں یہی وہ رویے ہیں جو ہر شعبہء زندگی میں سامنے آتے ہیں۔

ضعیف والدین کے ساتھ نو جوان اولا د کا سلوک ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔مغربی تہذیب کی یلغار نے اس علاقے کی اقدار و روایات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔لڑکے اپنے ہی باپ کو خبطی سمجھ کر اس کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے تو قیری کرتے ہیں۔ضعیف والدین لب اظہار پر تالے لگا کر اپنی ہی اولاد کے ستم سہہ کر سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں اولاد کی بے حسی نے ضعیف والدین کو زندہ در گور کر دیا ہے ۔افسانہ ’’بوجھ ‘‘قارئین کے لیے لمحہء فکریہ ہے ۔

’’ہاجرہ سوچ رہی تھی کہ کیا واقعی بوڑھے والدین اولاد کے لیے بوجھ ہوتے ہیں؟کیا ماں باپ بیٹوں کی تمنا اسی لیے کرتے ہیں کہ بُڑھاپے کے آسیب میں وہ در بہ در ہو جائیں۔‘‘

قیام پاکستان کے بعد انتقال آبادی کے گمبھیر مسائل پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔اردو فکشن میں اس موضوع پر قابل قدر تخلیقی کام منظر عام پر آیا ہے ۔افسانہ ’’اچھی بی ‘‘ہجرت کے موضوع پر عمدہ تحریر ہے ۔ یہ نیرنگیء سیاست دوراں ہی تو ہے کہ وہ لو گ جن کا تحریک آزادی میں سرے سے کوئی کردار ہی نہ تھا وہ قیام پاکستان کے بعد سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں تھے ۔ مصنفہ نے مہاجرین کو درپیش مسائل کا احوال بیان کرتے وقت تمام حقائق کو مد نظر رکھا ہے :
’’وقار علی کہتے جو وہاں رئیس تھے آج فقیر ہو گئے ،چور لٹیرے ،یہاں آکر کیا سے کیا بن گئے ۔۔۔۔۔واقعی انقلاب آ گیا تھا ۔۔۔۔ہجر ت کا درد ناک عذاب تقسیم کے وقت سبھی کچھ برباد کر چکا تھا۔‘‘

افسانہ ’’ماں کہتی تھی ‘‘میں چربہ ساز ،سارق اور کفن دزد عناصر کے مکر کی چالوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے ۔سہل پسند متشاعروں اور نام نہاد ادیبوں کی جسارت سارقانہ کا عبرت آموز نقشہ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔مصنفہ نے اس افسانے میں مسائل ا دب کے حوالے سے بڑی درد مندی اور خلوص سے اظہار خیال کیا ہے ۔افسانہ ’’میلا چہرہ ‘‘ بے جوڑ شادیوں کے موضوع پر فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے ۔پہلی بیوی کی وفات پر فضل دین نے دوسری شادی کر لی ۔اس کی دوسری بیوی نے حالا ت سے سمجھوتہ کر لیا تھا اور اپنی بے بسی کو قناعت اور صبر کے دامن میں چھپا لیا تھا :
’’میں عمر میں بھی اس سے بڑی ہوں ،جاہل ،گنوار اور بد صورت عورت ۔وہ بے چارہ بھی کیا کرے اس کا خاندان اچھا ہے پڑھے لکھے لوگ ہیں مجھے اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے وہ خفت محسوس کرتا ہے ۔۔۔۔اپنا سارا غصہ شراب پی کر کبھی مجھ پر اور کبھی بچوں پر نکال کر جی ہلکا کرلیتا ہے ۔۔۔۔۔مجھے تو فضل دین سے کوئی گلہ نہیں ہے بل کہ میں اس سے راضی ہوں کیونکہ وہی تو ہے جس نے مجھے اتنی ساری خوشیاں دی ہیں۔بچے دئیے ہیں ۔۔۔یہ چار دیواری دی ہے ،مار پیٹ سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔؟‘‘

