’’سانِحہ راولپنڈی ـــ ‘‘ــ آخر کیا ہوا تھا ؟

۱۰ محر م الحرام جمعہ کے روز راولپنڈی راجہ بازار میں ہونے والا سانِحہ بِلا شبہ ہر دِل کو اُداس اور غمگین کر گیا۔یہ سانحہ اِقتِدار کی مسندوں پر برا جمان میرٹ اور اِنصاف کا ڈھنڈوراپیٹنے والوں کے منہ پر پانچ اُنگلیوں کا ایسا طمانچہ ہے جِسکا نِشان رہتی دُنیا تک اُن کے چہرے پر موجود رہے گااور آئندہ آنیوالی نسلیں بھی اُنہیں اپنے اپنے انداز میں مُختلف کلِمات سے نوازتی رہیں گی۔اِس اِنسانیت سوز سانِحہ نے اِس مُلک میں وہ آگ بھڑکا دی ہے جو کبھی نہیں بُجھ سکتی یہانتک کہ خون کی ندیاں نہ بہہ جائیں یا پھر اِنصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کر دیا جائے۔

پہلی بار میڈیا کا کردار حوصلہ افزاء رہا ورنہ یہ آگ خیبر سے لیکر کراچی تک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی تھی۔ایک عام آدمی ابھی تک کنفیوژن کا شِکار ہے کہ آخِر ہواکیا تھا ؟کون لوگ تھے کرنیوالے ـ ـ‘کو ن ذ مہ دار ہے اور وقوعہ کیا ہوا ؟؟ تو چلیں کُچھ تلخ حقائق سے پردہ اُٹھا تے ہیں۔

سب سے پہلے تو ذمہ دار اِنتِظامیہ ہے،تاریخ میں آج تک جُلوس راجہ بازار مدرسہ تعلیمُ القرآن کے قریب سہ پہر 3بجے سے پہلے نہیں پہنچتا مگر اِس بار تقریباً پونے دو بجے جلوس وہاں موجود تھا اور 2 بجے مدرسہ میں جمعہ کی نِماز کی ادائیگی کا وقت تھا۔اِنتظامیہ کو چاہئیے تھا کہ جب اُنہیں نظر آ رہا تھا کہ جُلوس مقررہ وقت سے پہلے وہاں پُہنچے گا تو یا تو جُلوس کو روک دیا جاتا کہ مسجد میں نِمازِ جمعہ کی ادائیگی تک اِنتِطار کیا جائے یا مسجِد انتِظامیہ سے درخواست کی جاتی کہ آج جمعہ کی نِماز 1:15 یا 1:30 بجے پڑھا دیجائے اور دونوں کام نا مُمکن نہیں تھے مگر اِنتِظامیہ کی غفلت ،لاپرواہی اور غیر دیانتداری کے سبب آپ یوں سمجھیں کہ ہم ایک آگ لگے تنکوں کے ڈھیر پہ کھڑے ہیں۔

اب ہوا کیا تھا ؟مُختلف عینی شاہدین ،مدرسہ انتظامیہ ،جلوس کے شرکاء ،انجُمن تاجران راجہ بازار اور امن کمیٹی کے ممبران جو کچھ بتاتے ہیں اُس کے مُطابِق حقائِق تک پہنچنے کی سعی کرتے ہیں۔

مرکزی انجُمنِ تاجرا ن را ولپنڈی کے صدر شیخ محمد صدیق جو کہ اُس وقت امن کمیٹی کے ممبر کے طور پر جُلوس کے ہمراہ تھے بتاتے ہیں کہ ماتمی حضرات نے 1:30 بجے لیاقت مارکیٹ راولپنڈی میں نمازِ ظہرادا کی ۔ابھی مکمل طور پر شرکاء نِماز سے فارِغ نہ ہوئے تھے کہ ماتمی حضرات میں سے ہی تقریباً سو سے زائد شرپسندوں کا ٹولہ مدرسہ تعلیم القرآن کی جانِب بڑھااور مدرسہ کے سامنے جا کر رُک گیا ۔میں بھی اُنکے پیچھے وہاں پہنچ گیا ،وہاں تقریباً پچیس کے لگ بھگ پولیس کے افراد موجود تھے۔اتنے میں ایس پی راول ٹاؤن جماعت علی بُخاری بھی وہاں پہنچ گئے۔مدرسہ کے عین سامنے کھڑے شرپسندوں کے اِس ٹولہ نے گالیاں اور مُغلظات بکنا شروع کر دئیے۔ایک عینی شاہد کے مطاق کُچھ نو جوانوں نے مدرسہ کی چھت پر موجود طلباء کی طرف پتھر پھینکنا شروع کر دئیے اور طلباء نے بھی جواب میں وُہ پتھر نیچے پھینکے ۔یاد رہے یہ وہ وقت تھا جب عربی خُطبہ سے قبل اذان دیجا رہی تھی۔

