پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی

ہمارے ہاں بڑی سیٹ بر براجمان یا کسی بھی منفی حوالہ سے قبضہ کر لینے والے کو دانشور سمجھا جاتا ہے۔ ایک حوالہ سے یہ بات غلط بھی نہیں۔ حاسدین پیٹھ پیچھے اس کے قول وفعل اور طریقہ کار میں دمبی سٹی ہی نہیں‘ امریکن سنڈی بھی نکال کر دیکھاتے ہیں۔ اس کے آگے بے بکری بن جاتے ہیں۔ اسے اس کی وہ وہ خوبیاں گنواتے ہیں‘ جن کا اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ سیٹ اس پر آگہی کے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہاں تک کہ عہدی ارسطو اس کا پانی بھرتے ہیں۔ یقینا یہ اس کے عظیم سے دو چار انچ بڑھ کر دانشور ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ کتاب اور قلم سے رشتہ داری نہ ہوتے ہوئے بھی کتاب اور قلم والے انھیں زندگی کے پرچہ کا پہلا اور آخری سوال ٹھہرا کر دم لیتے ہیں۔ ہر بات ان سے شروع ہو کر ان پر ختم ہو جاتی ہے۔ ان کا شخصی روپ فنا ہو کر دانش میں ڈھل جاتا ہے۔ میں ناہیں سبھ توں تک آتے آتے جان سے جانا پڑتا ہے۔ شخص سے دانش بننے تک ان کی گرہ سے کچھ نہیں جاتا۔ یہ سب کرسی قریب لوگوں کے حسن کمال کا کرشمہ ہوتا ہے۔

میرا موضوع یہ نکھری نکھری اور کھری کھری دانش نہیں۔ جو معاملہ میری سوچ‘ اپروچ اور ضمیر کی دسترس سے باہر ہوتا ہے‘ اس میں ٹانگ اڑا کر اہل دانش میں نام لکھوانے کی حماقت نہیں کرتا۔ میں زیریں منزل کا شخص ہوں اور زیریں منزل ہی مجھے خوش آتی ہے۔ سراپا دانش کے چرنوں میں بیٹھ کر دوسری یا چوتھی منزل پر جا بیٹھوں اور پھر وہ نیچھے سے پوڑی کھینچ لے اور میں وہاں بلا راشن پانی باں باں کرتا رہوں اور پھر اپنی آواز کی بازگشت کو بھی ترس جاؤں۔ میرا ہی کوئ پیٹی بھرا مجھےغدار قوم و ملت قرار دے کر اوپر ہی میری گرن لمبی کروا دے۔ میں اس جنس کا گاہک نہیں۔

میرا موقف یہ ہے کہ اپنی منزل اور اپنی اوقات کی آگہی سے مرحوم ہونا بدقسمتی کے مترادف ہے۔ مثلا تاریخ کے طالب علم کو زیادہ سے جنگوں کی آگہی ہونی چاہیے۔ فاتحین کے نام اسے منہ زبانی یاد ہونا چاہیے تاہم عصر حاضر کی مقتدرہ قوت سے انھیں بیس تیس فٹ نیچے رکھے۔ ماضی کے فاتحین عصر حاضر کی مقتدرہ قوت سے کسی طرح بڑھ کر نہیں ہو سکتے۔ مثلا بش کی تلوار کے ایک ہی وار سے ستر داءیں اور دو کم اسی باءیں پھڑک کر وہ جا گرے۔ ڈھائ سو آج بھی آخری سانسوں پرہیں۔ یہ بش کیا تھا اوباما تلوار زنی میں اس سے بھی چار پانچ سو قدم آگے ہے۔ آج سکندر سا سورما زندہ ہوتا تو سلام و پرنام ہی سے کام نہ لیتا پانی میں ناک ڈبو کر مر جاتا۔

ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر بھی دنیا فتح نہ کر سکا۔ آخر بیاسی علاقہ کے کسی یودھا کے ہاتھوں زخمی ہو کر قوریں جا وڑیا۔ حضرت اوباما سرکار کو دیکھیے پوری دنیا کے سکندر فرشی سلام پیش کرتے ہیں۔ وہ پھر بھی خوش نہیں۔ اسے دنیا کا کوئ چلتا پھرتا اچھا نہیں لگتا۔ اس کی پہلی اور آخری خواہش یہی ہے کہ ہر ٹانگ سے اوباما اوباما کے بے بس اور بے کس آوازے نکلیں۔ دنیا کے تمام لوگ یک ٹنگے ہو کر کماءیں اور وہ یک ٹنگی کمائ کو بلا تشکر ڈکارے۔

