ظلم کی چھا ئی گھٹا انصا ف چا ہیے

جینے کا سلیقہ کیا ہے یہ سکھا گئے حسین
سر دے کے دین حق کو بچا گئے حسین
زندگی کے بد لے میں زندگی خرید کر
یز ید کو تا حشر مٹا گئے حسین
حضرت وا صف علی وا صف فر ما تے ہیں ایک انسان کو زندگی میں با اعتما د ہو نے کے لیے یہ حقیقت ہی کا فی ہے کہ اس سے پہلے نہ تو کوئی اس جیسا انسان دنیا میں آیا نہ اس کے بعد ہی کوئی اس جیسا آئے گا ۔ یہ عظیم انفرادیت بہت بڑا نصیب ہے ۔ مصر ، شام ، برما،یمن اور پا کستان کے اہل ایمان پر ہو نے والے ظلم و جبر کے تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو مشترکہ با طل قوتیں مظلوم مسلمانو ں کے لیے وبال جان بنی ہو ئی ہیں ۔ اہل ایمان طا غوتی حکمرانو ں کے خلا ف یکجان یا علم جہا د بلند کر نے کی بجا ئے پھو ٹ کا شکا ر دکھائی دے رہے ہیں ۔ 29 نو مبر 2013 کابل میں چند ممالک کے مذ ہبی علما ء اکرام نے افغا نستان میں جا ری امریکی مخا لف جہا د کے خلا ف فتویٰ جا ری کیا کہ یہ مذ ہب کی خاطر کیے جا نے والا جہاد نہیں بلکہ کسی اورمقصد اور منزل کے لیے لڑی جا نے والی جنگ ہے ۔ حقیقت میں افغا نستان میں موجود صلیبی فو رسز کے خلا ف جہا د اور پاکستان میں اہل ایمان کے خلا ف جا ری فساد میں وا ضح فر ق ہے نیٹو فو رسز جنہو ں نے مسلمان سٹیٹ پر قبضہ جما نے کے لیے اما رت اسلامی افغا نستان پر جنگ مسلط کر رکھی ہے ان کے بر عکس اسلامی جمہو ریہ پاکستان میں ہو نے والے عسکری اور خود کش حملے زمین و آسمان کاتضا د رکھتے ہیں قر آن مجید میں ارشاد با ری تعالیٰ ہے جن مسلمانو ں سے خواہ مخواہ لڑائی کی جا تی ہے انکو اجازت ہے کہ وہ بھی لڑیں کیو نکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے ۔ اور خدا ان کی مدد کر ے گا وہ یقینا ان کی مدد پر قا در ہے اسی طرح حد یث نبوی ﷺ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا مومنو ں جہا د کرو ، مشرکو ں کیساتھ اپنے مالو ں ، جا نو ں اور زبا نو ں سے ۔ کا فر مشرک ہو یا اہل کتاب ہو دونو ں ہی مسلمانو ں کے کھلے دشمن ہیں یہو دو نصا ریٰ نے مسلم کمیو نٹی کو ہر طر ح سے گزند پہنچا نے اور ناکام کر نے کے لیے ٹھا ن رکھی ہے اور ان کی اس منفی سوچ ، نظریا ت اور عمل کو خو د اہل ایمان میں شامل کا لی بھیڑ یں پا ئیہ تکمیل تک پہنچا نے میں بر سر پیکا ر ہیں افغانستا ن میں موجود صلیبی فو جو ں اور کفا ر و مشرکین کے خلا ف جہا د کی تو کوئی دجو ہا ت دکھائی دیتی ہیں لیکن اس کے ردعمل کا مقصد پاکستان میں فساد کی صورت میں برپا کرنے والے کون لوگ ہیں ؟