شیخ صدیق کے مطابِق ٹولی میں موجود نوجوانوں نے قینچی گیٹ آف مدینہ کلاتھ مارکیٹ توڑنے کی کوشش شروع کر دی اور کچھ ہی دیر میں اسے توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔اِس سارے وقت میں پولیس کا کردار تماشائیوں سے بھی کہیں زیادہ بُرا تھا۔گیٹ ٹوٹنے کے بعد شر پسندوں کا وہ ٹولہ مسجِد میں بغیر کسی رُکاوٹ کے گھسنے میں کامیاب ہو گیا ۔

ایک نِمازی کے مُطابق مسجد کے صحن میں پہنچ کر ان لوگوں نے پھر گالیاں دینا شروع کر دیں اور جمعہ کے لئیے آئے ہوئے نِمازیوں نے انہیں واپس دھکیل دیا اور اِس دوران مسجد کے سپیکر سے اِن لوگوں کو کچھ بھی نہیں کہا گیا۔پھر دونوں خطبوں کے دوران بھی ہنگامہ آرئی ہوتی رہی ۔گُڈ گورننس کے راگ الاپنے والوں کی گورننس گھاس چرنے کے بعد خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔پولیس وہاں سے یونہی غائب تھی جیسے بڑے میاں پاکستان سے غائب ہیں۔

مدرسہ کے ناظِم نے بتایا کہ جونہی نِمازِ جمہ شروع ہوئی فسادیوں کا وہ ٹولہ پھر سے مسجِد پہنچا اور اندھا دھند فائرنگ کی گئی اور طلباء پر لاٹھیاں برسائی گئیں جس سے طلباء شدید ترین زخمی ہوئے اور کچھ افراد جاں بحق بھی ہوئے۔ اِن افراد کے ہاتھوں میں پٹرول سے بھرے کین بھی تھے۔

قارئین پھر جو کُچھ ہُوا وہ لکھتے ہوئے یا بیان کرتے ہوئے دِل خون کے آ نسو روتا ہے اور دکھ اور درد تو اِس بات کا ہے کہ ہم خود کو مسلمان کہنے والے اِنسا نیت کے دائرے سے بھی باہر نکل گئے اور ظلم و بربریت کا وہ بازار گرم کر دیا کہ مِن حَیثُ القوم کسی کو منہ دِکھانے کے قابِل بھی نہ رہے۔ ہم مسلمان محرم الحرام میں حضرتِ اِمامِ حُسین ؓ اور اُن کے ساتھیوں پر ہونیوالے ظلم پر نوحہ کُناں تھے کہ اُسی 10 محرم اور جمعہ کے روز ہی وہ ظلم پھر سے ہم اپنے ہی ہاتھوں سے کر بیٹھے ۔معصوم بچوں کے گلے کٹے ،ایک طالبِ علم کا ہونٹ کاٹا ،ایک کی زبان کاٹی اور دو طلباء کی بانچھیں کاٹ دی گئیں ۔اندر موجود لوگوں کے مطابِق وہ مدرسہ کے سربراہ مولا نا اشرف علی صاحب کو ڈھونڈتے رہے مگر وہ ایک دوسری مسجد میں جمعہ پڑھانے گئے ہوئے تھے ۔شرپسندوں نے مسجد سے ملحقہ نائب خطیب کے گھر بھی حملہ کیا اور انکی بیوی کو قتل اور انکی چھوٹی معصوم بچی کو دردناک موت دی۔مدرسہ کی لائبریری نذرِ آتش کر دی گئی جسمیں ایک محطاط اندازے کے مطابق 1500 سے کہیں زیادہ قرآن مجید،3500 سے زائد احادیث کی کتب اور اسکے علاوہ بھی وہاں موجود کئی اسلامی اور عصری کتب جل گئیں۔کرفیو کے دوران بھی اور اسکے بعد بھی تین چار روز تک آرمی کے جوان اپنی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ راجہ بازار کی مختلف گلیوں بازاروں ، فوارہ چوک اور آس پاس کے دیگر علاقوں سے قرآن مجید اور دیگر اسلامی کتب کے اوراق اکھٹے کر کر کے مسجد میں پہنچاتے رہے۔اﷲ کے گھر میں،اﷲ کا نام لینے والوں ،اﷲ کے بندوں پر بد ترین ظلم کر کے،قرآن مجید اور احادیث کی کتب جلا کے اور انکی بے حرمتی کر کے ،اتنے ظلم کے بعد ہم سب کس سزا کے مستحق ہیں ،خود فیصلہ کیجئے گا۔

