تبدیلی کی طرف پہلا قدم

وطن ِعزیز اس وقت مسائل کے ایک ایسے گرداب میں پھنسا ہوا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا، مختلف سیاسی ،مذہبی اور اصلاح کی دعوے دار جماعتوں کی طرف سے وقتا فوقتا انقلاب، طلوع ِ صبح ِنو ،اور بہارِ تازہ برپا کرنے کے دعوے کیے جارہے ہیں ،اور ہر کوئی یہی راگ الاپتا نظر آتا ہے کہ تبدیلی کا نسخۂ کیمیا اسی کے پاس ہے، ہر کسی کو یقین ہے کہ اس کے پاس قوم کے دکھ درد کا علاج موجود ہے ،اور اس کی پالیسی پر عمل کرنے سے یہ خزاں دیدہ چمن بہار آشنا ہو سکتا ہے -حیرت اس وقت ہو تی ہے جب ہم ایسی جماعتوں کے قائدین اور ورکرز کو اپنے نظریاتی حریفو ں کے حق میں بولتے اور ان کی عزت و حرمت کو پامال کرتے سنتے ہیں ،کہ جو لوگ اپنے چند مریدوں ،عقیدت مندوں اور کارکنوں کے من میں تبدیلی کا چراغ نہیں جلا سکے وہ پوری قوم کو کس تبدیلی کی نوید سنانے چلے ہیں ؟؟؟ بطورِ قوم اس وقت ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم خرابی کی اصل بنیاد اور اساس کو جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں ، لگتا یوں ہے کہ ہم اس تلخ حقیقت کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے اور نہ ہی اس کا اقرار و اعتراف کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ اس صورت میں ہماری ’’انا‘‘ کے شیشے کو ٹھوکر لگ سکتی ہے،آئیے ذرا اس مسئلہ پر تھوڑا سوچ بچار کر لیں :
قومیں افرادسے وجود پاتی ہیں ،ملک،قوم کی ترقی افراد کی صلاحیت، دیانت داری اورایثارو قربانی کی مرہونِ منت ہوتی ہے، اگر آپ نے ایک مکان تعمیر کرنا ہے اور آپ کے پاس اینٹ،سریا، بجری ،ریت ،اور دیگر اسباب ِ تعمیر ناقص ترین ہیں ،تو آپ ایک شاندار،مضبوط اور دیرپا عمارت کی تعمیر کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں اسے حقیقت میں نہیں ڈھال سکتے ،ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ بطور ِ قوم ہم اس وقت ان تمام خوبیوں سے محروم ہیں جو قوموں کو اقوام ِ عالم کی صف میں سربلندی اور وقار عطا کرتی ہیں -دیانت داری کا یہ عالم ہے کہ آپ پیسے کے معاملے میں قریب ترین رشتوں پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے، غذا سے لے کر دوا تک کوئی چیز بھی خالص حالت میں دستیاب نہیں ،اقرباء پروری ،بد دیانتی، لوٹ کھسوٹ،جھوٹ، دغا بازی ،حق تلفی، بے حسی ،کم زورو ں پر ظلم و ستم ہماری فطرت ِ ثانیہ بن چکی ہے ، ایسے میں وہ لوگ جو کسی انقلاب کی توقع لگائے بیٹھے ہیں یا اس خوش نما نعرے کے ذریعے دوسروں کو خواب دکھانے میں مصروف ہیں وہ بتائیں کہ اس حالت میں وہ کس جادو کی چھڑی کے ذریعے انقلاب برپا کریں گے، ملک چلانے کے لیے اہل ،تجربہ کار، حوصلہ مند ،معاملہ فہم ،مدبر ،اور زیرک افراد کی ایک جماعت درکار ہوتی ہے ،یہاں جس کو موقع ملتا ہے وہ اپنی نسلوں کو سنوارنے اور ’’سب سے پہلے اپنا آپ ‘‘ کی پالیسی پر گم زن ہو جاتا ہے ،لہذا جو لوگ واقعی سچی تبدیلی کے خواہاں ہیں انہیں چاہیے کہ وہ صورت ِ حال کا حقیقی ادراک حاصل کریں ،اور قوم پر ترس کھاتے ہوے اسے اس راہ پر لگائیں جو ’’کوفہ ‘‘ کی بجائے ’’مکہ مدینہ‘‘ کو جاتی ہو -