وہ اپنے آپ کو اچھا مسلمان سمجھیں یا مومن وہ ہر گز راہ راست پر نہیں ہیں گمراہ کن سوچ اور نظریا ت کے مالک ہیں کابل میں موجود کٹھ پتلی انتظامیہ اور اسلام آبا د میں موجود کٹھ پتلی حکو مت کے عزائم مشترکہ اور ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں اور دونو ں اطراف کے حکمران تیسری نام نہا د سپر پا ور کے اسیر بنے ہو ئے ہیں حا مد کر زئی اور میا ں نوا ز کی اپنے ملک کے ساتھ وابستگی کم اور امریکہ کے احکا ما ت کی بجا آوری زیادہ دکھائی دیتی ہے ایک روز یہا ں ایڈوائزر سلامتی کو نسل ڈرون حملو ں کی بندش کا اعلان کرتا ہے اور دوسرے ہی روز ہنگو میں مدرسے کو ڈرون حملے میں تباہ کردیا جا تا ہے دنیا کے کسی خطے میں آبا دلوگ اس با ت کو عقل و فہم اور آئین و قانون کے منا فی ہی جا نتے ہیں پھر پا کستانی قوم کو بدھو کیو ں سمجھا جا رہا ہے ؟ یہا ں مثبت چیزو ں کو منفی پیرا ئے میں اور منفی نقل و حرکت کو مثبت با بت میں پیش کر نے کی کیا وجو ہا ت ہو سکتی ہیں اسکا ادراک با آسا نی فہم و فراست رکھنے والے ہر ذی شعور انسان کو بخوبی ہو جا تا ہے یہا ں اس با ت کا چر چا کیا جا رہا ہے چئیر لفٹ چلا نے والا ملا فضل اﷲ پا کستا ن تحریک طا لبان کاامیر بن گیا اس سے کیا مراد ہے؟ آنے والی نسلو ں کو کیا پیغام دیا جا نے لگا ہے کہ دہشت و وحشت پھیلا نے والو ں کا یہا ں مقام و مرتبہ اعلیٰ اور معیا ری ہے اور وطن پر ستو ں کا خون بھی پا نی کی صورت اختیا ر کر چکا ہے آج ہما را آئیڈیل میجر عزیز بھٹی شہید یا را شد منہا س نہیں بلکہ حکیم اﷲ محسود ہے ؟ قتل و غا رت گر ی ، خو د کش دھماکو ں اور بد امنی کی فضا ء قائم کر نے والو ں کو آج ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور میڈیا اور تقا ریر کے زریعہ سے انکا اسقدر چر چا کیا جا تا ہے کہ نسل نو میں ایک منفی شعور سراعیت کرتا جا رہا ہے میجر جنرل ثناء اﷲ ، کرنل امام اور دیگر ز شہداء کی قربانیو ں کو ثبو تا ژ کیا جا رہا ہے وطن عزیز پر جان نچھا ور کرنے والو ں کی لا ئف سٹو ری کیو ں نہیں چلائی جا تی؟ ان کی شجا عت ، بہا دری اور جو ا ں مردی کے تذکرے کیو ں نہیں کیے جا تے؟ منفی سوچ اور نظریا ت کے افراد کا بے جا تذکرہ بھی کسی تیسری قوت کی ایما ء پر خو شنودی کے حصول کی خا طر ہے یہا ں پر حسینیت کو پس پشت ڈال کر یذ یدیت کو پروان چڑھا نے کی رسم ملکی سا لمیت اور بقا ء کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ نسل نو کو آج حقیقی سوچ ، نظریا ت اور فکر سے دور کیا جا رہا ہے اپنو ں کے خلا ف نفرت اور غیرو ں کے خلا ف محبت کا سبق عام کر نے کی سعی جا ری و ساری ہے ۔ ہٹلر کا کہنا تھا کہ کسی بھی قوم پہ کا ری ضرب لگا نے کا طر یقہ یہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظر و ں میں اتنا مشکو ک بنا دو کہ وہ اپنے ہی محا فظوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔آج بیر ونی سا زشو ں کو پا ئیہ تکمیل تک پہنچا نے اور نظریا تی و فکر ی سرحدوں پر حملہ کر نے والی کا لی بھیڑیں اس ملک و قوم میں گھس گئی ہیں جب تک ان غدا ر و ں ، بے ایمانو ں اور مفاد پر ستو ں کی نشاندہی نہ کی جا ئے گی تو یہ ذلت و رسوائی کا کھیل تماشا جو ں کا تو ں چلتا رہے گا ہما رے ملک میں اصل دشمنو ں کو نظر انداز کرتے ہو ئے اپنے ذا تی مفادات کی خا طر بیرونی سا زشوں کو فر وغ دیا جا رہا ہے اسرائیل میں پیدا ہو نے والے چھو ٹے بچے کو بنیا دی مذہبی ، اخلا قی ، نظریا تی اور فکری تعلیم یہی دی جا تی ہے کہ پو ری اقوام عالم میں اگر کوئی اسرائیل کا دشمن اور منفی کردار کا حامل نام ہے تو وہ پاکستان ہے اور یہ نفرت و عداوت ازل سے لیکر آخری دم تک تا زہ دم ہی رہتی ہے جسے کوئی وفا شعاری اور محبت میں تبدیل نہیں کرسکتا ہے پھر آج کی جد ت پسندی میں پاکستانی نسل کو اپنے دوست اور دشمن سے متعار ف کیو ں نہیں ہو نے دیا جا رہا ہے؟ دوسری قوموں سے قدرے ملا وٹ اس قوم رسول ہا شمی میں کیو ں جذ ب ہو تی جا رہی ہے ۔ سو شل میڈ یا پر اشتعال انگیز مواد اور لٹریچر کے خلا ف نئے سا ہبر کرائم اور قوانین کا اطلا ق تو کیا جارہا ہے لیکن جو فتنہ دجال سی آئی اے ، را اور موساد کے مرہون منت ملکی جڑو ں میں فر قہ واریت ، تعصب اوراختلا فا ت کی بناء پر رچ بس گیا ہے اس سے پاک صاف کون کرے گا ؟ جب تک دائمی بیما ریو ں کو جڑ سے اکھا ڑ کر نہیں پھینکا جا ئے گا اپنے پرائے کی پہچان کا پیمانہ تیا ر نہیں کیا جا ئے گا تو اس وقت تک تندرست و توانا حا لا ت کا نفا ذ ناممکن ہے ۔ سا نحہ را ولپنڈی جیسے واقعات روز ہی رو نما ہو نے کا خدشہ ہے جو خا مو شی اور سکو ت مخالف سمت سے سنائی اور دکھائی دیتا ہے یہ پیش خیمہ ہے کسی بہت بڑے سدمے اور سا نحے کا جس کے لیے خود کونہ صرف تیا ر کرنے کی ضرورت ہے بلکہ محتاط رہنے کی بھی ضرورت ہے حق و با طل کی اس جنگ کو سمجھنا ہو گا اندرونی اور بیرونی سا زشیں مل کر ملک میں بدامنی بے چینی اور بے سکونی کو فرو غ دے رہی ہیں وقت آنے پر جس طرح ایک لمحے یا روز کے لیے دہشتگردوں کی طرف سے جا ری کردہ دھمکیو ں کے عوض مخصوص انداز میں شہر ، ضلع اور صوبے کو حساس قرار دے دیا جا تا ہے اسی طر ح سوچ لیں کہ آج پو را ملک ہی حساس ترین صورتحال اختیا ر کرچکا ہے اسے اس حسا سیت اور محرومیت و مجبوریت سے آزاد کرانا ہو گا یہ محض سیکیو رٹی فو رسز اور خفیہ اداروں کی ڈیو ٹی نہیں بلکہ ہر محب وطن کا فریضہ ہے دعا گو ہیں کہ اﷲ اس ملک کی حفاظت فرما ئے اوراس کی حفا ظت کرنے والو ں کی بھی حفا ظت فرمائے آمین ۔

S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 106118 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More