بڑے بڑے حملوں سے تاریخ کے طالب علم آگاہ ہوں گے لیکن چھوٹی چھوٹی حملیوں سے متعلق کسی کو سرے سے آگہی ہی نہیں۔ جس سے پوچھو یہی بتاءے گا محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے۔ سب کو آخری اور کامیاب حملے کا پتا ہے اس سے پہلے سولہ حملوں میں اس کے ساتھ کیا ہوا کوئ نہیں جانتا۔ یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ اس نے حملے کیوں کیے اور ہندوستان میں کس قسم کا اسلام پھیلایا۔ وہ اسلام پھیلانے کے لیے آیا یا کسی اور کام کے لیے آیا۔ محمود وایاز کے ایک صف میں کھڑے ہونے کا قصہ ہر کسی کی زبان پر ہے۔ کوئ اور بھی اس سے ملتے جلتے واقعات رونما ہوئے ہوں گے معلومات کا فقدان دیکھیے کوئ جانتا ہی نہیں۔ میں خوف زدہ رہتا ہوں کوئ مجھ ہی سے نہ پوچھ لے۔ مجھے بھی ایک صف والے والے واقعے کے علاوہ کچھ معلوم نہیں میں لون مرچ مصالحہ لگا کر اس واقعے کو بیان کر سکتا ہوں۔

گھر اور باہر کی جنگوں کے متعلق تھوڑی بہت غیر تاریخی لوگ بھی معلومات رکھتے ہیں۔ دانشور حضرات کے پاس ان سے بڑھ کر معلومات کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ دانشور حضرات پاس سے بھی جوڑ جمع کرکے لوگوں کو بتا دیںتو لوگ مان لیں گے اور پھر وہ آپس میں شئیر بھی کریں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیت کے مطابق باتوں میں کہاٹا وادھا کرتے رہیں گے۔ آتے وقتوں میں سینہ بہ سینہ چلتی باتیں کتابی شکل اختیار کر لیں گی۔ تاریخ بھی تو یہی کچھ ہے۔ جو بھی سہی تاریخ کے دانشور کے پاس ایک عام آدمی سے زیادہ معلومات ہونی چاہیں۔

میں عام آدمی ہوں تاریخی جنگوں کے متعلق زیادہ نہیں جانتا۔ اس کے باوجود یہ بھی جانتا ہوں ایک راجہ جنگ بھی ہے۔ کسی زمانے میں بڑی زبردست ولایت تھی۔ ایک دن بیگم صاحبہ نے گوشت لانے کا حکم دیا۔ میں گوبھی کو خوب صورت پھول سمجھتے ہوئے لے آیا۔ وہ پھولوں کو پسند کرتی ہے۔ سوچ رہا تھا کہ خوش ہو گی لیکن خوش ہونے کی بجاءے وہ بپھر گئ۔ کوئ مورخ اس جنگ کو نہیں جانتا۔ اس حوالہ سے میں مورخ سے دو قدم آگے ہوں۔ یہ تو فقط ایک جنگ ہے میں ایسی بیسیوں جنگوں سے آگاہ ہوں۔ اکثر سوچتا ہوں لکھ کر مورخ ہونے کا اعزاز حاصل کر لوں۔

کتنی ستم کی بات ہے کہ سب بادشاہ محمد شاہ رنگیلے کی موج مستیوں کا ہر کوئ چٹخارے لے لے کر تذکرہ کرتا ہے لیکن فرخ سیر کا کوئ نام نہیں لیتا جو دن رات نشے میں غرق رہتا تھا۔ روپ کنور کے ساتھ ادھر ادھر اور کبھی نالیوں میں گرا پڑا ملتا۔ ادھر تو مورخ کی نظر نہیں گئ۔ ہر مورخ کے ہاں بہادر شاہ ظفر کا ذکر ملتا ہے جیسے وہ اکیلا شاعر بادشاہ تھا۔ شاہ عالم ثانی جو آفتاب تخلص کرتا تھا کمال کا شاعر تھا۔ وہ تو وہ جہاندار بھی کا شاعر تھا۔

