یہ المناک حادثے کب تک ہوں گے

میں جب بھی کسی کنٹینر کے حادثے کی خبر سنتا ہوں تو دہل جاتا ہوں۔ میرے سامنے جواں سال عامر پاریکھ کی تصویر آجاتی ہے۔ جو سابق ٹاﺅن ناظم احمد پاریکھ کا بیٹا تھا۔ اور ایک ایسے ہی حادثے میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وہ اپنے بچوں سے سیل فون پر بات کررہا تھا۔ جب ایک کنٹینر اس کی گاڑی پر آگرا۔اور وہ اسی دوران جاں بحق ہوگیا۔ گو اس حادثے کو دو تین برس گزر گئے لیکن احمد پاریکھ جب بھی کسی ایسے حادثے کا سنتے ہیں۔ وہ پھر اسی المناک کیفیت میں ڈوب جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں میں یہ المناک سانحے جسم اور ذہن میں کچھ ایسی کیفیت پیدا کرتے ہیں جو مہینوں اور سالوں جاری رہتی ہیں۔ احمد پاریکھ ان ہی میں سے ایک ہیں۔ وہ ایسے حادثات کی تفصیل میں جاتے ہیں۔ اور ان قوانین کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جو ان کنٹینرز کو لانے لیجانے کے لئے ضروری ہیں۔ شہری علاقوں میں ان کی آمد و رفت کے اوقات بھی متعین ہیں۔ جن کی پابندی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ پولیس اہلکار مٹھی گرم ہونے کے ساتھ ہی ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اکثر ایسے ہی حادثے جنم لیتے ہیں۔ جیسا کہ کل آئی سی آئی کے پل پر ہوا۔ ماری پور روڈ پر خاتون ڈاکٹر اور اس کے خاندان کی ہلاکت میں ٹریفک پولیس کے وہ اہلکار برابر کے شریک ہیں جو صرف ذاتی مفاد کے لئے ممنوعہ اوقات میں بھاری ٹریفک جن میں ٹرالر اور کنٹینر شامل ہیں کو سڑکوں پر چلنے کی اجازت دیتے ہیں۔

ڈاکٹر عاصمہ آدم خان، ان کے شوہر آدم خان لغاری اور بچے 13 سالہ فراز اور 11 سالہ محمد احمد سمیت یہ سار خاندان چند ہی لمحوں میں کنٹینر گاڑی پر گرنے کے باعث خالق حقیقی سے جا ملا۔ ڈاکٹر عاصمہ محکمہ صحت سے منسلک ڈاکٹر تھیں اور ماری پور ڈسپنسری میں نہایت احسن طریقے سے اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں۔ ہمارے شہروں میں بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے حادثات میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جہاں ڈرائیونگ کی غلطی سے روزانہ المناک حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ کراچی کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف بسوں اور ویگنوں کی تعداد اور روش وہی پرانی ہے۔ کھچ بھری ہوئی بسوں او رویگنوں میں اگر پاﺅں رکھنے کی جگہ بھی مل جائے تو غنیمت جانیے۔ بھری ہوئی اس ٹرانسپورٹ کے باعث مسافروں کو گاڑیوں کی چھت پر بٹھانے کا رواج بھی عام ہے۔ بارش کے موسم میں خصوصاً بجلی کے تار ایسے مسافروں کے لیے انتہائی خطرنک ہوتے ہیں۔ چھت پر چڑھے ہوئے مسافر نجانے کیوں ٹریفک پولیس والوں کو دکھائی نہیں دیتے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر مختلف روٹس کی بسیں اور ویگنیں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے بجائے یہ بھی ٹرانسپورٹ مافیا سے مل کر پولیس کی آمدنی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ کراچی سٹی پولیس چیف کے مطابق ہر ماہ تین سو سے زائد افراد سڑکوں پر حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور بوڑھوں کی ہوتی ہے اور جو سڑک عبور کرتے ہوئے گاڑیوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ اٹھارہ فیصد حادثات منی بسوں کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق سڑکوں پر راہ گیروں کو پیش آنے والے 56 فیصد حادثات میں 26 فیصد حادثات اسکولوں کے طلبہ و طالبات کو پیش آتے ہیں جبکہ شہر کی سڑکوں پر سالانہ 580 تا 600 ٹریفک حادثات ہوتے ہیں۔ لاکھوں لوگ اس شہر میں بلا لائسنس گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ اس وقت شہر میں ۰۲ لاکھ موٹر سائیکلیں اور پندرہ ہزار سے زیادہ منی بسیں کوچیں ہیں۔ ناخواندہ ڈرائیور تیز رفتاری سے کوچ چلاتے ہیں بدتمیزی سے پیش آتے ہیں اور آئے دن حادثات کرتے ہیں۔ لیکن کوئی انہیں لگام دینے والا نہیں ہے۔ پچاس اور سو روپے میں ٹریفک قانون بکتا ہے۔ کسی کو سزا نہیں ہوتی۔ کیونکہ زیادہ تر ٹرانسپورٹ مافیا میں پولیس اور اعلیٰ حکام شامل ہیں،۔ منی بس کے ڈرائیور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ چکر لگانے کی کوشش میں حادثات کرتے ہیں۔ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے رہنما ارشاد بخاری کا کہنا ہے کہ جس ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں۔ ڈرائیور کو جب سزا کے خوف ہوگا تو وہ محتاط طریقے سے گاڑی چلائے گا، یہاں سزا کی بجائے جرمانہ کیا جاتا ہے اور یہ جرمانہ بھی مالک ادا کرتا ہے۔ کراچی کے شہریوں کو ان بڑھتے ہوئے حادثات پر سوچنا چاہیے۔ حکام بھی اس بارے میں غورو فکر کریں۔ قانون کو عملداری کو یقینی بنائیں۔ ورنہ یہ حادثہ تو کسی کے ساتھ پیش آسکتا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 389210 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More