ہم میں سے ہر کوئی ہر وقت اپنے حکم رانوں کا رونا روتا نظر آتا ہے ، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ قیام ِ پاکستان کے بعد کسی بھی حاکم نے اس مملکت ِ خدادا د اور اس کے باسیوں کی عزت و حرمت کا پاس نہیں رکھا، لیکن ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ ہمارے اندر انفرادی طور پور پائی جانے والی ہزاروں قباحتوں کا ذمہ دارکون ہے ؟ جب ہم میں سے کوئی دودھ میں پانی ڈالتا ہے، آٹے ،چینی وغیرہ میں ملاوٹ کرتا ہے تو کیا وہ نواز شریف کے کہنے پر ایسا کر رہا ہوتا ہے؟ کیا وہ آصف علی زرداری کے کہنے پر جھوٹ بولتا ہے؟ ہم خود بد تہذیبی ،بدکرداری اور منافقانہ طرز ِ عمل کا بری طرح شکار ہو چکے ہیں ،ہمارا اخلاقی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، ہم ’’مسلم امہ‘‘ کا ورد تو ہر وقت کرتے رہتے ہیں لیکن ہم سے مسلمانوں و ا لا کردار کب کا رخصت ہو چکا ہے (الا ما شاء اﷲ )

اگر معاشرہ اخلاقی طور پر مضبوط ہو، اس کے افراد بلند اقدار اور اعلی روایات کے امین ہوں تو حکم ران کسی غلط سمت جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ،سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے ’’مہر ‘‘ کی زیادہ سے زیادہ مقدار کا تعین کرنا چاہا تو ایک خاتون نے بر سر محفل قرآن مجیدکی آیت پڑھ کر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو ایسا کرنے سے روک دیا اور آپ نے حکم واپس لے لیا- ہمیں خود سے آغاز کرنا ہوگا، صبر ،ہمت اور حوصلہ کے ساتھ اپنے ضمیر مردہ میں ایک نئی روح پھونکنا ہوگی اور اس سلسلے میں اہل ِ علم ،اساتذہ ،صاحبان ِ تربیت کواپنا کردار ادا کرنا ہوگا -

بہت عرصہ ہوا ایک دن میں دوران ِ خطبہ سامعین سے استفسار کیا کہ اگر آپ کو کہا جائے کہ آپ کے ضلع کے نظم و نسق کو سنبھالنے اور نظام ِ حکومت کو چلانے کے لیے ایک ایسا شخص چاہیے جو اہل بھی ہو، با صلاحیت بھی ہوکہ تمام معاملات کو شعور سے حل کر سکے، نڈر اور بے خوف ایسا ہو کہ مشکل سے مشکل لمحے میں پہاڑ کی طرح ڈٹ جائے، اور دیانت دار ایسا کہ سگے بیٹے کو بھی جرم کرنے پر پابند ِ سلاسل کر دے ،جو نہ کسی کی سفارش سنے، نہ کسی کا دبدبہ اس کے آڑے آئے، جو حق کا سچا داعی ہو اور عزم و شجاعت کا پیکر ہو، آپ کسی ایسے شخص کا نام بتا سکتے ہیں ؟ سب کا جواب نفی میں تھا، میں نے عرض کیا کہ جب کسی قوم میں اخلاق، کردار اور پاکیزگیٔ سیرت کا معیار اس قدر زمیں بوس ہو جائے تو اسے اپنے حکم رانوں کے شکوے چھوڑ کر اپنی حالت پر غور کرنا چاہیے -

میں قطعا یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم میں کوئی بھی صاحب ِکردار باقی نہیں رہا، لیکن اس بات میں یقینا کسی کوئی شبہ نہیں ہوگا کہ ہماری اکثریت اس بنیاد کو کھو بیٹھی ہے جس پر سرخ روئی و سربلندی کا محل تعمیر ہوتا ہے-

آئیے سب مل کر اپنے اپنے حلقۂ اثر میں تبدیلی کی طرف پہلا قدم اٹھائیں ، اخلاق کی تطہیر کی طرف ، معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کی طرف، جھوٹ، دھوکہ دہی، بے حیائی، چور بازاری ،ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ ، اور اس جیسی بیماریوں سے چھٹکارے کی طرف، یہ قدم ہی عزت، سرخ روئی ،حقیقی وقار اور سر بلندی کی طرف پہلا قدم ہوگا ،آخر میں سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا خوب صورت فرمان پیش ِخدمت ہے :
’’ ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اﷲ تعالی نے اسلام کی بدولت عزت بخشی ،اگر ہم اسلام کے علاوہ کسی اور چیز میں عزت ڈھونڈیں گے تو اﷲ تعالی ہمیں ذلیل و رسوا کر دے گا ‘‘

muhammad Sohail Ahmed Sialvi
About the Author: muhammad Sohail Ahmed Sialvi Read More Articles by muhammad Sohail Ahmed Sialvi: 8 Articles with 8869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.