آج ایک صاحب فرما رہے تھے اورنگ زیب عالمگیر نے ناسخ کے کلام کو مدون کیا۔ اورنگ زیب عالمگیر شروع شروع میں مدن کا ذوق تھا۔ میں نے اپنا رعب جتانے کے لیے کہا حضرت یہ نسخہ انھیں وراثت میں ملا۔ اصل کام تو بابر نے کیا تھا۔ انھوں نے گھورتے ہوءے کہا جناب میں تو ڈاکٹر اورنگ زیب عالگیر کی بات کر رہا ہوں۔ میں نے خفت مٹانے کے لیے کہا اچھا تو بادشاہی چھوڑ کر پروفیسر ہو گیا ہے۔ بولے وہ ١٧٠٧ میں مر گیا تھا۔ چاہیے تو تھا میری جہالت کے پیش نظر بات کو ٹھپ کر دیتے اور اپنی دانش کا مجھ پر رعب نہ ڈالتے۔ میں نے غصے میں کہا میں نے اسے ١٧٠٧ میں مارا تھا؟ ناسخ کا دیوان اسی نے مرتب کیا تھا۔ میری طرف سے اسے طے سمجھو اور اپنی کم علمی کی وجہ سے میری ساتھ بحث نہ کرو۔

اہل دانش کیا‘ اشاعتی ادارے بھی اصل آگہی سے دور ہیں۔ اخبار ہو کہ کوئ ادبی یا غیر ادبی پرچہ‘ یہاں تک کہ حساس کتب بھی پروف ریڈنگ کی غلطیوں سے مبرا نہیں ہیں۔ اداروں نے باقاعدہ پروف ریڈر رکھے ہوءے ہیں۔ پھر بھی مطبوعہ تحریریں اس قباحت سے پاک صاف نہیں ہو پاءیں۔ پروف ریڈنگ بڑی ذمہ داری کا کام ہے اس لیے اس معاملے کو سنجیدہ لیا جاءے۔ میں نے کچھ نہایت ذمہ دار لوگوں سے بات بھی کی۔ کسی نے مثبت جواب نہیں دیا۔ ہر کسی نے نے کہا کچھ بھی کر لو پروف کی غلطی رہ ہی جاتی ہے۔ ایک صاحب نے کہا یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک پروف ریڈرنگ کے لیے کوئ مشین تیار نہیں ہو جاتی غلطیوں کا سیاپا ختم نہیں ہو گا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے ناک نیچے؛ اوپر بھی سمجھ سکتے ہیں بیٹھا کمال کا پروف ریڈر جو اعزازی کام کرنے کے لیے بھی تیار ہے‘ انھیں نظر نہیں آتا۔ کم علمی اور معلومات کی کمی ہمیں لے ڈوبی ہے۔ ہنر کی ناقدری اور بے قدری ہی عمومی دانش کو لے ڈوبی ہے۔ جو قومیں ہنر اور دانش کی قدر کرتی ہیں وہی ترقی کا منہ دیکھتی ہیں۔ اقتداری دانش اور ہنر الگ سے چیز ہے‘ یہ تو عمومی دانش و ہنر سے تعلق کرتی بات ہے۔

عمومی دانش و ہنر کی عزت اور قدرافزائ کرنا اداروں کا کام ہے۔ روزنامہ پاکستان لاہور بڑے روزناموں میں شمار ہوتا ہے لیکن اپنے ہاں موجود ایک عظیم ہنرمند کا اسے پتا ہی نہیں۔ بلاشبہ یہ بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ اسے آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ ناصر زیدی شاعر اور کالم نگار سے بڑھ کر سچے سچے اور کھرے پروف ریڈر ہیں۔ یہی نہیں دیالو بھی ہیں۔ احباب کے لیے پروف ریڈنگ کی خدمات اعزازی طور پر انجام دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ معاملہ بدقسمتی اور المیہ کی حد تک ہے کہ ہنر کے مطابق کام دستیاب نہیں۔ اگر متعلقہ ہنر اور دانش کے مطابق لوگوں کو کام دستیاب ہو تو ترقی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ افسوس روزنامہ پاکستان لاہور والے ناصر زیدی کے اس ہنر سے بےبہرہ ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ ان سے ان کے پرفیکٹ ہنر کا کام لیں۔ کالم نگاری کے لیے اپنے کسی پروف ریڈر کو تلاش لیں۔ ہو سکتا ہے وہ موصوف سے کہیں بڑھ کر اور بہتر خدمت انجام دے۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 175724 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.