شیخ صدیق کے مُطابِق جو بھی اُس گروہ کے سامنے آیا وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اُس گروہ کے نو جوانوں کے پاس ایک ایسا کیمیکل موجود تھا کہ جسے وہ جہاں پھینکتے جاتے آگ بھڑکتی جاتی اور آگ صرف اُن دوکانوں کو لگائی گئی جو مسجِد کے زیرِاِنتظام ہیں باقی راجہ بازار میں کسی بھی دوکان کو براہِ راست آگ نہیں لگائی گئی۔ایمبولینس ،ریسکیو 1122 ،فائر بریگیڈ اور دیگر اِمدادی اِداروں کو رات ساڑھے سات بجے تک بلوائیوں اور جلوس کے شرکاء نے روکی رکھا اور اُنکی کسی بھی قِسم کی رسائی نا ممکن رہی۔جونہی کوئی گاڑی مسجد یا مارکیٹ کی طرف بڑھتی ہوائی فائرنگ شروع کر دیجاتی اور گاڑیوں کے ڈرائیور اور دیگر عملہ اپنی گاڑیاں چھوڑ کربھاگ کر اپنی جانیں بچاتا۔دوسری طرف مسجد میں موجود زخمی طالب علموں اور اُنکے اساتذہ کو چار گھنٹے سے زائد وقت تک یر غمال رکھا گیا۔

یہاں ایک اور بات بھی قابِل ذکر ہے کہ شر پسندوں کے اِس ٹولہ نے پولیس سے کہیں زِیادہ تربیت یافتہ ایلیٹ فورس کے بہادر اور قوم کی خدمت اور تحفظ کے جذبہ سے سرشار نوجوانوں سے شارٹ مشین گنیں کھینچیں جن سے مدرسہ پر حملہ کر کے بے گناہ اور معصوم طلباء کو زخمی اور شہید کیا گیا۔حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے مگر میرٹ پر پورا اُترنے والے پنجاب حکومت کے ذہین اور لائق ترین پولیس افسران کوئی بھی فیصلہ نہ کر سکے۔شر پسندوں نے اِس دوران پولیس افسران اور ملازمین کو بھی تشدد کا نِشانہ بنایا۔سی پی او اور ڈی سی او نے ریسکیو 1122 کی گاڑی میں پناہ لی اور پھر فرار ہو گئے ۔ایس ایس پی سیکیورٹی کو بھی پیٹا گیا جبکہ ایس ایس پی آپریشن کے ریڈر اے ایس آئی ابراہیم کو بھی چوٹیں آئیں۔

ایک اور سوال جو کئی لوگوں کے دماغوں میں ہوگا کہ کیا یہ سب اچانک ہوا یا اسکی پہلے سے پلاننگ موجود تھی۔تو کچھ شواہد سے اس بات کا بھی اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔پہلی بات کہ کچھ بھی ہو انتظامیہ کو مسجد کا لاؤڈ سپیکر بند کروانا چاہئیے تھا اگر پہلے نہیں تو جب جلوس پہنچ چکا تھا تب تو لازمی کروانی چاہئیے تھا۔لیکن کیا یہ سب مولانا امان اﷲ کی تقریر سے ہوا؟عینی شاہدین اور امن کمیٹی کے ممبران میں سے کسی ایک کا بھی ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور اگر ایسا تھا تو پھر اچانک سے اتنا زیادہ اسلحہ ،تربیت یافتہ انسانی دِل نہ رکھنے والے افراد،آتشیں مواد ( عینی شاہدین کے مطابِق ایسا کیمیکل استعمال کیا گیا کہ جب فائر فائٹر آگ بُجھانے کی کوشش کرتے تو آگ اور زِیادہ بھڑک اُٹھتی)اب ایسا کیمیکل اچانک تو راجہ بازار سے ملنے سے رہا۔پھر ایک اور بات کہ راستے میں لگائے گئے تمام سی سی ٹی وی کیمرے کہ جنکا علم صرف سیکیورٹی کے اعلی افسران کو ہوتا ہے،شر پسندوں نے اپنی اِس بد ترین کارروائی کے دوران تمام سی سی ٹی وی کیمروں کی تاریں نکال دیں اور کئی کیمرے توڑبھی دئیے ،اسی طرح میڈیا کے جو نمائندے اُن کے ہتھے چڑھے انکی بھی ریکارڈنگ ٹیپس جلا دیں ،میڈیا کی گاڑیوں کو بھی روکا گیااور تب تک کسی کو جانے نہیں دیا گیا جب تک یہ اطمینان نہیں کر لیا گیا کے ان کے پاس اب ریکارڈ موجود نہیں ،