اس مجموعے میں شامل افسانہ ’’پروفیسر ‘‘ظالم و سفاک ،موذی و مکار جید جہلا اور رواقیت کے داعی نام نہاد متفنی معلمین کے لیے عبرت کا تازیانہ ہے ۔یہ کس قدر المیہ ہے کہ بے حس معاشرے میں ہر طرف چلتے پھرتے ہوئے مُردے ،بے جان مجسمے اور گونگے بہرے روبوٹ دندناتے پھرتے ہیں۔اس لرزہ خیز صور ت حال نے زندگی کی معنویت کو شدید ضعف پہنچایا ہے ۔تدریس کے شعبے میں معلم کا لبادہ اوڑھ کر کچھ مخبوط الحواس ،فاتر العقل ،جنسی جنونی اور گھٹیا عیاش جس درندگی سے معصوم طالبات کی عزت لو ٹتے ہیں ،اس افسانے میں ان کے قبیح کردار اور گھناؤنے جرائم کی جانب متوجہ کیا گیا ہے ۔یہ رنگیلا پروفیسر ہر دفعہ اپنے ساتھ ایک نئی لڑکی لاتا ہے اور تدریس کی آڑ میں رنگ رلیاں مناتا ہے ۔ایسے بے ضمیر ،بے غیرت اور بے حس موذیوں کو چُلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے ۔ایسے ننگ انسانیت ،بگلا بھگت ،جو فروش گندم نما ،کالی بھیڑیں اور سفید کوے معاشرتی زندگی میں رُتیں بے ثمر کر دیتے ہیں۔اس قسم کی گندی مچھلیوں نے تو پورے تالاب کو عفو نت زدہ بنا دیاہے ۔ان سفہا اور اجلاف و ارذال کی عیاری اور مکاری پر تیشہء حرف سے مصنفہ نے کاری ضرب لگائی ہے ۔

سیدہ شاہین زیدی نے اپنے افسانوی مجموعے ’’کرم کی آس ‘‘موضوعاتی تنوع ،جدت اظہار اور ندرت تخیل پر توجہ مرکوز رکھی ہے ۔ان کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے نے ان کے اسلوب کو ایک نیا آہنگ عطا کیا ہے ۔اس افسانوی مجموعے کی اشاعت سے اردو افسانے کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے ۔ہماری معاشرتی زندگی میں تشدد کی جو لہر اُ ٹھی ہے ،ان افسانوں میں اس کی جانب متوجہ کیا گیا ہے ۔مصنفہ نے ہر قسم کی عصبیت ،تنگ نظری ،تشدد ،استحصال اور جبر کے خلاف کھل کر لکھا ہے ۔کہانی لکھتے وقت مصنفہ نے اپنے تجربات ،مشاہدات ،جذبات اور احساسات کو نہایت خلوص اوردرد مندی کے ساتھ پیرایہء اظہار عطا کیا ہے ۔ان کے فنی تجربات اور زبان و بیان پر اُن کی خلاقانہ دسترس نے ان کے اسلوب کو دلکش بنا دیا ہے ۔ان افسانوں میں زندگی کی حقیقی معنویت کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے ۔ان کے مطالعہ سے قارئین بہتر زندگی کے نئے امکانات کی جستجو پر مائل ہو تے ہیں۔مصنفہ نے سماجی زندگی میں اخلاقی اورروحانی اقدار و روایات کی زبوں حالی پر اپنے رنج و کرب کا بر ملا اظہار کیا ہے ۔حریت ضمیر سے جینے کے لیے مصنفہ نے ہمیشہ اسوہء شبیر ؓکو پیش نظر رکھا ہے ۔ان کی خواہش ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو اپنی تمنا کے مطابق زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔ان افسانوں کے کردار اپنے قول و فعل سے معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز کی عکاسی کرتے ہیں ۔ مصنفہ کا جذبہ ء انسانیت نوازی قارئین ادب کے دلوں کو ایک ولولہء تازہ عطا کرتا ہے ۔اردو ادب میں تانیثیت کے حوالے سے یہ افسانوی مجموعہ ایک اہم پیش رفت ہے ۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 618426 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.