چند شرکاء کا جلوس سے الگ ہو کر پہلے ہی پہنچ جانا ،آتشیں مواد اور مندرجہ بالا تمام شواہد اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ یہ سب اچانک کسی تقریر کا جواب نہیں ہو سکتا بلکہ یہ سب کچھ پہلے سے طے کیا گیا تھا۔مسجد کا ایک دروازہ جو کہ ہملٹن روڈ پر ہے 1958 سے بند ہے اور اس دروازے کے بارے اکثر وہاں کے رہائشیوں کو بھی نہیں معلوم مگر فساد کاروں نے وہ راستہ بھی استعمال کیا اور وہاں سے بھی آگ لگائی جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ کام ماہر اور تربیت یافتہ لوگوں نے پوری منصوبہ بندی سے کیا۔ یہاں ایک بات اور بھی کہتا چلوں کہ شرپسندوں کا سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑنا اور اُنکا کنکشن کاٹنا عام بات نہیں ہے اور اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اِس ساری کارروائی میں پولیس اور انتظامیہ کے کچھ لوگ ضرور ملوث تھے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ چھوٹے میاں اس صورتِحال سے کسطرح نمٹیں گے اور کیا اُن کالی بھیڑوں اور بے ایمان سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی ہو پائے گی یا نہیں۔خصوصی طور پر اُن تین ایس پیز کے خلاف جو موقع سے 1122 اور پولیس کی گاڑیوں میں بھاگ گئے اور موقع پر صرف ایک ایس پی وہ بھی ٹریفک پولیس کے تھے کو چھوڑ دیا جنکا نہ تو یہ کام تھا اور نہ اُن سے کسی کا گِلہ ہے اور اس افسر کے خلاف کارروائی بھی انتِہائی ضروری ہے جو وقوعہ کے وقت مری میں تھے۔

اب انٹیلی جنس اداروں کی فرسٹ شارٹ رپورٹ کیا کہتی ہے۔اُس کے مُطابِق شر پسندوں کا تعلق راولپنڈی یا اِس کے ارد گرد کے علاقوں سے نہیں تھا۔بلکہ وہ خصوصی طور پر اِس مقصد کے لئیے یہاں آئے تھے یا اُنکو لایا گیا تھااور وہ تقریباً ایک مہینہ قبل یہاں آئے اور انہوں نے اصغرمال چوک ، راول ٹاؤن وغیرہ میں مختلف ہاسٹلز میں رِہائِش اِختیار کر رکھی تھی۔وہ برابر ریکی کرتے رہے اور کئی بار وہاں مسجِد میں نِماز کی ادائیگی کے لئیے گئے۔انکے پاس مکمل معلومات تھیں اور یہاں کے مقامی بھی کچھ افراد اُنکی معاونت کر رہے تھے اور پولیس اور دیگر سیکیورٹی اِداروں میں بھی کُچھ لوگ ایسے موجود تھے جنکا اُنہیں پورے کا پورا تعاوُن حاصل تھا(شاید اسی لئیے اتنی حساس جگہ پر صرف بیس سے پچیس پولیس والے موجود تھے جو کہ پھر وہاں سے رفو چکر ہو گئے)اسکے ساتھ ساتھ وہاں انکا ایک لیڈر بھی موجود تھا جو کہ اُنکو مدرسہ کے سامنے کھڑے ہو کہ برابر ہدایات دے رہا تھا۔

دردناک اور افسوسناک بات تو یہ ہے کہ مرنے والے بھی ہم ہیں اور مارنے والے بھی ہم،ظلم و جبر کرنیوالوں اور سہنے والوں میں سے کوئی ایک بھی امریکی ، اسرائیلی ،روسی یا ہندوستانی نہیں تھاسب کے سب اپنے تھے۔ابتک تمام سنّی علماء کرام کا کردار قابلِ ستائش ہے مگر میں نہیں سمجھتا کہ اگر حکومت نے کوئی فوری کارروائی نہ کی تو امن و امان برقرار رہ سکے گا۔حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر موثر کارروائی کرے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دے کر نِشانِ عبرت بنا دے تا کہ آئندہ کسی کی ہمت نہ ہو کہ وہ اِس ملک میں انتشار کی فضا پیدا کرے۔امن و امان کے ان دشمنوں کو جتنی جلدی سزا دیجائے گی اُتنی جلدی ہی ایک استحکام کی فضا پیدا ہو گی۔میاں برادران کو چاہیے کہ وہ اس سارے معاملے کو خود دیکھیں اور اسے نظر انداز مت کریں کیونکہ اگر لال مسجد کا واقعہ مشرف کو ڈبو سکتا ہے تو کسی مظلوم کی آہ رائیونڈ کے شریف پیلس کی بنیا دیں بھی ہلا سکتی ہے۔آجکا آرٹیکل 6 کل کسی اور صورت میں آپکے گلے کا طوق نہ بن جائے۔اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)
Saleem Tufani
About the Author: Saleem Tufani Read More Articles by Saleem Tufani: 6 Articles with 4622 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.